السبت، 23 شعبان 1446| 2025/02/22
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

المكتب الإعــلامي
مرکزی حزب التحریر

ہجری تاریخ    13 من شـعبان 1446هـ شمارہ نمبر: 1446 AH / 085
عیسوی تاریخ     بدھ, 12 فروری 2025 م

 

پریس ریلیز
مسلمان حکمرانوں کی جانب سے غزہ کے باشندوں کو جبری طور پر منتقل کرنے کے منصوبے کی مذمت، ان کی بے حسی کے داغ کو نہیں مٹا سکتی
( ترجمہ)

 

بیشک، مسلمان حکمرانوں اور ان کی افواج کی جانب سے غزہ کے عوام اور مجموعی طور پر فلسطین کے باشندوں کو ارضِ مقدس فلسطین پر یہودی وجود کے قبضے کے 78 سال سے زائد عرصے تک، بے یار و مددگار چھوڑنا ایک ایسی بڑی عار ہے جسے ان کی جانب سے وہاں کے باشندوں کو جبری طور پر منتقل کرنے کی مذمت ہرگز نہیں مٹا سکتی۔ یہ حکمران اپنی اس عظیم بے حسی کو بھول رہے ہیں جو انہوں نے گزشتہ پندرہ مہینوں سے روا رکھی ہوئی ہے۔ متعدد ممالک نے ارضِ مقدس فلسطین کے باشندوں کو غزہ کی پٹی سے جبری طور پر منتقل کرنے کے منصوبوں کو مسترد کیا ہے، جن میں تازہ ترین نام ترک صدر رجب طیب اردگان کا ہے۔ پیر کے روز انہوں نے کہا: "کوئی بھی فلسطینی عوام کو جبری ہجرت کی نئی مصیبت کی طرف نہیں دھکیل سکتا۔" انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ " "اسرائیل" کی ذمہ داری ہے کہ وہ غزہ کی تعمیر نو کی تمام تر بوجھ اکیلے اٹھائے" اور خبردار کیا کہ "فلسطینی عوام پر جبری ہجرت کی نئی مصیبت مسلط کرنے کی کسی بھی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا"۔ ان سے قبل، قریب اور دور کے، مختلف اسلامی ممالک کے حکام نے بھی ایسا ہی بیان دیا تھا اور ان میں سب سے پہلے اردن اور مصر کے حکمرانوں نے اس منصوبے کو مسترد کیا تھا، جب ٹرمپ نے ان دونوں سے غزہ سے ہجرت کرنے والوں کو قبول کرنے کی درخواست کی تھی۔ اس کے بعد ابن سلمان، وزیراعظم پاکستان اور وزیر خارجہ "محمد اسحاق ڈار" جیسے دیگر حکمرانوں نے بھی اس کی مخالفت کی۔ "محمد اسحاق ڈار" نے "اسرائیلی وزیراعظم کے فلسطینیوں کو سعودی عرب منتقل کرنے" کے بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ "فلسطینی عوام کو ان کی آبائی سرزمین سے بے دخل کرنے یا جبری طور پر منتقل کرنے کی کوئی بھی کوشش ناقابل قبول ہے۔"

 

ان حکمرانوں سے اس سے زیادہ کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی جو وہ عام طور پر کرتے ہیں، یعنی مذمت کرنا یا ایسی کانفرنسوں میں، اجلاسوں کا مطالبہ کرنا جن میں وہ قوم کے لاکھوں پیسے اپنی عیش و عشرت اور تفریح پر خرچ کرتے ہیں، اور ان اجلاسوں سے اسلام، مسلمانوں اور امت کے مسائل کو نقصان پہنچنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر، ترکی کے حکمران اردگان سے یہ کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ غزہ کے باشندوں کی مدد کرے گا جب کہ اس نے پندرہ مہینوں سے ان کو بے یار و مددگار چھوڑا ہوا ہے؟! اور وہ ایسا کیسے کر سکتا ہے جب کہ ترکی نیٹو کے صلیبی اتحاد میں واحد اسلامی ملک ہے، اور اس نے اپنی حکومت کے دوران یہودی وجود کے ساتھ 60 معاہدوں پر دستخط کیے ہیں، اور ترکی میں یہودی وجود کے دو فوجی اڈے (قونیہ اور ازمیر میں) موجود ہیں، اور یہودی وجود اور ترکی کے درمیان تجارتی تبادلہ 2022 میں 9 بلین ڈالر سے تجاوز کر گیا، اور ہر سال یہودی وجود سے 500,000 سے زیادہ سیاح ترکی کا دورہ کرتے ہیں، اور ترکی، یہودی وجود کے سیاحوں کو بغیر ویزا کے داخل ہونے کی اجازت دیتا ہے، جبکہ ارضِ مقدس فلسطین کے باشندوں پر پیشگی ویزا کی شرط عائد کرتا ہے۔ اور ترکی میں دنیا کی دوسری سب سے بڑی اسرائیلی فوجی فیکٹری موجود ہے... تو کیسے کوئی عقل مند انسان یہ یقین کر سکتا ہے کہ ترکی کے حکمران کی مذمت غزہ کے باشندوں کے لیے کوئی فتح ہے یا ٹرمپ کے خوابوں کو مسترد کرنا ہے؟!

 

ایک اور شرمناک مثال پاکستان کی ہے، جو واحد اسلامی ملک ہے جس کے پاس جوہری ہتھیار اور بیلسٹک میزائل ہیں جو جوہری وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور پاکستان، ان میزائلوں میں سے چند ایک کے ذریعے ہی یہودی وجود کو نیست و نابود کر سکتا ہے، حالانکہ ان کے شیطانی وسوسوں کو ختم کرنے کے لیے ایک میزائل ہی کافی ہے! تو کیسے کوئی عقل مند انسان یہ یقین کر سکتا ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم کی جانب سے محض جبری ہجرت کے خیال پر مذمت یا ناراضگی ایک مخلصانہ موقف ہے، جب کہ انہوں نے غزہ میں دسیوں ہزار بے گناہوں کے قتل پر کوئی حرکت نہیں کی، اور ایک میزائل داغنے کے لیے اپنی انگلی تک نہیں ہلائی؟! باقی عرب اور مسلمان حکمرانوں کا حال بھی ترکی اور پاکستان کے حکمرانوں سے مختلف نہیں ہے، اور ان کے موقف پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ سب منافق اور جھوٹے ہیں، اور وہ صرف وہی کہتے ہیں جس کی اجازت انہیں وائٹ ہاؤس میں بیٹھا ان کا آقا دیتا ہے، اور اس سے زیادہ کچھ نہیں کہتے۔

 

ارضِ مقدس فلسطین کے حوالے سے اسلامی ممالک اور ان کی افواج پر عائد فرض یہ نہیں ہے کہ وہ وہاں کے باشندوں کو ایک ملک سے دوسرے ملک میں جبری طور پر منتقل کرنے کی مذمت کریں، بلکہ ان پر فرض یہ ہے کہ وہ اپنی افواج کو اسے آزاد کرانے کے لیے حرکت میں لائیں اور وہاں کے باشندوں کا بدلہ لیں جنہیں قتل کیا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور قید کیا گیا۔ اور یہ صرف ان غدار حکمرانوں کو اکھاڑ پھینکنے سے ہی ممکن ہے جنہیں مغرب نے امت کی گردنوں پر مسلط کر رکھا ہے، اور وہی یہودی وجود کو امت کے غضب سے بچاتے ہیں۔ یہ اس خلیفہ راشد کو نصب کرنے سے ممکن ہو گا جو اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق حکومت کرے اور مسلمانوں کی افواج کی قیادت کرتے ہوئے ارضِ مقدس اور مسجد اقصیٰ  کو دوبارہ امت مسلمہ کی آغوش میں لے آئے۔ اس لیے امت کی افواج میں موجود مخلص افراد پر لازم ہے کہ وہ حزب التحریر کو دوسری خلافت راشدہ کے قیام کے لیے مدد فراہم کریں۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو انہوں نے اپنا فرض پورا کر دیا، اور اپنے آپ کو دنیا کی ذلت اور آخرت کے عذاب سے بچا لیا۔ اور اگر وہ تاخیر کرتے ہیں تو اللہ اسلام اور مسلمانوں کی مدد کرنے اور مسجد اقصیٰ کو آزاد کرانے کے اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔

 

﴿إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ * يَوْمَ لَا يَنْفَعُ الظَّالِمِينَ مَعْذِرَتُهُمْ وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ﴾

"ہم اپنے پیغمبروں کی اور جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کی دنیا کی زندگی میں بھی مدد کریں گے اور اس دن بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے۔ اس دن ظالموں کو ان کی معذرت کچھ فائدہ نہ دے گی اور ان کے لئے لعنت اور برا گھر ہے" (سورۃ غافر: آیت 52-51)۔

 

 

انجینئر صلاح الدین عدادہ

 

ڈائریکٹر، مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر

 

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
مرکزی حزب التحریر
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
Al-Mazraa P.O. Box. 14-5010 Beirut- Lebanon
تلفون:  009611307594 موبائل: 0096171724043
http://www.hizb-ut-tahrir.info
فاكس:  009611307594
E-Mail: E-Mail: media (at) hizb-ut-tahrir.info

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک