الأحد، 20 جمادى الثانية 1446| 2024/12/22
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

المكتب الإعــلامي
مرکزی حزب التحریر

ہجری تاریخ    6 من محرم 1446هـ شمارہ نمبر: 1446 AH / 01
عیسوی تاریخ     جمعہ, 12 جولائی 2024 م

پریس ریلیز

عالمی کمیونٹی کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کی اپیل 

فقط آنکھوں میں دُھول جھونکنے کے مترادف ہے

( ترجمہ)

 

7 اکتوبر، 2023ء کے واقعات اور آپریشن الاقصیٰ فلڈ کے بعد سے کوئی بھی ایسا سربراہِ مملکت، سیاستدان، یا عالمی و حکومتی ادارہ باقی نہیں بچا جس نے غزہ میں جنگ بندی کی اپیل نہ کی ہو۔یہ اپیلیں کرنے کے علاوہ، غزہ میں جنگ بندی کی خاطر بظاہر سنجیدہ اقدامات بھی اٹھائے گئے۔ ان اقدامات میں گزشتہ مارچ میں امریکہ کی طرف سے پیش کئے گئے ایک منصوبے پر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی منظوری بھی شامل تھی۔ اور پھر گزشتہ مئی میں عالمی عدالتِ انصاف کی جانب سے رفح میں فوری جنگ بندی اور ملٹری آپریشن کو ختم کرنے کے احکامات صادر ہوئے۔ یاد رہے کہ یہ اقدامات ان خالی خولی مطالبات کے علاوہ تھے جو امت کا حصہ ہونے کے دعویدار مسلمانوں کے کم ظرف روبیضہ حکمران کرتے رہے ہیں، کہ وہ غزہ میں یہودی وجود کی کاروائیوں کو مسترد کرتے ہیں اور غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ان تمام مطالبات کے باوجود، یہودی وجود اپنے ان مکروہ جرائم پر ڈھٹائی سے قائم ہے۔ یہودی وجود، 7 اکتوبر کے تناظر میں اپنے طے کردہ مقاصد کے حصول کی خاطر کفر کے سرغنہ، امریکہ کی پوری رضامندی اور بھرپور تعاون کے ساتھ ملٹری آپریشنز جاری رکھے ہوئے ہے اور قتلِ عام برپا کئے ہوئے ہے۔ یہودی وجود مزاحمت کو ختم کر دینا چاہتا ہے، چاہے اس کے لئے غزہ کے نہتے شہریوں اور رہائشیوں کے سروں پر تباہی ڈھا دی جائے اور ان بے گناہ شہریوں کو اس کی قیمت چکانی پڑے۔ اور ایسا ہی ہو رہا ہے !

 

کوئی بھی ذی شعور جو ان سیاست دانوں، سربراہان مملکت، عالمی اداروں کے سربراہان اور مسلمانوں کی گردنوں پر مسلط کئے جانے والے ان کٹھ پتلی حکمرانوں کے بیانات پر غور کرے، تو وہ بلا شبہ یہ جان لے گا کہ غزہ میں یہودی وجود جو کچھ برپا کئے ہوئے ہے، اس حوالے سے یہ بیانات ان کے حقیقی مؤقف کے بالکل برعکس ہیں۔ جو لوگ غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ مساوی طاقت رکھنے والے دو گروہوں کے درمیان باہمی جنگ نہیں بلکہ اس کے بجائے، وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ یہ غزہ کی پٹی پر ایک وحشیانہ حملہ ہے۔ لہٰذا جنگ بندی کی اصطلاح استعمال کرنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ جنگ بندی کی اصطلاح کے معنی یہ ہیں کہ دو فوجوں کے مابین فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا ہو جو اسلحہ اور تعداد میں ایک دوسرے کے ہم پلہ ہوں۔ تاہم حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ کیونکہ جو کچھ برپا ہو رہا ہے وہ نہتے، مریض، مخلص شہریوں کے سروں پر گولیاں چلانا اور ان پر آگ برسانا ہے جو اللہ کی رضا کے طلبگار ہیں۔ مطلب یہ کہ یہ ایک فریق یعنی یہودی وجود اور اس کے صلیبی اتحادیوں کی طرف سے وسیع پیمانے پر قتل عام ہے جبکہ زمینی مزاحمت محض اپنی مقدور بھر محدود قوت کے ساتھ معمولی جھڑپیں کر پا رہی ہے۔ اس بربریت سے بھرپور حملے کا سامنا کرنے کے لیے کوئی مسلح قوت نہیں ہے جو دشمن کو ٹکر دے سکے یا اس کی فوج کو پسپا کر سکے۔ خاص طور پر اس صورت میں جب سازشی پڑوسی ممالک مزاحمت کو کسی بھی قسم کی عسکری حمایت سے محروم کر رہے ہیں۔ وہ ہر اس شخص کا تعاقب کرتے ہیں جو "ہتھیار اسمگل" کرنے کی جرات کرتا ہے، چاہے وہ صرف ایک گولی ہی کیوں نہ ہو، جس سے وہ اپنے دشمن کو دور کر سکیں۔

 

عالمی برادری کے نام نہاد رہنماؤں اور مسلمانوں کے حکمرانوں میں موجود ان کے کارندوں کی طرف سے اس خونریز قتلِ عام کو ختم نہ کرنا اور بس جنگ بندی کے لیے اپیلیں ہی کرتے رہنا، اسلامی ممالک میں رائے عامہ سمیت دنیا بھر کی رائے عامہ کی آنکھوں میں دُھول جھونکنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یہ دھوکہ دہی پر مبنی اپیلیں اس قتلِ عام کو مسترد کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں، جبکہ یہودی وجود اور امریکہ کو مزید وقت فراہم کرتی ہیں تاکہ وہ مزاحمت اور اس کی عوامی حمایت کے باقی ماندہ حصے کو ختم کر سکیں۔ اور انہیں اس مقصد کے حصول کے لیے پورے ملک کو برباد کر دینے اورجیتے جاگتے لوگوں کو کٹی پھٹی لاشوں میں بدل دینے میں کچھ بھی غلط نہیں لگتا، چاہے اس میں کتنا ہی وقت کیوں نہ لگ جائے۔ ان کا خیال تھا کہ کہ وہ چند دنوں یا ہفتوں میں ہی مزاحمت کو ختم کر دیں گے۔ اور جب وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے تو انہوں نے ڈیڈ لائن کی مدت کو دس ماہ تک بڑھا دیا ہے۔ ان کا اس خونریزی کی حمایت کرنے اور اس میں حصہ ڈالنے کا مؤقف قطعی تبدیل نہیں ہوا، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ مسترد کرنے اور مذمت کی اپیلیں اور جنگ بندی کے مطالبے کو برقرار رکھے گئے۔ یہ سب محض زبانی کلامی بیان  ہیں، جو ان کے ہونٹوں سے آگے نہیں بڑھتے۔

 

عالمی برادری اور مسلمانوں کے غدار حکمران ہی امتِ مسلمہ اور اس کے امور کے دشمن ہیں، جن میں سب سے نمایاں مسئلہ بابرکت سرزمین فلسطین کا ہے۔ فلسطین کا مسئلہ صرف اور صرف اسلامی امت کا مسئلہ ہے۔ امت ہی ہے جسے اپنے امور کا خیال رکھنا، ان کی حفاظت کرنا اور ان کی حمایت کرنی چاہیے۔ امت کو اپنے امور کے خلاف سازش کرنے والوں پر انحصار یا بھروسہ نہیں کرنا چاہیے، جن میں یہ منافق روایبضہ ذلیل حکمران شامل ہیں۔ امت کو پوری سنجیدگی کے ساتھ ان حکمرانوں کو ہٹانے، انہیں اقتدار سے بے دخل کرنے، اور اپنی غصب شدہ اتھارٹی کو بحال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اور اس کے لیے اسلامی امت کی افواج کو پکارنا چاہیے۔ امت کو اپنی افواج کو بلانا چاہیے، جن پر امت اپنی کمائی سے خرچ کرتی ہے۔ امت کو ان سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنی زندگیوں کا جائزہ لیں، جوکچھ وہ اپنے گھر والوں پر خرچ کرتے ہیں اور جن چیزوں سے وہ لطف اندوز ہوتے ہیں، اور اس کے بدلے میں انہوں نے امت کے لیے کیا کیا اور کیا خرچ کیا۔ یہ امت کی ذمہ داری ہے کہ اپنی افواج اور اپنے عوام کے ساتھ مل کر ان حکمرانوں کو ہٹائے اور امت کی غصب شدہ اتھارٹی کو بحال کرے، اور حزب التحریر کو نصرۃ دے اور نبوت کے نقش قدم پر خلافت کو قائم کرے۔ یہی ہے جس کے لیے امت کو اپنی افواج کو جوابدہ بنانا چاہیے، اس سے پہلے کہ اپنی قوم اور زمین پر مظلوموں کو بے یار و مددگار چھوڑ دینے کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان سب کو جوابدہ ٹھہرائے۔ انہیں لازمی اس بات کے لیے جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے کہ انہوں نے انسانیت کے لیے لائی گئی بہترین امت کے بیٹوں، اور ان میں سے بہترین لوگوں یعنی بابرکت سرزمین فلسطین کے لوگوں کو تنہا چھوڑ دیا ہے۔

 

ارشادِ باری تعالیٰ ہے،

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ أَرَضِيتُمْ بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ * إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَاباً أَلِيماً وَيَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْئاً وَاللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾

"اے ایمان والو ! تمہیں کیا ہوا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں (جہاد کے لیے) نکلو تو تم (کاہلی کے سبب سے) زمین پر گرے جاتے ہو ؟  کیا تم آخرت (کی نعمتوں) کو چھوڑ کر دینا کی زندگی پر خوش ہو بیٹھے ہو۔ دنیا کی زندگی کے فائدے تو آخرت کے مقابل بہت ہی قلیل ہیں۔ اور اگر تم نہ نکلو گے تو اللہ تم کو بڑی تکلیف کا عذاب دے گا۔ اور تمہاری جگہ اور لوگ پیدا کر دے گا (جو اللہ کے تابع فرمان ہوں گے) اور تم اس کو کچھ نقصان نہ پہنچا سکو گے اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے(التوبہ ؛ 9:38،39)

 

حزب التحریر کا مرکزی میڈیا آفس

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
مرکزی حزب التحریر
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
Al-Mazraa P.O. Box. 14-5010 Beirut- Lebanon
تلفون:  009611307594 موبائل: 0096171724043
http://www.hizb-ut-tahrir.info
فاكس:  009611307594
E-Mail: E-Mail: media (at) hizb-ut-tahrir.info

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک