الجمعة، 22 شعبان 1446| 2025/02/21
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

اے ٹرمپ اور تمہارا پیروکار نیتن یاہو: گھمنڈ نے تمہیں اندھا کر دیا ہے

 

﴿وَغَرَّكُمْ بِاللهِ الْغَرُورُ﴾

"اور دھوکے باز(شیطان)نے اللہ کے بارے میں تمہیں دھوکے میں رکھا "( الحديد: 14)

 

تم اور تمہارے بغل بچے یہود اپنے روم و فارس کے پیش روؤں کے انجام کو بھول گئے ہیں!

ترجمہ

 

 

 

 

ٹرمپ اور اس کے حواری مسلسل ٹرمپ کے دعوؤں کو دہرا رہے ہیں کہ وہ غزہ خرید لے گا اور یہ اس کی ملکیت ہوگی ،

 

﴿كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُ جُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْؕ-اِنْ یَّقُوْلُوْنَ اِلَّا كَذِبًا

"کتنی بڑی بات ہے جو ان کے منہ سے نکل رہی ہے،یہ محض جھوٹ بول رہے ہیں"(سورة الکھف: 5)۔

 

بی بی سی نے 10 فروری 2025 کو رپورٹ کیا: "آج امریکی صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر اپنے اس منصوبے کی تصدیق کی کہ امریکہ غزہ پر قبضہ کرے گا اور فلسطینیوں کو وہاں سے نکال دیا جائے گا۔ اس نے کہا کہ وہ غزہ کو خریدنے اور اس کی ملکیت لینے کے لیے پُرعزم ہے۔ یہ بیان اتوار کی شام ایئر فورس ون طیارے میں دیا گیا، جب وہ نیو اورلینز میں سپر باؤل میچ دیکھنے جا رہا تھا"۔

 

پھر 11 فروری 2025 کو اردن کے بادشاہ کے استقبال کے دوران، ٹرمپ نے کہا: "فلسطینی اور وہ لوگ جو اس وقت غزہ میں رہ رہے ہیں، کہیں اور بہت اچھے طریقے سے رہیں گے، غزہ میں نہیں، اور مجھے یقین ہے کہ ہم کسی حل پر پہنچ سکتے ہیں" ،جیسا کہ وہ تصور کرتا ہے۔ ٹرمپ نے مزید کہا، "ہم غزہ کا صحیح طریقے سے انتظام کریں گے، لیکن ہم اسے خریدنے نہیں جا رہے"(رائٹرز)۔ "رائٹرز" کے مطابق، جب اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے کو ضم کرنے کے بارے میں ٹرمپ سے پوچھا گیا تواس نے کہا کہ "یہ (اقدام)کام کرے گا"(رائٹرز – ارم نیوز، 11 فروری 2025)۔ اسی طرح، اس سے پہلے ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ "جب جنگ ختم ہو جائے گی تو اسرائیل غزہ کو امریکہ کے حوالے کر دے گا " اور اس نے توقع ظاہر کی کہ "امریکہ طویل مدت کے لیے غزہ کا مالک ہوگا"۔ (الجزیرہ، 6فروری 2025)۔

 

بے شک یہ شخص اپنی آمریت کے جنون میں مبتلا ہے اور نہیں جانتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ وہ گمان کرتا ہے کہ غزہ اس کی ذاتی ملکیت ہے یا اس کے بغل بچے نیتن یاہو کی جاگیر ہے، اور وہ غزہ کو بیچنے، خریدنے یا نیتن یاہو کے حوالے کرنے کا اختیار رکھتا ہے! ایسا لگتا ہے کہ اس کی آمریت نے اس کی عقل چھین لی ہے اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے۔

 

وہ بھول گیا، یا جان بوجھ کر نظرانداز کر رہا ہے، کہ اس کے پیشروؤں کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ اس سے پہلے فارس کے بادشاہ اور روم کے قیصر اپنی آمریت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ جب کسرٰى کو رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا علم ہوا تو اپنے غرور میں اندھا ہو کر اس نے اپنے کارندوں میں سے ایک کو کہلا بھیجا: "جزیرۂ عرب جا کر(معاذاللہ) محمد کا سر میرے پاس لے آؤ!"۔ ابنِ ہشام نے السیرۃ النبویہ میں نقل کیا ہے کہ کسرٰى نے باذان کو خط لکھا:"مجھے معلوم ہوا ہے کہ قریش کے ایک آدمی نے مکہ میں نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس کے پاس جاؤ اور اسے قابو میں کرو، اگر وہ باز آ جائے تو بہتر، ورنہ اس کا سر میرے پاس بھیج دو"۔ لیکن اس کے غرور اور ظلم کی انتہا کا انجام یہ ہوا کہ اس کی سلطنت ختم ہو گئی، اس کا اقتدار مٹ گیا، اور پھر اسلامی لشکروں کے ہاتھوں فارس فتح ہو کر اسلام کے نور سے منور ہو گیا۔ روم کے قیصر نے بھی مسلمانوں کے خلاف یرموک کی جنگ میں ایک عظیم لشکر تیار کیا، لیکن وہ ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوا۔ شام سے بھاگتے ہوئے اس نے حسرت سے کہا:"سلام ہو تم پر، اے شام! ایسا سلام کہ اب دوبارہ ملاقات نہ ہو گی۔" وہ قسطنطنیہ واپس چلا گیا، یہاں تک کہ قسطنطنیہ بھی فتح ہو کر اسلامی دارالحکومت بن گیا۔

 

جہاں تک حقیر یہودیوں کا تعلق ہے تو وہ کسی اہمیت کے حامل نہیں، بلکہ جہاں بھی رہے، ذلیل و خوار رہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

 

﴿ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللهِ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ﴾

"ان پر جمادی گئی خواری (ذلت)جہاں ہوں امان نہ پائیں مگر اللہ کی رسی اور آدمیوں کی رسی کے ذریعے، اور غضبِ الٰہی کے سزا وار ہوئے اور اُن پر جمادی گئی محتاجی"(اٰل عمرن: 112)۔

 

یہود نے اللہ کی رسی کو اپنے انبیاء کی نافرمانی کے ذریعے توڑ دیا، اور اب ان کے پاس صرف انسانوں کی رسی باقی ہے، جو اللہ کے اذن سے جلد ہی کٹ جائے گی۔ وہ وقت آ کر رہے گا جب اسلام کے سپاہی، اپنے امام کی قیادت میں ان سے جنگ کریں گے اور اس کے پیچھے پناہ لیں گے۔ صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

«إِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ»

"بے شک امام ڈھال ہوتا ہے، اس کے پیچھے رہ کر جنگ کی جاتی ہے اور اس کے ذریعے تحفظ ملتا ہے۔"

 

اے مسلمانو!

ٹرمپ اور اس کا ساتھی نیتن یاہو اپنی قوم کی تاریخ اور ان کی ذلت کو بھول گئے ہیں۔ وہ بھول گئے ہیں کہ جب مسلمانوں کی خلافت قائم تھی، تو ان کے آباؤاجداد اسلام کے سامنے سر جھکانے پر مجبور تھے۔ اس وقت ان میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ اسلامی سرزمین خریدنے کا خواب بھی دیکھ سکیں، چہ جائیکہ وہ غزہ ہاشم پر قبضہ کریں۔ بلکہ اسلامی سرزمین کا نام سن کر ہی ان کا سرتسلیم خم ہو جاتا تھا۔

 

آج وہ دیکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں کی خلافت سو سال سے زائد عرصے سے ختم ہو چکی ہے، مسلم ممالک ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ان پر ان کے ایجنٹ رُوَیبِضَة حکمران مسلط ہیں۔ اسی وجہ سے ٹرمپ اعلان کرتا ہے کہ وہ اہلِ غزہ کو بے دخل کرے گا اور اس زمین کو خرید کر اپنی ملکیت بنائے گا۔ مسلم حکمران اس اعلان پر کوئی فوج نہیں بھیجتے کہ غزہ کو آزاد کرائیں اور ٹرمپ کے منہ پر طمانچہ ماریں۔ بلکہ ٹرمپ ان کے منہ پر کہتا ہے کہ یہ( حکمران) اس منصوبے پر راضی ہو جائیں گے، اور جو کچھ بھی وہ چاہتا ہے اس پر بھی۔ اور جب ٹرمپ سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ حکمران غزہ کی صورتِ حال کوتبدیل کرنے کے خلاف آوازیں کیوں بلند کر رہے ہیں، تووہ کہتا ہے: "وہ مان جائیں گے اور وہ میرے ساتھ ملاقات کے منتظر ہیں۔" وہ اس کا کھلے عام اعلان کرتا ہے اور انہیں ملاقات کے لیے بلاتا ہے، لیکن یہ حکمران نہ تو بوجھل ہوتے ہیں اور نہ ہی انہیں شرمندگی ہوتی ہے!

 

اے مسلمانو! اسلامی خلافت واپس آئے گی اور مسلم ممالک میں ان رُوَیبِضَة حکمرانوں کا خاتمہ کرے گی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور یہ ہو کر رہے گا:

 

﴿وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ﴾

"اللہ نے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو نیک عمل کرتے ہیں وعدہ کیا ہے کہ ان کو زمین میں ضرور خلافت سے نوازے گا جیسا کہ ان سے پہلے والوں کو خلافت سے نواز چکا ہے"(سورة النور: 55)۔

 

اور رسول اللہ ﷺ کی حدیث میں بھی بیان ہوا کہ اس جابرانہ دور کے بعد کے جس سے ہم گزر رہے ہیں، خلافت ایک بار پھر نبوت کے نقشِ قدم پر قائم ہوگی:

 

«...ثُمَّ تَكُونُ مُلْكاً جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِـلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ. ثُمَّ سَكَتَ»"

... پھر جابرانہ حکمرانی  ہوگی، اور جب اللہ چاہے گا اسے ختم کر دے گا، پھر نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت ہوگی پھر آپ خاموش ہو گئے۔" (مسند احمد)

 

لیکن جیسا کہ ہم متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں اور فہم و ادراک والے لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ اللہ کی سنت یہ نہیں ہے کہ فرشتے آسمان سے اتر کر ہمارے لیے خلافت قائم کریں اور ہمارے دشمنوں سے قتال کریں جب کہ ہم آرام سے بیٹھیں رہیں، بلکہ اللہ اپنے فرشتوں کو اپنے اُن بندوں کی مدد و نصرت اور بشارت کے نازل کرتا ہے جو اللہ پر یقین رکھتے ہیں اور اللہ ان کی ہدایت میں اضافہ کرتا ہے۔ ایسے مسلمان سپاہی جو صبر و استقامت سے دشمنوں سے لڑیں گے، اور پھر اللہ انہیں اپنی نصرت سے سرفراز کرے گا۔ تب ان کے حق میں اللہ کا وعدہ پورا ہوگا:

 

﴿نَصْرٌ مِنَ اللهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ﴾

" اللہ کیطرف سے مدد اور جلد ملنے والی فتح اور مومنوں کو خوشخبری سنا دو"(سورة الصف: 13)۔

 

الحمدللہ، خلافت کے دوبارہ قیام کی نشانیاں اس بات کا اشارہ دے رہی ہیں کہ اس کا وقت اب قریب ہے۔ کیونکہ یہ امتِ مسلمہ ایک زندہ اور متحرک امت ہے، جو خلافت کے قیام کے لیے کوشاں ہے اور اس کی حمایت کر رہی ہے، تاکہ اللہ کا وعدہ پورا ہو، اور پھر وہ اس خلافت کی حفاظت اور استحکام کے لیے بھی کمربستہ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

﴿كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ  تَاْمُرُوْنَ  بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللهِ

"تم بہترین امت ہو جس کو لوگوں کی بھلائی کےلیے پیدا کیا گیا ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو"۔(سورة اٰل عمرن: 110)

 

اور یقیناً اس امت میں ایک ایسا گروہ موجود ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ مخلص ہے، اس کے رسول ﷺ کے ساتھ سچا ہے، مسلسل اور انتھک جدوجہد کر رہا ہے، دن رات ایک کر رہا ہے، یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ اور اس کے رسول ﷺکی بشارت اس کے ہاتھوں پوری ہو جائے۔ وہ اللہ کے راستے میں کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہیں کرتا، نہ ہی اس کا عزم کمزور پڑتا ہے اور نہ ہی اس کی ہمت ڈگمگاتی ہے، حتیٰ کہ اللہ کا حکم آ جائے اور وہ اسی حالت میں ہو۔ گویا کہ یہ اس حدیث کا مصداق ہے جسے امام مسلم نے ثوبانؓ کے ذریعے روایت کیا:

 

«لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللهِ وَهُمْ كَذَلِكَ...»

’’میری امت میں ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا، انہیں وہ لوگ نقصان نہیں پہنچا سکیں گے جو انہیں تنہا چھوڑ دیں گے، یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ جائے اور وہ اسی حال میں ہوں گے۔‘‘

 

اسی طرح خلافت بھی، اللہ کے حکم سے، امت  کے بیٹوں اور بیٹیوں کے ہاتھوں دوبارہ قائم ہوگی، اس جابرانہ حکمرانی کے بعد کہ جس میں ہم اس وقت جی رہے ہیں۔ پھر یہود کے وجود کو ختم کر دیا جائے گا اور فلسطین مکمل طور پر ایک بار پھر دارالاسلام بن جائے گا۔ امام مسلم نے اپنی صحیح میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

«لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُقَاتِلَ الْمُسْلِمُونَ الْيـهود فَيَقـتُلُهُمْ الْمُسْلِمُونَ…» 

"قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک مسلمان یہود سے جنگ نہ کریں گے، پھر مسلمان انہیں قتل کریں گے..."۔

 

بلکہ روم بھی مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوگا، جیسے قسطنطنیہ فتح ہوا تھا۔ امام احمد نے اپنی مسند میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت کیا:

 

بَيْنَمَا نَحْنُ حَوْلَ رَسُولِ اللهِ ﷺ نَكْتُبُ إِذْ سُئِلَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: أَيُّ الْمَدِينَتَيْنِ تُفْتَحُ أَوَّلاً قُسْطَنْطِينِيَّةُ أَوْ رُومِيَّةُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «مَدِينَةُ هِرَقْلَ تُفْتَحُ أَوَّلاً يَعْنِي قُسْطَنْطِينِيَّةَ»

"ہم رسول اللہ ﷺ کے گرد بیٹھے لکھ رہے تھے کہ آپ ﷺ سے پوچھا گیا: دونوں میں سے کون سا شہر پہلے فتح ہوگا، قسطنطنیہ یا روم؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’ہرقل کا شہر پہلے فتح ہوگا، یعنی قسطنطنیہ"۔

 

اے مسلمانو!

یہ بہت بڑی بات ہے کہ مسلم ممالک  یہودی وجود کے گردا گرد اس طرح ہیں جیسے کنگن کلائی کے گرد ہوتا ہے، اس کے باوجود آپ کی کوئی فوج ان سے لڑنے اور اس مقدس زمین کو ان کی ناپاکی سے پاک کرنے کے لیے حرکت میں نہیں آتی۔ یہ بھی بہت بڑی بات ہے کہ ٹرمپ کھلے عام غزہ کے لوگوں کو بے دخل کرنے کی بات کرتا ہے اور اسے مسلم حکمرانوں کی کوئی پرواہ نہیں جو یہودی وجود کے آس پاس موجود ہیں۔ اور جب اس سے پوچھا جاتا ہے کہ عرب اور مسلمان حکمران غزہ کے لوگوں کی بے دخلی کو مسترد کرتے ہیں، تو وہ کہتا ہے کہ وہ جلد یا بدیر اسے قبول کر لیں گے، اور یوں وہ انہیں شرمندہ کرتا ہے، لیکن پھر بھی ان حکمرانوں کی غیرت نہیں جاگتی۔ یہ بھی بہت بڑی بات ہے کہ وہ اتنا بھی حوصلہ نہیں رکھتے کہ امریکہ کا بائیکاٹ کریں یا کم از کم ٹرمپ سے ملاقات نہ کریں جو اپنے بیانات سے انہیں بے نقاب کر رہا ہے۔ اور اس سب کے باوجود وہ اسے مبارکباد دیتے ہیں، اور جب وہ انہیں بلاتا ہے تو وہ اس کے پاس جاتے ہیں اور اس کی باتیں فرمانبرداری سے سنتے ہیں۔

 

یہ بھی بہت بڑی بات ہے کہ مسلم افواج حرکت میں نہیں آتیں جبکہ وہ یہودیوں کے وحشیانہ حملوں کے نتیجے میں انسانوں، درختوں اور پتھروں کی تباہی دیکھ رہی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ اپنے حکمرانوں کی اطاعت میں یہودیوں سے جنگ نہ کرنا انہیں بچا لے گا، مگر 

 

﴿يُرِيهِمُ اللهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيْهِمْ﴾

"اللہ انہیں ان کے اعمال حسرت بنا کر دکھائے گا‘‘ اور وہ پچھتائیں گے، لیکن اس وقت پچھتاوے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا!"

 

﴿إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ﴾

 

"یقیناً اس میں نصیحت ہے اس شخص کے لیے جو دل رکھتا ہو یا توجہ سے سنے اور حاضرِ ذہن ہو"(ق: 37)

 

ہجری تاریخ :14 من شـعبان 1446هـ
عیسوی تاریخ : جمعرات, 13 فروری 2025م

حزب التحرير

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک