المكتب الإعــلامي
ولایہ اردن
ہجری تاریخ | 6 من جمادى الثانية 1445هـ | شمارہ نمبر: 06 / 1445 |
عیسوی تاریخ | منگل, 19 دسمبر 2023 م |
پریس ریلیز
تبدیلی کے الارم نے امت کو نیند سے بیدار کیا
حکمرانوں کے تابع فرمان نہ بنو
غزہ کے لوگوں کے خلاف یہودیوں کی جارحیت کا سلسلہ جاری ہے۔ 'انسان دوست برادری' اس کی کوئی مذمت نہیں کرتی کیونکہ متاثرین مسلمان ہیں اور ان کا مقصد اسلامی ہے۔ اس کے باوجود، فلسطین کے بہادر مجاہدین مسلسل عزم، تدبر، استقامت اور جنگجوی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، کافر استعماری طاقتوں کی طرف سے بزدل یہودی وجود کو فراہم کردہ جدید ترین قتل و غارت گری کی مشینوں سے لدے ہتھیاروں کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔جبکہ دنیا بھر کے مسلمان حکمران خواہ آس پاس کےہوں یا دور کے، بہرے، گونگے اور اندھے بنے ہوئے ہیں، نہ دیکھتے ہیں نہ سنتے ہیں، بلکہ اس وسیع تباہی کا مشاہدہ کررہے ہیں۔ زخمیوں کو بھی ہسپتالوں میں بلڈوزروں کی مدد سے دفن کیا جاتا ہے۔ حکمران کافر ممالک اور استعماری کفار کے زیر کنٹرول بین الاقوامی تنظیموں کے درمیان اچھل کودمیں مصروف ہیں۔ درحقیقت ان کا موقف یہ ہے کہ غزہ کو تباہ کرنے کے لیے یہودی وجود کے مشن کو تیز کیا جائے، تاکہ وہ اپنے لوگوں کے سامنے اس شرمندگی اور رسوائی سے بچ سکیں جس کا سامنا انہیں جنگ بندی کے حصول میں تاخیر کی وجہ سےکرنا پڑ رہا ہے ۔ اصل میں مسلمانوں کی مصیبت ان کے حکمران ہیں جنہوں نے اپنی افواج کو غزہ میں اپنے بھائیوں کی مدد کرنے سے روک رکھا ہے۔
اس ناجائز یہودی وجود کو استعماری کافر طاقتوں، امریکہ اور یورپ کی سرپرستی میں پالا گیا ہے تاکہ وہ دنیا کا لاڈلہ بچہ بن سکے۔ یہ مسلمانوں کی سرزمینوں کو کنٹرول کرنے میں مغرب کے لیے ایک ترقی یافتہ نیزہ باز بن گیا ہے، اور یہ سب کچھ اس لیے ہورہا ہے کیونکہ مسلم دنیا کےحکمران اس ناپاک وجود کی حمائت کرتے ہیں ، اسے تحفظ فراہم کرتے ہیں اور اس سے معمول کے تعلقات قائم کرتے ہیں۔ یہ حکمران ایک خودمختار قومی ریاست کی توثیق کرتے ہیں اور اسے برقرار رکھتے ہیں، اور یہی چیز انہیں یہ بہانہ فراہم کرتی ہے کہ وہ مذہب میں اپنے بھائیوں کی صرف زبانی حمایت کریں لیکن کوئی عسکری و مادی مدد کر کے مداخلت نہ کریں۔یہ حکمران ان مصنوعی سرحدوں کو قبول کرتے ہیں کیونکہ ہمارے ممالک کے بعض بدقسمت علماء، ادیب اور نائبین ان حکمرانوں کی زبان میں بات کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو بھول جاتے ہیں:
﴿اِنَّ هٰذِهٖۤ اُمَّتُكُمۡ اُمَّةً وَّاحِدَةً ۖوَّاَنَا رَبُّكُمۡ فَاعۡبُدُوۡنِ﴾
’’یہ تمہاری جماعت ایک ہی جماعت ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں تو میری ہی عبادت کیا کرو‘‘۔(الانبیاء، 21:92)
سات اکتوبر کو یہودیوں کے خلاف جنگ کا آغاز، مجاہدین کے ایک گروپ نے انفرادی ہتھیاروں اور مخلصانہ تیاریوں کے ساتھ کیا جیسا کہ کہا گیا ہے،
﴿وَ اَعِدُّوۡا لَهُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ﴾
"اور ان کے لیے تیار رکھو جو قوت تمہیں بن پڑے ‘‘(الانفال،8:60)۔
اس بات نے ایسے معاملات کا انکشاف کیا ہے جو شاید کچھ عام مسلمانوں کے لیے غیر واضح تھے۔ یہ صراحت کسی بھی ابہام کو دور کرتی ہے، اور امت کے لیے اب اس سے انحراف کرنا جائز نہیں ہے۔ یہ اسلام کی واپسی ہے کہ خلافت کا دوبارہ قیام ہو اور اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت ہو ، یہ ایک اہم مسئلہ ہے جس کے ذریعے پورا فلسطین آزاد ہو جائے گا۔مذاکرات اور اپنے حق سے دستبردار ہوجانے والے حل کی طرف بلانا کوئی راستہ نہیں، یہودی وجود کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں ہوسکتا سوائے جنگ کے تعلق کے، جب تک اس وجود کو جڑوں سے اکھاڑ کر مٹا نہ دیا جائے، اور اسی طرح امریکہ اور برطانیہ کی زیر قیادت استعماری کافر ریاستوں کے ساتھ تعلقات کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ فوجوں کو اپنے حکمرانوں کے ہاتھوں یرغمال نہیں رہنا چاہیے جو ان سے اپنے نظام کا دفاع اور مغربی مفادات کی تکمیل کرواتے ہیں ۔ اس کے بجائے انہیں چاہیے کہ وہ ان حکمرانوں کی اطاعت کا لبادہ جھاڑ دیں، اپنے ممالک میں مسلمانوں کی حمایت میں اپنا فرض ادا کریں اور غزہ کے لوگوں کی فوری حمایت کریں۔
اے لوگو ، اے مسلمانو!
غزہ کی پٹی میں فوجی کارروائیوں کے حوالے سے اردنی فوج کے ریٹائرڈ میجر جنرل فائز الدویری کے ایک تبصرے میں انہوں نے پچھتاوے اور افسوس کا اظہار کیا۔ جب بھی وہ قابض افواج کی جارحیت کی ویڈیوز دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں، "پچھتاوا اور افسوس ہوتا ہے، قابض فوج کے لیے نہیں بلکہ 1967 کی جنگ میں شکست کھانے والی عرب فوجوں کے لیے"۔ انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ وہ (یہود کی) فوج ہے جو تین عرب ممالک کی فوجوں کو شکست دے سکتی ہے؟ یہ ناکامی، لڑائی میں نااہلی، خوف، گھبراہٹ اور بزدلی میں گھری ہوئی فوج ہے، واقعی میں اس بات پر دکھ اور تلخی محسوس کرتا ہوں کہ ہمیں 1967 میں کیسے شکست ہوئی ؟ جبکہ آج ہم اعلیٰ قابلیت، ہمت، اعلیٰ مہارت، بہادری، منصوبہ بندی اور درست طریقے سے عمل کرنے والے مردوں کو دیکھتے ہیں۔ اگر 1967 میں ایسے مرد ہوتے، تو یہودی وجود جنگ نہیں جیت پاتا، اگر 1948 میں ایسے مرد ہوتے تو یہودی وجود قائم ہی نہ ہوتا"۔ یہ جنرل فیاض الدویری کا تبصرہ ہے۔
ہاں، واقعی، اب وقت آ گیا ہے کہ عرب حکمرانوں کی طرف سے گھڑے گئے ناقابل تسخیر یہودی فوج کے افسانے کو ختم کر دیا جائے جس کو استعمال کر کے یہ حکمران یہودی وجود کے سامنے ہتھیار ڈالنے، اسے تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرنے کا جواز پیش کرتے ہیں ۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان حکمرانوں سے زیادہ سچے ہے جب وہ فرماتے ہیں :
﴿ لَنۡ يَّضُرُّوۡكُمۡ اِلَّاۤ اَذًىؕ وَاِنۡ يُّقَاتِلُوۡكُمۡ يُوَلُّوۡكُمُ الۡاَدۡبَارَثُمَّ لَا يُنۡصَرُوۡنَ﴾
"اور یہ تمہیں خفیف سی تکلیف کے سوا کچھ نقصان نہیں پہنچا سکیں گے اور اگر تم سے لڑیں گے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے پھر ان کو مدد بھی (کہیں سے) نہیں ملے گی "۔
(آل عمران، 3:111)
اب وقت آگیا ہے کہ امت یہ سمجھے کہ یہودیوں کے ساتھ ان کی جنگیں مصنوعی جنگیں تھیں جن میں کوئی حقیقی لڑائی یا امت کا دفاع نہیں کیا گیا تھا بلکہ وہ جنگیں ہتھیار ڈالنے اور سر تسلیم خم کرنے کے لیے کی گئی تھیں۔ 1967 کی چھ روزہ جنگ میں فوجوں نے مزاحمت نہیں کی۔ فوجیں حکمرانوں کے حکم پر پیچھے ہٹ گئیں تھیں، جنہوں نے مسلمانوں کی سرزمین کے وسیع علاقے بشمول القدس (یروشلم)، مغربی کنارے، سینائی اور گولان کی پہاڑیوں کو امن اور تسلیم کرنے کے بدلے میں ان بزدل یہودیوں کے حوالے کر دیا ۔حزب التحریر نے اس وقت اس سازش کو بے نقاب کیا تھا، اور ہم سمجھتے تھے کہ اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے، اورعوامی اور نجی دونوں مفادات پر اس کے پڑنے والے شدید اثرات کے خلاف انتباہ کیا تھا۔
اے مسلم فوجوں کے سپاہیو، اے قوت والو:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
«لَا يُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَيْنِ»
"مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا"۔
سبق لیں تا کہ آپ کو اُس دکھ، غم اور تلخی کا سامنا نہ کرنا پڑے جس کا سامنا آپ کے ساتھی میجر جنرل الدویری اور اس کے جذبات میں شریک دوسرے لوگوں نے کیا تھا اور آپ کے ان بھائیوں نے کیا تھا جو فلسطین کی سرزمین ،الکرامہ میں شہید ہوئے تھے۔ آپ اُن صحابہ کے فرزند ہیں جن کا خون اُردن کی سرزمین پر بہاتھا، جنہوں نےاُردن کی پاک سرزمین کو اسلامی ریاست کا حصہ بنایا تھا جو اقوام عالم میں سب سے آگے تھی۔ اٹھو اور دین میں اپنے بھائیوں کی مدد کرو، آپ انہیں سن رہے اور دیکھ رہے ہیں، جب وہ کراہ رہے ہیں، اور افواج اور اسلحہ کے ساتھ آپ کی مدد اور حمائت کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے آپ پر ثابت کر دیا ہے کہ یہ یہودی وجود اور اس کے آدمی کتنے کمزور اور ناتواں ہیں۔
لہٰذا آپ کے حکمران اور ان کے آدمی ، جو میڈیا اور مساجد کے پلیٹ فارمز میں موجود، آپ کو صرف اپنے بھائیوں کے لیے نمازوں کی ادائیگی اور انہیں خوراک اور ادویات فراہم کرکے دھوکہ نہ دے سکیں۔ اللہ کی قسم، ادویات اور خوراک فراہم کرنا رسول اللہ کی لڑائیوں میں عورتوں کا کام تھا، جبکہ مردوں کا کام لڑنا تھا، تاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہو اور دو اچھے نتائج میں سے ایک حاصل ہو: یا تو فتح۔ یا شہادت؟ اب وقت آ گیا ہے کہ مسلمانوں کو وہ عزت اور وقار دوبارہ حاصل ہو جائے جو انہیں کبھی حاصل تھی جب ان کے پاس ایسی ریاست تھی جس کی فوجیں کسی مصیبت زدہ عورت یا مسلمان قیدی کی فریاد پر حرکت میں آجاتی تھیں۔ تو اب کیا ہونا چاہیے جبکہ آپ سے چند ہاتھوں کے فاصلے پر لاکھوں مسلمان آپ کو پکار رہے ہیں؟!
ارشادِ باری تعالیٰ ہے،
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ *
وَالَّذِينَ كَفَرُوا فَتَعْساً لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ﴾
"اے اہل ایمان! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تم کو ثابت قدم رکھے گا
اور جو کافر ہیں ان کے لئے ہلاکت ہے۔ اور وہ ان کے اعمال کو برباد کر دے گا"۔ (محمد، 8-7)
ولایہ اردن میں حزب التحریر کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير ولایہ اردن |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: http://www.hizb-ut-tahrir.info |
E-Mail: jordan_mo@hizb-ut-tahrir.info |