بسم الله الرحمن الرحيم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال کا جواب:
مضمون: رہائشی زمین پہ خراج نہیں .
بدر الا جراب کے لیے .
سوال:
ہمارے عزیز عالم جناب عطاء ابن خلیل ابو الرشتہ
اسلام وعلیکم ورحمت اللہ وبراکتہ
کتاب "اسلام کا معاشی نظام" کے صفحہ 129 (عربی ) میں لکھا ہے:
"جہاں تک زمین پر خراج کا تعلق ہے تو ریاست زمین کے مالک سے اسے مخصوص رقم کے طور پر وصول کرتی ہے جس کا اندازہ عموماََ زمین کے تخمینہ پیداوار سے لگایا جاتا ہے نہ کہ اصل پیداوار سے . زمین پر یہ تخمینہ اس کی زرخیزی کے حساب سے لگایا جاتا ہے تاکہ زمین کے مالک یا پھر بیت المال کے ساتھ کوئی نا انصافی نہ ہو ۔خراج زمین کے مالک سے ہر سال لیا جاتا ہے خواہ زمین کاشت ہو رہی ہو یا ہو یا نہیں اور خواہ اس میں فصل بوئی گئی ہو یا نہیں۔"
میرا سوال یہ ہے کہ، کیا خراج ایسی زمین سے ساقط ہو جاتا ہے جس پر عمارت تعمیر کردی جائے یا پھر بھی مالک پر خراج لازم ہے اس سے قطع نظر کہ زمین زرعی ہے یا نہیں ؟
الله آپ پر اپنی رحمت فرمائے اور آپ کو کامیابی عطا فرمائے اور آپ کے طفیل ہمیں فتح یاب کرے۔
جواب :
وعلیکم اسلام ورحمۃ اللہ
ذیل میں،پہلے میں کچھ متعلقہ معملات کا ذکر کردوں،
۱ـ خراجی زمین کا مطلب یہ ہے کہ مالک اس کےنفع کا مالک ہے نہ کہ زمین کے رقبے کا اور مالک اس پر خراج دیتا ہے ۔ عشری زمین کی طرح اس میں بھی وراثت ہو تی ہے .لیکن جو چیز خراجی زمین میں وراثت بنتی ہے وہ اس کا مستقل نفع ہے نہ کہ اس کا رقبہ ، کیونکہ یہ تمام مسلمانوں کی ملکیت ہے ۔ جہاں تک اس کے منافع کا تعلق ہے تو حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے زمین کے مالکوں کو اجازت دی کہ وہ اس کے مستقل منافع کے ابد (ہمیشہ ) تک مالک رہیں۔ اس سے حاصل ہونے والا منافع ملکیت کے لیے بھی قابل ہے اور وارثت کے لیے بھی اور منافع کے مالک کو اسے ہر قسم کے مصرف پر خرچ کرنے کا حق حاصل ہے جیسے خرید و فروخت ، گروی رکھنا ، تحفے میں دینا ، وراثت میں دینا یا کسی اور مصرف پر۔
۲ـ زمین پر عائد ادائیگی زمین کے مالکین کی قِسم اور ان کی تبدیلی سے قطع نظر ہو کر آخری دہر (ہمیشہ ) تک رہے گی، کیونکہ بزرور طاقت اس کے فتح ہونے کی حقیقت قیامت تک تبدیل نہیں ہوگی ، اوراس کے منافع کی ملکیت کی کافر سے مسلمان کو منتقلی اس کے درجہ کو تبدیل نہیں کرتی اور یہ بھی کہ یہ منتقلی واجب الادا خراج کی رقم کو بھی تبدیل نہیں کرسکتی کیونکہ خراج کا تعلق مفتوحہ زمین سے ہے، جس کو اس کے باشندوں کے پاس ہی رہنے دیا جائے اور ملکیت سے تعلق نہیں رکھتی۔
۳ـ جس شخص کے پاس زمین کی منافع کی ملکیت ہے،اس کے پاس منافع کو بیچنے کا حق بھی محفوظ ہے ، اور اس کی قیمت لینے کا بھی ، کیونکہ یہ منافع بیچا جاتا ہے اور اس کی قیمت ہوتی ہے ، اور کسی شخص کو بھی اس منافع کو ان کے مالک سے لینے کا حق حاصل نہیں ، مسلمانوں کے خلیفہ تک کو بھی نہیں ۔
ابو یوسف کہتے ہیں،
''امام جس زمین کو بھی قوت سے فتح کرے اور اسے تقسیم نہ کرے ، اور اسے لوگوں کے ہاتھوں میں رہنے کی اجازت میں بھلائی دیکھے جیسے سواد کی زمین کے بارے میں عمر بن الخطاب نے کیا ، تو وہ ایسا کر سکتا ہے ۔ یہ خراجی زمین ہے اور اس کو اسے لوگوں سے واپس لینے کا کوئی حق حاصل نہیں جب کہ یہ لوگوں کی ہوجائے۔ یہ اب ان لوگوں کی زمین ہے، وہ اسے وراثت میں حاصل کرتے ہیں اور اسے بیچ سکتے ہیں اور اس کا خراج ادا کرتے ہیں" ۔
اسی لیےاگر ریاست کو خراجی زمین اس کے مالکوں سےمسلمانوں کی شدید ضرورت کے لیے لینی پڑ جائے تو اسے زمین کے مالک کو زمین کی منافع کی قیمت دینی ہوگی نہ کہ زمین کے"رقبے" کی قیمت کیونکہ خراجی زمین کا مالک اس کے منافع کا مالک ہوتا ہے نہ کہ زمین کے "رقبے" کا ، کیونکہ زمین کا رقبہ مسلمانوں کی ملکیت ہے۔
لہٰذا ریاست کو اس چیز کی قیمت دینی ہوگی جواس شخص کی ملکیت ہو ، جو منافع ہے خواہ کتنا ہی زیادہ یا کم ہو اور صرف ان عمارتوں اور درختوں کی قیمت ادا کرنے تک محدود نہیں ہو گی جو اس پر تعمیر کی گئیں ہیں کیونکہ یہ تو اس کی حقِ ملکیت کو غصب کرنا ہے وہ عمارت سے لے کر درخت تک ، زمین پر تعمیر کی گئی ہر چیز کا مالک ہے اور اس کی پیداواری صلاحیت کا اور اس کے مستقل فوائد کا ۔ لہٰذا ان سب کی قیمتوں کا تخمینہ لگانا ضروری ہے خصوصاََ اس لیے کہ زمین کے مالک نے اسے دسیوں ہزار میں خریدا ہے ، جبکہ اس پر عمارت اور درختوں کی قیمت دسیوں سینکڑے میں ہے صرف تعمیرات اور درختوں کی قیمت کی ادائیگی تو مالک سے ناانصافی ہے اور اس کے حقوق کا استحصال ہے۔ اگر ریاست جملہ منافع کی قیمت ادا نہیں کرتی تو یہ غاصبانہ طرزعمل ہوگا۔یہ اسی طرح ہے کہ منافع میں سے کسی بھی منافع کی فروخت کے وقت اس کی پوری قیمت کی ادائیگی ضروری ہے ۔
۴ـ یہ اس وقت کا معاملہ ہے جب خراجی سرزمین زرعی مقصد کے لیے ہو ، جہاں تک مفتوحہ زمین میں رہائشی زمین کا تعلق ہے تو اس کا حکم زرعی زمین سے مختلف ہے ۔ رہائشی زمین پر کوئی خراج نہیں ہے اور اس کی دونوں چیزیں یعنی منفعت اور زمین کا رقبہ اس شخص کی ملکیت ہیں اور یہ صحابہ کے اجماع سے ثابت ہے ۔ جب مسلمانوں نے عراق کو فتح کیا تو کوفہ اور بصرہ کو اپنی تحویل میں لے لیا اور اپنے درمیان تقسیم کر لیا ،اور یہ ان کی ملکیت بن گئیں۔ یہ لوگ زمین کے رقبے اور اس کی منافع کے مالک حضرت عمر کے دور میں ان کی اجازت سے بنےاور مفتوحہ زمین آپﷺ کے اصحاب نے آباد کیں جیسے کے شام اور مصر اور دیگر مفتوحہ ممالک اور انہیں کسی چیز پر خراج نہیں دینا پڑا اور اس کی خریدوفروخت کسی بھی دوسری ملکیت کی طرح ہوئی ۔ مزید برآں اس پر کوئی زکوۃ ادا نہیں کی گئی لیکن جب اس کو تجارت کی پیشکش میں داخل کیا گیا تب اس پرزکوۃ لاگو ہوئی۔
خلاصہ یہ کہ خراج زرعی خراجی زمین پر دیا جاتا ہے ، اور رہائشی زمین پر نہیں دیا جاتا اور اس کی ملکیت میں اس کی منفعت اور زمین کا رقبہ دونوں کو شامل ہیں یعنی کہ مکمل ملکیت نہ کے خراجی زمین کی ملکیت۔
وعلیکم اسلام ورحمۃ الله وبرکاتہ
آپ کا بھائی
عطا بن خلیل ابو الرشتہ
11 ذی القعد 1436 ہجری
بمطابق 26 اگست 2015