بسم الله الرحمن الرحيم
سوال و جواب
فکر کی اقسام
ابو عبداللہ سلیمان کے لیے
)ترجمہ(
سوال:
السلام عليكم ورحمة الله وبركاتہ
کتاب "اسلامی شخصیت - جلد اول" کے باب’ امت کے لیے دور حاضر میں مفسرین کی ضرورت ‘میں نویں اور دسویں سطر میں لکھا ہے )گہری روشن خیال کتاب کی طرح(۔ کیا لفظ "روشن خیال" درست ہے؟
براہِ مہربانی وضاحت فرمائیں، شکریہ
جواب:
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
لفظ "روشن خیال" (مستنیرہ) درست ہے کیونکہ فکر کی تین قسمیں ہیں: سطحی، گہری اور روشن خیال۔ آپ کتاب "فکر"(Thinking) کے صفحات 86-92، (75-80 انگریزی) میں تفصیلات حاصل کر سکتے ہیں اور میں وہاں سے آپ کے لیے نقل کرتا ہوں؛
)فکر سطحی،گہری یا روشن خیال ہو سکتی ہے۔ سطحی فکر عام لوگوں کی فکر ہوتی ہے۔ گہری فکر علماء کی ہوتی ہے۔ جہاں تک روشن خیال فکر کا تعلق ہے، یہ اکثر لیڈروں کی، اور علماء اور عام لوگوں میں سےروشن خیال والوں کی فکر ہوتی ہے۔ سطحی فکر حقیقت کو صرف دماغ میں منتقل کرنا ہے، کسی اور بات پر بحث کیے بغیر، اور یہ سمجھنے کی کوشش کیے بغیر کہ یہ حقیقت کس سے متعلق ہے؛ پھر اس سے جڑی ہوئی دوسری معلومات کو تلاش کرنے کی کوشش کیے بغیراس احساس کو حقیقت سے متعلق معلومات سے جوڑنا، پھر ایک سطحیفیصلے تک پہنچنا،۔ یہ وہی ہے جو گروہوں میں غالب ہے، اور جو کم فکر والے لوگوں میں غالب ہے، اور جو اَن پڑھ لوگوں میں اور ذہین مگر غیر ثقافت یافتہ لوگوں میں غالب ہے۔
جہاں تک گہری فکر کا تعلق ہے یہ فکر میں گہرا ہونے کی کوشش کرنا ہے، یعنی حقیقت کے احساس میں گہرا ہونا، اور حقیقت کو سمجھنے کے لیے اس احساس سے جڑی معلومات میں گہرا ہونا ہے۔ گہری فکرکرنے والا محض احساس اور ابتدائی معلومات پر قناعت نہیں کرے گا جو احساس سے منسلک ہو، جیسا کہ سطحی فکر میں ہوتا ہے۔ وہ حقیقت کے احساس کو دہراتا ہے، اور اس کے احساس کو بڑھانے کی کوشش کرتا ہے، چاہے تجربے کے ذریعے ہو یا احساس کی تکرار کے ذریعے۔ وہ ابتدائی معلومات کے علاوہ دیگر معلومات کی تلاش کو بھی دہراتا ہے۔ وہ حقیقت کے ساتھ معلومات کے تعلق کو پہلے سے زیادہ دہراتا ہے، چاہے بار بار مشاہدے کے ذریعے ہو یا ربط کو دوبارہ دہرانے کے ذریعے: چنانچہ وہ اس قسم کے احساس اور اس قسم کے تعلق اور اس قسم کی معلومات سے گہری فکر تک پہنچ جاتا ہےچاہے وہ سچ ہو یا نہ ہو۔اس نقطہ نظر کو دہرانے اور اس کے عادی ہوجانے سے گہری فکر جنم لیتی ہے۔ لہٰذا گہری فکر ابتدائی احساس ،ابتدائی معلومات اورابتدائی تعلق کے ساتھ مطمئن نہیں ہوتی۔یہ سطحی فکر کے بعد دوسرا مرحلہ ہے۔ یہ علماء اور مفکرین کی فکر ہے جبکہپڑھے لکھے لوگوں میں یہ فکر ہونا ضروری نہیں ہے۔ اس طرح گہری فکر کا مطلب احساس، معلومات اور ربط میں گہرا ہونا ہے۔
جہاں تک روشن خیال فکر کا تعلق ہے، تویہ گہری فکر کے ساتھ ساتھ اس پر بھیفکرکرنا ہےکہ حقیقت کے اردگرد کیا ہے اور اس کاتعلق کس کس چیز کے ساتھہے، تاکہ حقیقی نتائج سامنے آئیں۔ دوسرے لفظوں میں گہری فکر سے مراد اپنے آپ میں گہرا ہونا ہے، جب کہ روشن خیال فکر کا مطلب ہے گہری فکر میں مزیداضافہ کرنا اور ایک خاص مقصد کے حصول کے لیے، یعنی حقیقی نتائج تک پہنچنے کے لیے جو کچھ اس کے ارد گرد ہے اور اس سے متعلق ہے اس پر فکرکرنا۔ اس لیے ہر روشن خیال فکر، گہری فکر ہوتی ہے۔ روشن خیال فکر کا سطحی فکر سے نکلنا ممکن نہیں ہے۔ تاہم، ہر گہری فکر روشن خیال فکر نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر، ایٹم پہ تحقیق کرنے والاسائنسدان؛ جب وہ ایٹم کے پھٹنے پر تحقیق کرتا ہے، اور کیمسٹری کے میدان کاسائنسدان جب وہ چیزوں کی تشکیل پر تحقیق کرتا ہے؛ اور فقیہ جب قواعد کے استنباط اور قوانین وضع کرنے پر تحقیق کرتا ہے، یہ سائنسدان اور ان جیسے لوگ جب اس طرح کے معاملات پر بحث کرتے ہیں تو وہ گہریفکر سے کام لیتے ہیں، اور اس گہری فکر کے بغیر وہ ان شاندار نتائج تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔ تاہم، وہ روشن خیالی کے ساتھ فکر نہیں کرتے ،نہ ہی ان کی فکر کو روشن خیالی سمجھا جائے گا۔ لہٰذا، آپ کو حیران نہیں ہونا چاہئے جب آپ کو ایک ایسا سائنسدان ملے جو ایٹم پر تحقیق کرتا ہولیکن لکڑی کے ایک ٹکڑے یعنی صلیب سے دعائیں کرے۔ اگرچہ کم سے کم روشن خیالفکر بھی یہ بتا دیتی ہے کہ لکڑی کا یہ ٹکڑا نہ تو کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے، اور یہ ایسی چیز نہیں ہے جس کی عبادتکی جا سکے۔ پادریوں کی موجودگی میں ایک ماہر قانون ساز کو دیکھ کر بھی حیران نہ ہوں جب وہ اپنے آپ کو اپنے جیسے کسی کے سپرد کر دیتا ہے تاکہ وہ دوسرا اس کے گناہ معاف کرا دے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنس دان اور قانون ساز اور ان جیسے لوگ گہرائی سے فکرکرتے ہیں لیکن روشن خیالی کے ساتھ فکرنہیں کرتے۔ اگر وہ روشن خیالی کے ساتھ فکرکرتے تو لکڑی کے ٹکڑے سے دعائیں نہ کرتے، نہ وہ پادریوں کے وجود پر یقین رکھتے اور نہ ہی اپنےجیسے لوگوں سے معافی مانگتے۔ یہ سچ ہے کہ جو گہرائی سے فکرکرتا ہے وہ صرف اسی چیز میں گہرا ہوتا ہے جس کے بارے میں اس نے فکرکی تھی اور اس کے علاوہ کسی اور چیز میں نہیں۔ لہٰذا وہ ایٹم کو تقسیم کرنے یا قانون وضع کرنےکے بارے میں فکرکرتے وقت گہرا ہوسکتا ہے، لیکن جب وہ دوسرے معاملات کے بارے میں فکرکرتا ہے تو وہ ان معاملات میں کم عقل ہوتاہے۔ تاہم، مفکر، گہری فکر کا عادی ہونے کی وجہ سے زیادہ تر باتوں میں گہرائی تک پہنچ جاتاہے جن کے بارے میں وہ فکرکرتا ہے، خاص طور پر وہ معاملات جن کا تعلق نہایت پیچیدہ معاملے، یا زندگی کے نقطہ نظر سے ہے۔ تاہم، اس کی فکر میں روشن خیالی کی عدم موجودگی اسے گہری فکر اور سطحی فکر اور حتیٰ کہ احمقانہ فکر کا عادی بنا دیتی ہے۔ اس لیے صرف گہری فکر انسان کو احیاء کے راستے پہ گامزن کرنے اور اس کی فکری سطح کو بلند کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ فکر میں روشن خیالی کا ہونا ضروری ہے تاکہ فکر میں بلندی پیدا ہو اور انسان احیاء کے راستے پہ گامزن ہو جائے ۔(ختم شد
اگر آپ مزید معلومات چاہتے ہیں تو مذکورہ کتاب سے رجوع کریں۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔
آپ کا بھائی،
عطاء بن خلیل ابو الرشتہ
5 شعبان 1445ھ
بمطابق15 فروری 2024 عیسوی