بسم الله الرحمن الرحيم
سوال کا جواب
سعی کرنا رزق کا سبب نہیں ہے
محمد الخطیب کے لئے
سوال:
آپ کی اجازت سے میں رزق کے بارے میں ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ کیا کوشش کرنے سےتقدیر میں لکھے ہوئے رزق میں اضافہ ہوسکتا ہے؟ یعنی اگر ایک شخص گھر میں بیٹھا رہے یا کوئی کام کرتارہے تو کیا اس کا رزق ایک جیسا ہی رہے گا؟یا پھردوسرے لفظوں میں اپنے کام کی مارکیٹنگ (تشہیر) کرنے سے یا اس کو فروغ دینے سے لکھے ہوئے رزق میں اضافہ ہوتا ہے؟ شکریہ۔ ۔ براہ کرم جلد از جلد جواب عنایت کریں ۔اللہ ہمارے شیخ کی حفاظت فرمائے اورانکی عمردرازکرے۔
جواب:
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایسا لگتا ہے کہ آپ کو رزق اور سعی کےموضوع میں کچھ ابہام ہے۔۔۔۔۔۔بہرحالاس موضوع کی وضاحت خاص طورپر"الكراسة"کتابچے میں کی گئی ہے اور آپ اس موضوع کو وہاں سے سمجھ سکتے ہیں کیونکہ وہاں پر کافی تفصیل موجود ہے، لیکن میں یہاں پر آپ کےلئے کچھ خلاصہ بیان کر دیتا ہوں :
جہاں تک رزق کا معاملہ ہے تو کثرت سے پائی جانے والی قطعی الدلالۃ آیات، قرآن پر ایمان رکھنے والے کے لیے کوئی گنجائش نہیں چھوڑتیں ماسوائے اس کے کہ وہ اس بات پر ایمان رکھے کہ رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ جسے چاہے اسے عطا کرتا ہے۔ رزق کا معاملہ، تقدیر کے معاملے سے مختلف ہے۔ تقدیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی واقعہ کے وقوع پزیر ہونے سے پہلے ہی جانتے ہیں کہ یہ واقعہ وقوع پزیر ہو گا، لہٰذا اللہ نے اسے لکھ دیا اور مقدر کر دیا، لیکن جہاں تک رزق کا تعلق ہے تو اس کا معاملہ صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ پہلے سے ہی یہ جانتے ہیں کہ فلاں شخص کو اتنا رزق دیا جائے گا، لہٰذا اللہ نے اسے لکھ دیا اور اس کا مقدر کر دیا، بلکہ اس کے علاوہ یہ کہ، یعنی اس حقیقت کے علاوہ کہ اللہ تعالیٰ نے رزق کو مقدر میں تو لکھ دیا ہے لیکن رازق پھر بھی وہی ذاتِ پاک ہے نہ کہ بندہ؛ یعنی رزق من جانب اللہ ہی ہے۔ اور اسی چیز کی طرف متعدد آیات دلالت کرتی ہیں :
ارشادِ باری تعالیٰ ہے،
﴿لَا نَسْأَلُكَ رِزْقاًؕؕ نَّحْنُ نَرْزُقُكَؕؕوَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى﴾
"ہم تم سے روزی نہیں مانگتے، بلکہ تمہیں ہم روزی دیتے ہیں اور(نیک) انجام اہل ِتقویٰ کا ہے"۔ (طٰہٰ؛ 20:132)
اور فرمایا،
﴿وَكُلُواْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللهُ حَلاَلاً طَيِّباً وَاتَّقُواْ اللهَ الَّذِيَ أَنتُم بِهِ مُؤْمِنُونَ﴾
"اور جو کچھ تمہیں اللہ نے حلال پاکیزہ رزق دیا ہے اس میں سے کھاؤ اور اس اللہ سے ڈرو جس پر تم ایمان رکھنے والے ہو۔"(المائدہ؛ 5:88)
یہ آیات قطعیت کے ساتھ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ ہی رزق دینے والا ہے اور وہ جسے چاہتا ہے رزق دیتا ہے ،جس کے لیے چاہتا ہے رزق وسیع کر دیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے رزق تنگ کر دیتا ہے۔ ان سب میں رزق کو اللہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور ان میں یہ نکتہ بھی ہے کہ اس ذات کے سوا کوئی رازق نہیں ہے جو اس بات کی دلیلہے کہ وہی رزق دیتا ہے اور یہ سند، سندِ حقیقی ہے۔۔۔
پس، اللہ کی طرف رزق کی نسبت حقیقی ہے اور کسی بھی آیت یا حدیث میں رزق کی نسبت انسان کی طرف نہیں کی گئی کہ انسان دوسرے انسان کو رزق دیتا ہے بلکہ تمام نصوص میں رزق کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہی ہے اور جن نصوص میں دوسروں کو رزق دینے کی بات کی گئی ہے تو ان میں دوسروں پر اپنا مال خرچ کرنے کی بات ہو رہی ہے نہ کہ رزق دینے کے عمل کی۔ مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:
﴿وَلاَ تُؤْتُواْ السُّفَهَاء أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللهُ لَكُمْ قِيَاماً وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ﴾
"اور بےعقلوں کو ان کا مال ،جسے اللہ نے تم لوگوں کے لئے سببِمعیشت بنایا ہے، مت دو (ہاں) اس میں سے ان کو کھلاتے اور پہناتے رہو"۔ (النساء؛ 4:5)
اور مزید فرمایا،
﴿وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُوْلُواْ الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينُ فَارْزُقُوهُم مِّنْهُ﴾
"اور جب تقسیم کے وقت رشتہ دار اور یتیم اور محتاج آ جائیں تو ان کو بھی اس میں سے کچھ دے دیا کرو"۔ (النساء؛ 4:8)
پہلی آیت سے مراد یہ ہے کہ ان کو کھانا کھلاؤ اور دوسری آیت سے مراد ہے کہ ان کو اس رزق میں سے ادا کرو جو تمہیں ملا ہے، یعنی ان کو رزق میں سے ادا کرنے کا حکم ہے، اور یہ رزق کی طرف نسبت نہیں ہے۔ رازق کے معنی میں رزق کی نسبت، اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لیے نہیں کی گئی ہے۔ لہٰذا آپ دیکھتے ہیں کہ مختلف آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ؛
﴿نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ﴾
"ہم تمہیں رزق دیتے ہیں"۔ (الانعام؛ 6:152)،
اور فرمایا،
﴿وَرِزْقُ رَبِّكَ﴾
"اور تمہارے رب کا رزق"۔ (طٰہٰ؛ 20:131)،
اور مزید فرمایا؛
﴿كُلُواْ وَاشْرَبُواْ مِن رِّزْقِ اللهِ﴾
"اللہ کے رزق میں سے کھاؤ اور پیو"۔ ( البقرة؛ 2:60)
ان سب آیات میں رزق دینے کے عمل کو اللہ کی طرف سے منسوب کیا گیا ہے، اور اس کی سند اسی ذات کی طرف رکھی گئی ہے۔ اور اسی سے جو معنی نکلتے ہیں ان میں کوئی تاویل قطعی قبول نہیں ہوگی، اور وہ یہ کہ صرف اللہ وحدہٗ لا شریک کی ذاتِ مبارکہ ہی رازق ہے اور رزق صرف اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔
اس بنیاد پر یہ ضروری ہے کہ اس بات پر ایمان لایا جائے کہ اللہ ہی تمام مخلوق کو رزق دیتا ہے، کیونکہ اس کے دلائل قطعی الثبوت بھی ہیں اور قطعی الدلالۃ بھی۔ پس اس بات پر ایمان لانا فرض ہے اور اس سے انکار کرنا کفر ہے، لہٰذا جو اس بات پر ایمان نہیں رکھتا کہ رازق اللہ ہے تو وہ کفر کرتا ہے۔ العیاذ باللہ۔
یہ بات ایمان اور دلائل کے حوالے سے رزق کے عطا کرنے کے مسئلہ سے متعلق تھی۔ لیکن جس طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہمیں اس بات پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے کہ صرف وہی رازق ہے، تو اسی ذات نے انسان کو اس (عطا کردہ) رزق کو حاصل کرنے کے لیے کوشش کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولاً فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِن رِّزْقِهِ﴾
"وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کوتابع کر دیا تو تم اس کے راستوں میں چلو اور اللہ کے رزق میں سے کھاؤ"۔ (الملک؛ 67:15)
اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں؛
﴿فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللهِ﴾
"پھر جب نماز ادا کرچکو تو زمین میں پھیل جاؤ اوراللہ کا فضل تلاش کرو"۔ (الجمعہ؛62:10)
پس اللہ تعالیٰ نے ان دو آیتوں میں رزق کے حصول کے لیے کوشش کرنے کا حکم دیا ہے۔ جب ہم رزق کے حصول کے لیے کوشش کرنے کے حکم کو ان آیات کے ساتھ ملا کر دیکھتے ہیں جن میں اللہ کے رازق ہونے کو بیان کیا گیا ہے تو اللہ تعالیٰ کے رازق ہونے کا مطلب واضح ہو جاتا ہے اور اللہ کے رازق ہونے پر ایمان لانے کے معنی بھی واضح ہو جاتے ہیں۔ اول الذکر آیات اللہ کے رازق ہونے کے بارے میں قطعی ہیں یعنی اللہ کی ذات ہی رزق عطا کرنے والی ہے اور انسان کا اس میں کچھ عمل دخل نہیں ہے۔ جبکہ مذکورہ بالا دو آیات اس (عطا کردہ ) رزق کو حاصل کرنے کے لیے کوشش کرنے کا حکم دیتی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ کوشش کرنا رزق کا سبب نہیں ہے کیونکہ ہر سبب لا محالہ طور پر ایک وجہ پیدا کرتا ہے اور وہ خاص وجہ اپنے اس سبب کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتی۔ جیسے کہ چھری کاٹنے کا سبب ہے لہٰذا یہ کاٹتی ہے، آگ جلانے کا سبب ہے لہٰذا یہ جلاتی ہے۔ مطلب یہ کہ چھری کے بغیر یعنی تیز دھار آلے کے بغیر کاٹا نہیں جا سکتا،اور آگ یعنی آتش گیر مادے کے بغیر جلایا نہیں جا سکتا۔ یہ ہے سبب کی تعریف۔ پس اگر رزق حاصل کرنے کی کوشش کا کردار بھی اسی طرح کا ہوتا تو یہ کوشش کرنا رزق کا سبب ہوتی اور حقیقت یہ ہوتی کہ کوشش سے رزق حاصل ہو جاتا، جیسے چھری سے کاٹا جاتا ہے اور آگ سے جلایا جاتا ہے۔ لیکن کوشش کرنے کا رزق کے حصول میں اس طرح کا کردار نہیں ہے یعنی اس کا کردار ایسا نہیں ہے جیسے کاٹنے کے معاملے میں چھری کا ہے یا جلانے کے معاملے میں آگ کا ہے کیونکہ بعض اوقات کوشش کرنے کے باوجود بھی رزق حاصل نہیں ہوتا اور کبھی کبھار بغیر کوشش کئے بھی رزق حاصل ہو جاتا ہے۔ یعنی کبھی سبب ہونے کے باوجود اثر حاصل نہ ہو، اور کبھی سبب کے بغیر ہی اثر حاصل ہو جائے بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ کبھی سبب کے علاوہ کسی اور وجہ سے اثر حاصل ہوجائے۔ یہ بات قطعی طور پر یہ ثابت کرتی ہے کہ کوشش کرنا رزق کا سبب نہیں ہے۔
حقیقی زندگی میں اس کی مثالیں بہت زیادہ اور وسیع ہیں۔ مثال کے طور پر ایک تاجر منافع کمانے کے لئے کافی جدوجہد کرتا ہے لیکن پھر بھی اسے نقصان ہو جاتا ہے یا منافع حاصل نہیں ہوتا ، تو اس نے کوشش تو کی مگر رزق حاصل نہیں ہوا۔ یعنی سبب تو موجود ہے لیکن اس سے وہ اثر حاصل نہیں ہوا اور چونکہ اس نے وہ اثر ہی پیدا نہیں کیا لہٰذا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ (کوشش کرنا) اس کے لئے سبب نہیں ہے، کیونکہ سبب اثر کو لازمی پیدا کرتا ہے۔۔۔
نیز مال کے وارث کو بغیر کسی کوشش کے رزق مل جاتا ہے، پس اگر کوشش کرنا رزق کا سبب ہوتا تو بغیر کوشش کے مال حاصل نہ ہوتا، کیونکہ اثرکسی سبب کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا بغیر جدوجہد کے وراثت کے ذریعے رزق مل جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ جدوجہد کرنا رزق کا سبب نہیں ہے، کیونکہ رزق کوشش کے بغیر بھی مل جاتا ہے۔۔۔۔۔
ان تمام باتوں سے حتمی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ رزق تلاش کرنے کی کوشش کرنا رزق کا سبب نہیں ہے، یعنی کوشش کرنا رزق کو لانے والا سبب قطعی نہیں ہے۔ کیونکہ وہ اس چھری کی طرح نہیں ہے جس نے کاٹ دیا اور نہ وہ آگ کی طرح ہے جس نے جلا دیا۔ لہٰذا کوشش وہ چیز نہیں ہے جو رزق لائے کیونکہ وہ اس کا سبب نہیں ہے۔۔۔]
پس رازق یعنی رزق عطا کرنے والی ذات صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ہی ہے اور یہ ہمارے عقیدۂ ایمان کا حصہ ہے۔ لیکن بہرحال (اس عطا کردہ رزق کے لئے ) سعی کرنا ایک شرعی حکم ہے۔ اگر آپ کوشش کریں گے تو آپ کو وہ رزق بھی ملے گا جو اللہ نے آپ کے لیے مقرر کیا ہوا ہے اور آپ کو اس رزق تلاش کرنے کی کوشش کرنے کا اجربھی ملے گا۔ اور اگر آپ کوشش نہیں کریں گے تو آپ کو وہ رزق تو مل ہی جائے گا جو اللہ نے آپ کے لیے مقرر کیا ہے، لیکن آپ نے شرعی حکم کی خلاف ورزی کی کیونکہ آپ نے رزق تلاش کرنے کی جدوجہد نہیں کی جس کا اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے حکم دیا تھا۔
اوران شاء اللہ یہ وضاحت کافی ہوگی... جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ "الکراسۃ " کتابچے میں اس موضوع پر پوری تفصیل درج ہے، اس لیے اگر آپ کو مزید کچھ وضاحت درکار ہو تو آپ"الکراسۃ"کتابچےسے رجوع کر سکتے ہیں۔ اللہ آپ کا حامی وناصر ہو۔
آپ کا بھائی
عطاء بن خلیل ابو الرشتہ
27 صفر الخیر 1445ھ
بمطابق 12 ستمبر2023 عیسوی