السبت، 10 شوال 1445| 2024/04/20
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال کا جواب

سامانِ تجارت پر زکوۃ

 

ياسر خضير کے لیے

 

سوال:

 

میرا فہم یہ ہے کہ تجارتی مال کی زکوٰۃ   کا تعین اُس کی اُس  قیمت پر ہوگا جو فروخت کے وقت زکوۃ دینے والے کی جانب سے گاہگ سے مانگی جاتی ہے، نہ کہ وہ قیمت جس پر زکوٰۃ دینے والے نے اُسے خریدا ہوتا ہے۔

اگر میں نے 10,000 موبائل آلات خریدے اور انہیں 15,000روپے میں بیچا، تو زکوٰۃ پندرہ ہزار کے حساب سے نکالی جائے گی۔

کیا میرا یہ فہم درست ہے؟!

 

جواب:

 

ہماری کتاب "اموال فی دولة الخلافة" کے باب " تجارتی سامان پر زکوٰۃ "میں لکھا ہے:

 

[تجارتی سامان کرنسی کے علاوہ ہر وہ چیز ہے جسے منافع کی خاطر تجارت یعنی خرید و فروخت کے لیے رکھا جائے، مثلاً  کھانے کی اشیاء، کپڑے، فرنیچر، تیار کردہ سامان، جانور، معدنیات، زمین، عمارتیں اور دیگر سامان جو خریدے اور بیچے جاتے ہیں۔

 

اول دور اور بعد کے علماء کا اس بات پر اتفاق ہےکہ تجارت کے لیے خریدے گئے مال پر زکوٰۃ فرض ہے۔ سمرہ بن جندب نے کہا:

 

«أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يَأْمُرُنَا أَنْ نُخْرِجَ الصَّدَقَةَ مِنَ الَّذِي نُعِدُّ لِلْبَيْعِ»

"دیکھو! بیشک رسول اللہ ﷺ ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ ہم جو چیز بیچنے کے لیے تیار کرتے ہیں اس میں سے صدقہ دیں۔"

 

ابوذر ؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: »وَفِي الْبَزِّ صَدَقَتُهُ«"اورالْبَزّمیں صدقہ ہے۔"اسے دارقطنی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔الْبَزّ کپڑے اور بُنی ہوئی چیزیں ہیں جو تجارت کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ابی عمرة بن حماس نے اپنے والد سے یہ روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا: "'عمر بن الخطاب وہاں سے گزرے اور کہا: اے حماس، اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرو۔' میں نے کہا:' میرے پاس سوائے جیوب اور چمڑے کے اور کچھ نہیں ہے۔' آپ ؓنے فرمایا: ان کا اندازہ لگاؤ، پھر ان کی زکوٰۃ ادا کرو۔'"عبدالرحمٰن بن عبدالقاری نے کہا: مجھے عمر بن الخطابؓ کے زمانے میں بیت المال پر مقرر کیا گیا تھا۔ جب تحائف کو نکال دیا جاتا تھے تو تاجروں کا مال جمع کیا جاتا تھا اور اس کا شمار کیا جاتا تھا، جو موجود یا غائب تھا۔ اس کے بعدموجود اور غائب مال کی موجودہ مال سے زکوٰۃ لی جاتی تھی ۔"ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: رقیق(غلام) اور الْبَزّ(کپڑے) پر زکوٰۃ ہے جس پر تجارت مقصود ہو۔ تجارت پر زکوٰۃ کی فرضیت عمر اور ان کے بیٹے، ابن عباس، ساتوں فقہاء، الحسن، جابر، طاؤس، النخعی، ثوری، الاوزاعی، شافعی، احمد، ابو عبید، اہل نظر (اصحاب الرائے)، ابو حنیفہ وغیرہ سے روایت کی گئی ہے۔

 

تجارتی مال کی زکوٰۃ اس وقت واجب ہوتی ہے جب وہ سونے اور چاندی کی نصاب کی قیمت کو پہنچ جائے اور اس پر ایک سال گزر جائے۔

 

اگر تاجر نصاب سے کم مال سے تجارت شروع کرے اور سال کے آخر میں نصاب تک پہنچ جائے، تواس پر زکوٰۃ نہیں ہے کیونکہ اس پر ایک سال نہیں گزرا ہے۔ پورا سال گزر جانے کے بعد اس کے نصاب پر زکوٰۃ فرض ہوگی۔

اگر تاجر اپنی تجارت کا آغاز نصاب سے زیادہ مال سے کرے، جیسا کہ وہ ایک ہزار دینار سے تجارت شروع کرے تو سال کے آخر تک اس کی تجارت میں اضافہ اور منافع اتنا بڑھ جائے کہ اس کی قیمت تین ہزار دینار ہو جائے تو اس پر تین ہزار دینار کی زکوٰۃ واجب ہےنہ کہ1000 دینارپر جن سے اس نے شروعات کی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا منافع اصل کا تابع ہے، اور اصل پر سال کا گزرنا نفع پر بھی گزرنا ہے۔یہ بکریوں کے بچوں (سکھل) اور بھیڑوں کے بچوں (بہم) کی طرح ہے، جو انہی کے ساتھ شمار کیے جاتے ہیں، کیونکہ اس کی ماں پر سال گزرنا اس کے لیے بھی ہے۔ یہی حال مال کے منافع کا ہے کیونکہ اس کا سال بھی وہی ہے جو اس کے اصل پر گزر گیا۔ سال ختم ہونے پر تاجر اپنے تجارتی مال کا اندازہ لگاتا ہے کہ آیا اس پر زکوٰۃ واجب ہے جیسے اونٹ، مویشی اور بھیڑ، یا نہیں، جیسے کپڑے، تیار شدہ سامان، زمین اور عمارت۔ وہ ان کا مجموعی طور پر سونے یا چاندی کی اکائیوں میں تخمینہ لگاتا ہے۔ پھر وہ دسویں کا چوتھا حصہ دیتا ہے اگر وہ تجارتی مال سونے یا چاندی کی نصابی قیمت تک پہنچ جائے، اور استعمال ہونے والی کرنسی میں واجب زکوٰۃ دیتا ہے۔

 

اس کے لیے جائز ہے کہ اپنے تجارتی سامان کی زکوٰۃ اسی تجارتی سامان میں سے دے اگر یہ اس کے لیے آسان ہو، مثلاً جہاں وہ بھیڑ بکریوں، مویشیوں یا کپڑوں کی خرید و فروخت کر رہا ہو اور اس پر واجب زکوٰۃ کی قیمت بھیڑ، گائے یا کپڑوں میں لگائی جائے تو وہ اس کی زکوٰۃ کرنسی میں دے سکتا ہے یا بھیڑ، گائے یا کپڑوں کی شکل میں دے سکتا ہے۔ وہ ان دونوں صورتوں میں سے کسی بھی صورت کو اختیار کرسکتا ۔

 

اگر اونٹ، گائے اور بھیڑ بکریاں تجارتی مال ہیں ، اور ان پر   زکوٰۃ واجب ہے ، تو ان کی زکوۃ تجارتی  سامان کے طور پر ادا کی جاتی ہے، نہ کہ مویشیوں کی زکوٰۃ کے طور پر ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی ملکیت کا مقصد تجارت ہے نہ کہ محض ملکیت۔۔۔]۔ ختم

 

اس طرح تجارت کا تخمینہ شروع میں لگایا جاتا ہے اور اگر نصاب یا اس سے زیادہ ہو تو یہ سال کے شروع میں شمار ہوتا ہے اور سال کے آخر میں دوبارہ تخمینہ لگایا جاتا ہے تو اس کی زکوٰۃ اس تخمینہ کے مطابق ادا کی جاتی ہے جب زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، اور جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، تجارت کی قیمت کا حساب لگاتے وقت منافع شامل ہوتا ہے اگرچہ ایک سال نہ گزرا ہو، کیونکہ منافع کا تعلق سرمائے سے ہے۔

 

یعنی تجارت کا تخمینہ نصاب کے شروع میں ہے، پھر نصاب کے آغاز سے سال کے اختتام کے بعد، یعنی جب زکوٰۃ واجب ہو گی۔

 

مجھے امید ہے کہ یہ کافی ہے، اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور بڑی حکمت والا ہے۔

 

آپ کا بھائی،

عطا بن خلیل ابو الرَشتہ

28 شعبان 1444ھ

20/03/2023 عیسوی کے مطابق

Last modified onپیر, 10 اپریل 2023 03:23

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک