الجمعة، 20 جمادى الأولى 1446| 2024/11/22
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
سوال کا جواب تیل کی قیمتوں میں  زبردست کمی!

بسم الله الرحمن الرحيم

 سوال کا جواب

تیل کی قیمتوں میں  زبردست کمی!

  سوال : تیل کی قیمتوں میں کمی کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ یہ 40 ڈالر سے بھی کم ہوگئی۔  قیمتوں میں استحکام کے لیے سعودی عرب نے بھی پیدا وار میں کمی نہیں کی جبکہ وہ اوپیک ممالک میں تیل پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے،اور یہ4 دسمبر2015 کو اوپیک کے اجلاس میں بھی نظر آیا ۔ اسی طرح  امریکہ  نے بھی قیمتوں میں کمی کی مزاحمت کرنے کے لیے پیداوار میں کمی کی بجائے اس میں اضافہ کیا۔۔۔پھر تیل کی قیمتوں میں کمی کے کیا اسباب ہیں؟ اللہ آپ کو بہترین جزا دے۔

  جواب:

   تصویر کو واضح کرنے کے لیے  گزشتہ سال کی تیل کی  قیمتوں کو سیاسی واقعات  اور اثر انداز ہونے والے متعدد عوامل کے ساتھ  دیکھنا ضروری ہے تا کہ  کم عرصے کے اندر تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کو سمجھا جا سکے:

1 ۔    عبد اللہ بن عبد العزیز  کی حکومت  کے دوران اور  ان کی وفات سے ذرا پہلے  تیل کی قیمتوں میں زبردست کمی واقع ہوئی  اور اس کو برطانیہ کی جانب سے اپنے ایجنٹ عبد اللہ بن عبد العزیز  کے ذریعے  امریکی مفادات پر ضرب سے تعبیر  کیا گیا کیونکہ اس کا تعلق امریکہ کی جانب سے  شیل آئل کی پیداوار شروع کرنے سے تھا( جیسا کہ7 جنوری2015  کے سوال جواب میں بتایا گیا تھا)۔تیل کی قیمتوں میں کمی  عبد اللہ بن عبد العزیز کی وفات اور23 جنوری2015 میں امریکی ایجنٹ سلمان بن عبد العزیز   کے حکمران بننے تک جاری رہی۔  اگرچہ سعودی وزیر تیل کی جانب سے تیل کے بارے میں پالیسی تبدیل نہ کرنے کا اعلان کیا گیا تھا مگر سلمان کے اقتدار سنبھالتے ہی    تیل کی قیمتیں  بتدریج بڑھتی رہیں  یہاں تک کہ مئی کے مہینے میں  قیمتیں60  ڈالر تک پہنچ گئیں۔اسی بات کی توقع کی جارہی تھی جیسا کہ25 جنوری2015 کے سوال جواب میں کہا گیاتھا کہ ،" اس کے نتیجے میں سعودیہ اور امریکہ کے درمیان کشیدگی میں کمی ہو گی، اس سے  تیل کی قیمتوں میں تیزی سے کمی  متاثر ہوگی کیونکہ سابق شاہ  کے پشت پناہ انگریز  تیل کی قیمتوں میں کمی کے ذریعے  امریکہ کو شل آئل سے فائدہ اٹھانے میں ناکام بنا نا چاہتا تھا"۔

  2 ۔ جون کے مہینے کے اواخر سے تیل کی قیمتیں پھر گرنی شروع ہوئیں  یہاں تک کہ  اگست  تک یہ  تقریباً 40 ڈالر پر آگئیں۔  اس عرصے میں جب قیمت گری تو اسی دوران ایران کے ساتھ  ایٹمی معاہدہ طے پایا،اور ایسا لگتا ہے کہ مذاکرات کے دوران امریکہ نے تیل کی قیمتوں میں کمی  کے ذریعے  ایران میں اپنے ایجنٹوں کے لیے   معاہدے کے لیے درکار پسپائی اختیار کرنے میں آسانی پیدا کی ، کیونکہ تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے ایرانی معیشت پر دباو بڑھا اور معاشی تنگ دستی میں اضافہ ہوا جس کا ایرانی عوام کو سامنا ہے۔ اس طرح ایرانی حکومت کے لئےامریکہ کے ساتھ معاہدے کا جواز بنا نا  آسان ہوگیا۔ اس کے بعد پھر تیل کی قیمتوں میں تھوڑا تھوڑا اضافہ ہو اور ستمبر تک یہ 50 ڈالر پر پہنچ گئی۔

3 ۔اکتوبر2015 کے مہینے میں تیل کی قیمتیں پھر تیزی سے گرنے لگیں یہاں تک کہ18 دسمبر2015 کو یہ 34 ڈالر تک پہنچ گئی۔ تیل کی قیمتوں میں موجودہ زبردست کمی کے اسباب  سابقہ اسباب سے مختلف ہیں اور اس کی وضاحت یوں کی جا سکتی ہے:

2008 میں امریکہ میں پیش آنے والے مالیاتی بحران  پر امریکہ نے نوٹ چھاپنے(Quantitative Easing) کی پالیسی اپنائی تاکہ مالیاتی بحران سے نکلا جاسکے جس نے اس کو بری طرح سے نقصان پہنچایا تھا۔ لہٰذا امریکہ نےمالیاتی نظام کو سہارا دینے کے لیے  بڑی مقدار میں ڈالر  چھاپنا شروع کیا  اور پھر یہی کرتا رہا اس بات کے باوجود کہ اس عمل سے ڈالر کمزور ہو گیا۔  مگر گزشتہ سال کے  شروع  میں امریکہ نے دیکھا کہ ایک ایسا معاملہ ہے جس نے اس کے نوٹ چھاپنے کی پالیسی کو متاثر کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ:

۔ اس پالیسی سے کئی ممالک خاص کر چین متاثر ہوا، کیونکہ ڈالر کی قدر میں کمی سے چین کے ڈالر میں موجود وسیع زرمبادلہ کے ذخائر  متاثر ہو ئے۔۔۔اس کے نتیجے میں  ڈالر سے دستبرداری اور  نئے مالیاتی نظام  کی آوازیں اٹھنی شروع ہوئیں۔ یورپ میں یہ آواز فرانسیسی وزیر خزانہ میشل سافن  کی زبانی سنی گئی  جب  7 جولائی2015 کو فینانشل ٹائمز  نے یہ خبر دی کہ "فرانس نےڈالر کی بالادستی پر تنقید کی ہے"۔

    اس حوالے سے میشل سافن نے کہا کہ " ہم یورپ والے ڈالر میں آپس میں خریدو فروخت کرتے ہیں، جیسے مثال کے طور پر جہاز بیچتے ہیں۔ کیا یہ کرنا ضروری ہے؟ میں اس پر یقین نہیں کرتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ توازن کا قیام ممکن اور ضروری ہے۔یہ صرف یورو کے حوالے سے نہیں بلکہ  دوسرے ابھرتے ممالک کی کرنسیوں کے لیے بھی ہے،اور جو کہ اب عالمی تجارت کی زیادہ اور زیادہ نمائندگی کرتی ہیں"۔۔۔ انہوں نے اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا  کہ وہ اپنے ساتھیوں ، یورو زون کے وزرائے خزانہ کے ساتھ جب پیر کو برسلز میں ملاقات کرے گا تو ڈالر کے متبادل کی ضرورت  کے حوالے سے بات کرے گا۔ اگرچہ  اس بابت تفصیل میں جانے سے انکار کیا کہ  کیا کیا عملی اقدامات کیے جائیں گے۔۔۔اورچین نے فرانس کی پیروی کی لہٰذا زینہوا(Xinhua) نیوز ایجنسی  سے بات کرتے ہوئے   روس کے دوسرے سب سے بڑے بینک " وی ٹی بی"  کے سربراہ   کوسٹین  نے کہاکہ "موجودہ عالمی مالیاتی نظام  بدستور   امریکی ڈالر کی بالادستی کے نرغے میں ہے اور ایک  ایسے نظام کی ضرورت ہے جو  زیادہ تغیر پذیرہو تا کہ ایک ہی کرنسی پر انحصار کم کیا جائے"۔ اور  کوسٹین نے کہا کہ  چین دوسری بڑی معیشت ہونے کے ناطے  نئے نظام کے قیام کے لیے  دنیا کے دوسرے ممالک سے تعاون کر سکتا ہے اور اس نے مزید کہا کہ  روس عالمی مالیاتی میدان میں چین کے قائدانہ کردار کی حمایت کرے گا( دی پیپلز آن لائن ڈیلی نیوز پیپریکم نومبر2014 )۔

اگرچہ یہ سبب اس بات کے لیے کافی تھا کہ  امریکہ ڈالر کے ریٹ کو گرانے کی پالیسی کو ترک کرے  مگر اس نے اسی پالیسی کو جاری رکھنے پر اصرار کیا یعنی  ڈالر کی قیمت کم کرنے کی۔ اس نے تیل  کی قیمتوں میں اضافہ  کرنے کا فیصلہ کیا  جس سے ڈالر کی قیمت کم ہو جاتی ہے اور یہ عام بات ہے۔   یوں اس نے اس مالیاتی بحران  کے نشانات کو ختم کرنے کی کو شش کی  جو اب تک موجود ہیں۔  ساتھ ہی  تیل کی قیمتوں میں اضافے کے ذریعے شیل آئل کی پیداوار کوفائدہ مند بنانےکی کوشش کی ۔  اسی مقصد کے لیے  کیری نے11 نومبر 2014 کو سعودیہ کا دورہ کیا اور شاہ عبد اللہ کے ساتھ ان کی ملاقات  کا موضوع تیل کی پیداوار میں کمی تھا  جیسا کہ ہم نے7 جنوری2015 کو اپنے جواب میں کہا تھا۔

۔  تاہم  رواں سال  کے حالیہ مہینوں میں امریکہ نے دیکھا کہ   ڈالر سے روگردانی کا یہ رجحان  عملی اقدامات کی طرف بڑھ رہا ہے کیونکہ  ڈالر ذخیرہ نہیں کیا جا رہا  بلکہ اس کی جگہ سونا خریدا جا رہا ہے۔ چین اپنے پاس موجود ڈالر سے سونا خرید رہا ہے  کیونکہ اس کے پاس ڈالر کے ذخائر 4 کھرب ہیں۔  "چین کا مرکزی  بنک  ہر مہینے 14 سے 19 ٹن سونا ذخیرہ کر رہا ہے" (رائٹرز،یکم دسمبر2015 )۔ بعض غیر سرکاری اعداد وشمار  جن کو روسی اخبارا ت نے نقل کیا ہے  اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ چین  اپنے مرکزی بینک میں سونے کے ذخائر کو بڑھا رہا ہے  جو  آنے والے وقت میں 10 ہزار  ٹن ہوجائیں گے اور اس طرح وہ امریکہ کو پیچھے چھوڑ کر  پہلے نمبر پر آجائے گا کیونکہ امریکہ کے پاس 8 ہزار ٹن سونا ذخیرہ ہے۔ اس وقت چین  کے پاس 1700 ٹن سونا ذخیرہ ہے۔ اسی طرح روس بھی  سونا خرید رہا ہے ، اس وقت روس کے پاس 1275 ٹن سونا ذخیرہ ہے ،جبکہ  2015 کی دوسری شش ماہی میں روس 67 ٹن سونا خرید چکا ہے۔۔۔یہ ڈالر کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے اور یہ امریکہ کے لیے بہت خطرناک امر ہے  کیونکہ ڈالر دنیا پر بالا دستی کے لیے اس کا ایک اہم آلہ ہے۔  امریکہ  کے لیے یہ بات اہم ہے کہ ڈالر  ہی وہ کرنسی رہے  جس سے تیل  کی خریدو فروخت  اور مالیاتی لین دین ہو، کیونکہ جس کے پاس ڈالر ہوں گے وہی تیل کی قیمتوں اور عالمی تجارت کو کنٹرول کرے گا۔

4 ۔ یوں امریکہ نے متعدد اقدامات کے ذریعے  ڈالر  کا ریٹ بڑھانے  یعنی تیل کی قیمت میں کمی کی پالیسی اختیار کی:

ا۔ تیل کی پیداوار میں اضافے کے لیے تمام دستیاب وسائل کو بروئے کار لانا:

٭ امریکہ اور کنیڈا نے تیل کی پیداوار میں 2005 کے مقابلے میں10.3 ملین بیرل یومیہ سے اب 18 ملین بیرل یومیہ تک کا اضافہ کیا۔

٭ اوپیک میں امریکی ایجنٹوں خاص کر سعودیہ،ایران اور عراق نے تیل کی پیداوار میں اضافہ کیا:

۔ جہاں تک سعودیہ کی بات تو الجزیرہ ڈاٹ نیٹ نے10 اکتوبر2015 کو  خبر شائع کی کہ "سعودی عرب نے  تیل بر آمد کرنے والے ممالک  او پیک کو مطلع کیا کہ  اس   نے گزشتہ ستمبر سے تیل کی پیداوار میں ایک لاکھ بیرل یومیہ اضافہ کر لیا ہے" ( العربی الجدید14 دسمبر2015 )۔ اس سال اس کی پیداوار10.1  ملین بیرل یومیہ ہے۔

۔ ایران کی جہاں تک بات ہے تورائٹر نیوز ایجنسی نے پیر کو  تیل  کی مارکیٹ میں موجود ایک ذریع کے حوالے سے خبر دی جو تیل پیدا کرنے والے ممالک "اوپیک"کے درمیان تیل کی نقل وحمل کے نظام  الاوقات  سے باخبر ہے کہ " ایران   اس مہینے سے1.26 ملین بیرل خام تیل یومیہ بر آمد کرے گا جو دو مہینے پہلے کے مقابلے میں ایک چوتھائی زیادہ ہے" ( العربی الجدید14 دسمبر2015 )۔  اوربعض ماہرین نے توقع ظاہر کی ہے کہ ایران اس سے بھی زیادہ بر آمد کر ے گا:

"اقتصادی پابندیوں کے اٹھ جانے اور ایران کو تیل بر آمد کرنے کی اجازت دینے کے بعد  (اس وقت ایران3.7 ملین بیرل یومیہ تیل پیدا کر رہا ہے  جبکہ اس کی بر آمدات تقریباً 1.7 ملین بیرل یومیہ تک پہنچ گئی ہے)عالمی پیداوار میں اضافے کا باعث بنے گا کیونکہ ایران کی صلاحیت ہے کہ وہ 2015 کے اختتام تک  چھ لاکھ بیرل یومیہ کا اضافہ کرسکتاہے" ( الصباح الجدید نیوزسائٹ9 دسمبر2015 )

۔ جہاں تک عراق کا تعلق ہےتو   وزارت پٹرولیم کے مشیر برائے پیداوار  فیاض حسن نعمۃ نے کہا کہ"رامیلہ کے کنووں سے خام تیل  کی پیداوار13 لاکھ پچاس ہزار بیرل یومیہ تک پہنچ چکی ہے"۔ اس نے مزید کہا کہ "وزارت پیداوار چاہتی ہے کہ تیل کی پیداوار کو بڑھا کر اکیس لاکھ بیرل یومیہ تک لےجایا جائے" ۔اس نے یہ بھی کہا کہ   "یہ پیدا وار عراقی تیل کی پیداوارکی صلاحیت کےچالیس فیصد کے برابر ہے"۔۔۔  رائٹرز نیوز ایجنسی نے کہا کہ عراق نےستمبرسے3.017 ملین بیرل یومیہ خام بصرہ  برآمد کے لیے مخصوص کیا ہوا ہے  جوگزشتہ مہینے تک2.52 ملین بیرل یومیہ تھا ( الصباح الجدید15 اگست 2015)۔

٭ امریکی تیل کی بر آمد پر پابندی ختم کرنا:" امریکی کانگریس کمیٹی نے 40 سال سے خام تیل کی  بر آمد  پر لگی بندش کو ختم کرنے کے لیے  نئے اقدمات کی منظوری دی ۔۔۔اور امریکی صدر باراک اوباما نے  جمعہ کی صبح اس  دستاویز پر دستخط کر دیے جس سے یہ قانون بن گیا" ( بی بی سی19 دسمبر2015 )۔۔۔ امریکہ نے شیل آئل کے مسئلے کو حل کر لیا یہاں تک   کہ وہ  ڈالر کی قیمت  کو بڑھانے اور تیل کی قیمت کوکم کرنے  کی اس کی نئی پالیسی کی راہ میں روکاوٹ نہ بنے۔کئی کمپنیوں نے  اس شعبے میں سرمایہ کاری ترک کردی،  کئی کنووں کی کھودائی روک دی گئی جہاں سے تیل نکالنے کا خرچہ  تیل کی قیمت سے زیادہ تھی۔ وہی کمپنیاں باقی رہ گئیں جو  تیل کی قیمتوں میں کمی کو برداشت کر سکتی تھیں  اور جن کے پاس ایسی ٹیکنالوجی  اور ایسے اسالیب ہیں کہ وہ خرچے کو کم کرکے بھی پیداوار کو دوگنا کر سکتی ہیں۔ پھر انہوں نے اپنی پیداوار کو بڑھایا یہاں تک کہ امریکہ کی شیل تیل کی پیداوار قابل قبول سطح پر رہے۔اور پابندی کے اٹھنے کے بعداس عمل کا برآمدات پر بہت بڑا اثر پڑا ۔۔۔ امریکی انرجی ایجنسی  کی رپورٹ  کے مطابق، جو کہ "مارکیٹ ریالیسٹ" کی سائٹ پر ہے :"امریکہ کی جانب سے خام تیل کی پیداوار11 دسمبر کو ختم ہونے والے ہفتے کے اختتام تک  تقریباً مستحکم رہی۔۔۔"۔ رواں مہینے یہ پیداوار9.17 ملین بیرل یومیہ تک پہنچ گئی،اور اس سے یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ امریکی شیل آئل کی پیداواری لاگت  کا خرچہ  کم ہوا اور باقی رہنے والے کنووں کی پیداوار میں اضافہ ہو اگر چہ غیر منافع بخش کنووں کو بند کر دیا گیا۔۔۔سٹی گروپ کے  منصوبہ بندی کے انچارچ ایرک لی نے کہا کہ"شمالی ڈکوٹا کے باکن   کےبعض  علاقوں میں پیداواری لاگت 20 ڈالر تک گر گئی ہے اور یہ انکشاف  معدنی پیداوار کے لیے ریاستی وزارت نےگزشتہ مہینے کیا ہے۔ ڈن کے علاقے میں  24 ڈالر فی بیرل پر بھی تیل کی پیداوار منافع بخش ہے جوکہ گزشتہ اکتوبر 29 ڈالر تھی"(ٹوم ڈیک کرسٹوفر ،سی این بی سی20 اگست2015)۔

یوں امریکہ اور اس کے ایجنٹوں نے  تیل کی پیداوار میں  اس طرح اضافہ کیا  جس سے اس کی مارکیٹ میں طلب سے کہیں زیادہ تیل آگیا۔ اس بات کی جانب کئی رپورٹیں بھی اشارہ کرتی ہیں کہ،" اس وقت مارکیٹ میں اضافی تیل موجود ہے جو کہ یومیہ تقریباً4 سے 5 ملین بیرل ہے" (الفا بیٹا سائٹ15 دسمبر2015)۔  اس کے علاوہ  عالمی طور پر تیل کے استعمال میں  کمی    قابل ذکر ہےجو کہ طلب کا بنیادی عامل ہے۔ آئی ایم ایف نے اجمالی طور پر عالمی پیداوار میں کمی کی توقع ظاہر کیا ہے جو کہ3.4 فیصد سے گر کر 3.3 فیصد ہو گی، اور یہ اس وجہ سے ممکن ہے کیونکہ یورپ اور جاپان میں اقتصادی سست روی ہے،  ترقی پذیر معیشتوں میں بھی سست روی ہے اور خاص کر چین میں  سست روی ہے جو کہ دنیا میں دوسرا  سب  سے بڑا تیل استعمال کرنے والاملک ہے۔اور یہ اس وقت ہورہا ہے جب مالیاتی مارکیٹوں میں چینی کرنسی یان کی قدر میں کمی کی وجہ سےایک طرح کی بے اطمینانی پائی جاتی ہے۔ مارکیٹ کے اعدادوشمار کے مطابق چین میں تیل کی طلب میں  کمی ہے۔  طلب میں اس کمی کے ساتھ رسد(سپلائی) کے جاری رہنے اور ذخائر(اسٹاک )میں اضافے سے تیل کی قیمتوں میں کمی اور ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا۔۔۔

ب ۔ ایک اور امر شرح سود میں اضافہ ہے۔ اس بات کے باوجود کہ  امریکی معاشی اشاریے ملک کی حقیقی معیشت میں بہتری کی جانب اشارہ نہیں کرتے تاہم  امریکہ کی فیڈرل ریزرو کونسل نے 16 دسمبر 2015 کو شرح سود میں آدھے پوائنٹ کا اضافہ کردیا۔فینانشل ٹائمز کے مطابق  امریکی فیڈرل ریزرو  کے سربراہ جانیٹ یالین نے3 دسمبر 2015 کو اعلان کیا کہ، "امریکی برآمدات پر مضبوط ڈالر کے اثرات ایک وجہ ہے جس کی بنا پر فیڈرل ریزور نےبتدریج  مالیاتی پالیسی کو سخت کرنے کا لائحہ عمل اختیار کیا ہے"۔ یاد رہے کہ امریکہ میں  سودی منافع  کم ہو کر  تقریباً صفر کی سطح پر آگیا تھا یعنی یہ0.25 فیصد تھا۔ یہ 2008 کو امریکہ میں آنے والے معاشی بحران کے سبب تھا۔  سرمایہ دارانہ معیشت کے مطابق  اگر  سودی منافع  کم ہے  تو اس کا مطلب  ہے کہ بحران ابھی ختم نہیں ہوا اور معیشت سنبھل نہیں گئی: یہ کہ کساد بازاری ہے، مارکیٹ میں حرکت کم ہو گئی ہے اور خرید وفروخت ، سرمایہ کاری  اور کام شروع کرنے میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ کیونکہ سرمایہ دار کمائی میں  سودی منافع پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ شرح سود  میں اضافے سے  بینکوں اور کمپنیوں  کے منافع میں اضافہ ہو تا ہے اور لوگوں کو اس بات کی ترغیب ملتی ہے کہ وہ اپنا پیسہ بینکوں میں لائیں اور اس پر منافع کمائیں۔ایسا ہونے کی صورت میں یہ اشارہ ملتا ہے کہ امریکی معیشت  عالمی مالیاتی بحران کے چیلنجوں سے نمٹنے میں بڑی حدتک  کامیاب ہو گئی ہے۔

اور جیسے ہی شرح سود میں اضافے کا اعلان کیا گیا تو فوراً ہی تیل کی قیمتوں میں 3 فیصد کمی  ہوگئی۔شرح سود میں اضافہ  امریکی معیشت پر اعتماد کو بڑھاتا ہے اور یہ تاثر دیتا ہے کہ  اس نے مالیاتی بحران پر قابو پالیا ہے، اس طرح امریکہ اپنے عالمی سیاسی اثرو رسوخ میں اضافہ کرتا ہے ۔  امریکی سنٹرل بینک کی جانب سے شرح سود میں اضافے کے اعلان کے ساتھ ہی  امریکی اسٹاک مارکیٹ وال اسٹریٹ میں  حصص  کی قیمتوں میں1.28فیصد اضافہ ہوا ۔  اسی طرح اسٹنڈرڈ اینڈ پورس میں1.45فیصد اور ناسڈیک میں1.52فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا۔۔۔

5 ۔   یوں امریکہ نے ڈالر  کی قیمت بڑھانے  اور شرح سود میں اضافے کے لیے مناسب ماحول حاصل کرلیا ۔۔۔یاد رہے کہ شرح سود  میں اضافہ  کی وجہ سےسونے کو ذخیرہ کرنے کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں  کیونکہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ا س طرح  سے سونے کی قیمت میں کمی آتی ہے اور اس سے ان ممالک کو نقصان ہو تا ہے  جو ڈالر کی بجائے ریزور میں سونا جمع کر  نے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ بطور عالمی کرنسی کے ڈالر کی حفاظت کرے  ،  یہی عالمی تجارت کے لیے کرنسی رہے، سونے کی جگہ  اسی کو زرمبادلہ ( ریزرو) کے طور پر جمع کیا جائے، سونے کے ذریعے لین دین غیر منافع بخش ہو اور  اس کو زرمبادلہ(ریزرو) کے طور پر جمع کرنا  بے فائدہ ہو۔ وہ سونے کے نظام کی طرف لوٹنا نہیں چاہتا  اور نہ ہی دنیا کو اس نظام کی طرف جانے دیتا ہے کیونکہ اس میں امریکہ کا بڑا نقصان ہے۔  وہ اپنی کاغذی کرنسی  سے،جو کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ کچھ نہیں،  دنیا بھر کی دولت خریدتا ہے،  اپنی جنگی میکنزم اور باہر موجود اپنی فوج  پر خرچ کر تا ہے اور ممالک کی وفاداریاں خرید تا ہے  اور امداد کے نام  پر مال دیتا ہے ، دوسرے ممالک  کی معیشت پر ضرب لگاتا ہے اور اپنی معیشت کو  اس ڈالر کی بالادستی کی وجہ سے  تمام ممالک کی معیشتوں،عالمی مالیاتی اداروں اور عالمی منڈی پر بالادست رکھتا ہے۔

6 ۔ لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تیل کی قیمتوں میں کمی کا اہم سبب  کا تعلق  امریکہ کی داخلہ اور خارجہ پالیسی کے ساتھ ہے جس کا ہدف یہ ہے:

ا۔ ملک کے اندر شرح سود کو بڑھا یا جائے، کیونکہ یہ اب تقریباً اس کے لیے انتہائی اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ اس کا مقصد یہ دیکھانا ہے کہ امریکہ نے  مالیاتی بحران کے عوامل سے چھٹکارا پالیا ہے اور اس کی معیشت مضبوط ہے  تاکہ اس پر اعتماد میں اضافہ ہو اور ریاستوں پر اس کے سیاسی اثرو رسوخ میں اضافہ ہو۔

ب ۔ ڈالر پر اعتماد کو بحال کیا جائے، اس کے ساتھ مقابلے کی راہ روکی جائے اور اس کے لین دین کا دفاع کیا جائے  اور دنیا کے ممالک کو اسی کو عالمی تجارت کے لیے استعمال کرنے اور زرمبادلہ کے ذخائر کے طور پر اسی کو جمع کرنے پر مجبور کیا جائے، سونے پر اعتماد کو ٹھیس پہنچائی جائے اور ڈالر کی جگہ اس کو ذخیرہ کرنے کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ خاص کر چین اور روس کی  جو ڈالر کی بالادستی سے جان چھڑانے اور  اپنے ذخائر میں بڑی حد تک سونے پر اعتماد کرنا چاہتے ہیں۔

7 ۔ اس طرح  امریکہ عالمی معاشی صورت حال کو کنٹرول کر تا ہے  خاص کر زیادہ اثر رکھنے والی اشیاء جیسے تیل پر۔  یہ سب اس وجہ سے ہے کہ اس کی کرنسی ڈالر  ہی  تیل کی خریدو فروخت کا پیمانہ ہے۔۔۔ ڈالر میں لین دین   ،تیل کی قیمتوں  اور دوسری معدنیات اور تمام اہم اشیاءکا ڈالر میں تعین ہونا بلاواسطہ یا بلواسطہ امریکہ کی بین الاقوامی  بالادستی کی دلیل ہے۔ ان اشیاء کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ ڈالر اور شرح سود کی مناسبت سے ہوتا ہے جو امریکی سینٹرل بینک طے کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی معیشت کو نزلہ بھی ہو جائے  تو پوری دنیا کی معیشت بیمار ہو جاتی ہے۔ اس صورتحال میں جو چیز ضروری ہے وہ مقامی کرنسیوں کو  ڈالر سے مربوط کرنے کے سلسلے کو توڑنا ہے اور بطور ریزرو کے اس کو جمع کرنے کو ترک کرنا ہے۔  ساتھ ہی سونے اور چاندی پر اعتماد کرنا  اور ان دونوں کو لین دین کے لیے  اور خریدوفروخت،اجرت کا اندازہ لگانے کے لیے  رائج کرنے کے لیے بطور کرنسی کے ختیار کرنا  اور زرمبادلہ کے ذخائر کے طور پر جمع کرنا  ہے۔ یہ قدم   عظیم اسلامی خلافت کے علاوہ کوئی نہیں اٹھا سکتا  جس  کے لیے اللہ کی شریعت نے ہی  کوئی اور نہیں سونے اور چاندی کو کرنسی مقرر کی ہے۔ تب ہی ڈالر پھر وہی کاغذ کا ٹکڑا ثابت ہو گا جو کہ اس کی اصل حقیقت ہے

﴿إِنَّهُمْ يَرَوْنَهُ بَعِيدًا * وَنَرَاهُ قَرِيبًا﴾

" ان کو یہ دور نظر آرہا ہے اور ہم اس کو قریب دیکھتے ہیں"(المعارج:7-6)۔

12 ربیع الاول 1437ہجری

بمطابق23 دسمبر2015

Last modified onجمعرات, 29 دسمبر 2016 20:28

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک