الجمعة، 20 جمادى الأولى 1446| 2024/11/22
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

امریکہ کا افغانستان سے انخلاء پاکستان کی مدد کے بغیر ممکن نہیں

بسم الله الرحمن الرحيم

تحریر: خالد صلاح الدین
امریکہ کے لیے پاکستان کی سٹریٹیجک اہمیت ایشیا کے حوالے سے سے بہت زیادہ ہے اور یہ حقیقت واضح بھی ہے۔ ایشیا اور ایشیا پیسیفک کے لیے امریکی منصوبوں کےلیے انتہائی اہمیت رکھنے والے دو ممالک بھارت اور افغانستان کی سرحدیں بھی پاکستان سے ملتی ہیں۔امریکہ کی پاکستان ، افغانستان اور پورے یوریشیا کے لیے حکمت عملی پوری امت کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے ۔
وسطی ایشیا کے ممالک کی اپنے محل و وقوع کے حوالے سے بہت اہمیت ہے کیونکہ یہ چین اور روس کے درمیان واقع ہیں۔ اس کے علاوہ ان ممالک میں موجود تیل و گیس کے وسیع ذخائر بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ روس کے لیے ان ممالک کی یہ اہمیت ہے کہ وہ ان وسائل تک رسائی اور کنٹرول حاصل کر کے ان کی رسد(سپلائی) پر اپنی گرفت کو مزید مضبوط بنا سکتا ہے۔ اگر یہ وسائل اس کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ خطے میں مختلف معاملات پر اس کے حاوی ہونے کی صلاحیت متاثر ہوجائے گی۔ چین کے لیے بھی ان وسائل تک رسائی اپنی بہت بڑی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنےاور معاشی ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے ۔
یہ وہ جیو سٹریٹیجک معاملات ہیں جن کی بناء پر امریکہ اس خطے میں داخل ہونے کی شدید خواہش رکھتا ہے۔ ماضی میں امریکہ نے روسی جارحیت کو بنیاد بنا کر خطے میں اپنی مداخلت کے لیےپاکستان اور افغان مجاہدین کی حمائت کرنے کا جواز پیش کیا تھا۔ اس کے علاوہ یہ خیال بھی عام ہے کہ افغانستان سے روس کی واپسی کے بعد امریکہ بھی اچانک چلا گیا تھا اور پاکستان اور افغانستان کو تنہا چھوڑدیا گیا تھا۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ پاکستان ،آئی،ایس،آئی کے ذریعے امریکی خواہش کے مطابق اپنا کردار ادا کررہا تھا ۔ اس وقت خطے میں امریکہ کی اپنی موجودگی کی کوئی خاص ضرورت نہ تھی۔
لیکن خطے میں سیاسی اسلام کی مضبوط ہوتی پکار اور اس کے ساتھ ساتھ طالبان کا امریکی احکامات کو ماننے سے انکار کردینا اور 11/9کے واقع نے امریکہ کے لیے وہ بہانہ مہیا کردیا کہ وہ خطے میں بھر پور طریقے سے داخل ہوجائے۔
یقیناً امریکہ نے دس سال یہ جنگ اس لیے نہیں لڑی کہ وہ افغانستان کرپٹ جنگجو کمانڈروں یا آئی۔ایس۔آئی کے حوالے کردے کیونکہ وہ دونوں پر ہی بھروسہ نہیں کرتا۔ امریکہ خطے میں لمبے عرصے تک رہنا چاہتا ہے اور عراق اور دیگر مسلم ممالک میں اپنے اڈے بنانے کی پالیسی کو جاری و ساری رکھنا چاہتاہے۔ حالیہ عرصے میں افغانستان اور امریکہ کے درمیان جس سٹریٹیجک معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں اس کا بنیادی مقصد افغانستان میں امریکی اڈوں کا قیام اور عورتوں، بچوں اور بوڑھوں پر گولیاں چلانے والے امریکی فوجیوں کے لیےکسی بھی جرم سے متعلق سزا سے استثناء حاصل کرنا ہے۔ یہ دو مقاصد ابھی تک پورے نہیں ہوئے ہیں جبکہ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے امریکہ خطے میں موجود اپنے ایجنٹوں کے ساتھ مسلسل کام کررہا ہے۔ 9 مئی 2013 کو حامد کرزئی نے اعلان کیا کہ " امریکہ افغانستان میں نو اڈے قائم کرنا چاہتا ہے"۔ اس نے یہ بھی کہا کہ " امریکہ کو یہ اڈے دینے پر ہم رضا مند ہیں" اور مزید کہا کہ " ان مسائل پر امریکہ کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات ہوئے ہیں"(اے۔ایف۔پی)۔
14ستمبر 2013 کو پاکستانی سینیٹر مشاہد حسین نے اپنے چار روزہ دورہ کابل سے واپسی پر ایک بیان دیا جسے Xinhuanetنے رپورٹ کیا ۔ اس نے کہا کہ امریکہ اور نیٹو کی تقریباً 20ہزار افواج افغانستان میں موجود رہیں گی۔ اس نے وضاحت کی کہ افغانستان اور پاکستان میں تقریباً ایک لاکھ سے زائد امریکی نجی اہلکار سیکیوریٹی اور دوسرے معاملات دیکھ رہے ہیں۔ اور ان کی تعداد میں نیٹو افواج کے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
12ستمبر2013 کو ملٹری ٹائمز میں شائع ہونے والے مضمون میں جنرل جوزف ایف ڈینفورڈ ، جو افغانستان میں ایساف اور امریکی افواج کے کماندڑ ہیں نے کہا کہ " 2015 کے شروع میں امریکہ اور اتحادی افواج ایک نیا ، مختصرلیکن اہم مشن شروع کریں گے جس کا نام ریزولیوٹ سپورٹResolute) Support)ہوگا۔ اس میں اس بات پر توجہ دی جائے گی کہ افغانستان کے سیکیوریٹی کے اداروں میں ترقی کے عمل کو مکمل کیا جائے۔ امریکی فوجی،مشیر کی حیثیت سے افغانیوں کو منصوبہ بندی، بجٹنگ، مواصلات اور انٹیلی جنس کی مہارت اور صلاحیت بڑھانےمیں مدد فراہم کریں گے۔ پہلے کی نسبت کم فوجیوں سے امریکہ اور ہمارے اتحادی ان فوائد کو برقرار رکھ سکیں گے جنھیں بہت محنت سے حاصل کیا گیا ہے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ جو کچھ ہم نے پچھلے بارہ سالوں میں حاصل کیا ہے اس کو برقرار رکھا جائے۔ اگرچہ افغانیوں کو اب بھی کئی مشکلات کا سامنا ہےلیکن امریکہ سمجھتا ہے کہ وہ ایک اہم مقصد کی تکمیل کے لیے صحیح سمت میں بڑھ رہے ہیں۔ ہم ایک ایسے نتیجے کے لیے بہترین مدد فراہم کرسکتے ہیں جوخطےمیں ہماری مسلسل موجودگی کے ذریعے،افغان عوام اورافغان نیشنل سیکیوریٹی فورس کی حمائت کر کے،اصلاحات کے نفاذکےلیےافغان حکومت کااحتساب کر کےاورمسئلہ کےسیاسی حل تک پہنچنےمیں مددفراہم کرکے، ہمارے قومی مفاد ات کا تحفظ کرے گا"۔
جس مشن کو بہت مختصر کہا جارہا ہے اس میں بھی ایک بڑی تعداد ملوث ہو گی یعنی ایک لاکھ بیس ہزار فوجی، اور ان کی موجودگی امریکی مفادات کوتحفظ فراہم کرنے کے نام پردرست قرار دی جائے گا ۔
امریکہ کی جانب سے ان اڈوں کی فراہمی کا مطالبہ قدرتی اور اس کے اہداف سے مکمل مطابقت رکھتا ہے۔ امریکی اڈوں کی موجودگی امریکہ کو اس قابل بنائے گا کہ اگر اس کے کسی بھی فیصلے کو نافذ کرنے میں افغان حکومت ناکام ہوجائے یا وہ اس کے نفاذ میں دلچسپی نہ لے تو امریکہ اپنے فیصلوں کے نفاذ کے لیے اس پردباؤ ڈال سکے ۔لہذا امریکی انخلاء کا منصوبہ نہ صرف محض ایک نعرہ ہے بلکہ وہ عقلی منطق سے بھی متصادم ہے۔
امریکہ افغانستان میں اڈے قائم کرنا چاہتاہے لیکن امریکہ یہ بھی جانتا ہے کہ سیاسی لحاظ سے غیر مستحکم افغانستان اس کے سٹریٹیجک اہداف کی تکمیل میں روکاٹ کا باعث بن جائےگا۔ افغانستان میں استحکام وسطی ایشیا ئی ممالک میں داخل ہونے اوران کے قدرتی وسائل کو اپنے قابو میں کرنے کے لیے ضروری ہے۔ وسطی ایشیائی ممالک سمندر وں سے دور ہیں اور اس وجہ سے وہ تجارت کے لیے دوسرے ممالک پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔ مندرجہ ذیل تصویر ان سمتوں کا تعین کرتی ہے جن کی جانب ان ممالک سے نکلنے والی تجارتی شاہراہیں ہو سکتی ہیں ۔
امریکہ چاہتا کہ کہ ان وسائل کو دنیا تک پہنچانے کے لیے افغانستان اور پاکستان کا راستہ اختیار کیا جائے۔ یہاں سے سمندر تک پہنچنے کا سب سے مختصر رستہ افغانستان اور پاکستان سے ہی ممکن ہے۔ اس کے علاوہ عالمی معاشی بحران کے دوران اس قسم کا مختصر ترین راستہ ان وسائل کو دنیا تک پہنچانے پر آنے والے خرچے کو بھی مختصر ترین کردیتا ہے۔ روس کا راستہ اختیار کرنا مشکلات سے بھرپور ہے۔ مثال کے طور پر جنوری 2009 میں یوکرین کے ساتھ ایک تنازعہ میں روس نے گیس کی سپلائی مکمل طور پر بند کردی جس کے نتیجے میں یورپ کو دی جانے والی گیس میں 60فیصد کی کمی واقع ہو گئی تھی۔
اگر افغانستان میں استحکام قائم ہو جاتا ہے تو امریکہ وسطی ایشیائی ممالک کو آسانی سے افغانستان اور پاکستان کا راستہ اختیار کرنے پر راضی کرسکتا ہے۔ وسطی ایشیائی ممالک کے لیے اس میں یہ فائدہ ہے کہ اس طرح انھیں دو عالمی پاورز ، امریکہ اور چین کے ساتھ معاملات کرنے کا موقع حاصل ہوجائے گا جو کہ ایک منفرد سیاسی فائدہ ہے۔
امریکہ نے ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، بھارت(TAPI) پائپ لائن کے لیے بہت کام کیا ہے جبکہ اس منصوبے کے ساتھ ساتھ وہ ایران،پاکستان، بھارت(IPI) پائپ لائن کی مخالفت کررہا ہے۔ یہ دونوں پائپ لائنز بھارت کو توانائی فراہم کریں گی جیسا کہ درج ذیل تصویر میں بھی دیکھا یا گیا ہے لیکن TAPIزیادہ بہتر طریقے سے امریکی اہداف کو پورا کرسکے گی۔
اس کے علاوہ TAPIپائپ لائن کا منصوبہ ، اس کی تعمیر اور اس کو محفوظ رکھنا خطے میں امریکی افواج کی موجودگی کا ایک اچھا جواز بھی فراہم کرتی ہے۔
ان باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے جبکہ امریکہ اپنے ایجنٹ کرزئی کے ذریعے افغانستان میں اڈے بھی حاصل کر لے گا ، امریکہ یہ بات جانتا ہے کہ طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے بغیر افغانستان میں استحکام قائم نہیں کیا جاسکتا۔ امریکہ طالبان کو امن مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پاکستان کو ایک اہم مہرے کے طور پر دیکھتا ہے اور اس نے اپنے ایجنٹ کرزئی کو اسی سمت میں ہدایت دی ہے ۔ اپنے حالیہ دورہ پاکستان میں افغان صدر حامد کرزئی نے کہا کہ " ہم نے اس سلسلے میں بات کی ہے۔۔۔۔۔۔اس انفرادیت کے ساتھ کہ پاکستان کی حکومت جس طرح سے بھی اس کے لیے ممکن ہو ، افغانستان میں امن اور اس کے قیام کے لیے مواقعوں کی فراہمی یا طالبان اور افغان امن کونسل کے درمیان بات چیت کے لیے پلیٹ فارم کی فراہمی کے لیے مدد اور سہولت فراہم کرے گی"۔
یقینا امریکہ کا پاکستان پر انحصار بہت زیادہ ہے جیسا کہ امریکی چیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف مارٹن ڈیمسی نے 19جولائی2013کواکنامک ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہا کہ"ہمارے سٹریٹیجک اور قومی سلامتی کے اہداف اب بھی یہ ہیں کہ القائدہ کو شکست دی جائے اور اسے ختم کردیا جائے اور افغانستان اور پاکستان میں محفوظ پناہ گاہوں کو دوبارہ قائم ہونے سے روکا جائے۔ پاکستان کی مدد کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے"۔
امریکہ پاکستان کی مدد کے بغیر نہ تو القائدہ کو شکست دے سکتا ہے اور نہ ہی طالبان کو امن مذاکرات کی میز پر لاسکتا ہے۔ لہذااٖفغانستان میں فوجی و سیاسی حل کی کامیابی پاکستان کی مدد کے بغیر ممکن ہی نہیں۔
اٖفغانستان میں سیاسی استحکام کے ساتھ ہی وسطی ایشیائی ممالک کے توانائی کے وسائل افغانستان اور پاکستان کے ذریعے نکلنا شروع ہوجائیں گے۔ یہ توانائی بحیرہ عرب کراچی یا گوادر کے ذریعے اور بھارت ملتان کے راستے پہنچے گی۔ توانائی کے وسائل کی فراہمی کے ذریعے بھارت کو مضبوط کرنے کی کوشش چین کو گھیرنے کے امریکی منصوبے کا حصہ ہے اور یہ بھی پاکستان کے بغیر ممکن نہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے تا کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لایا جائے۔ لہذا مستحکم افغانستان کے لیے پاکستان کا کردار ایک کنجی کی حیثیت رکھتا ہے۔ وسطی ایشیائی ممالک سے توانائی کے وسائل کو افغانستان اور پاکستان کے راستے دنیا تک پہنچانے کے لیے ایک مستحکم افغانستان ضروری ہے۔ توانائی کے ان وسائل تک بھارت کو رسائی فراہم کر کے بھارت میں موجود توانائی کے شدید بحران کو ختم کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ یہ امریکہ کے اس منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت چین کے خلاف بھارت کو کھڑا کرنا مقصود ہے۔ لہذا یہ تمام صورتحال خطے میں پاکستان کو اہم ترین ریاست بنا دیتی ہے۔

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک