بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان اور افغانستان کے درمیان لڑائی ایک المیہ ہے جس کا حل صرف اسلام میں مضمر ہے
جانب سے دیے گئے بیانات اور جواز کے باوجود، یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ مسلمان، ایک ایسے وقت میں، آپس میں لڑ رہے ہیں، جب ہندو کشمیر پر اور یہودی فلسطین پر قابض ہیں۔ آئیے ہم سب قوم پرستی اور قبائلیت کے باطل بتوں کو ایک طرف رکھ کر، خود سے یہ سوال کریں کہ اس صورت حال میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے نتیجے میں تمام مومنوں کو کون سی چیز خوش کرے گی؟
پہلی بات: مسلمانوں کی طرف اٹھنے والی ہر تلوار کو میان میں ڈال دیا جائے، اور اس کا واضح اور کھلے عام اعلان کیا جائے، جب کہ کشمیر اور فلسطین کی آزادی کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی راہ میں جہاد کا اعلان کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: *«قَتْلُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ زَوَالِ الدُّنْيَا» "کسی مومن کو قتل کرنا اللہ کے نزدیک پوری دنیا کے خاتمے سے زیادہ سنگین ہے۔" [سنن نسائی]*۔ صرف اسلام نے اوس اور خزرج کے آپس میں لڑنے والے قبائل کو متحد کیا، یہاں تک کہ وہ انصار بن گئے جنہوں نے اسلام کے لیے نصرۃ (عسکری حمایت) فراہم کی۔ آج افسروں، سپاہیوں اور مجاہدین کے لیے، خواہ وہ پاکستان میں ہوں، افغانستان میں یا کہیں اور، اس سے بڑا کوئی اعزاز نہیں ہے۔
دوسری بات: تمام حربی کافر ریاستوں سے، خواہ وہ ہندوستان ہو یا امریکہ، تمام اتحاد ختم کر دیے جائیں، اور ایک خلافت راشدہ کا اعلان کیا جائے تاکہ پوری مسلم دنیا کو مرحلہ وار متحد کیا جا سکے، جس کا آغاز پاکستان اور افغانستان سے ہو، اور بقیہ مسلم ممالک تک یہ سلسلہ بڑھے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا﴾
"وہ لوگ جو مومنوں کے بجائے کافروں کو دوست بناتے ہیں، کیا وہ ان کے پاس عزت تلاش کرتے ہیں؟ تو بلاشبہ تمام عزت تو اللہ ہی کے لیے ہے۔" [سورۃ النساء 4:139]۔* اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی تائید کے ساتھ، دو ارب مسلمانوں کی ایک امت ہر ظالم پر غالب آ سکتی ہے۔
تیسری بات: یہ اعلان کیا جائے کہ مسلمانوں کے تمام معاملات، اور ماضی و حال کی شکایات اور معاوضوں کے مطالبات، خلیفہ کے ذریعہ نافذ کیے جانے والے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے شرعی قانون کے مطابق طے کیے جائیں گے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ﴾
"اور اگر تم کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو، اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر یقین رکھتے ہو۔" [سورۃ النساء 4:59]۔
اپنے معاملات کو مغربی لبرل سیکولر قانون کے سپرد کرنا ہمارے تنازعات اور زخموں کا سبب ہے، نہ کہ حل، جیسا کہ پچھلے سو سال نے اس کی تصدیق کی ہے۔
چوتھی بات: ان تمام غداروں کا محاصرہ کیا جائے اور انہیں قید کیا جائے جنہوں نے ٹرمپ کے ساتھ اپنے اتحاد کے ذریعے خطے کو تباہی سے دوچار کیا، اور پھر ان پر غداری اور شریعت کی خلاف ورزی کے مقدمے چلائے جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إِذَا ضُيِّعَتِ الأَمَانَةُ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ» "جب امانت ضائع کر دی جائے تو پھر قیامت کا انتظار کرو۔"* پوچھا گیا: "اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! امانت کس طرح ضائع ہو گی؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إِذَا أُسْنِدَ الأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ، فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ» "جب امور کی ذمہ داری ان لوگوں کو سونپ دی جائے جو اس کے اہل نہیں ہیں، تو پھر قیامت کا انتظار کرو۔" [صحیح بخاری]۔ ہمارے دور کے سب سے بڑے مجرم وہ ہیں جو حملہ آور دشمنوں کا ساتھ دیتے ہیں اور ان کے قوانین کے ذریعے حکمرانی کرتے ہیں۔ وہ محمد ﷺ کی امت پر حکمرانی کے کیسے حقدار ہو سکتے ہیں؟
پانچویں بات: ایک سیاسی تحریک کے ذریعے پوری دنیا کی قیادت کی جائے تاکہ اس فاسد امریکی عالمی نظام کو ختم کیا جا سکے جس نے ایک صدی سے زیادہ عرصے سے استعماریت، قوم پرستی اور قبائلیت کی بنیاد پر مسلسل جنگوں کو جنم دیا ہے۔ یہ خلافت راشدہ ہی ہو گی جو دینِ حق کی دعوت اور اس کی راہ میں حائل ظالم حکمرانوں کو ہٹانے کے لیے جہاد کی بنیاد پر ایک نیا عالمی نظام قائم کرے گی۔ اللہ (سبحانہ و تعالیٰ) نے فرمایا:
﴿كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ﴾
"تم بہترین امت ہو جو تمام انسانوں کے لیے نکالی گئی ہو، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔" [سورۃ آل عمران 3:110]
مصعب عمیر، ولایہ پاکستان
Latest from
- اے مسلمانو! پہل کرو، اور اپنے معاملات کو دشمنوں کے ہاتھ میں نہ دو
- فکر کو اس کے علمبرداروں سے جوڑنا ہی حقیقی تبدیلی کا راستہ ہے
- امت ایک زندہ حقیقت ہے جو کبھی فنانہیں ہوتی … اور ہر نئی بیداری سے قبل ایک کٹھن مرحلہ لازمی آتا ہے
- یورپ کی خودمختاری کے امکانات اور اس میں حائل ہونے والی مشکلات
- سیاسی فہم اور پالیسی سازی کے لئے درکار مطلوبہ شرائط (حصہ-4) اقوام کی تاریخ، ان کی صفات، باہمی اتحاد، اور تنازعات