بسم الله الرحمن الرحيم
امت کو اپنے مقدسات کی حفاظت کے لیے خلافت کی ضرورت ہے نہ کہ دفاعی معاہدوں کی جن کا مقصد ایجنٹ حکمرانوں کی حفاظت ہو۔
خبر:
پاکستان اور سعودی عرب نے ایک تاریخی باہمی دفاعی معاہدہ کیا ہے جس کے تحت کسی ایک ریاست کے خلاف جارحیت کو دونوں ممالک پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ 17 ستمبر 2025 بروز بدھ کو ریاض کے ال یمامہ پیلس میں وزیراعظم شہباز شریف اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ’اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے‘ پر دستخط کیے۔[1]
تبصرہ:
9 ستمبر 2025 کو قطر پر یہودی وجود کے حملے کے تناظر میں، جس میں حماس کی اعلیٰ سیاسی قیادت کو نشانہ بنایا گیا تھا، یہ باہمی دفاعی معاہدہ یہودی وجود کی جارحیت کے خلاف ایک ردعمل معلوم ہوتا ہے۔ پاکستان میں حکومتی ترجمان اسے ایک سنگِ میل اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کی کامیابی کی علامت قرار دے رہے ہیں۔ نیز حکومت اسے اس طرح پیش کر رہی ہے جیسے انہیں مکہ اور مدینہ کے مقدس مقامات کی حفاظت کی ذمہ داری ملنے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ کوئی نئی بات نہیں۔ دونوں ریاستوں کے درمیان دفاعی تعاون 1967 سے شروع ہوا اور 1979 میں مسجد الحرام پر قبضے کے بعد مزید گہرا ہوا، جب پاکستانی اسپیشل فورسز نے سعودی فوجیوں کو مسجد الحرام پر دوبارہ قبضہ حاصل کرنے میں مدد کی۔ 1982 میں دونوں فریقوں نے دو طرفہ سیکورٹی تعاون کے معاہدے کے ذریعے سیکورٹی تعلقات کو قانونی حیثیت دی، جس کے تحت سعودی فوجیوں کو پاکستانی فوجی ماہرین کے ذریعے تربیت، مشاورتی معاونت اور پاکستانی فوجیوں کو سعودی سرزمین پر تعینات کیا گیا۔ مختلف وقتوں میں تقریباً 20,000 پاکستانی فوجی سعودی عرب میں تعینات رہے، اور سعودی عرب پاکستانی اسلحے کا ایک اہم خریدار بھی بن گیا۔
اسلامی ملٹری کاؤنٹر ٹیررازم کولیشن (IMCTC)، مسلم دنیا کے 43 رکن ممالک کے درمیان ایک انسدادِ دہشت گردی کا فوجی اتحاد ہے، جس کا سب سے پہلے اعلان سعودی عرب کے وزیر دفاع محمد بن سلمان آل سعود (جو کہ اب ولی عہد ہیں) نے 15 دسمبر 2015 کو کیا تھا۔ 6 جنوری 2017 کو پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو اس فوجی اتحاد کا پہلا کمانڈر جنرل بھی نامزد کیا گیا تھا، اور آج بھی اس فورس کی کمان ان کے ہاتھ میں ہے۔ اس اتحاد کا سعودی عرب کے شہر ریاض میں ایک مشترکہ آپریشن سینٹر ہے۔ لیکن یہ نام نہاد فوجی اتحاد کبھی بھی فلسطین اور خطے کے مسلمانوں کے خلاف یہودی وجود کی دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے استعمال نہیں ہوا۔ اب بھی جب قطر پر یہودی وجود نے حملہ کیا تو اس فوجی اتحاد کی جانب سے کوئی فوجی مشقیں تک شروع نہیں کی گئیں۔
جہاں تک پاکستان کے حکمرانوں کی جانب سے حرمین شریفین کی حفاظت کا موقع ملنے پر جو خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے، اس پر حیرت ہوتی ہے کہ وہ اسلام کے تیسرے مقدس ترین مقام اور قبلۂ اول، مسجد اقصیٰ کو بھی آزاد کرانے کے لیے اتنے پرجوش کیوں نہیں ہیں، جو کہ 1967 سے قبضے میں ہے اور آئے دن یہودی مسجد اور اس کے اردگرد فساد مچاتے رہتے ہیں اور اس کی بے حرمتی کرتے رہتے ہیں۔ البتہ الحمد للہ مسجد الحرام اور مسجد نبوی یہودیوں کے قبضے میں نہیں ہیں۔
7 اکتوبر 2023 سے پاکستان کے مسلمان اپنی مسلح افواج سے مسلسل یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ غزہ کے مسلمانوں کی حمایت میں، مسجد الاقصیٰ کی آزادی اور یہودی وجود کو مٹانے کے لیے متحرک ہو جائیں، لیکن ان کے مطالبے کو ہمیشہ پاکستان کے دو صوبے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی اندرونی بگڑتی ہوئی صورتِ حال کا بہانہ بنا کر مسترد کر دیا جاتا ہے، کیونکہ یہ دو صوبے اندرونی محاذ پر خطرہ ہیں، جبکہ بھارت کی صورت میں بیرونی خطرہ بدستور موجود ہے۔ حالانکہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ان دونوں صوبوں میں نہ تو شورش ختم ہوئی ہے بلکہ مزید بڑھی ہے اور نہ ہی بھارتی خطرہ کم ہوا ہے بلکہ بھارت پاکستان کے خلاف آپریشن سندور دوبارہ شروع کرنے کے لیے مناسب وقت کا انتظار کر رہا ہے۔ تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ متعدد محاذوں پر لڑنے کی صلاحیت کا کبھی کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا، بلکہ مسئلہ ہمیشہ وہی ہوتا ہے جس کا امریکی ورلڈ آرڈر پاکستان سے مطالبہ کرتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے سیکیورٹی انتظامات میں پاکستان کے کردار سے امریکا کو فائدہ پہنچے گا، اس لیے ٹرمپ انتظامیہ نے سعودی عرب اور پاکستان کو ایسے دفاعی معاہدے پر دستخط کرنے کی اجازت دی ہے، کیونکہ یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ دونوں ممالک کی غلام قیادت خطے کے مسلمانوں کے مفادات کے پیش نظر اپنے طور پر کوئی ایسا اسٹریٹجک قدم اٹھا سکتی ہے۔
سیاست دانوں اور حکمرانوں کی طرف سے پیش کیے گئے مسلم نیٹو جیسے خیالات غزہ میں اپنے بھائیوں اور بہنوں کی مدد کرنے میں مسلم حکمرانوں کی بے عملی پر امت کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوششیں ہیں۔ مسلم حکمرانوں کے درمیان باہمی دفاعی معاہدے ان کے اقتدار کو محفوظ بنانے کی کوشش سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ شرمناک بات ہے کہ مسلم حکمران اپنی کرسی بچانے کے لیے متحد ہو سکتے ہیں لیکن فلسطین اور غزہ کو آزاد کرانے کے لیے نہیں۔ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان باہمی دفاعی معاہدوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ یہ شراکت داری امریکہ اور یہودی اتحاد کے خلاف کبھی بھی فعال نہیں ہوگی۔
مسلمانوں کے درمیان وحدت کی بنیاد اسلامی عقیدہ ہونا چاہیے۔ امت مسلمہ کی نجات وحدت میں مضمر ہے اور امت کو متحد کرنے کا واحد طریقہ نبوت کے طریقے پر خلافت کا قیام ہے۔ خلافت کے قیام سے کم کوئی چیز ہمیشہ دھوکہ ہی رہے گی، جس طرح او آئی سی اور عرب لیگ کا قیام ایک دھوکہ تھا۔ اسلام ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم ایک واحد حکمران یعنی خلیفہ کے تحت ایک امت کی حیثیت سے رہیں نہ کہ لیگ آف نیشنز کی صورت میں۔
(اِنَّ هٰذِهِ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَاحِدَةً وَّاَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْنِ)
"یہ لوگ تمہارے گروہ کے ہیں جو ایک ہی امت ہے، اور میں تمہارا رب ہوں پھر میری ہی عبادت کرو"۔ (سورۃ الانبیاء:92)
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے تحریر کیا گیا۔
شہزاد شیخ، ولایہ پاکستان
حوالہ:
https://www.dawn.com/news/1942814/riyadh-islamabad-defence-becomes-a-shared-concern
Latest from
- یورپ کی خودمختاری کے امکانات اور اس میں حائل ہونے والی مشکلات
- سیاسی فہم اور پالیسی سازی کے لئے درکار مطلوبہ شرائط (حصہ-4) اقوام کی تاریخ، ان کی صفات، باہمی اتحاد، اور تنازعات
- استنبول اعلامیہ اور سابقہ فتووں میں بہت بڑا فرق!
- پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی اسٹریٹجک معاہدہ
- ٹرمپ، جو غزہ اور پورے فلسطین میں یہودی وجود کے ننگے جرائم کا بنیادی حامی ہے، مسلم ممالک کے حکمرانوں کے ایک گروہ کے سامنے غزہ کے کھنڈرات سے متعلق حل صرف پیش نہیں کر رہا بلکہ اسے تھوپ رہا ہے!!