الأربعاء، 10 ذو القعدة 1446| 2025/05/07
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

ظالمین کے زوال کا سال اور الہٰی اختیار کی شرائط

 

(ترجمہ)

 

 

8 دسمبر 2024 کو شام میں ظالم بشار الاسد کا زوال اور بیرون ملک فرار ہونا ایک عظیم واقعہ ہے۔ یہ فتح اور الہٰی اختیار کے ربانی قوانین کی روشنی میں غور و فکر کا تقاضا کرتا ہے۔

 

 

صرف گیارہ دن کی فوجی کارروائی بشار، اس کی فوج اور اس کی تمام وفادار ملیشیا کے خاتمے کے لیے کافی ثابت ہوئی۔ دریں اثنا، امریکہ اور روس جیسی عالمی طاقتیں حیرت زدہ رہ گئیں اور اپنے ایجنٹوں کو بچانے یا ان کے زوال کو روکنے سے قاصر رہیں۔ انہیں نئی حقیقت اور نئی انتظامیہ کو تسلیم کرنے پر مجبور ہونا پڑا، جو کہ بشار جیسے مجرم کے زوال کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی اور سلامتی کے خلا کو پر کرنے کے لیے تشکیل دی گئی تھی۔ 

 

 

29 جنوری 2025 کو فوجی آپریشنز کے کمانڈر احمد الشرع نے، جسے عبوری دور کا صدر مقرر کیا گیا تھا، دمشق میں اقتدار سنبھالا۔ انہوں نے اقتدار اور حکومت کے عہدوں پر فائز ہونے کے لیے حیات تحریر الشام کے کئی سابق رہنماؤں کی مدد حاصل کی۔ 

 

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ شام کی آزادی (تحریر) کی جنگ ایک عظیم الہٰی عطیہ تھی، خاص طور پر اہل شام کے لیے، جنہیں ظلم سے نجات ملی، اور ان کے لیے جنہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اقتدار بخشا تاکہ وہ ان کی اہلیت اور شریعت کی شرائط کے مطابق اختیار کی صلاحیت کو آزمائے۔ 

 

 

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:

 

﴿قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾

"کہو کہ  اے اللہ اے بادشاہی کے مالک تو جس کو چاہے بادشاہی بخشے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور جس کو چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کرے ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے اور بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے" (سورة آل عمران:26)۔  

 

 

حضرت موسیٰؑ اور بنی اسرائیل کی فرعون کے ساتھ کہانی میں ہم اختیار کی تبدیلی سے متعلق الٰہی قانون اور اس کے قائم رہنے کی شرائط کو واضح طور پر دیکھتے ہیں۔ سورة الاعراف میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قول کا ذکر ہے:

 

﴿قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ اسْتَعِينُوا بِاللهِ وَاصْبِرُوا إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ يُورِثُهَا مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ﴾

 

"موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا: اللہ سے مدد طلب کرو اور صبر کرو ۔بیشک زمین کا مالک اللہ ہے، وہ اپنے بندوں میں جسے چاہتا ہے وارث بنادیتا ہے اور اچھا انجام پرہیزگاروں کیلئے ہی ہے" (سورة الاعراف:128)۔ 

 

 

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو فرعون اور اس کے حواریوں کے مظالم پر صبر کرنے کی تلقین کی، جو ان کے بیٹوں کو قتل کرتے اور عورتوں کو قید کرتے تھے۔ یہ مظالم حضرت موسیٰؑ کی دعوت اور فرعون سے ٹکراؤ کے بعد مزید شدت اختیار کر گئے۔ ان کی قوم نے کہا:

 

﴿قَالُوا أُوذِينَا مِن قَبْلِ أَن تَأْتِيَنَا وَمِن بَعْدِ مَا جِئْتَنَا﴾

"وہ بولے کہ تمہارے آنے سے پہلے بھی ہم کو اذیتیں پہنچتی رہیں اور آنے کے بعد بھی" (سورة الاعراف: 129)۔

 

 

تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا:

 

﴿عَسَى رَبُّكُمْ أَن يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ﴾

"موسیٰ نے کہا کہ قریب ہے کہ تمہارا پروردگار تمہارے دشمن کو ہلاک کردے اور اس کی جگہ تمہیں زمین میں خلیفہ بنائے پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو" (سورة الاعراف: 129)۔

 

 

جی ہاں، حضرت موسیٰؑ نے فرعون کی ہلاکت کی امید دلائی، مگر یہ صبر، اللہ سے مدد طلب کرنے اور اُس کی ہدایت پر عمل کرنے کے بعد ہی ممکن ہوا۔ پھر حضرت موسیٰؑ کو اللہ کا حکم ملا کہ وہ اپنی قوم کو لے کر سمندر کی طرف روانہ ہوں۔ وہاں فرعون اور اس کا لشکر غرق کر دیے گئے، جبکہ حضرت موسیٰؑ اور ان کے مؤمن ساتھیوں کو نجات عطا ہوئی۔

 

 

جی ہاں، فرعون، ہامان اور ان کی فوج تباہ کر دیے گئے، اور ان کا وہ نظام، جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے خلاف کھڑا تھا، نیست و نابود ہو گیا۔ مومنوں اور اللہ کے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے مصر واپس آنے کا راستہ ہموار ہو گیا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انہیں اقتدار بخشا، زمین ان کو بخش دی گئی، اور انہیں حکمران بنایا تاکہ وہ اللہ کی شریعت کے مطابق حکومت کریں اور اس کے بندوں میں عدل قائم کریں۔ 

 

 

لیکن بنی اسرائیل نے اپنے دشمن کی ہلاکت اور زمین میں اقتدار ملنے کے باوجود، واپسی کے سفر میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا شکر ادا نہ کیا۔ بلکہ، جیسے ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر اپنے رب سے ملنے گئے، انہوں نے بچھڑے کی پوجا شروع کر دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان سے ناراض ہو گیا اور انہیں زمین میں سرگرداں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:

 

﴿أَرْبَعِينَ سَنَةً يَتِيهُونَ فِي الأَرْضِ﴾ "پس چالیس سال تک وہ زمین ان پر حرام ہے" (سورة المائدہ:26)۔ 

 

 

اس طرح، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان سے اقتدار چھین لیا اور انہیں تباہی، تقسیم اور منتشر ہونے کی سزا دی۔ 

 

 

یہ نئی شامی انتظامیہ کے رہنماؤں کے لیے ایک اہم سبق ہے۔ انہوں نے جو عارضی فتح حاصل کی ہے، وہ مشروط ہے۔ اسے مستقل اختیار (اقتدار) میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ اس کی شرائط پوری نہ کی جائیں۔ یہ شرائط یہ ہیں کہ حاکمیت صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لیے ہے، وہ اللہ کی شریعت کے مطابق حکومت کریں، اور نبوت کے نقش قدم پر ایک خلافت راشدہ قائم کریں، جس میں خلیفہ کو کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق حکومت کرنے کی بیعت دی جائے۔ 

 

 

آج ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں، وہ دراصل بشار کے پرانے نظام کی ہی ایک نئی شکل ہے۔ یہ درحقیقت ایک انسانی ساختہ آئین کی طرف واپسی ہے۔ ریاست کو "سیرین ریپبلک" کا نام دیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر، یہ ایک پسپائی ہے جو ناانصافی کو دوبارہ جنم دے رہی ہے اور انقلابیوں کی قربانیوں کو ضائع کر رہی ہے، بالکل ویسے ہی جیسے بنی اسرائیل نے فرعون کے ظلم سے نجات پانے کے بعد بچھڑے کی پوجا کر کے اپنی امانت سے غداری کی تھی۔

 

 

اختیار (اقتدار) ایک الہٰی عطیہ بھی ہے اور امتحان بھی۔ جو شخص تخت پر بیٹھے گا، اسے امانت کا حق ادا کرنا ہوگا، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم اور عدل کو قائم رکھنا ہوگا۔ اگر وہ ایسا کرے گا، تو اللہ اس کے قدم مضبوط کرے گا اور اس کے لیے فتح کے دروازے کھولے گا۔ یا وہ اپنے پیشروؤں کی غلطیوں کو دہرائے گا اور ناکامی و تباہی کا مزہ چکھے گا۔ موقع یہاں ہے، اور مرحلہ نازک ہے۔ یا تو حضرت موسیٰؑ کے راستے پر چل کر دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کریں، یا بنی اسرائیل کی غلطیوں اور گناہوں کو دہرا کر دنیا و آخرت میں ذلت اور خسارے کا سامنا کریں!

 

 

استاد احمد السورانی

 

Last modified onمنگل, 06 مئی 2025 21:39

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک