بسم الله الرحمن الرحيم
اردن کا جابر "بادشاہ" مسرت و شادمانی کے ساتھ بابرکت سرزمین کی سودابازی میں شریک ہو رہا ہے
اردن کا جابربادشاہ حال ہی میں ٹرمپ کے حکم پر اپنے محل سے نکلا، بے تابی سے وائٹ ہاؤس روانہ ہوا تاکہ فلسطین کی فروخت میں اپنا کردار ادا کر سکے۔
"بادشاہ" نے صرف گزشتہ ہفتے، 5 فروری 2025 ہی کو کہا تھا کہ فلسطینیوں کی اردن ہجرت ایک "سرخ لکیر" ہے، اور افواہیں تھیں کہ اس سرخ لکیر کو عبور کرنے سے اردن "اسرائیل" کے خلاف جنگ کا اعلان کر سکتا ہے۔ یہ دعویٰ اتنا ہی سچا ثابت ہوا جتنا کہ گزشتہ سال السیسی کا "رفح" کو مصر کی سرخ لکیر قرار دینے کا اعلان۔
وائٹ ہاؤس کے دورے میں، اردن کا "بادشاہ" خاموشی اور فرمانبرداری سے ٹرمپ کے پہلو میں بیٹھا رہا، جب امریکی صدر نے فلسطین میں نسلی صفائی کے اپنے منصوبے کا اعادہ کر رہا تھااور کہا کہ: "ہمیں کچھ خریدنے کی ضرورت نہیں۔ ہم غزہ حاصل کر لیں گے۔ ہمیں خریدنے کی ضرورت نہیں، وہاں کچھ خریدنے کو نہیں۔ ہم غزہ لیں گے، اسے اپنے پاس رکھیں گے، اس کی حفاظت کریں گے... یہ مشرق وسطیٰ کے لوگوں کے لیے ہوگا، لیکن میرا خیال ہے کہ یہ ایک ہیرے کی مانند ہوگا"۔
ہم اردن کے "بادشاہ" کی کچھ "تعریف" کریں گے کہ وہ قدرے "سنجیدہ" نظر آنے کی ایکٹنگ میں کامیاب رہا۔ اس نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ مصر اور دیگر عرب حکمران ایک اور کانفرنس کے لیے جمع ہوں گے، جہاں ایسا منصوبہ پیش کیا جائے گا جو "امریکہ کے بہترین مفادات" کے ساتھ ساتھ "خطے کے عوام، خصوصاً اردنی عوام" کو بھی مدنظر رکھے گا۔
اس نے بغیر کسی طنز کے کہا: "امریکہ کے بہترین مفادات"، گویا کہ کسی بھی قوم کے مفادات امریکی سامراجیت کے ساتھ مل کر رہ بھی سکتے ہیں۔
یہ وہی "بادشاہ" ہے جو چند لمحے پہلے ٹرمپ کے ساتھ کھڑا، کندھے سے کندھا ملائے مسکراتے ہوئے تصویر کھنچوا رہا تھا۔ وہ مسرت اور شادمانی سے بھرا چہرا، جو بابرکت سرزمین کی فروخت کو مزید آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے بے قرار تھا۔
یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ٹرمپ کی اردن کی امداد روکنے کی دھمکیاں کسی حقیقی اختلاف کی علامت ہیں، حقیقت یہ ہے کہ اردن اور امریکہ کے تعلقات یکطرفہ ہیں؛ جن سے امریکہ اور "اسرائیل" کو بے حد فائدہ پہنچتا ہے، جبکہ مسلم امت کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ اردن امریکی اڈوں کا میزبان ہے، "اسرائیل" کی سلامتی کو یقینی بناتا ہے اور "اسرائیلی" ناقابل شکست ہونے کا جھوٹا تاثر پھیلانے میں مدد کرتا ہے، حتیٰ کہ ایران کے جانب سے بھیجے گئے بچوں کے کھلونے نما چیزوں کو مار گرانے میں پیش پیش رہتا ہے۔
"اسرائیلی" فوج، جو تمام افواج میں سب سے زیادہ ذلیل ہے، فلسطین کے بہادر مزاحمت کاروں کو شکست نہ دے سکی، جو محض دیسی ساختہ ہتھیاروں اور قلیل تعداد میں لڑتے ہیں۔ اگر شام، اردن یا مصر کی کوئی مسلم فوج آگے بڑھے تو "اسرائیل" کا وجود ختم ہو جائے گا۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتے ہیں:
﴿لَا يُقَٰتِلُونَكُمۡ جَمِيعًا إِلَّا فِي قُرٗى مُّحَصَّنَةٍ أَوۡ مِن وَرَآءِ جُدُرِۭۚ بَأۡسُهُم بَيۡنَهُمۡ شَدِيدٞۚ تَحۡسَبُهُمۡ جَمِيعٗا وَقُلُوبُهُمۡ شَتَّىٰۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمۡ قَوۡمٞ لَّا يَعۡقِلُونَ﴾
"وہ (کفار) تم سے کھلے میدان میں نہیں لڑیں گے، مگر قلعہ بند بستیوں میں یا دیواروں کے پیچھے سے۔ ان کے آپس کے جھگڑے بہت سخت ہیں۔ تم انہیں ایک سمجھتے ہو حالانکہ ان کے دل ایک دوسرے سے پھٹے ہوئے ہیں۔ یہ اس لیے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو عقل نہیں رکھتے" [سورۃ الحشر-59:14]۔
"اسرائیل "کے نئے آرمی چیف، ایال زمیر کے حالیہ اعترافات "اسرائیلی "فوج (IDF) کی کمزوری کو ظاہر کرتے ہیں: “سرکاری اسرائیلی فوجی اعداد و شمار کے مطابق، 7 اکتوبر 2023 کو غزہ میں جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک 844 اسرائیلی افسران اور فوجی مارے جا چکے ہیں اور تقریباً 5696 زخمی ہوئے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں میں تقریباً 1200 اسرائیلی مارے گئے، جن میں تقریباً 400 فوجی شامل ہیں۔ زمیر نے بتایا کہ 7 اکتوبر سے اب تک کم از کم 5942 رجسٹرڈ ‘متاثرہ خاندان’ ہیں، جن میں کچھ خاندانوں کے ایک سے زیادہ افراد بھی جنگ میں مارے گئے ہیں۔ اس نے مزید کہا کہ 15000 سے زیادہ فوجی جسمانی اور ذہنی زخموں میں مبتلا ہیں اور انہیں بحالی (rehabilitation) کے نظام میں شامل کیا جا چکا ہے”۔ (ماخذ::https://www.newarab.com/news/israeli-new-army-chief-admits-gaza-losses-higher-reported)
جبکہ ٹرمپ اور اس کے فرمانبردار عرب حکمرانوں نے غزہ جنگ بندی معاہدے کو اہلِ غزہ کے لیے راحت کے لمحے کے طور پر سراہا، یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہ جنگ بندی اسرائیل کو صرف یہ موقع فراہم کرنے کے لیے تھی کہ وہ دوبارہ منظم ہو کر مغربی کنارے پر حملہ آور ہو، جس میں فلسطینی اتھارٹی کی مدد شامل تھی۔
ظالم عرب حکمران اپنے امریکی آقاؤں کے حکم پر صرف ایسے معاہدے کرواتے ہیں جو صیہونی قبضے کے حق میں ہوں۔ وہ اپنی افواج کو مبارک سرزمین کی آزادی کے لیے بھیجنے کے بجائے اسرائیل کو سبزیاں، تیل، سفارتی تحفظ، دبئی میں تعطیلات، فوجی تعاون اور مزید معمول کے تعلقات کا وعدہ فراہم کرتے ہیں۔
یوں، جب ٹرمپ فلسطین کی نسل کشی کے منصوبے پر مزید زور دے رہا ہے، تو عرب حکمران صرف دھوکہ دہی کے ڈرامے میں مصروف ہیں تاکہ اپنی عوام کو فریب دے سکیں، کیونکہ وہ بغاوتوں سے خوفزدہ ہیں۔ وہی بغاوتیں جنہوں نے بشار الاسد اور شیخ حسینہ کو شکست اور ذلت کے ساتھ فرار ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔
ہم اردن کے بہادر مسلمانوں کو ترغیب دیتے ہیں کہ وہ اس ظالم کو ہٹانے کے لیے جدوجہد کریں اور اسلام کے پرچم کو بلند کریں۔ “آپریشن اردن فلڈ”، جو شہید عامر قواس اور شہید حسام ابو غزاله کی قیادت میں کیا گیا، اردن کے مردانِ مجاہد، خاص طور پر اردنی مسلح افواج کے مخلص سپاہیوں کے لیے فخر اور حوصلے کا ذریعہ ہے۔ اس آپریشن نے یہ بھی واضح کر دیا کہ صیہونی وجود کو اکھاڑ پھینکنے کا راستہ “بادشاہ” کی فرمانبرداری سے نہیں گزرتا، جو وفاداری سے یہودی قبضے کی حفاظت کرتا ہے۔
تمہارا “بادشاہ” محض ایک کمزور رکاوٹ ہے؛ اس کے خدشات کو سچ ثابت کرو اور اسے ہٹا دو۔ الاقصیٰ اس کے لیے بیچنے کی چیز نہیں۔
اردن کے سپاہیو، تم کب عامر اور حسام کی پکار کا جواب دو گے؟ مبارک سرزمینِ فلسطین تمہیں پکار رہی ہے کہ تم اپنا فرض ادا کرو اور اسے آزاد کراؤ۔ امریکی اور صیہونی قبضے کو خطے سے نکالو اور مسلم سرزمینوں کو ایک واحد خلافت کے تحت متحد کرو۔
اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا:
﴿انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ﴾
“اے ایمان والو! نکلو، خواہ تم ہلکے ہو یا بھاری، اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرو، یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو"[سورۃ التوبہ-9:41]۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے تحریر کردہ
يونس مصعب، ولایہ پاکستان