بسم الله الرحمن الرحيم
فلسطینی عوام، اتھارٹی کی سندان اور قبضے کے ہتھوڑے کے درمیان
(ترجمہ)
تحریر: استاد احمد الصرانی
یہودی وجود نے 21 جنوری 2025، منگل، کو جنین شہر، اس کے پناہ گزین کیمپ اور گرد و نواح میں ایک بڑا فوجی آپریشن شروع کیا۔ آپریشن کا اعلان کردہ مقصد "دہشت گردی کی سرگرمیوں کو ناکام بنانا" تھا۔ یہودی وجود نے اس آپریشن کا نام "آہنی دیوار" رکھا، جو 2002 میں مغربی کنارے میں کیے گئے ایک بڑے آپریشن کی یاد دلاتا ہے، جسے اس وقت "حفاظتی ڈھال" کہا گیا تھا۔ یہ "آہنی دیوار" آپریشن دو سال سے بھی کم عرصے میں جنین میں یہودی فوج کی تیسری بڑی دراندازی ہے۔ اپنے ابتدائی گھنٹوں میں، آپریشن کے نتیجے میں دس جنگجو شہید اور چالیس دیگر زخمی ہوئے، کیونکہ مجرم یہودی فوج نے گھروں اور گاڑیوں پر بمباری کے لیے ڈرون کا استعمال کیا۔ اس نے مکمل محاصرہ کیا، درجنوں افراد کو گرفتار کیا، ہزاروں باشندوں کو فرار ہونے پر مجبور کیا، انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیا اور درجنوں گھروں کو مسمار کر دیا۔
یہودی وجود کی فوج، جس کے فلسطینی عوام کے خلاف جرائم کبھی ختم نہیں ہوتے، اور اس کے خون کی پیاس کبھی نہیں بجھتی، کی جانب سے بڑے پیمانے پر کیے جانے والا یہ آپریشن، خاص طور پر اپنے وقت اور ارد گرد کے حالات کے لحاظ سے اہم ہے:
اس کا آغاز غزہ میں عارضی جنگ بندی کے معاہدے اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے اعلان کے فوراً بعد ہوا، جس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہودی وجود کا مقصد غزہ میں اپنے اعلان کردہ اہداف، خاص طور پر مزاحمت کاروں کا خاتمہ، اور فوجی ذرائع سے اپنے قیدیوں کی جبری واپسی میں ناکام ہو جانے کے بعد، اپنی ساکھ کو بچانا ہے۔
تجزیہ کاروں نے امکان ظاہر کیا ہے کہ یہ آپریشن، غزہ اور لبنان پر جنگ کے بعد یہودی وجود کی سیاسی اور فوجی حکمت عملی میں تبدیلی کا اشارہ ہے۔ توقع ہے کہ یہ طویل عرصے تک جاری رہے گا اور مغربی کنارے کے دیگر علاقوں تک پھیل جائے گا، جہاں اس کی فوج نے پہلے ہی مختلف علاقوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر رکھا ہے۔ (ماخذ: الشرق الاوسط، 21 جنوری، 2025)
کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس آپریشن کا مقصد یہودی وجود کے اندر موجود انتہا پسند مذہبی دائیں بازو کو خوش کرنا ہے، جس نے غزہ میں جنگ کو روکنے کی صورت میں حکومت کی حمایت سے دستبردار ہونے کی دھمکی دی تھی۔ (ماخذ: عرب 48، 23 جنوری، 2025)
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر یہ آپریشن، مغربی کنارے کو ضم کرنے کے منصوبے کو دوبارہ زیر بحث لے آیا ہے، خاص طور پر، جب کہ نو منتخب امریکی صدر ٹرمپ نے یہودی وجود کو خطے میں کھلی چھوٹ دے دی ہے۔ (ماخذ: الاہرام گیٹ، 25 جنوری، 2025)
"مڈل ایسٹ آئی" نے صحافی ڈیوڈ ہرسٹ کا ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان تھا "مغربی کنارے میں، ٹرمپ نے نیتن یاہو کھلی چھوٹ دے دی ہے۔۔۔۔۔ اور خطے میں امن قائم کرنے کے وعدوں کو اڑا کر رکھ دیا ہے" مضمون میں کہا گیا ہے کہ، "فلسطینی قصبے فندق پر آباد کاروں کے حملے سے، جب ٹرمپ نے اس کے سب سے زیادہ پرتشدد فسادی گروہوں پر عائد پابندیاں ہٹا دیں، ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ 'اسرائیل' نے غزہ میں وقتی جنگ بندی صرف مغربی کنارے پر حملہ آور ہونے کے لیے کی تھی۔ کیا ٹرمپ کے دوسرے دورِ اقتدار کی شکل و صورت پہلے ہی ظاہر ہو رہی ہے، اور کیا آنے والے دور میں چیزیں ایسی ہی ہوں گی؟
یہودی فوج کی جانب سے یہ آپریشن، ڈٹن ایکارڈز اتھارٹی کی جانب سے "وطن کے تحفظ" کے نام پر جنین اور اس کے پناہ گزین کیمپ کے خلاف شروع کی گئی مجرمانہ مہم کے بعد کیا گیا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کی سیکیورٹی فورسز نے قتل، گرفتاریاں، نقل مکانی اور انہدام جیسے اقدامات اٹھائے۔ یہ وہی جرائم ہیں جو یہودی وجود سر انجام دیتا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ان لوگوں کا تعاقب کر رہے ہیں جنہیں وہ "قانون شکن" کہتے ہیں جبکہ قابض وجود انہیں "دہشت گرد" کہتا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی نے وہی بیانیہ اپنایا جو یہودی وجود نے غزہ اور مغربی کنارے میں اپنے نسل کشی کے اقدامات کو جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا تھا۔
فلسطینی اتھارٹی غداری، ڈھٹائی اور فلسطینی عوام کے خلاف مجرمانہ ظلم کی ایک غیر معمولی سطح پر گر چکی ہے۔ اس نے جنین کیمپ کا محاصرہ کیا، اس کے مزاحمت کاروں کا خون بہایا، اور اس کے باشندوں کو بندوق کی نوک پر فرار ہونے پر مجبور کیا۔ جب مقامی معززین نے اس صورتحال کو حل کرنے کے لیے ثالثی کرنے کی کوشش کی، جو صرف قابض وجود کی خدمت کرتی ہے اور فلسطینیوں کے لیے کمزوری اور اندرونی کشمکش کے سوا کچھ نہیں لاتی، تو فلسطینی اتھارٹی نے ابتدائی طور پر اس اقدام سے اتفاق کیا۔ تاہم، اس نے جلد ہی اپنے یہودی آقاؤں کی طرح اپنے وعدے سے انحراف کیا، اور مزاحمت کاروں پر ظلم و ستم، قتل و غارت گری اور گرفتاریوں کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا۔
غداری یہیں نہیں رکی۔ جنگجوؤں کی جانب سے کیمپ کو یہودی فوج سے بچانے کے لیے کیے گئے دفاعی اقدامات کو ختم کرنے اور علاقے کے معززین کے اقدام کو قبول کر کے انہیں دھوکہ دینے، انہیں جنین اور اس کے کیمپ کو چھوڑ کر آس پاس کے علاقوں میں جانے پر راضی کرنے کے بعد، فلسطینی اتھارٹی نے یہودی فوج کی جانب سے آپریشن شروع کرنے کے فوراً بعد اپنی فوجیں ہٹا لیں۔ اس نے کیمپ کے باشندوں کو مکمل طور پر بے دفاع چھوڑ دیا، انہیں ان کی تقدیر کے حوالے کر دیا، اور فلسطینی اتھارٹی اور یہودی وجود کے درمیان کرداروں کی تبدیلی کا تماشا مکمل کیا۔
اس کے بعد، فلسطینی اتھارٹی ذلت میں مزید گرتی چلی گئی، اور اس نے کھلے عام اور علمی طور پر یہودی فوج کے آپریشن میں حصہ لیا۔ اس نے ایک نوجوان کو سر میں گولی مار دی، جنین کے الرازی ہسپتال کے اندر مزاحمت کاروں کے ایک گروہ کا محاصرہ کر لیا، انہیں گرفتار کر لیا، اور یہاں تک کہ ہسپتال کے اندر سے ایک زخمی مفرور کو بھی پکڑ لیا۔ اتھارٹی نے جنین کے دیہی علاقوں میں گھاتیں بھی لگائیں، جہاں پناہ لینے والے مزاحمت کاروں کو پکڑ لیا۔ (الشاہد، 22 جنوری، 2025)
اس طرح، فلسطین کے لوگ اپنے آپ کو قابض وجود کے ہتھوڑے اور غدار اتھارٹی کی سندان کے درمیان پھنسے ہوئے پاتے ہیں، وہ یہود کی نفرت، صیہونیوں کی خون کی پیاس، اور ان کی توسیع پسندانہ عزائم کی قیمت اپنے خون سے ادا کر رہے ہیں۔ اہلیانِ فلسطین مذہبی صیہونیت کی خواہشات، یکے بعد دیگرے امریکی انتظامیہ کی غیر مشروط حمایت اور بین الاقوامی نظام، اور ایجنٹ حکمرانوں کی غداری اور ساز باز، اور مسلم افواج کی کارروائی سے گریز کرنے کی قیمت بھی ادا کر رہے ہیں۔ وہ قبضے اور اوسلو اتھارٹی کے درمیان سازشی کرداروں کی تبدیلی، امریکہ اور یہودی وجود کے درمیان ہونے والے معاہدوں، اور اندرونی صیہونی معاہدوں کی قیمت بھی ادا کر رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر، وہ مسلم امہ کی جانب سے اپنی شرعی ذمہ داری کو پورا کرنے میں تاخیر کی قیمت ادا کر رہے ہیں، ایک ایسی ذمہ داری جس کے بغیر مسلمان، دنیا اور آخرت میں، نہ تو نجات اور نہ ہی عزت حاصل کر سکتے ہیں، سوائے اس صورت کے کہ وہ اپنے حکمرانوں اور حکومتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، اپنے اختیار اور طاقت کو دوبارہ حاصل کریں، اپنے رب کی شریعت کو نافذ کریں، اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنت کی پیروی کریں، اور فلسطین اور المسجد الاقصی کی سرزمین کو آزاد کرانے کے لیے اپنی افواج کو متحرک کریں تاکہ فلسطین اور پوری امت امریکہ، یہودی وجود اور ان کے ساتھیوں کے ظلم سے مکمل طور پر آزاد ہو جائے۔ اور اپنے رب کی اجازت سے، وہ اسے حاصل کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔
﴿وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيّاً وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيراً * الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللهِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفاً﴾
"اور تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے نہیں لڑتے جو کمزور ہیں اور کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور ہماری مدد اور حمایت کرنے والا مقرر کر۔ جو لوگ ایمان لائے وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور جو لوگ کافر ہیں وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں۔ تو شیطان کے دوستوں سے لڑو۔ بے شک شیطان کا مکر کمزور ہے۔" (سورة النساء : آیت 76-75)