بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان 77 سال کا ہوگیا:
لیکن تباہی کے دہانے پر کھڑی یہ قوم کس بات پر خوشیاں منائے!
پاکستان کی آزادی کے 77 سال مکمل ہو رہے ہیں۔ قوم کے سامنےجو حقیقت ہے وہ بہت خوفناک ہے۔ وہ زمین جو کبھی صلاحیتوں سے بھری ہوئی تھی، اس بات کی روشن مثال بن گئی ہے کہ کس طرح دائمی بدانتظامی، بدعنوانی اورنااہل قیادت کسی ملک کو تباہی کے دہانے پر لے جا سکتی ہے۔ اگرچہ یہ موقع جشن منانے کا ہوتاہے، لیکن یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان اپنے لوگوں کو تقریباً ہر محاذ پر ناکام کر رہا ہے۔
سیاسی عدم استحکام:لڑکھڑاتی ہوئی حکمرانی
پاکستان کا سیاسی نظام درہم برہم ہے۔ اپنے قیام کے بعد سے، ملک سیاسی عدم استحکام سے دوچار رہا ہے، جس کی خصوصیت قیادت میں متواتر تبدیلیاں، فوجی بغاوتیں، اور بدعنوانی کی گہریاورجڑپکڑی ہوئی ثقافت ہے۔ آزادی کے بعد 77 سال میں، پاکستان نے 30 سے زائد وزرائے اعظم دیکھے ہیں، جن میں سے کسی نے بھی اپنی مدت پوری نہیں کی۔ حالیہ سیاسی ہنگامہ آرائی، بشمول عمران خان کی معزولی، حکمرانی کی ناکامی کی ایک طویل تاریخ کا محض تازہ ترین واقعہ ہے جس نے ملک کو بے حال کر دیا ہے۔ اس دائمی عدم استحکام کے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ پاکستان کی کُل ملکی پیداوار(جی ڈی پی) کی شرح نمو گزشتہ دہائی کے دوران اوسطاً صرف 2.9 فیصد پر رک گئی ہے، جو اس کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے درکار شرح سے کافی کم ہے۔ سیاسی افراتفری نے بھی سرمایہ کاروں کو خوفزدہ کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں 2023 میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 33 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ نااہل قیادت کبھی ذاتی انتقام اور اقتدار کی کشمکش سے باہر نکل کر سوچ ہی نہیں سکی جس کی وجہ سے مستقبل کے حوالے سے کوئی واضح سمت یا حکمت ہی نہیں بن سکی اور اس صورتحال نے قوم کو اپنی حقیقی منزل سےبھٹکا دیا ہے۔
معاشی بدحالی: حقیقت میں ملک دیوالیہ ہوچکا ہے لیکن اس کا قرار نہیں کیا جارہا
پاکستان کی معیشت مکمل طور پر تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ ملک حقیقت میں دیوالیہ ہو چکا ہے، غیر ملکی زرمبادلہ کےذخائر گر کر صرف 2.9 ارب ڈالر رہ گئے ہیں جو چند ہفتوں کی درآمدات کو پورا کرنے کے لیے بمشکل کافی ہیں۔ مہنگائی 38 فیصد تک بڑھ گئی ہے جس نے لاکھوں پاکستانیوں کو غربت اور مایوسی کی گہرائیوں میں دھکیل دیا ہے۔ صرف ایک سال میں روپیہ ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر کا 35 فیصد کھو چکا ہے، جس سے عام شہریوں کی قوت خرید میں مزید کمی واقع ہوئی ہے۔ قرضوں کی صورت حال بھی اتنی ہی سنگین ہے۔ بیرونی واجبات یعنی قرضے 130 ارب ڈالر سے زیادہ ہو چکے ہیں، اور قرض کا جی ڈی پی سے تناسب 90 فیصد تک بڑھ گیا ہے۔ آئی ایم ایف کا حالیہ 3 ارب ڈالر کا بیل آؤٹ ایک عارضی لائف لائن سے زیادہ کچھ نہیں ہے، جو کہ معیشت کو درپیش بنیادی مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہے۔ زراعت، جو معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہونی چاہیے، پانی کی قلت، فرسودہ طریقہ کار اور حکومتی عدم توجہی کی وجہ سے مفلوج ہے، جس نے ملک کو خوراک کے تباہ کن بحران کی طرف دھکیل دیا ہے۔
صحت کی دیکھ بھال: ایک تباہ کن ناکامی
پاکستان کا شعبہ صحت (ہیلتھ کیئر سسٹم) تباہی کا شکار ہے۔ حکومت کی جانب سے صحت کے لیے جی ڈی پی کا صرف 1.1 فیصد مختص کرنا یہ بتاتا ہے کہ شعبہ صحت حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ ملک میں ہر 1,300 افراد کے لیے ایک ڈاکٹر اور ہر 1,600 افرادکے لیے ہسپتال کا ایک بستر میسر ہے۔ یہ تناسب انتہائی خطرناک ہے جو کہ کسی بحران کے وقت تباہی کا باعث بنتا ہے۔ پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ بچوں کی شرح اموات والے ممالک میں سے ایک ہے جہاں 1000 بچوں میں سے 59 بچے موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ زچگی یعنی دوران پیدائش خواتین کی شرح اموات 100,000 زندہ پیدائشوں میں 140 اموات ہے جو کہ ایک خوفناک شرح ہے۔ COVID-19 وبائی مرض نے صحت کی دیکھ بھال کے نظام کے اندر موجود شدید خامیوں کو بے نقاب کر دیا تھا، جس میں ہسپتال بھر گئے تھے، ویکسین کی تقسیم غیر موثر تھی، اور لاکھوں لوگ بنیادی طبی دیکھ بھال تک رسائی سے محروم رہ گئے تھے۔ دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات کا عملی طور پر کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ یہ صرف ایک ناکامی نہیں ہے؛ یہ قومی بے عزتی اور شرم کا مقام ہے۔
تعلیم: ناکام ہونے کے لیے بنایاگیا ایک نظام
پاکستان کا تعلیمی نظام ایک قومی شرمندگی ہے جو اپنے نوجوانوں کو جدید دنیا میں زندہ رہنے کے لیے درکار مہارتوں سے آراستہ کرنے میں ناکام ہے۔ ملک کی شرح خواندگی 60فیصد پر پھنس گئی ہے، جو دنیا میں سب سے کم شرح ہے۔ حکومت کی طرف سے تعلیم کے لیے جی ڈی پی کا معمولی 2 فیصد مختص کرنا پاکستان کےمستقبل یعنی نوجوانوں کےحوالے سے اس کی مکمل غفلت کی عکاسی کرتا ہے۔ 23 ملین سے زیادہ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، پاکستان کو تعلیمی رسائی کے لحاظ سے دنیا کے بدترین ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔ جو لوگ اسکول جاتے ہیں انہیں ناقص تربیت یافتہ اساتذہ، فرسودہ نصاب اور ٹوٹتے ہوئے انفراسٹرکچر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تعلیمی نظام نوجوانوں کی ایک ایسی نسل کو تیار کر رہا ہے جو 21ویں صدی کے چیلنجز کے لیے تیار نہیں ہیں، اور غربت اور ناامیدی کے سلسلے کو مزید گہرا کر رہے ہیں۔
غربت اور عدم مساوات: تباہی کے دہانے پر کھڑا ایک معاشرہ
پاکستان کے 230 ملین افراد میں سے تقریباً 40فیصد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، لاکھوں لوگ یومیہ 2 ڈالر سے بھی کم آمدنی پر زندہ ہیں۔ دولت کا فرق بہت زیادہ ہے: امیر ترین 10فیصد ملک کی 60فیصد دولت پر قابض ہیں، جبکہ نیچے والے 40فیصد کو روٹی کےٹکڑوں کی تلاش میں دربدرچھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ مجموعی عدم مساوات معاشرے کے تانے بانے کو چیر پھاڑ رہی ہے، ناراضگی اور بدامنی کو ہوا دے رہی ہے۔ پاکستان کا گنی کوفیشنٹ(Gini coefficient)، جو کہ آمدنی میں عدم مساوات کا ایک پیمانہ ہے، دنیا میں سب سے زیادہ ہے، جو ایک ایسے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے جو کہ ٹوٹ چکا ہے اور عدم مساوات کا شکار ہے۔ شہری کچی آبادیوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ دیہی آبادی ایسے مواقع کی تلاش میں شہروں کی طرف بھاگ رہی ہے جن کا دیہاتوں میں کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 25 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے، جس سے عدم اطمینان پیدا ہو رہا ہے اور سماجی اتھل پتھل کی منزلیں طے ہو رہی ہیں۔
خلاصہ: ایک قوم جواپنے بنیادی اصولوں سے دور بھٹک رہی ہے
جیسا کہ پاکستان آزادی کے 77 سال کا جشن منا رہا ہے، تلخ حقیقت یہ ہے کہ قوم ان نظریات سے بہت دور بھٹک چکی ہے جن پر اس کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ پاکستان اسلام کے نام پر قائم کیا گیا تھا، جس میں انصاف، مساوات اور سماجی بہبود کے اصولوں پر مبنی ریاست کے قیام کے وعدے شامل تھے، جیسا کہ مقاصد شریعہ میں تصور کیا گیا ہے،اور اسلامی قانون کے اعلیٰ مقاصد ہیں۔ ان مقاصد میں جان، مال، عقل، نسب، دین کی حفاظت شامل ہے۔ اس کے باوجود آج پاکستان انہی اصولوں کو برقرار رکھنے میں ناکام ہے۔ صحت کی دیکھ بھال کے ناکام نظام، بے پناہ غربت، اور بنیادی سماجی خدمات کی عدم موجودگی کی وجہ سے روزانہ عوام کی زندگی کے تحفظ کی فراہمی پر سمجھوتہ کیا جاتا ہے۔ تعلیم کا حق - جو عقل کے تحفظ کے لیے اہم ہے - لاکھوں بچوں کے لیے ناقابل رسائی ہے۔ معاشی پالیسیاں جو غریبوں کے استحصال کرکے امیروں کی حمایت کرتی ہیں وہ مساوات اور ذاتی دولت کے تحفظ کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ سماجی انصاف ایک ایسے معاشرے میں دور کا خواب ہے جہاں عدم مساوات گہری ہوتی جا رہی ہے، اور بدعنوانی اپنی انتہاؤں پر ہے۔ پاکستان کے رہنماؤں کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ قوم اپنے بانیوں کے وژن سے کتنی دور جا چکی ہے۔ خالی بیان بازیوں اور سطحی اصلاحات کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ آزادی کے لیے دی گئی قربانیوں کا صحیح معنوں میں احترام کرنے کے لیے، پاکستان کو اپنے تمام شہریوں کے لیے انصاف، مساوات اور فلاح و بہبود کو یقینی بناتے ہوئے، اپنے آپ کو مقاصد الشریعہ کے ساتھ ڈھالنا چاہیے۔ ان بنیادی اصولوں کی طرف لوٹنے سے ہی پاکستان تباہی سے بچنے اور اپنی تخلیق کے وعدے کو پورا کرنے کی امید کر سکتا ہے۔ اگر ملک کے رہنما ان ضروریات کو نظر انداز کرتے رہے تو اس کے نتائج نہ صرف پاکستان کے لیے بلکہ ان نظریات کے لیے بھی تباہ کن ہوں گے جن کو برقرار رکھنا تھا۔
عبدالمجید بھٹی نےحزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا
پاکستان 77 سال کا ہوگیا: لیکن تباہی کے دہانے پر کھڑی یہ قو م کس بات پر خوشیاں منائے!
پاکستان کی آزادی کے 77 سال مکمل ہو رہے ہیں۔ قوم کے سامنےجو حقیقت ہے وہ بہت خوفناک ہے۔ وہ زمین جو کبھی صلاحیتوں سے بھری ہوئی تھی، اس بات کی روشن مثال بن گئی ہے کہ کس طرح دائمی بدانتظامی، بدعنوانی اورنااہل قیادت کسی ملک کو تباہی کے دہانے پر لے جا سکتی ہے۔ اگرچہ یہ موقع جشن منانے کا ہوتاہے، لیکن یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان اپنے لوگوں کو تقریباً ہر محاذ پر ناکام کر رہا ہے۔
سیاسی عدم استحکام:لڑکھڑاتی ہوئی حکمرانی
پاکستان کا سیاسی نظام درہم برہم ہے۔ اپنے قیام کے بعد سے، ملک سیاسی عدم استحکام سے دوچار رہا ہے، جس کی خصوصیت قیادت میں متواتر تبدیلیاں، فوجی بغاوتیں، اور بدعنوانی کی گہری اورجڑپکڑی ہوئی ثقافت ہے۔ آزادی کے بعد 77 سال میں، پاکستان نے 30 سے زائد وزرائے اعظم دیکھے ہیں، جن میں سے کسی نے بھی اپنی مدت پوری نہیں کی۔ حالیہ سیاسی ہنگامہ آرائی، بشمول عمران خان کی معزولی، حکمرانی کی ناکامی کی ایک طویل تاریخ کا محض تازہ ترین واقعہ ہے جس نے ملک کو بے حال کر دیا ہے۔ اس دائمی عدم استحکام کے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ پاکستان کی کُل ملکی پیداوار(جی ڈی پی) کی شرح نمو گزشتہ دہائی کے دوران اوسطاً صرف 2.9 فیصد پر رک گئی ہے، جو اس کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے درکار شرح سے کافی کم ہے۔ سیاسی افراتفری نے بھی سرمایہ کاروں کو خوفزدہ کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں 2023 میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 33 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ نااہل قیادت کبھی ذاتی انتقام اور اقتدار کی کشمکش سے باہر نکل کر سوچ ہی نہیں سکی جس کی وجہ سے مستقبل کے حوالے سے کوئی واضح سمت یا حکمت ہی نہیں بن سکی اور اس صورتحال نے قوم کو اپنی حقیقی منزل سےبھٹکا دیا ہے۔
معاشی بدحالی: حقیقت میں ملک دیوالیہ ہوچکا ہے لیکن اس کا قرار نہیں کیا جارہا
پاکستان کی معیشت مکمل طور پر تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ ملک حقیقت میں دیوالیہ ہو چکا ہے، غیر ملکی زرمبادلہ کےذخائر گر کر صرف 2.9 ارب ڈالر رہ گئے ہیں جو چند ہفتوں کی درآمدات کو پورا کرنے کے لیے بمشکل کافی ہیں۔ مہنگائی 38 فیصد تک بڑھ گئی ہے جس نے لاکھوں پاکستانیوں کو غربت اور مایوسی کی گہرائیوں میں دھکیل دیا ہے۔ صرف ایک سال میں روپیہ ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر کا 35 فیصد کھو چکا ہے، جس سے عام شہریوں کی قوت خرید میں مزید کمی واقع ہوئی ہے۔ قرضوں کی صورت حال بھی اتنی ہی سنگین ہے۔ بیرونی واجبات یعنی قرضے 130 ارب ڈالر سے زیادہ ہو چکے ہیں، اور قرض کا جی ڈی پی سے تناسب 90 فیصد تک بڑھ گیا ہے۔ آئی ایم ایف کا حالیہ 3 ارب ڈالر کا بیل آؤٹ ایک عارضی لائف لائن سے زیادہ کچھ نہیں ہے، جو کہ معیشت کو درپیش بنیادی مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہے۔ زراعت، جو معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہونی چاہیے، پانی کی قلت، فرسودہ طریقہ کار اور حکومتی عدم توجہی کی وجہ سے مفلوج ہے، جس نے ملک کو خوراک کے تباہ کن بحران کی طرف دھکیل دیا ہے۔
صحت کی دیکھ بھال: ایک تباہ کن ناکامی
پاکستان کا شعبہ صحت (ہیلتھ کیئر سسٹم) تباہی کا شکار ہے۔ حکومت کی جانب سے صحت کے لیے جی ڈی پی کا صرف 1.1 فیصد مختص کرنا یہ بتاتا ہے کہ شعبہ صحت حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ ملک میں ہر 1,300 افراد کے لیے ایک ڈاکٹر اور ہر 1,600 افرادکے لیے ہسپتال کا ایک بستر میسر ہے۔ یہ تناسب انتہائی خطرناک ہے جو کہ کسی بحران کے وقت تباہی کا باعث بنتا ہے۔ پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ بچوں کی شرح اموات والے ممالک میں سے ایک ہے جہاں 1000 بچوں میں سے 59 بچے موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ زچگی یعنی دوران پیدائش خواتین کی شرح اموات 100,000 زندہ پیدائشوں میں 140 اموات ہے جو کہ ایک خوفناک شرح ہے۔ COVID-19 وبائی مرض نے صحت کی دیکھ بھال کے نظام کے اندر موجود شدید خامیوں کو بے نقاب کر دیا تھا، جس میں ہسپتال بھر گئے تھے، ویکسین کی تقسیم غیر موثر تھی، اور لاکھوں لوگ بنیادی طبی دیکھ بھال تک رسائی سے محروم رہ گئے تھے۔ دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات کا عملی طور پر کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ یہ صرف ایک ناکامی نہیں ہے؛ یہ قومی بے عزتی اور شرم کا مقام ہے۔
تعلیم: ناکام ہونے کے لیے بنایاگیا ایک نظام
پاکستان کا تعلیمی نظام ایک قومی شرمندگی ہے جو اپنے نوجوانوں کو جدید دنیا میں زندہ رہنے کے لیے درکار مہارتوں سے آراستہ کرنے میں ناکام ہے۔ ملک کی شرح خواندگی 60فیصد پر پھنس گئی ہے، جو دنیا میں سب سے کم شرح ہے۔ حکومت کی طرف سے تعلیم کے لیے جی ڈی پی کا معمولی 2 فیصد مختص کرنا پاکستان کےمستقبل یعنی نوجوانوں کےحوالے سے اس کی مکمل غفلت کی عکاسی کرتا ہے۔ 23 ملین سے زیادہ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، پاکستان کو تعلیمی رسائی کے لحاظ سے دنیا کے بدترین ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔ جو لوگ اسکول جاتے ہیں انہیں ناقص تربیت یافتہ اساتذہ، فرسودہ نصاب اور ٹوٹتے ہوئے انفراسٹرکچر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تعلیمی نظام نوجوانوں کی ایک ایسی نسل کو تیار کر رہا ہے جو 21ویں صدی کے چیلنجز کے لیے تیار نہیں ہیں، اور غربت اور ناامیدی کے سلسلے کو مزید گہرا کر رہے ہیں۔
غربت اور عدم مساوات: تباہی کے دہانے پر کھڑا ایک معاشرہ
پاکستان کے 230 ملین افراد میں سے تقریباً 40فیصد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، لاکھوں لوگ یومیہ 2 ڈالر سے بھی کم آمدنی پر زندہ ہیں۔ دولت کا فرق بہت زیادہ ہے: امیر ترین 10فیصد ملک کی 60فیصد دولت پر قابض ہیں، جبکہ نیچے والے 40فیصد کو روٹی کےٹکڑوں کی تلاش میں دربدرچھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ مجموعی عدم مساوات معاشرے کے تانے بانے کو چیر پھاڑ رہی ہے، ناراضگی اور بدامنی کو ہوا دے رہی ہے۔ پاکستان کا گنی کوفیشنٹ(Gini coefficient)، جو کہ آمدنی میں عدم مساوات کا ایک پیمانہ ہے، دنیا میں سب سے زیادہ ہے، جو ایک ایسے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے جو کہ ٹوٹ چکا ہے اور عدم مساوات کا شکار ہے۔ شہری کچی آبادیوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ دیہی آبادی ایسے مواقع کی تلاش میں شہروں کی طرف بھاگ رہی ہے جن کا دیہاتوں میں کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 25 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے، جس سے عدم اطمینان پیدا ہو رہا ہے اور سماجی اتھل پتھل کی منزلیں طے ہو رہی ہیں۔
خلاصہ: ایک قوم جواپنے بنیادی اصولوں سے دور بھٹک رہی ہے
جیسا کہ پاکستان آزادی کے 77 سال کا جشن منا رہا ہے، تلخ حقیقت یہ ہے کہ قوم ان نظریات سے بہت دور بھٹک چکی ہے جن پر اس کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ پاکستان اسلام کے نام پر قائم کیا گیا تھا، جس میں انصاف، مساوات اور سماجی بہبود کے اصولوں پر مبنی ریاست کے قیام کے وعدے شامل تھے، جیسا کہ مقاصد شریعہ میں تصور کیا گیا ہے،اور اسلامی قانون کے اعلیٰ مقاصد ہیں۔ ان مقاصد میں جان، مال، عقل، نسب، دین کی حفاظت شامل ہے۔ اس کے باوجود آج پاکستان انہی اصولوں کو برقرار رکھنے میں ناکام ہے۔ صحت کی دیکھ بھال کے ناکام نظام، بے پناہ غربت، اور بنیادی سماجی خدمات کی عدم موجودگی کی وجہ سے روزانہ عوام کی زندگی کے تحفظ کی فراہمی پر سمجھوتہ کیا جاتا ہے۔ تعلیم کا حق - جو عقل کے تحفظ کے لیے اہم ہے - لاکھوں بچوں کے لیے ناقابل رسائی ہے۔ معاشی پالیسیاں جو غریبوں کے استحصال کرکے امیروں کی حمایت کرتی ہیں وہ مساوات اور ذاتی دولت کے تحفظ کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ سماجی انصاف ایک ایسے معاشرے میں دور کا خواب ہے جہاں عدم مساوات گہری ہوتی جا رہی ہے، اور بدعنوانی اپنی انتہاؤں پر ہے۔ پاکستان کے رہنماؤں کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ قوم اپنے بانیوں کے وژن سے کتنی دور جا چکی ہے۔ خالی بیان بازیوں اور سطحی اصلاحات کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ آزادی کے لیے دی گئی قربانیوں کا صحیح معنوں میں احترام کرنے کے لیے، پاکستان کو اپنے تمام شہریوں کے لیے انصاف، مساوات اور فلاح و بہبود کو یقینی بناتے ہوئے، اپنے آپ کو مقاصد الشریعہ کے ساتھ ڈھالنا چاہیے۔ ان بنیادی اصولوں کی طرف لوٹنے سے ہی پاکستان تباہی سے بچنے اور اپنی تخلیق کے وعدے کو پورا کرنے کی امید کر سکتا ہے۔ اگر ملک کے رہنما ان ضروریات کو نظر انداز کرتے رہے تو اس کے نتائج نہ صرف پاکستان کے لیے بلکہ ان نظریات کے لیے بھی تباہ کن ہوں گے جن کو برقرار رکھنا تھا۔
عبدالمجید بھٹی نےحزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا