بسم الله الرحمن الرحيم
ماھر الجازی: اردن کا ایک جانباز ہیرو
)ترجمہ(
الراية اخبار
11 ستمبر 2024ء
آج کے ہمارے اس دور میں اردن سے ایک جانباز ہیرو ابھر کر سامنے آیا ہے۔ اس کا ہتھیار اس کے الفاظ ہیں، جو ایک بھرپور زوردار آواز کے ساتھ گونجتے ہیں۔ ماھر الجازی کے ہر اظہار سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اردن کے لوگ فلسطین میں اپنے بھائیوں کی تکلیف کو گہرائی سے محسوس کرتے ہیں، چاہے وہ زخمی غزہ ہو یا خون بہاتا ہوا ویسٹ بینک۔ فلسطین اور اردن کے لوگ ایک متحدہ امت مسلمہ کا حصہ ہیں۔ امت کو یہ دیکھ کر شدت سے دکھ ہوتا ہے کہ ایک بچہ اپنے بھائی کی بانہوں میں بلبلاتے ہوئے اپنی ماں کو پکار رہا ہے، اور اس کے آنسو اردن، شام، عراق، اور مصر کے لوگوں کے دلوں کو جلا رہے ہیں۔
امت غصے سے بوجھل ہے۔ انہی جذبات کا اظہار شہید ماھر الجازی نے کیا، اور اپنے لوگوں کی مدد اور مسجد اقصیٰ کے دفاع کی راہ میں رکاوٹوں کو عبور کیا۔ اپنی دلیرانہ کارروائی کے ذریعے، ماھر نے لاکھوں فوجیوں اور کمانڈروں کو چیلنج کیا: "کیا تمہاری روحیں تمہیں اپنے نبی ﷺ کی معراج کی منزل کی طرف حرکت کرنے کی خواہش نہیں ابھارتیں تاکہ اسے قابضین کی نجاست سے آزاد کرا سکیں؟"
ماھر الجازی نے امید ظاہر کی کہ جو لوگ ان کی پیروی کریں گے، وہ اللہ ﷻ کے وعدے اور اس کے رسول ﷺ کی پیشن گوئی کو پورا کرنے میں شامل ہوں گے۔ انہوں نے فوجیوں اور فوجی کمانڈروں سے امید کی کہ وہ اپنی زنجیروں کو توڑ دیں اور ان حکمرانوں کو اکھاڑ پھینکیں جو انہیں اپنے دین اور نبی ﷺ کے اسراء و معراج کی منزل کی مدد کرنے سے روک رہے ہیں۔ ہم یہ بات اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ مسلم امت اللہ ﷻ کے راستے میں جہاد کرنے اور ارض مقدس کی آزادی کی آرزو رکھتی ہے۔ مگر اردنی حکومت، دیگر حکومتوں کی طرح، صہیونی وجود کی حمایت، مدد، اور حفاظت کرتی ہے، جو امت کے خلاف ایک غیر ملکی، زبردستی مسلط کردہ طاقت ہے، جسے جوانمردوں کے عزم سے ختم کرنا ازحد ضروری ہے۔
جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ امت نے اپنا جوش و خروش اور عزم کھو دیا ہے، وہ ماھر الجازی جیسے ہیروز کو دیکھ کر گنگ ہو گئے ہیں، جو ہمیں مشہور حدیثہ الجازی، جو کہ معرکۂ کرامہ کے لئے مشہور ہیں، اور شیخ ہارون الجازی، جو 1948ء کے معرکۂ القدس میں بریگیڈز کی قیادت کرتے تھے، ان جیسی شخصیات کی یاد دلاتے ہیں۔ ماھر ان آوازوں کی نمائندگی کرتے ہیں جو کہتی ہیں کہ اگر ہم کو زنجیروں اور رسوں سے نہ باندھا ہوتا، تو ہم غزہ کے لوگوں کے آنسو پونچھ دیتے، اور اپنی تاخیر پر معذرت کرتے۔ اگر وہ زنجیریں نہ ہوتیں، تو ہم مسجد اقصیٰ کی مٹی میں پیشانی ٹیک دیتے، اس کی آزادی کی خوشی میں روتے، اور اپنی پچھلی کوتاہیوں کے لیے معافی مانگتے۔
ایک امت جو اللہ کے راستے میں جہاد کے لئے شعلہ زن ہے، نبی ﷺ کی معراج کی منزل کی آرزو رکھتی ہے، اور فلسطین کی تکلیف کی وجہ سے متاثر ہے، ایک زندہ امت ہے جو مری نہیں ہے۔ اگر یہ اللہ ﷻ کے لیے اپنی نیتوں میں خالص ہو تو یہ اپنی زنجیریں توڑ ڈالنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ہم امت مسلمہ کی اس جنگجو فوج کا انتظار کر رہے ہیں جو مسجد اقصیٰ کو آزاد کرائے گی، جیسے یہ عمر بن الخطابؓ کے زمانے میں کھولی گئی تھی، اور جسے صلاح الدینؒ نے آزاد کروایا تھا۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ یہ اللہ ﷻ کے اذن سے ہی ہو گا، اور ہم اس دن کو دیکھنے کی امید کرتے ہیں۔ اور کتنے خوش نصیب ہوں گے وہ لوگ جو اس فوج کی صفوں میں شامل ہوں گے۔