بسم الله الرحمن الرحيم
حديث شريف کے ساتھ
خلافت، ملوکیت نہیں ہے
ہر جگہ پر موجود آپ سب پیاروں کو، ہم، آپ کے پروگرام "حدیث شریف کے ساتھ" کے اس نئے درس میں خوش آمدید کہتے ہیں، اور ہم بہترین سلام سے شروع کرتے ہیں، السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہم نے رسول اللہ ﷺ سے سننے اور اطاعت کرنے کی بیعت کی۔
امام مالکؒ نے اپنی کتاب موطأ میں روایت کیا ہے کہ مجھ سے مالک نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید نے، انہوں نے کہا کہ مجھ کو عبادہ بن الولید بن عبادہ بن صامت نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے خبر دی، ان سے عبادہ بن صامتؓ نے بیان کیا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے اس بات پر بیعت کی کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے چاہے آسانی ہو یا تنگی، چاہے خوش ہوں یا ناخوش، اور حکومت کے معاملے میں اس کے لوگوں سے جھگڑا نہیں کریں گے۔ ہم جہاں بھی ہوں گے حق کہیں گے یا حق پر کھڑے رہیں گے۔ ہم اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی پروا نہیں کریں گے۔ [موطأ امام مالك]
المنتقی، جو الموطأ کی شرح ہے، میں بیان کیا گیا ہے کہ:
انھوں نے فرمایا کہ (ہم نے رسول اللہ ﷺ کی بیعت کی)۔ بیعت کا لفظ عرب کی زبان میں اس معاوضہ کو کہتے ہیں جو مال میں دیا جاتا ہے۔ پھر نبی کریم ﷺ اور مسلمانوں کے درمیان کے معاہدے اور عہد کو بھی مُبَايَعَةً (معاوضہ) کہا جانے لگا کیونکہ نبی کریم ﷺ نے مسلمانوں کو ان کے کاموں کے معاوضے کے طور پر ثواب کی ضمانت دی تھی۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے
((اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَؕ-یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَیَقْتُلُوْنَ وَ یُقْتَلُوْنَ- وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا فِی التَّوْرٰیةِ وَ الْاِنْجِیْلِ وَ الْقُرْاٰنِؕ-وَ مَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ مِنَ اللّٰهِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِكُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِهٖؕ-وَ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ))
"اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لیے ہیں (اور اس کے) عوض ان کے لیے جنت ہے۔ یہ لوگ خدا کی راہ میں لڑتے ہیں تو مارتے بھی ہیں اور مارے بھی جاتے ہیں۔ یہ تورات، انجیل اور قرآن میں اس کے ذمہ سچا وعدہ ہے۔ اور اللہ سے زیادہ وعدہ پورا کرنے والا کون ہے۔ تو جو سودا تم نے اس سے کیا ہے اس سے خوش رہو۔ اور یہی بڑی کامیابی ہے" (سورۃ التوبۃ : 111)۔
(باب) - اور انؓ کا یہ قول (سننے اور اطاعت کرنے پر):
یہاں سننے سے مراد اطاعت کرنا ہے، اور شاید اس کا اصل مطلب ہے بات کو سننا اور اسے سمجھنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ہر حال میں، یعنی آسانی اور مشکل دونوں حالات میں، ان کے احکامات اور ممنوع ( امر بالمعروف و نہی عن المنکر) کی اطاعت کرنے کا پابند بنایا گیا ہے۔ اور اس سے مراد مال کی آسانی اور سختی، اچھی سواری کا حصول، وافر زاد راہ کا ہونا، اور دونوں چیزوں کی بابت کم سے کم پر اکتفا کرنا بھی ہو سکتا ہے۔ (خوشی یا نا خوشی کی حالت) سے مراد اطاعت کی طرف رغبت ہونے اور یا رغبت نہ ہونے کا وقت ہے۔ شاید خوشی سے اطاعت کرنے سے مراد اس کے لیے راستے کا آسان ہونا، اس کے لیے فارغ وقت کا ہونا، وقت کا اچھا ہونا، دشمن کا کمزور ہونا ہے، اور نا خوشی سے اطاعت کرنے سے مراد راستے کا بند ہونا، رکاوٹ کا ہونا، گرمی اور سردی کی شدت، سفر کی صعوبت اور دشمن کی طاقت ہے۔
(باب) اور انؓ کا یہ قول (اور یہ کہ ہم حکومت کے معاملے میں اس کے لوگوں سے جھگڑا نہیں کریں گے): اس سے مراد حکومت ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ یہ شرط خاص طور پر انصار اور غیر قریش کے لیے ہو، یعنی وہ اس معاملے میں اہل لوگوں سے جھگڑا نہ کریں جو کہ قریش ہیں۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ یہ عہد تمام لوگوں سے لیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے بھی ان میں سے حاکم بنا دے تو پھر کوئی بھی اس سے جھگڑا نہ کرے، چاہے ان میں سے کوئی اور اس منصب کے لیے زیادہ موزوں ہی کیوں نہ ہو جبکہ یہ منصب کسی اور کو دے دیا گیا ہو۔
(باب) اور ان کا یہ قول (اور یہ کہ ہم بولیں گے یا کھڑے ہوں گے): راوی کو اس بات پر شک ہے کہ لفظ کیا ہے؟ "بولیں گے یا کھڑے ہوں گے"؟ یہاں مقصد یہ ہے کہ وہ جگہ اور ہر موقع پر حق کو ظاہر کریں، چاہے وہ الفاظ کے ذریعے ہو یا اس کے لیے کھڑے ہو کر اور چاہے وہ کہیں بھی ہوں۔ اور انہیں ایسا کرنے سے کوئی خوف یا لوگوں کی ملامت روک نہیں سکتی۔
اے پیارے دوستو:
اسلامی ریاست میں بیعت کے ذریعے ہی " اولو الامر" کو حکمرانی کا حق ملتا ہے۔ انصار کی جانب سے رسول اللہ ﷺ کی بیعت جو کہ دوسری بیعتِ عقبہ ہے، کی بدولت ہی آپ ﷺ نئی اسلامی ریاست کے اولو الامر بنے۔ پھر آپ ﷺ کی وفات کے بعد، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بیعت کے ذریعے حکومت میں رسول ﷺ کے جانشین بنے۔ اور ان کے بعد باقی خلفاء بھی اسی طرح منتخب ہوتے رہے اور یہ سلسلہ آخری عثمانی خلیفہ تک قائم رہا۔
بیعت ایک رضامندی کا معاہدہ ہے جو مسلمانوں کے درمیان، جن کی نمائندگی اہل حل و عقد کرتے ہیں، اور اولو الامر یعنی خلیفہ کے درمیان طے پاتا ہے۔ یہ بیعت مسلمانوں کی طرف سے خلیفہ کے لیے ہوتی ہے نہ کہ خلیفہ کی طرف سے مسلمانوں کے لیے۔ مسلمان اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کے مطابق حکومت کرنے کے لیے خلیفہ کی بیعت کرتے ہیں اور اس طرح اس کی اطاعت ان سب پر واجب ہو جاتی ہے جب تک کہ وہ ان کو نافرمانی کا حکم نہ دے۔
اگرچہ یہ واضح ہے کہ خلیفہ کا تقرر خلافتِ راشدہ کے دور میں بیعت کے ذریعے کیا گیا تھا ۔۔۔۔ تاہم خلافتِ راشدہ کے بعد آنے والے ادوار میں خلافت ایک خاندان تک محدود ہو گئی تھی۔۔۔۔ یہ بات، نفرت کرنے والوں اور بے رغبتی رکھنے والوں کیلئے بہانہ بن گئی جس کے ذریعے وہ مسلمانوں کو ان کی خلافت کے بارے میں الجھانے لگے ۔۔۔۔۔۔ انہوں نے دعوی کیا کہ خلافت کے بعد کی حکمرانی ملوکیت تھی نہ کہ اسلامی خلافت ۔۔۔۔۔ کیونکہ بادشاہی نظام کی طرح اس میں بھی اقتدار کو، خاندان والے وراثت میں حاصل کرتے تھے۔
یہ ایک جھوٹا دعویٰ ہے جسے ان لوگوں کے لیے رد کرنا آسان ہے جنہوں نے اسلامی ریاست کی تاریخ کا اس کے مستند ذرائع سے مطالعہ کیا ہو ۔۔۔۔۔ اسلامی ریاست وہ ریاست ہے جو زندگی کے تمام پہلوؤں میں اسلامی نظام کا نفاذ کرتی ہے، اور اسلامی ریاست کا اپنی موجودگی کے پورے دور میں یہ ہی حال رہا ہے ۔۔۔۔ خلفاء صرف بیعت کے ذریعے اقتدار حاصل کرتے تھے، خواہ اس کے لینے کا طریقہ کچھ بھی ہو اور اس بات سے قطع نظر کہ بیعت کرنے والا خلیفہ، مرحوم خلیفہ کا کتنا قریبی رشتہ دار تھا۔۔۔۔۔ پس اہل حل و عقد سے، مسلمانوں سے اور شیخ الاسلام ( قاضی القضاء) سے بیعت لی جاتی تھی، اور تاریخ میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ خلفاء میں سے کوئی ایک بھی بیعت کیے بغیر خلیفہ بنا ہو۔۔۔۔
جہاں تک وراثت کا تعلق ہے، جو بادشاہت میں بادشاہ کو نصب کرنے کا طریقہ ہے ۔۔۔۔ تو اس میں، ولی عہد شہزادہ، بادشاہ کی موت کے ساتھ ہی بادشاہت کا وارث بن جاتا ہے، بغیر عوام یا امت کے ساتھ کسی بھی بیعت یا معاہدے کی ضرورت کے۔ وہ ملک اور عوام کا مالک ہوتا ہے اور قانون سے بالاتر ہوتا ہے کیونکہ وہی قانون بناتا ہے۔۔۔۔۔ جدید دور میں بھی جہاں کچھ بادشاہ، مالک بنے ہوئے ہیں اور صرف حکمران نہیں ہیں تو وہاں اب بھی وراثت ہی بادشاہ کو نصب کرنے کا طریقہ ہے۔
اس طرح ہمیں نظام خلافت اور بادشاہت میں واضح فرق نظر آتا ہے۔
۔۔۔۔ اسلام میں نظام حکومت بادشاہت نہیں ہے جس میں موجودہ بادشاہ، مرحوم بادشاہ کی وراثت کے حق سے اپنی قانونی حیثیت حاصل کرتا ہے ۔۔۔ بلکہ یہ خلافت وہ ہے جس میں خلیفہ مسلمانوں کی بیعت کے ذریعے اپنی قانونی حیثیت حاصل کرتا ہے کہ وہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول ﷺ کی سنت کے مطابق حکومت کرے گا۔
ہمارے پیارے دوستو، ہم آپ کو ایک اور "حدیث نبوی کے ساتھ" کے پروگرام تک اللہ کے سپرد کرتے ہیں، والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔