بسم الله الرحمن الرحيم
یورپی ممالک یہودی وجود کو اس کے جرائم کا بدلہ ایک فلسطینی وجود کو تسلیم کرکے دے رہے ہیں، اس طرح وہ یہودی وجود کو امت کے غضب اور اس کی جانب سےشہداء کا بدلہ لینے سے بچارہے ہیں۔
خبر:
انگریزی میں الجزیرہ نے 22 مئی 2024 کو رپورٹ کیا کہ، "ناروے، آئرلینڈ اور اسپین کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ ان کے ممالک "مشرق وسطیٰ میں امن" کی خاطر اگلے ہفتے فلسطین کو باضابطہ طور پر ایک ریاست کے طور پر تسلیم کریں گے۔ اس کے بعد "اسرائیل" نے ان ممالک سے اپنے سفیروں کو فوری طور پر واپس بلانے کا اعلان کیا۔ ناروے کے وزیر اعظم جوناس گہر اسٹور (Jonas Gahr Store) نے بدھ کے روز کہا کہ دو ریاستی حل اسرائیل کے بہترین مفاد میں ہے اور فلسطینی ریاست کو 28 مئی سے تسلیم کر لیا جائے گا۔ اسرائیل نے فوری طور پر اعلان کیا کہ وہ آئرلینڈ اور ناروے سے اپنے سفیروں کو "فوری مشاورت " کے لیے واپس بلا رہا ہے۔ وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے ایک بیان میں کہا، "آج، میں آئرلینڈ اور ناروے کو ایک تیز پیغام بھیج رہا ہوں: اسرائیل اس پر خاموشی اختیار نہیں کرے گا، "اُس نے مزید کہا کہ اس نے ہسپانوی سفیر کے ساتھ ایسا ہی کرنے کا منصوبہ بنایا ہے... فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سیکرٹری جنرل حسین الشیخ نے X (ٹوئیٹر) پر پوسٹ کیا: "کئی دہائیوں کی طویل قومی جدوجہد، مصائب، درد، قبضے، نسل پرستی، قتل، جبر، زیادتی اور تباہی، جس کا فلسطینی عوام کو نشانہ بنایا گیا، تاریخی لمحات، جس میں آزاد دنیا نے سچائی اور انصاف کے لیے کامیابی حاصل کی۔ "حماس نے تینوں ممالک کے فیصلے کو ایک "اہم قدم" قرار دیا ہے۔"[1]
تبصرہ:
غزہ کی پٹی میں یہودی وجود کی طرف سے نسلی تطہیر کے قتل عام اور ساتھ ہی مغربی کنارے میں اس کی جانب سے امدادی کارکنوں پر ظلم و ستم ٹیلی ویژن پر مسلسل نشر ہوتے رہے۔ یہ سب کچھ بین الاقوامی خاموشی، بے عملی اور پیچیدگیوں کے درمیان نشر کیا گیا۔ اس صورتحال نے دنیا کے لوگوں کو احتجاجی مارچ اور مظاہرے کرنے، قتل عام کی مذمت کرنے اور فلسطین کی آزادی کا مطالبہ کرتے ہوئے "دریا سے سمندر تک" کا نعرہ بلند کرنے پر اکسایا۔ سات ماہ سے زائد عرصے سے قتل عام جاری رہنے کے بعد، امریکی سیاست دانوں کی قیادت میں دنیا بھر کے سیاست دانوں نے محسوس کیا کہ اُن سب پر اِن جرائم میں ملوث ہونے کا الزام لگ رہا ہے۔ عوام ان کا احتساب کریں گے، بلکہ ان جرائم میں اتحادی ہونے پر ان کا احتساب کرنا شروع کر دیا ہے۔
جیسے ہی کوئی مغربی اہلکار کہیں بھی سامعین سے بات کرنا بند کرتا، سامعین میں سے کوئی اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور اسے جوابدہ ٹھہراتا ہے۔ وہ مجرم یہودی وجود کے ساتھ اس کی شراکت، اور فلسطین کے لوگوں خصوصاً غزہ کے لوگوں کے ساتھ دھوکہ دہی پر اسے شرمندہ کرتے ہیں۔ لہٰذا، عالمی رہنما اپنی ساکھ کو پہنچنے والے شدید نقصان کی تلافی کرنے پر مجبور ہوئے، نیز ان اصولوں پر لوگوں کے کم ہوتے اعتماد کو بحال کرنے پر مجبور ہوئے جن کی مغرب حمایت کرتا ہے، جیسے آزادی، انسانی حقوق، مساوات، خواتین اور بچوں کے حقوق، اور یہاں تک کہ جانوروں کے حقوق اور فطرت کا تحفظ۔
ان تینوں یورپی ممالک، جو امریکی مدار میں چکر لگاتے ہیں، کی طرف سے یہ اعلان، ایک امریکی اقدام سے زیادہ کچھ نہیں، یا واشنگٹن کی جانب سے گرین لائٹ کے بعد سامنے آیا۔ یہ مغربی تہذیب کے زوال کو روکنے کی کوشش ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ 'فلسطینی ریاست' کو "تسلیم" کرنے کے اعلان کو ایسے پیش کیا جارہا ہے گویا یہ فلسطینی عوام اور مغربی اقدار کی فتح ہے۔ تاہم، حقیقت بالکل مختلف ہے۔ اس "تسلیم" سے پہلے اوسلو معاہدے میں طے شدہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا گیا تھا، جس پر تیس سال پہلے ناروے میں ہی دستخط ہوئے تھے۔ یہ فلسطین کی 80 فیصد سے زیادہ سرزمین پر یہودی وجود کے "حق" کو تسلیم کرنا تھا۔ نام نہاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا دراصل فلسطین کی بابرکت سرزمین پر یہودیوں کے "حق" کو تسلیم کرنا ہے۔ اس "تسلیم" نے عالمی سطح پر مسئلہ فلسطین کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناروے کے وزیر اعظم جوناس گہر اسٹور (Jonas Gahr Store) نے درست کہا کہ دو ریاستی حل "اسرائیل" کے بہترین مفاد میں ہے، اُس نے مزید کہا، "اگر 'تسلیم' نہ کیا گیا تو مشرق و سطیٰ میں امن نہیں ہو سکتا۔"
فلسطینی اتھارٹی اور اس کے نقش قدم پر چلنے والی فلسطینی تحریکوں کا کردار، جن میں قوم پرست اور اسلامی دونوں شامل ہیں، عرب اور مسلم دنیا کے حکمرانوں کے کردار کی ایک توسیع شکل ہے۔ یہ فلسطینی کاز کو ختم کرنے اور فلسطین کی بابرکت سرزمین میں یہودی ریاست کو مستحکم کرنے کی سازش کا کردار ہے۔ وہ دو ریاستی حل کے منصوبے کو فلسطین اور غزہ کے عوام کی فتح کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ یہ سازش کتنی وسیع ہے! امریکہ فلسطین میں اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے اور بائیڈن کے حق میں اسے انتخابی کارڈ کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے، جبکہ یہودی بظاہراس منصوبے کو مکمل طور پر مسترد کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ اس وقت دو ریاستی حل پورے زور و شور سے پیش کیا جارہا ہے اور اسے فلسطین کی فتح قرار دیا جارہا ہے۔ گویا گزشتہ آٹھ دہائیوں میں دسیوں ہزار مسلمانوں کی شہادت اور زخمی ہونا اس مبینہ ’’فتح‘‘ کو حاصل کرنے کے لیے قبول کیا گیا تھا۔ درحقیقت، ہم مصیبت اور فتنہ کے دور میں رہ رہے ہیں۔ اس خیانت اور فریب کی گہرائی اور وسعت کو عقل والے لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں۔
غزہ اور رفح کے بعد کیا ہونا چاہیے، اس حوالے سے امریکہ اور اس کے وفاداروں کی بات ایک ایسے تصفیے کے بارے میں ہے جو دو ریاستی حل کو نافذ کرنے کی ذمہ داری ان لوگوں پر ڈالتی ہے جو اس وقت مسلمانوں کے امور پر ذمہ دار بنے ہوئے ہیں، اس بات سے قطع نظر کہ یہودی اپنی غلیظ اور ناپاک فطرت کی وجہ سے اسے مسترد کرنے کا ڈرامہ کرتے ہیں یا اسے صحیح معنوں میں رد کرتے ہیں۔ البتہ غزہ اور رفح کے بعد امت کا منصوبہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ فلسطین کی پوری بابرکت سرزمین پر اپنے حق کی تصدیق کرے۔ امت کو شہداء کے خون کا بدلہ لینا چاہیے، نیز ان مقدسات اور عزتوں کا بدلہ لینا چاہیے جو یہودیوں کے ہاتھوں پامال ہوئے۔ یہ اس کے بعد ہے جب امت، اپنی سیاسی اور عسکری قیادت کے ساتھ، غزہ کے لوگوں کے تحفظ میں ناکام ہو گئی جب انہیں بے رحمی سے قتل کیا جارہا ہے۔ امت بابرکت سرزمین پر امریکہ کے سازشی منصوبے کو قبول نہیں کر سکتی اور نہ ہی اس پر کوئی بحث کر سکتی ہے۔ فلسطینی عوام کا خون ایک ایسی آگ ہے جو حکمرانوں اور فوجی کمانڈروں سے لے کر ان تمام لوگوں کو جلا دے گی جنہوں نے ان (فلسطینی مسلمانوں) کو مایوس کیا۔ لہٰذا، امت اور اس کی فوجوں میں موجود مخلص اور وفادار، ان حکمرانوں کے خلاف بغاوت کریں اور ان کی جگہ خلیفہ کو متعین کریں جو ان کو یکجا کرے گا اور رسول اللہ ﷺ کی بشارت کو پورا کرنے کے لیے ان کی فوجوں کی قیادت کرے گا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
تُقَاتِلُونَ الْيَهُودَ حَتَّى يَخْتَبِيَ أَحَدُهُمْ وَرَاءَ الْحَجَرِ فَيَقُولُ يَا عَبْدَ اللَّهِ هَذَا يَهُودِيٌّ وَرَائِي فَاقْتُلْهُ
"ایک دور آئے گا جب تم یہودیوں سے جنگ کرو گے۔ اور وہ شکست کھا کر بھاگتے پھریں گے کوئی یہودی اگر پتھر کے پیچھے چھپ جائے گا تو وہ پتھر بھی بول اٹھے گا کہ اے اللہ کے بندے! یہ یہودی میرے پیچھے چھپا بیٹھا ہے اسے قتل کر ڈال۔" (بخاری و مسلم)
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا کے ریڈیو براڈکاسٹ کے لیے تحریر کیا بلال المہاجر، ولایہ پاکستان،
حوالہ جات
[1] https://www.aljazeera.com/news/2024/5/22/norway-will-recognise-palestinian-state-pm-says