بسم الله الرحمن الرحيم
"شر کے مسئلے" کے بارے میں، ایک ملحد کے ساتھ گفتگو!
کچھ ملحدین یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ جو لوگ خالق پر ایمان رکھتے ہیں، انہیں یہ بھی ماننا چاہیے کہشر کو بھی موجب ہونے کی بنیاد پر اسی رب نے پیدا کیا ہے۔
شاید اس سوال کو حل کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ پہلے اس کے ماخذ کی نشاندہی کر لی جائے۔ فلسفہ یا مذہب میں کوئی سوال ایسے ہی اچانک سے پیدا نہیں ہو جاتا بلکہ کسی بنیاد پر آتا ہے، بلکہ ہر وہ سوال جو کبھی بھی کسی فلسفی نے اٹھایا ہو وہ ایک مخصوص نظامِ فکر اور زندگی کے بارے میں ایک مخصوص نقطہ نظر کی پیداوار ہوتا ہے۔ ان دونوں چیزوں کے لئے جو مناسب لفظ ہم یہاں استعمال کر سکتے ہیں وہ ”تصورات“ (مفاہیم) ہے۔ جب کوئی شخص کچھ خاص تصورات کا حامل ہوتا ہے، تو وہ فطری طور پر ان تصورات کو جس حقیقت میں وہ رہتا ہے اس پر لاگو کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسا کرنے سے ہی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔
اس بات کو سمجھنے سے ہمیں فلسفہ میں اُٹھنے والے سوالات کا سیاق و سباق سمجھنے میں مدد ملتی ہے، جس کے نتیجے میں ہم ان سوالات کا صحیح جواب دے سکتے ہیں۔ اگر آپ سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ اس سے کیا مراد ہے، تو ان شاء اللہ، جب ہم اپنی گفتگو کو آگے بڑھائیں گے تو یہ بات واضح ہو جائے گی۔
ہماری معلومات کے مطابق، ایک قدیم یونانی فلسفی ایپیکورس (Epicurus))341 سے 270 قبل مسیح( وہ پہلا مفکر تھا جس نے "شر کا مسئلہ"، یعنی برائی کیوں پائی جاتی ہے اور آخر خالق نے اس کے ہونے کی اجازت کیوں دی، کے بارے میں سوال اُٹھایا۔ اس نے شر کے حوالے سے جو ”مسئلہ“ پیش کیا اسے سکاٹ لینڈ کے فلسفی ڈیوڈ ہیوم(David Hume) نے اپنے ” فطری مذہب سے متعلق مکالمے“(Dialogues Concerning Natural Religion) میں کچھ اس طرح بیان کیا ہے، ”کیا (خالق) برائی کو روکنے کے لیے راضی ہے، لیکن قابل نہیں ہے؟ تو کیا پھر وہ عاجز ہے؟ کیا وہ قادر ہے، لیکن راضی نہیں ہے؟ تو پھر وہ بدخواہ ہے؟۔ کیا وہ قابل بھی ہے اور راضی بھی؟ تو پھر شر آخر کیوںکر موجود ہے؟“
اب آئیے پہلے بیان کئے گئے طریقہ کو استعمال کرتے ہوئے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یعنی، آئیے کوشش کریں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ ایپیکورس (Epicurus) اپنے ذہن میں کیا تصورات رکھتا تھا۔
ایپیکورس (Epicurus) ایک خاص فلسفے پر یقین رکھتا تھا جسے "ایٹم ازم" (atomism) کہا جاتا ہے (اور ایپیکورس کو اس فلسفے کا جد امجد بھی کہا جاتا ہے)۔ اس فلسفے کے مطابق، ہم جس دنیا میں رہتے ہیں وہ اس وقت وجود میں آئی جب کچھ مادی ذرات جنہیں "ایٹم" کہا جاتا ہے (اور یہ وہ ایٹم نہیں ہیں جنہیں ہم آج سائنس میں جانتے ہیں) محض اتفاق سے ایک ساتھ مل گئے۔ نوعِ انسانی اور جاندار بھی انہی ایٹموں کے آپس میں ملنے کی پیداوار ہیں۔
ایپیکورس (Epicurus)کے مطابق یہ دنیا، جس میں ہم رہتے ہیں، اور ہم خود بھی محض مادہ ہیں اور ہمارے مر جانے کے بعد، جن ایٹموں سے مل کر ہم بنے تھے وہ منتشر ہو جاتے ہیں۔ اور ہماری کچھ بھی باقیات نہیں رہتیں۔ ہمارے اندر کوئی روح موجود نہیں ہے اور اسی لئے موت کے بعد کوئی زندگی بھی نہیں ہے۔
اس بات پر یقین رکھتے ہوئے کہ موت کے بعد کوئی زندگی موجود نہیں ہے، ایپیکورس (Epicurus) نےاپنا ایک نظریہ وضع کر لیا جسے وہ زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ سمجھتا تھا۔ اس کے مطابق چونکہ موت کے بعد ہمارا وجود ختم ہو جاتا ہے، اس لئے زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ اپنی لذتوں اور خواہشات کو پورا کرنا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو "اچھی" ہے۔ اور چونکہ لذتیں اچھی چیز ہیں، لہٰذا درد و تکالیف بری چیز ہے۔
پس یہی ایپیکورس (Epicurus) کا وہ تصور تھا جب اس نے ”شر کا مسئلہ“ کو وضع کیا۔ وہ دوسرے یونانی مکاتب فکر سے مختلف تھا، جیسا کہ سٹوکس(Stoics) اور ارسطو (Aristotelians)، جو تکلیف کے بارے میں یہ خیال رکھتے تھے کہ یہ ایک غیر مشروط برائی ہے۔
ایپیکورس (Epicurus) بہت سے دیوتاؤں کے وجود پر یقین رکھتا تھا۔ اور حقیقت کے حوالے سے یہ اس کا ادراک تھا۔ اور جب اس نے شر کے اپنے تصور کو اس حقیقت پر لاگو کیا جس میں بہت سے دیوتا موجود ہیں، تو تب ہی اس نے "شر کا مسئلہ" کے متعلق خیال پیش کیا۔ اور خود اپنے ہی سوال کے جواب میں، ایپیکورس (Epicurus) اس نتیجے پر پہنچا کہ دیوتاؤں نے دنیا میں شر کی اجازت صرف اس لئے دے رکھی ہے کیونکہ انہیں نوعِ انسانی اور ان کے امور کی کچھ پرواہ نہیں ہے۔
تاہم، ایپیکورس(Epicurus) کے تصورات کی درستگی سے پہلے، ہم ایک سوال سے آغاز کرتے ہیں: کیا درد و تکلیف واقعی شر ہے؟
بحیثیت مسلمان، ہم ایک خالق (اللہ سبحانہ و تعالیٰ) کے وجود، قرآن کے معجزہ اور محمد ﷺ کے پیغام پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہم پر واقع ہوتا ہے (چاہے وہ تکلیف ہو یا خوشی، اچھی قسمت ہو یا بدقسمتی) وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔ اس کی تصدیق سورۃ النساء آیت نمبر 78 میں ہوتی ہے جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ قُلْ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ﴾”(اے نبیﷺ) کہہ دو کہ ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے‘‘۔
تاہم، یہ کہنا کہ ہم اس زندگی میں جو بھی تکلیف محسوس کرتے ہیں (اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم سے) وہ شر ہے، یہ تکلیف کی حقیقت کو غلط سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ ایپیکورس (Epicurus) کے دنیا کے حوالے سے نظریہ کے مطابق، تکلیف بری (شر) ہے کیونکہ اس کے نزدیک زندگی کا مقصد محض خوشیوں کا حصول ہے۔
مقصد اور جس امر کو ہم خیر اور شر سمجھتے ہیں، ان کے درمیان تعلق کو سمجھنا ضروری ہے۔ مقصد ہی وہ اصل ہے جو ہمیں خیر اور شر کا معیار فراہم کرتا ہے۔
ایک سادہ سی مثال درج ذیل ہے: اگر مجھے کسی کار ڈیلر کے پاس جانا ہو اور میں اس سے ”اچھی کار‘‘ مانگوں تو وہ پہلے مجھ سے پوچھے گا کہ مجھے کیا چاہئے یعنی میں کس مقصد کے لئے کار خرید رہا ہوں؟ کیا مجھے یہ گاڑی کچے راستوں کے لئے چاہیے؟ تو اس صورت میں، ایک لینڈ روور میرے لیے اچھی ہوگی۔ یا میں کسی ایسی گاڑی کی تلاش میں ہوں جو کام پر آنے جانے میں میرے لئے کارآمد ہو؟ تو اس کے لیے، ایک سیڈان میرے لیے اچھی ہوگی۔ یا شاید کار خریدنے کا میرا مقصد صرف ایسی چیز کا مالک بننا ہے جو جمالیاتی ہو اور اس کی نمائش کرنا مقصود ہو (اور میں نے یہ مثال اس لئے شامل کی ہے کیونکہ کچھ فلسفیوں کے نزدیک زندگی کا مقصد جمالیات کا حصول ہے)، تو ایسی صورت میں، اسپورٹس کار جیسی لشکارے دار چیز میرے لئے اچھی ہوگی۔
درج بالا ہر معاملے میں، کسی کار کی خوبی کا تعین اس مقصد کے حوالے سے کیا جاتا ہے کہ یہ کس مقصد کو پورا کرے گی۔
ایپیکورس (Epicurus) کے برعکس، ہم اپنے دین کی بدولت یہ جانتے ہیں کہ معبود کئی نہیں ہیں، بلکہ صرف ایک ہی رب ہے اور وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہے۔ مزید برآں، ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں ایک واحد مقصد کے لئے پیدا کیا ہے:کہ اس کی عبادت کی جائے اور اس کی خوشنودی حاصل کی جائے۔ سورۃ الذاریات کی آیت نمبر 56 میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنسَ إِلاَّ لِيَعْبُدُونِ ﴾
”اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے تاکہ وہ میری بندگی کریں“۔
تکلیف آنا اچھا ہے یا برا ہے اس کا تعین ایپیکورس (Epicurus) کے تصورات کے مطابق نہیں ہونا چاہیے کہ نوعِ انسانی کا مقصد کیا ہے، بلکہ اس کے مطابق ہونا چاہئے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہمارے لئے ہمارے مقصد کا انتخاب کیا ہے۔
قرآن مجید کی متعدد آیات اور احادیث اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے مقرر کردہ آزمائشوں اور تکلیفوں کے بارے میں بتاتی ہیں اور یہ کہ کیسے وہ تکالیف ہمارے مقصد (یعنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عبادت اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے) میں ہماری مدد کرتی ہیں۔
ایک تو تکلیف کا آنا ہمارے لئے خیر ہے کہ یہ ہمارے گناہوں کا کفارہ بنتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
«ما يُصِيبُ المُسْلِمَ، مِن نَصَبٍ ولَا وصَبٍ، ولَا هَمٍّ ولَا حُزْنٍ ولَا أذًى ولَا غَمٍّ، حتَّى الشَّوْكَةِ يُشَاكُهَا، إلَّا كَفَّرَ اللَّهُ بهَا مِن خَطَايَاهُ»
”کوئی تھکاوٹ، بیماری، رنج، تکلیف، غم، مشکل جو مسلمان پر آتی ہے، خواہ وہ کانٹا ہی کیوں نہ چبھنا ہو، تو اللہ تعالیٰ اس کو اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے“ (بخاری)۔
دوم، تکلیف کا آنا ہمیں صبر کرنا سکھاتا ہے۔ سورہ البقرۃ کی آیت نمبر 155 اور آیت نمبر 156 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے،
﴿وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنْ الأَمْوالِ وَالأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرْ الصَّابِرِينَ ط الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ﴾
”اور ہم کسی قدر خوف اور بھوک اور مال اور جانوں اور میوؤں کے نقصان سے تمہاری آزمائش کریں گے توصبر کرنے والوں کو (اللہ کی خوشنودی کی) بشارت سنا دو۔ ان لوگوں پر جب کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کا مال ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں“۔
یہ اللہ عزوجل کی رحمت ہے کہ قیامت کے دن اپنے مصائب و آلام پر صبر کرنے والے اپنے درجات کو جنت میں بلند پائیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
«إِنَّ الرَّجُلَ لِتَكُونُ لَهُ عِنْدَ اللهِ الْمَنْزِلَةُ فَمَا يَبْلُغُهَا بِعَمَلٍ فَلَا يَزَالُ اللهُ يَبْتَلِيهِ بِمَا يَكْرَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ إِيَّاهَا»
”بے شک کسی انسان کا اللہ کے ہاں وہ درجہ ہو سکتا ہے جو اس نے اپنے نیک اعمال سے حاصل نہ کیا ہو۔ اس طرح سے کہ اللہ تعالیٰ اسے اس چیز سے آزمائش میں ڈالتا رہتا ہے جو اسے ناگوار گزرتی ہے یہاں تک کہ وہ اس مقام تک پہنچ جاتا ہے جو اس کے لئے مقرر کیا گیا ہے“ (ابن حبان)۔
یہ تو محض وہ چند انداز ہیں جن میں ہم تکلیف آنے کو اپنے لئے اچھا سمجھتے ہیں نہ کہ اسے وہ "شر" یا برا سمجھیں جیسے ایپیکورس (Epicurus) نے سمجھا تھا۔
یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ مذہب اور فلسفے کے عصری مباحثوں میں "شر کا مسئلہ" ایک بار پھر سامنے آیا ہے۔ ایپی کیورین (Epicurean) مکتبہ فکر کا احیاء 17ویں صدی میں یورپ میں ہوا اور جدیدیت کے جھنڈے تلے پھلنے پھولنے والے زیادہ تر فلسفے، علوم اور اداروں کی بنیاد بنا۔( اس بارے میں مزید جاننے کے لیے کیتھرین ولسن(Catherine Wilson) کی کتاب(Epicureanism at the Origins of Modernity)موجود ہے)۔
یہی وجہ ہے کہ آج ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں ایپیکورس (Epicurus) کی طرح کے بہت سے لوگ، درد وتکلیف آنے کو برائی کے طور پر دیکھتے ہیں۔
اس عقیدے کو زائل کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کا دنیا کو دیکھنے کا نظریہ اور تصورات کو تبدیل کیا جائے۔ یعنی انہیں اس زندگی میں ان کا اصل مقصد یاد دلایا جائے۔ تب ہی لوگ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حکمت کو پہچان سکتے ہیں جو اُس (اللہ ) نے ہمارے لیے تکلیف اور آزمائش میں رکھی ہے۔
اللہ عزوجل نے فرمایا،
﴿كُتِبَ عَلَيْكُمْ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ ﴾
”(مسلمانو) تم پر (اللہ کے رستے میں) لڑنا فرض کر دیا گیا ہے اگرچہ وہ تمہیں ناگوار ہو گا مگر عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو اور عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ تمہارے لئے مضر ہو۔ اور (ان باتوں کو) اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے“(البقرۃ، 2:216)۔
یہ نبوت کے نقش قدم پر قائم ہونے والی خلافت ہی ہو گی جو اسلام کی دعوت کو پوری دنیا تک لے جائے گی، اور اس کے لئے دستیاب تمام ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے، انسانیت کے عالمی نظریے میں ایک عظیم تبدیلی پیدا کرے گی۔ اور یہ جلد ہی ہو گا، ان شاء اللہ !
خلیل مصعب، ولایہ پاکستان