بسم الله الرحمن الرحيم
مغرب کی جانب سے خواتین کی توہین، ان کی عزتوں کی محافظ خلافت کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے
خبر:
تیس اپریل 2024 کو، ایریزونا فیملی ویب سائٹ نے خبر جاری کی، "ہفتے کے آخر میں'اے ایس یو' میں درجنوں فلسطین کے حامی مظاہرین کی گرفتاریوں سے ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو رہا ہے۔ کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز(CAIR) ایریزونا کے مطابق،'اے ایس یو' پولیس نے' اے ایس یو' کی چار طالبات کے حجاب زبردستی اتارے۔ 'کئیر اے زی'(CAIR-AZ) طرف سےایک ویڈیو ایریزونا فیملی کے ساتھ شیئرکی گئی جس میں مذکورہ واقعہ کا ایک حصہ دیکھایا گیا ہے۔"(1)
تبصرہ:
اے بی سی 15 کے رپورٹر ڈیو بسکوبنگ(Dave Biscobing) کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم'ایکس' پر شائع کردہ ایک ویڈیو میں، ایک خاتون کو بس کے قریب بیٹھا ہوا دیکھا جا سکتا ہے، جسے ہتھکڑیاں لگی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ ویڈیو میں، جسے سنسر کیا گیا ہے، اس کے سر سے اسکارف ہٹا دیا گیا ہے جبکہ چار اہلکار اسے گھیرے ہوئے ہیں۔ مسلم سوشل میڈیا پر یہ پوسٹ بڑے پیمانے پر گردش کر رہی ہے کیونکہ یہ مسلم خواتین کی عزت و حرمت کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
یہ ان واقعات کی فہرست میں تازہ ترین اضافہ ہے جن میں پرامن مظاہروں پر پولیس کے ردعمل کو دیکھ کر لوگ حیرت زدہ اور صدمے میں ہیں۔ پولیس خواتین مظاہرین کے ساتھ بدتمیزی کر رہی ہے، انہیں زمین پر دھکیل رہی ہے، انہیں پوری مردانہ جسمانی طاقت اور جارحیت کا استعمال کرتے ہوئے روک رہی ہے ۔ جبکہ خواتین بذات خود کوئی جسمانی خطرہ نہیں، ان کے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہے، اور وہ نوجوان طالبات یا فیکلٹی ممبر ہیں۔ تو پھر جسمانی اور مادی طاقت استعمال کرنے کی بھلا کیا ضرورت ہے ؟یہ مکمل طور پر غیر معمولی اور غیر ضروری ہے! ایسا لگتا ہے کہ مظاہرین، خواتین ہوں ہا مرد، ان کو یہ پیغام بھیجنے کا پرانا حربہ آزمایا جا رہا ہے کہ آپ منتشر ہو جائیں ورنہ آپ کو پولیس کی جارحانہ کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تو یہ ہے مغربی صنفی مساوات( عورت اور مرد کی برابری کا تصور)! اس نے ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا ہے جہاں کرپٹ پالیسیوں پر حکومتوں کا احتساب کرنے پر خواتین کو بھی مردوں کی طرح بربریت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
غزہ کے لیے مظاہرے مختلف مغربی ممالک میں پھیل رہے ہیں۔ جواباً پولیس کوایسے اجازت ناموں اور ممکنہ طور پر وحشیانہ ہتھکنڈے استعمال کرنے کی ہدایات کے ساتھ مظاہرین سے نمٹنے کے لیے بھیجا جا رہا ہے۔ یہاں خواتین کی عزت کا کوئی خیال نہیں کیا جا رہا۔ مظاہرین کی حمایت کرنے والے لوگ پولیس اور یونیورسٹی وکالج انتظامیہ کے اس رویے پر انہیں للکار رہے ہیں۔ وہ اپنے آئین کی پہلی ترمیم میں درج حقوق اور اظہار رائے کی آزادی، شہری حقوق اور آزادیوں کا حوالہ دے رہے ہیں۔ تاہم اس معاملے کو مزید بنیادی طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مغربی قوانین نے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کو فائدہ پہنچایا ہے۔ یہ قوانین آپ کے صرف اس صورت میں کام آتے ہیں جب آپ حکومت کے بیانیے کی پیروی کر رہے ہوں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ مغربی حکومتی پالیسیوں اور فیصلوں کے خلاف جانے کا نتیجہ منفی پروپیگنڈہ اور جسمانی جبر کی صورت میں نکلتا ہے، قطع نظر اس کے کہ آپ مرد ہیں یا عورت۔
آزادی نسواں کے علمبرداروں کو تو اس بات پر فخر کرنا چاہیے کہ وہ ایک ایسا معاشرہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں جہاں خواتین کے ساتھ بالکل مردوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ خصوصاً جب ان کی حکومت جب اپنے بچاؤ کا انتظام کرتی ہے تو کوئی امتیاز روا نہیں رکھتی۔
دوسری طرف، میں بحیثیت ایک مسلمان عورت، اس بات سے مطمئن ہوں کہ اسلام بہت سے حالات میں خواتین کے ساتھ ایک بالکل مختلف رویہ رکھتا ہے۔ ریاست خلافت پر مسلمان خواتین بلکہ کسی بھی خاتون کی عزت،احترام اور حفاظت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ خلافت کے ذمی (غیر مسلم شہری) کو بھی تحفظ دیا جاتا ہے۔
ان نام نہاد روشن خیال مغربی ریاستوں میں جیسی پولیس کی کارروائیاں کی جا رہی ہیں ،ایسی کسی کارروائی کی ریاست خلافت میں کبھی اجازت نہیں دی جائے گی۔ لیکن ہم ان لوگوں سے کیا امید رکھ سکتے ہیں جو سیکولر اور انسانوں کے خود ساختہ قوانین پر عمل کرتے ہیں؟ وہ قوانین جنہیں ضرورت پڑنے پر وہ آسانی سے توڑ مروڑ دیتے ہیں۔
اسلام عورت کو عزت وتکریم کا درجہ دیتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«إِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ»
"بے شک امام (خلیفہ)ایک ڈھال ہے جس کے پیچھےسےتم لڑتے ہو اور جس کے ذریعے تمہاری حفاظت ہوتی ہے۔"(مسلم)۔
مسلمانوں کے پہلے اور بہترین امام( حکمران) کے طور پر، رسول اللہﷺنے قینقاع کے یہودیوں کو مدینہ المنورہ سے نکالنے کیلئے اس وقت پوری فوجی طاقت کو متحرک کیا ،جب یہود نے اپنے بازار میں ایک مسلمان عورت کا حجاب کھینچ کر اتادیا تھا ۔ رسول اللہ ﷺ کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے، مسلمانوں کے آئیندہ تمام اماموں ( حکمرانوں) نے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ کے تحت حکمرانی کے دورمیں، امت کے لیے ڈھال کا کام کیا۔
خلیفہ معتصم باللہ کے دور میں رومیوں نےایک مسلمان عورت پر حملہ کیا تو اس نے پکارا، وا معتصماہ "اے معتصم"۔ جب یہ الفاظ خلیفہ معتصم تک پہنچے تو انہوں نے پوچھا، أي بلاد الروم أمنع وأحصن؟ "روم کا سب سے ناقابل تسخیر اور محفوظ ترین شہر کون سا ہے؟" جب جواب دیا گیا کہ عمورية ، تو خلیفہ نے ایک عظیم الشان فوج کی صورت میں منہ توڑ جواب بھیجا ؛جس نے اس وقت ایشیا ئے کوچک کے سب سے بڑے اور طاقتور شہر کوفتح کرکے اسلام کیلئے کھول دیا۔ یہ رمضان المبارک 223 ہجری کا واقعہ ہے، خلافت نے (عموریہ) کو فتح کر لیا، حالانکہ یہ طاقتور رومی سلطنت کا مضبوط ترین شہر اور ان کے لئے باعث فخر تھا۔ نیز نریندرمودی کے جد امجد راجہ داہر کی جانب سے مسلمان حاجیوں مرد و زن پر ظلم ہوا تو وہ محمد بن قاسم کی فوج کی تلواروں سے دور کیا گیا۔
کہاں ہے ہماری قیادت جو ہمارے دشمنوں کے دلوں پر خوف طاری کر دے تاکہ وہ کسی مسلمان عورت کی عزت کو پامال کرنے کی جرأت بھی نہ کرسکیں؟کہاں ہے ہماری قیادت جو ہماری مدد اور حفاظت کرے؟ آج ہمارے حکمران مجرموں کی طرح خاموش ہیں اور ہماری افواج اپنی بیرکوں میں بند ہو کر بیٹھی ہیں۔ آج مغربی اداروں اور مغربی حکومتوں کو مدد کے لیے پکارا جا رہا ہے۔ لیکن یہ ہرگز اس کا حل نہیں۔صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی اطاعت ہی وہ تبدیلی لائے گی جس کی ہمیں ضرورت ہے، اور بنی نوع انسان کے تحفظ کو یقینی بنائے گی ۔ ہمارے خالق کی طرف سے عطا کردہ حل کے علاوہ کوئی حل نہیں۔ہمیں ریاستِ خلافت کو دوبارہ لازمی قائم ہے کیونکہ وہی امت کی ڈھال ہے۔
فاطمہ اقبال
حوالہ جات