بسم الله الرحمن الرحيم
امریکہ یہودی وجود کو عرب اور مسلم ممالک پر بادشاہ کی حیثیت سے تاج پہنانا چاہتا ہے
خبر:
قاہرہ میں 21 مارچ 2024ء کو،مصری وزیر خارجہ سامح شکری کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں امریکی سیکریٹری خارجہ، انٹونی بلنکن نے کہا، "کل مجھے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ ایک بار پھر ملاقات کا موقع ملا، اور ان کے ساتھ ساتھ وزیر خارجہ سے بھی، اور ہم نے اس کام کے بارے میں بہت اچھی بات چیت کی جو ہم کئی مہینوں سے نارملائزیشن پر کر رہے ہیں، اور وہ کام آگے بڑھ رہا ہے۔ ہم اچھی پیش رفت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم ایک ایسے معاہدے تک پہنچ سکتے ہیں جو دو اقوام بلکہ پورے خطے کے لیے ایک تاریخی موقع فراہم کرے گا" [1]۔ جنگ بندی کے بارے میں انہوں نے مزید کہا، "ہم نے کئی رکاوٹوں کو ختم کر دیا ہے، لیکن ابھی بھی کچھ رکاوٹیں باقی ہے۔ تو میں اس حوالے سے ٹائم لائن نہیں دے سکتا۔ میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ ہم کسی معاہدے تک پہنچنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کے لیے پرعزم ہیں، اور یہ کام اس وقت بھی جاری ہے جب ہم بات کررہے ہیں" [1]۔ امریکہ نے یہودیوں پر واضح کر دیا ہے کہ 7 اکتوبر سے پہلے کی صورت حال پرواپسی نہیں ہوسکتی، جہاں یہودیوں کا خیال تھا کہ وہ فلسطینی ریاست کے بارے میں اہم پیش رفت کیے بغیر سعودیوں کے ساتھ معاہدہ کر سکتے ہیں۔ خطے کے اپنے حالیہ دوروں میں، امریکی سیکریٹری خارجہ نے زور دیا کہ یہودی وجود کی حکومت کو مشکل فیصلے کرنا ہوں گے، اور دو ریاستی حل کی طرف بڑھنا چاہیے۔ یعنی اگر وہ سعودی عرب کے ساتھ اس نارملائزیشن کو حاصل کرنا چاہتا ہے، اور اگر وہ غزہ میں سلامتی اور تعمیر نو کے لیے اپنے عرب پڑوسیوں کی حمایت چاہتا ہے۔
تبصرہ:
یہ سچ ہے کہ یہودی وجود نے غزہ اور پورے فلسطین کے خلاف اپنی صلیبی جنگ کے اعلان کردہ اہداف کو حاصل نہیں کیا۔ تاہم، اس نے ایک مختلف معنوں میں اس سے کہیں زیادہ حاصل کیا۔ یہ درست ہے کہ یہودی ریاست اپنی بزدل فوج کے ساتھ مزاحمت کو مکمل طور پر ختم نہیں کر سکی تھی۔ تاہم، یہ غزہ کی پٹی کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے میں کامیاب رہا۔ اس نے مزاحمت کو نشانہ بنایا۔ اس نے لوگوں کو قتل، نسل کشی اور مسمار کرنے کے حوالے سے نقصان پہنچایا۔ یہ درست ہے کہ یہودی ریاست 7 اکتوبر کو پکڑے گئے قیدیوں کی رہائی کو یقینی بنانے میں ناکام رہی۔ تاہم، بدلے میں اس نے مغربی کنارے سے پندرہ ہزار سے زیادہ اور اس سے بھی زیادہ غزہ سے لوگوں کو اپنی قید میں لیا ہے۔ اور یہ سب کچھ اس صورت میں یہودی وجود نے کیا ہے اگر یہ مان لیا جائے کہ یہودی ریاست اپنے قیدیوں کو آزاد کرانے کے اپنے ارادے میں سنجیدہ ہے، اور انہیں مزید خون بہانے والے قتل عام کرنے کے بہانے کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہتی۔ یہودیوں کے شدید حملوں، اور ان کو جہنم بنا دینے کی پالیسی سے یہ بات واضح تھی کہ یہودی کم از کم اپنے قیدیوں کو زندہ واپس نہیں لے سکیں گے۔ اس نقصان کو صلیبی کمانڈروں نے بہت زیادہ قیمت قرار دیا۔ جہاں تک 7 اکتوبر سے پہلے کی سلامتی کی صورتحال کو بحال کرنے کا تعلق ہے، یہودی ریاست نے ایسا کرنے کے کسی بھی طریقے کو ختم کر دیا ہے۔ تمام سازشی عناصر، غزہ کو عباس ، پڑوسی ممالک اور بین الاقوامی افواج کی اتھارٹی میں دے کر ایک مکمل طور پر غیر فوجی وجود بنانے کی تیاری کر رہے ہیں۔
یہودی وجود کے ہاتھوں قتل عام کومکمل امریکی حمایت حاصل ہے۔ اس طرح امریکہ یہودی ریاست کو ایک خبیث وبدمعاش وجود کے طور پر مارکیٹ کرنے میں کامیاب ہو گیا جو ہر قانون، رواج اور اصول سے بالاتر ہے۔ امریکہ نے اس وجود کو انسانی اصولوں اور اقدار کے خلاف بغاوت کے تمام ذرائع فراہم کئے اور اسے احتساب بھی محفوظ رکھا۔ امریکہ نے امت مسلمہ، اس کی حکومتوں، اس کی افواج اور اس کے عوام کی نگاہوں کے عین سامنے یہودیوں کو مکمل طور پر وحشیانہ جبر کرنے کا موقع فراہم کیا۔ اس نے مسلم دنیا کی ایجنٹ حکومتوں پر لازم کردیا کہ وہ ان جرائم پر خاموشی اختیار کریں اور کوئی حرکت میں نہ آئے۔ امریکہ نے یہودیوں کے ہاتھوں قتلِ عام کے خلاف مسلم افواج پر لازم کیا کہ وہ حرکت میں نہیں آئیں گی، اور عام عوام کی آواز کو دبانے کی کوشش کی کہ وہ محض مذمت سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکیں۔ عالمی برادری کے لئے، یہودی وجود ایک "امریکی نما" ریاست بن گیا ہے جو ہر اس شخص کو جو اس کے جرائم میں اس کی حمایت نہیں کرتا، اسے یہود مخالف سمجھتا ہے، چاہے وہ اس کے اتحادیوں میں سے ہوں اور اس کو مدد فراہم کرنے والوں میں سے ہوں۔ ہفتہ 23 مارچ 2024 کو، یہودی وجود کے وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے غزہ کی پٹی میں امداد کے داخلے کو آسان بنانے کی ضرورت سے متعلق بیانات دینے پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل، انتونیو گوٹیرس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ہفتے کے روز رفح بارڈر کراسنگ کے دورے کے دوران غزہ میں انسانی بحران پر سیکریٹری جنرل کی تنقید کے بعد، کاٹز نے اس کو سخت جواب دیا، اور یہ دعویٰ کیا کہ اقوام متحدہ ایک "یہود مخالف اور اسرائیل مخالف ادارہ" بن چکا ہے۔
یہودی ریاست نے اس سے زیادہ قتل و غارت، تباہی اور نقل مکانی کے معاملے میں حاصل کیا جس کا اس نے خواب دیکھا تھا۔ اور یہ کام اس نے بین الاقوامی، علاقائی اور عرب کوریج کے باوجود کیا۔ اس سے بڑھ کر نارملائزیشن کا تسلسل جاری ہے جو 7 اکتوبر کے واقعات سے پہلے سےعرب اور غیر عرب کے غدار حکمرانوں کے ساتھ ہو رہا تھا۔ اس تاریخ کے بعد ہونے والے قتل عام سے بھی نارملائزیشن کا عمل متاثر نہیں ہوا۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ امریکہ اب یہودی ریاست کو اس کے جرائم کا بدلہ دے رہا ہے، عالم اسلام کے قلب میں واقع اس یہودی وجود کےبنی سعود کے ساتھ تعلقات کو نارملائز کرنے کے لیے پُل پر پُل تعمیر کررہا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد بھی کچھ لوگ یہ دعویٰ کرنا پسند کرتے ہیں کہ یہودی ریاست نے جو منصوبہ بنایا تھا وہ حاصل نہیں کیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہودی وجود جنگ سے شکست کھا کر نکلے گا۔ وہ زمینی، سیاسی اور علاقائی طور پر یہودی ریاست کی طرف سے حاصل کی گئی تمام سابقہ کامیابیوں کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ ان آوازوں میں سے کچھ نے حقیقت کو اس کے تمام پہلوؤں میں اچھی طرح سے نہیں پڑھا۔ کچھ تو یہاں چھوٹی کامیابیوں پر خوش ہوئے، جبکہ بڑے نقصانات کو نظر انداز کیا۔ پھر دوسری آوازیں ہیں جو امت کو بے حس اور رائے عامہ کو گمراہ کرنا چاہتی ہیں۔ یہ اس لیے ہے کہ امت اور اس کے ساتھ عالمی رائے عامہ پھٹ پڑنے کی حدتک نہ پہنچ جائے۔
ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کے پاس اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں کہ یہودی ریاست کو عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) پر بادشاہ کے طور پر تاج پہنا دے، یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے مدینہ کے قبائل عبداللہ بن ابی بن سلول کو مدینہ میں اپنا بادشاہ بنانے کا منصوبہ بنا رہے تھے، لیکن اس منصوبے پر عمل ہونے سے پہلے ہی اللہ کے نبی محمدﷺ نے ان پر سبقت حاصل کرلی۔ جب تک امت حرکت میں نہیں آئے گی اور اپنے غدار حکمرانوں کا تختہ الٹ کر ایک خلیفۂ راشد کو تعینات نہیں کرتی جو اسے نبوت کے نقش قدم پر خلافت راشدہ کے تحت یکجا کرے، امریکہ یہودی وجود کوتاج پہنا کر اس کو عرب اور غیر عرب امت کا بادشاہ بنا کر مسلمانوں پر غالب آجائے گا۔ پھر نیتن یاہو امت اسلامیہ پر اپنی فیصلہ کن فتح کا اعلان کرے گا۔ امت کو اپنے حالات کو درست کرنا ہوگا اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔ اسے ذرائع ابلاغ کے ذریعے بُنے ہوئے وہموں سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے جو امریکہ اور یہودیوں کی براہِ راست یا بلاواسطہ، دانستہ یا غیر ارادی طور پر خدمت کرتے ہیں۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے ریڈیو براڈکاسٹ کے لیے تحریر کیا گیا
بلال المہاجر، ولایہ پاکستان
حوالہ جات
Latest from
- امریکی منصوبے کے جال میں پھنسنے سے خبردار رہو
- مسلم دنیا میں انقلابات حقیقی تبدیلی پر تب منتج ہونگے جب اہل قوت اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے جابروں کو ہٹا کر امت کا ساتھ دینگے
- حقیقی تبدیلی صرف اُس منصوبے سے آ سکتی ہے جو امت کے عقیدہ سے جڑا ہو۔ ...
- حزب التحریر کا مسلمانوں کی سرزمینوں کو استعمار سے آزاد کرانے کا مطالبہ
- مسلمانوں کے حکمران امریکی ڈکٹیشن پر شام کے انقلاب کو اپنے مہروں کے ذریعے ہائی جیک کر کے...