الجمعة، 20 جمادى الأولى 1446| 2024/11/22
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

کیا یہ تبدیلی کے لیے 'ہاں' کہنے کا وقت نہیں ہے؟

 

 

سرمایہ دارانہ نظام ناکام ہو رہا ہے – یہ ہمیشہ سے ایک ناقص نظریہ تھا۔ غریبوں کے نقصان کے بدلے امیروں کو فائدہ پہنچانا یا دوسرے لفظوں میں، چند افراد کو صحت مند اور کامیاب رکھنے کے لئے باقی تمام دنیا کا استحصال کرنا۔ یہ سب نہ تبدیل ہوا ہے اور نہ ہی تبدیل  ہونے والا ہے۔ بلکہ اصل میں یہ  پہلے سے بدتر ہو رہا ہے۔ لیکن میرا یہ کہنا کہ سرمایہ دارانہ نظام ناکام ہو رہا ہے، اس کی اصل وجہ یہ بھی نہیں ہے۔

 

اس کی ناکامی اس معنی میں ہے کہ اسے بے نقاب کر دیا گیا ہے- لوگ اس کی خامیوں اور ہیرا پھیریوں سے واقف ہو چکے ہیں۔ اس سے ہونے والے نقصان کو پوری دنیا دیکھ سکتی ہے۔ ماضی میں، اس نے عوام اور دنیا کو دھوکا دے کر اور طاقت کا ناجائز فائدہ اٹھا کر کامیابیاں حاصل کیں۔ لیکن اس بار، غزہ کے حوالے سے، وہ ہمیں دھوکہ دینے اور ہیرا پھیری کرنے میں ناکام رہا ہے۔

 

ہم اس فتنہ وفساد کو دیکھ سکتے ہیں جس کی اس نظریہ نے اجازت دے رکھی ہے۔ ہم اسرائیل کے لیے اس کی حمایت کو دیکھ سکتے ہیں۔ کس طرح  اسرائیل کی مدد و معاونت کے لیے امریکہ کسی کو جوابدہ نہیں، کس طرح دنیا بھر کے حکمران اسرائیل کو اپنی نسل کشی جاری رکھنے کی کھلی اجازت دے رہے ہیں- اس حقیقت کے باوجود کہ ان کا اپنا عالمی قانون کہتا ہے کہ انہیں روکا جانا چاہیے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح تمام عالمی تنظیمیں، جن کو دنیا انسانی حقوق کا چیمپئن مانتی تھی، نظام کے اندر فتنوں کو فروغ دیتی ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ میڈیا کس طرح ایک حکومتی ادارہ ہے، جو حکمرانوں کی سچائی کو چھپانے کی کوشش میں ان کی مدد کرتا ہے تاکہ عوام کی توجہ کسی طرح دیگر مسائل پر مرکوز کی جائے - نتیجتاً اسرائیل اور امریکہ کو خطے میں اپنے مقاصد پورے کرنے کے لیے وافر وقت مل جائے۔

 

پس جب ہم سوچنےبیٹھتے ہیں کہ پچھلے چند مہینوں میں آخر کیا ہوا ہے – نہ صرف غزہ میں بلکہ پوری دنیا میں، تو ہم  ناامیدی، غم وغصے اور بے چینی کے سمندر میں ڈوب جاتے ہیں۔ ہم سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامیوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ  سرمایہ داریت نے نہ تو کبھی لوگوں کو انصاف دلایا نہ ان کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے اور نہ ہی کبھی ایسا ہوگا کیونکہ ایسے’مثالی‘ اہداف سرمایہ دارانہ نظام کے مفادات سے ہم آہنگ نہیں۔

 

اور پھر بھی، جب ہم کسی متبادل کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ تبدیلی لانا ممکن نہیں ہے۔

ہم کہتے ہیں کہ ہم سرمایہ داریت سے کیسے منہ موڑ سکتے ہیں؟ دنیا اس کے بغیر چل نہیں سکتی۔

لیکن ہمیں اس کے بارے میں  ایک لمحہ سوچنے کی ضرورت ہے – ہم سرمایہ دارانہ نظام سے منہ کیوں نہیں موڑ سکتے؟

بحیثیت عوام، اس نے ہمیں مایوس کیا ہے۔

 

اور بحیثیت مسلمان، یہ ہمیں اللہ کے قانون پر انسان کے قانون کو ترجیح دینے پر مجبور کر رہا ہے۔

لیکن اگر ایک لمحے کو یہ سب بھی نظر انداز کر دیں تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر ہم کیوں سمجھتے ہیں کہ اسلام کو دنیا میں واپس لانا عملاً ممکن نہیں؟

 

کیا ہم نے ماضی میں دو نظریات یا ایک سے زیادہ سلطنتوں کی موجودگی میں زندگی نہیں گزاری؟

 

جب ہم تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں مختلف ’طاقتوں‘ اور ’سلطنتوں‘ کی ایک صف نظر آتی ہے جو بیک وقت زمین کے علاقوں پر حکومت کرتی تھیں۔ پس دنیا میں کبھی تو روم اور فارس کی سلطنتیں تھیں۔ پھر برطانوی، فرانسیسی، اور دوسری یورپی سلطنتوں کی ایک پوری صف بندی تھی جو ایک ہی وقت میں موجود تھیں۔

 

سلطنتوں کے زوال کے بعد، ہماری دنیا میں سرد جنگ کا آغاز ہو گیا جس میں دو نظریات اختیار، طاقت اور اثر و رسوخ کے لیے مقابلہ کر رہے تھے۔ ہاں کمیونزم ناکام ہو گیا۔ لیکن یہ کئی دہائیوں تک سرمایہ دارانہ نظریہ کے ہمراہ بیک وقت موجود رہا۔ لیکن اس کی ناکامی میں زیادہ کردار کمیونسٹ نظریے کی خامیاں اور سوویت یونین کی قیادت کے اقدامات نے ادا کیا، نہ کہ اس بات نے کہ ایک وقت میں دنیا میں ایک سے زائد نظریات موجود نہیں رہ سکتے۔

 

تو، ہم موجودہ حالات کو دیکھ کریہ کیوں کہتے ہیں کہ مسلم دنیا کے لیے سرمایہ دارانہ نظریے سے ہٹ کر ایک ایسی حقیقت کی طرف بڑھنا ناممکن ہے جہاں اسلام کو ایک نظریے کے طور پر نافذ کیا گیا ہو؟

 

اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمیں ایسے تصورات اور نظریات پڑھائے گئے ہیں جو ہمیں یقین دلاتے ہیں کہ ایسا ہونا ناممکن ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام، میڈیا اور سیاسی ادارے سبھی اس خیال کو مسلسل فروغ دیتے ہیں کہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جو ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے، اور ترقی کا واحد راستہ اسی طرح رہنا ہے – ورنہ ہم ان تمام مادی فوائد تک کیسے پہنچیں گے جن کا وعدہ ہم سے سرمایہ دارانہ نظام نے کیا ہے ؟ اور  بحیثیت قوم، ہمیں خود کفیل ہونے کی بالکل کوشش نہیں کرنی چاہئے، بلکہ ہمیں تجارت کرنی چاہیے تاکہ ہم گلوبلائزیشن پر مبنی دنیا کے تمام فوائد تک رسائی حاصل کر سکیں۔

ایسا جان بوجھ کر کیا جاتا ہے، کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام کا تسلسل عوام کی حمایت اور ان کو دھوکا دینے پر منحصر ہے۔ اگر ہم جان جائیں تو ہم سوال کریں گے۔ اگر ہم سوال کریں گےتو ہم سوچیں گے۔ اور اگر ہم سوچیں گے تو یہ نظام اپنی حمایت اور غلبہ کھو دے گا۔

 

یہ سچ ہے کہ امریکہ نے دنیا بھر کی قومی ریاستوں کی حمایت سے ایک ایسی حقیقت تخلیق کی ہے، جہاں ہم سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ہر قوم کے لیے قوانین و ضوابط بنائے جن کی پابندی ضروری قرار دی گئی اور پھر اس بات کو یقینی بنایا کہ اگر کوئی اس نظام کے  دائرے کےاندر کام نہ کرے تواسکے نتائج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ لہٰذا، اگر ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کی مدد نہیں کریں گے، تو ہمیں وہ قرضے کیسے حاصل ہوں گے جن کی ہمیں ترقی کے لیے ضرورت ہے؟ اگر ہم ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں گے تو پرائیویٹ کمپنیاں ہمارے ساتھ معاہدے کرنے سے انکار کر دیں گی۔ اگر ہم اسلامی قانون کو نافذ کرنے کی کوشش کریں گے تو دوسری قومی ریاستوں کی طرف سے ہمیں نظرانداز اور بدنام کیا جائے گا۔

 

لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام سے جان چھڑانا ناممکن ہے- اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کو ترک کرنے سے عالمی نظام کی شکل تبدیل ہو جائے گی۔  اور ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے، امریکہ نے بڑی سلطنتوں کے زوال کے بعد ایسا ہی کیا تھا۔ اور اگر آپ اس حقیقت پر غور کریں کہ کمیونزم کا سقوط  1990,1980 تک نہیں ہوا تھا۔ اور سرمایہ دارانہ نظام کے یکطرفہ غلبےکو ابھی 70 سال  سے بھی زیادہ نہیں ہوئے۔

 

پھر ایک امرِ واقع یہ بھی ہے کہ باہم مربوط ہونا اس نظام کی سب سے بڑی خامی ہو سکتی ہے۔ ڈالر، جو سرمایہ دارانہ غلبے کے اہم ستونوں میں سے ایک ہے، اس کا مکمل انحصار ’اعتماد یا ٹرسٹ ‘ پر ہے۔ ڈالر پر اعتماد اور امریکہ پر اعتماد۔ ۔ اگر ہم اس اعتماد کو کھو دیتے ہیں، اور ڈالر سے دور ہو جاتے ہیں، تو یہ اپنی قدر کھو دےگا۔ لیکن یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہےکہ دوسری کرنسی پرمنتقل ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ  بھروسے پر مبنی ایک اور ’فیاٹ‘ کرنسی کو اپنایا جائے، جو کہ بالواسطہ طور پر ڈالر سے ہی منسلک ہو، بلکہ اس کا مطلب ہے کہ فیاٹ پر مبنی کرنسی کو یکسر مسترد کردیا جائے اور سونے اور چاندی (گولڈ اینڈ سلور اسٹینڈرڈ) کی طرف بڑھا جائے۔

 

اس سے پہلے کہ آپ یہاں رک کر یہ کہیں کہ یہ تو ناممکن ہے، دو باتوں پر ذرا غور کیجئے۔

 

1۔  ہمیں کون بتاتا ہے کہ ایسا ناممکن ہے- ظاہر ہے یہ وہی لوگ ہیں جو اس نظام کو قبول کرنے سے فوائد حاصل کرتے ہیں؟

 

2۔ کیا ایسا صرف اسی وجہ سے ناممکن نہیں کیونکہ ہم اس زوال پذیر نظام کے اندر رہنے کی کوشش کر رہے ہیں ؟

 

اگر ڈالر کو مسترد کردیا جائے تو یہ اسے کمزور کر دے گا اور یہ کمزوری خود ان کے لیے نقصان دہ ہو گی نہ کہ ہمارے لیے- خاص طور پر جب کہ دنیا بھر کے ممالک کی بڑھتی ہوئی تعداد مغربی تسلط سے تنگ آ رہی ہے اور تبدیلی کے خواہاں ہیں۔

 

یہ تو صرف معاشی حقیقت ہے – سرمایہ دارانہ نظام کی خامیاں تو اس سے کہیں آگے عسکری، عدالتی، سیاسی اور معاشرتی شعبوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ لیکن آج، ہمیں حقائق کو نظر انداز کرکے خوف پر توجہ مرکوز کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ 'اگر ایسا ہوگیا تو' اور 'شاید' کا خوف، جو ہمیں اس سرمایہ دارانہ نظام  کی دہشت گردانہ حکمرانی کی حمایت جاری رکھنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ سرمایہ داریت کا ایک ہتھکنڈہ ہے جس کی مدد سے وہ اپنی حفاظت کرتا ہے تاکہ اسے کوئی چیلنج نہ کر پائے ۔ کیونکہ اگر ہم اس کے احکام و قوانین کو رد کر دیں اور ان سے دور ہو جائیں تو یہ ناکام ہو جائے گا۔

 

لہٰذا، یہ ہمیں سرمایہ دارانہ دنیا کی تلخ حقیقت کو نظر انداز کرنے پر مجبور کرتا ہے، جہاں کچھ ممالک معاشی طور پر صرف اس لیے ترقی یافتہ ہیں کہ وہ باقی دنیا کا استحصال کر رہے ہیں۔ اور اس عمل میں براہ راست، یا بالواسطہ طور پر لاکھوں انسانوں کو قتل کررہے ہیں۔

 

وہ واضح طور پر خوفزدہ ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ صرف ایک ملک یا ایک حکومت نہیں ہوگی جو سرمایہ داری کو مسترد کرے گی۔ بلکہ یہ رد پوری امت مسلمہ کی جانب سے ہو گا۔ اور یہ ہرگز ناممکن نہیں، اس کے لیے ہمیں اپنے خوف سے بالاتر ہو کر سوچنے اور یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ بحیثیت مسلمان ہم ہمیشہ اللہ پر بھروسہ رکھتے ہیں۔

 

کیا ہم سمجھتے ہیں کہ عوام تبدیلی کے لیے تیار نہیں؟

 

اگلی دلیل جو ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر عملی طور پر اسلامی نظریہ کو نافذ کرنا ممکن ہے تو پھر بھی یہ کبھی کامیاب نہیں ہوگا کیونکہ لوگ تیار نہیں ہیں۔

 

اگر ہم آج کی دنیا پر ایک نظر ڈالیں تو حقیقت یہ ہے کہ عوامی رائے مسلم دنیا کے اندر اور باہر سرمایہ دارانہ نظام یا مغربی تسلط کے حق میں بالکل نہیں ہے۔ تو کیا ہم واقعی یہ کہہ سکتے ہیں کہ عوام تیار نہیں؟ پوری دنیا میں تبدیلی کا نعرہ لگایا جا رہا ہے۔ آج یہ رائےعامہ زیادہ سے زیادہ قبولیت حاصل کر رہی ہے کہ ہمیں جن مسائل کا سامناہے ان کی وجہ نظام ہے یعنی وہ سرمایہ دارانہ نظام کا نتیجہ ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ لوگ ابھی تک، جانتے بوجھتے یا انجانے میں، انہی طریقوں اور آلات کو استعمال کرتے ہوئے ’نظام کو ٹھیک کرنے‘ کی کوشش کر رہے ہیں جن کی سرمایہ دارانہ نظام اجازت دیتا ہے۔ اور جب ہم ایسا کرتے ہیں، تو ہم اس کے اندر پھنس کر نظام ہی کی حفاظت کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے 'حل' ہمیں ان قوانین اور ضوابط کی طرف رجوع کرنے پر مجبور کرتے ہیں جو  خود ان مسائل کی وجہ ہیں۔ اور کوئی بھی 'علاج' صرف ایک عارضی  مرہم کا کام کرتا ہے۔

 

ایسا ہمیں انتخابات، احتجاج اور بائیکاٹ وغیرہ کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔ اگرچہ احتجاج اور بائیکاٹ حکومتی اور عالمی پالیسیوں کے خلاف ہمارےغم و غصے کو ظاہر کرنے کا اچھا ذریعہ ہے، لیکن یہ حقیقی تبدیلی کا باعث نہیں بنیں گے۔ کیونکہ ہم انہی سیاست دانوں اور بین الاقوامی اداروں سے تبدیلی کا مطالبہ کررہے ہیں، جو واضح طور پر 'سٹیٹس کو' میں اپنا مفاد رکھتےہیں۔  اور وہ کبھی بھی ایسے فیصلے نہیں کریں گے جس سے سرمایہ دارانہ نظام کے مفادات یا پوری دنیا کے غلبے کو نقصان پہنچے۔

 

کچھ لوگ کا کہنا ہےکہ حالات کو بدلنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہم خود کو بطور مسلمان ٹھیک کریں اور اسلام کے قریب جائیں۔ اس کے جواب میں ہمیں مندرجہ ذیل باتوں پر غور کرنا چاہیے کہ اسلام کو اس زمین پر ایک نظام کے طور پر دوبارہ قائم کرنے سے بڑھ کر اس کے قریب جانے کا اور کیا طریقہ ہے؟ اور ایک بار جب یہ ہو جائے تو کیا یہ اللہ کے قریب ہونے کی ہماری انفرادی کوشش میں ہماری مدد نہیں کرے گا؟ اسلامی ریاست ہمیں تعلیم دینے، ہماری عبادات میں ہماری مدد کرنےاور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے موجود ہو گی کہ ہمارا ہر فیصلہ وہی ہو جس کی اللہ اجازت دیتا ہے۔ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں اس میں سے کوئی بھی بات ممکن ہے، کیونکہ اس کا تو واحد مقصد ہمیں مذہب سے دور کرنا ہے نہ کہ اس کے قریب؟

 

غزہ اور پوری دنیا میں رونما ہونے والی ہولناکیوں کو روکنے کے لیے دنیا بھر کے لوگ تبدیلی کے لیے بے چین ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کسی قانون یا چند چہروں کو تبدیل کرنے سے سرمایہ دارانہ نظام کے ظلم کو نہیں روکا جا سکے گا – اسے روکنے کا واحد طریقہ اس سے پیچھا چھڑانا اور پھر اسے چیلنج کرنا ہے، اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہمارے پاس کوئی اور بہتر نظریہ ہو۔

 

کیا ہمیں لگتا ہے کہ نظام کی تبدیلی ہمیں آج سے بھی زیادہ مشکلات سے دو چار کردے گی؟

 

یہ ایک واضح خوف ہے جو نظام کی تبدیلی کے خیال کے ساتھ منسلک ہے۔اور یہ فطری ہے - کیونکہ انسان کو عام طور پر تبدیلی کا خوف ہوتا ہے، وہ کنٹرول کی خواہش رکھتا ہے اور غیر یقینی صورتحال سے دور رہتا ہے۔ جب ہم اسلامی نظام کے بارے میں پڑھتے ہیں تو ہم جانتے ہیں کہ اسلام کو اس دنیا میں واپس لانا ایک بہت بڑی تبدیلی ہوگی۔

 

لیکن کیا یہ اس سے زیادہ مشکل ہوگا جس کا ہم اس وقت سامنا کر رہے ہیں؟ دنیا بھر میں بھڑکائے گئے تنازعات اور جنگوں میں لوگ مارے جا رہے ہیں۔

 

غزہ کی موجودہ صورتحال بہت سی مثالوں میں سے صرف ایک مثال ہے، اور یہ سب  قتل وغارت اس وقت تک جاری رہے گا جب تک سرمایہ دارانہ ریاستوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے اس کی ضرورت ہے۔

 

جبکہ دنیا کے وہ علاقے جو اب تک جنگوں اور تنازعات سے بچے ہوئے ہیں،  وہاں سرمایہ داریت نے ہمیں جھوٹی امید دلا رکھی ہے۔ اس نے ہمیں سکھایا ہے کہ اگر ہم اپنا سر جھکائے رکھیں، ان قوانین کی پاسداری کرتے رہیں جن کی یہ تشریح کرتا ہے، اور معاشرتی سرگرمیوں میں حصہ لیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن اگر ہم ایک لمحے کے لیے بیٹھ کراس پر غور کریں تو  کیا واقعی ہمارے پاس کوئی اختیار ہے؟

 

زندگی میں، بحیثیت مسلمان ہم جانتے ہیں ( 'قضا' کا تصو٘ر) کہ ہم صرف اپنے اعمال کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔ جبکہ ہمارے ساتھ کیا ہوتا ہے، دوسرے لوگ ہمارے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں، یہ سب کچھ اس دائرے میں ہے جس پر ہمارا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ اس دائرے میں جو ہمارے اختیار سے باہر ہے، ہماری موت اور ہمارا رزق بھی شامل ہیں ۔ اسی لیے اگر ہم حرام راستے کا انتخاب کرلیں- جیسے ربا (سود) لینا یا بینک لوٹنا - تو بھی یہ ہمارے رزق کو ہرگز تبدیل نہیں کرے گا۔ جو ہمارے لیے لکھا ہوا ہے، وہ ہمیں مل کر رہے گا۔

 

لہٰذا، جب سرمایہ دارانہ نظام ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں اپنی روزی صرف اسی صورت میں ملے گی جب ہم تابع فرمان رہیں گے، تو یہ ہمیں اس نظام کے ساتھ وفادار رہنے پر ہیرا پھیری سے مجبور کرتا ہے۔ اس دنیا کے لوگ ہمارے رزق کو نہیں بدل سکتے، چاہے وہ ہمیں کچھ بھی ماننے پر مجبور کردیں۔ اور اگر ہم اپنی زندگی کے کسی ایسے مرحلے سے گزرتے ہیں جہاں ہمیں معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو یہ ایک امتحان ہے جس کے ذریعے اللہ ہمیں اپنے قریب لانا چاہتا ہے اور اس لیے ہمیں چن لیتا ہے۔ نیز، اس مشکل کو نہ ہمارا کوئی عمل تبدیل کر سکتا ہے۔ نہ ہی سرمایہ دارانہ نظام کا کوئی فعل اسے تبدیل  کرے گا۔

 

لہٰذا، مشکلات ومصائب کی اگر بات کریں تو یاد رہے کہ ہمیں اس زندگی میں ہمیشہ آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ ناگزیر ہے۔ لیکن ہمارے پاس ایک انتخاب ہے کہ ہم ان آزمائشوں پر کیا رد عمل دیتے ہیں۔ کیا ہمارا انتخاب ہمیں اللہ کے قریب کر دے گا تاکہ ہم جنت میں داخل ہو سکیں یا ہم سرمایہ دارانہ نظام کو اجازت دیں گے کہ وہ ہمارے تبدیلی اور مشکلات کے خوف کو دھوکا دہی سے استعمال کرے؟

 

لیکن آج کے دور میں اسلام کیسے کام کرے گا؟

 

یہ وہ بات ہے جو ہمیں الجھن میں ڈالتی ہے – اور یہ ایک ایسا شک تھا جو جان بوجھ کر ہمارے اندر پروان چڑھایا  گیا۔ سرمایہ دارانہ نظام نے اپنی استعماری اور نوآبادیاتی دونوں صورتوں میں، ہمیں اسلام کے بارے میں غلط فہمی میں مبتلا کرنے کے لیے سخت محنت کی ہے۔ اس نے ایسے جھوٹے افکار پھیلائے کہ۔ 'ہم مذہب سے دور جا چکے ہیں'، 'مذہب کی اس دنیا میں کوئی جگہ نہیں ہے'، 'اسلام ایک فرسودہ مذہب ہے، اور جدید دنیا میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے۔' وہ ہمیں بتاتے رہے کہ مسلم علاقے پسماندہ اور بدعنوان (کرپشن زدہ) ہیں - اورکبھی یہ تسلیم کرنے کی زحمت نہیں کی کہ  یہ بدعنوانی دراصل انہی افکار اور تصورات کا نتیجہ تھی جو انہوں نے ہمارے درمیان گزشتہ چند صدیوں میں فروغ دیے تھے۔

 

کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر ہم نے حقیقت کو سمجھ لیا اور اس پر سوال اٹھائے تو یہ لامحالہ ہمیں ایک ایسے مقام پر لے جائے گا جس سے وہ خوفزدہ ہیں- وہ مقام جہاں ہم بحیثیت امت کہہ اٹھیں گے کہ 'بس! اسلام تبھی پھلے پھولے گا جب ہم اسے روئے زمین پر بحیثیت نظام  نافذ کریں گے۔ وہ مقام جہاں ہمیں احساس ہو جائے گا کہ ’آج ہم جن مسائل کا سامنا کررہے ہیں وہ سرمایہ دارانہ نظام کا نتیجہ ہیں‘ اور اس میں کبھی تبدیلی نہیں آئے گی۔

 

کیونکہ جب اسلام  بحیثیت نظام آئے گا تو وہ کسی ایک شے کو تبدیل نہیں کرےگا۔ نہ ہی چند چیزوں کے مجموعے کو بدلے گا۔  بلکہ یہ سب کچھ یکسر بدل کے رکھ دے گا۔

 

ہم فیاٹ کرنسی اور تمام متعلقہ قرضوں پر انحصار ختم کر دیں گے۔

 

ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ہر ایک کو ان کی بنیادی ضروریات میسر ہوں، تاکہ عوام کو مسلسل مایوسی اور مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

 

ہم ان کے معاشرتی نظام کو مسترد کر دیں گے، اور اللہ کے عطا کردہ نظام کی طرف بڑھیں گے۔

ہم نوجوانوں کو اسلام اور سائنس کی تعلیم دیں گے، تاکہ وہ ماضی کی طرح ترقی کر سکیں۔

ہم اس نظام حکمرانی کو مسترد کر دیں گے جو انہوں نے ہم پرزور زبردستی سے لاگو کیا تھا، اور ایک ایسا نظام اختیار کریں گے جہاں خلیفہ دنیا اور آخرت میں اپنے اعمال کے لیے جوابدہ ہو گا۔

 

سرمایہ دارانہ نظام اس سب سے بخوبی واقف ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ہم نے ماضی میں ایسا ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کیا تھا جب اسلامی نظام کو دنیا میں نظریہ کی بنیاد پر قائم کیا گیا تھا۔ مغرب نے دیکھا کہ ہم کیسے پھلے پھولے اور ترقی کی۔ پس اس نےہمیں الجھانے اور ہماری وفاداری کو اسلام سے ہٹا کر اپنی اقدار کی طرف منتقل کرنے کے لیے خوب محنت کی۔اور کئی صدیوں تک مسلسل کوشش کی۔

 

اور ہمیں الجھانے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ اسلامی قانون کے بارے میں ہمیں غلط فہمی میں مبتلا کردیا گیا۔

جب ہمیں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ اسلام پسماندہ اور فرسودہ ہے، تواس کے لیے ہمیں اسلامی قانون کی ذکاوت وذہانت کو نظر انداز کرنا بھی سکھایا جاتا ہے - کیونکہ وہ انسانی ذہن کی تخلیق تو ہے نہیں، بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا عطا کردہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھایا کہ قیامت تک پیش آنے والی ہر صورت حال پر حکم کیسے اخذ کیا جائے۔  انہوں نے ہمیں حقیقت کا مطالعہ کرنے اور اللہ کے حکم کو اس پر لاگو کرنے کا طریقہ سکھایا۔ انہوں نے ہمیں یہ بھی سکھایا کہ ہر نئی حقیقت کا مطالعہ کیسے کیا جائے اور اجتہاد کیا جائے یعنی کسی بھی نئی صورت حال کے لیے اسلامی قانون کیسے اخذ کیا جائے۔

 

اب، اگر ہم یہ کہیں کہ آج کی حقیقت میں ایسا ممکن نہیں۔کیونکہ بہت سارے اسلامی قوانین ایسے ہیں جنہیں ہم آج کی دنیا میں نافذ نہیں کر سکتے– تو یہ سچ ہے۔ لیکن ایسا اس لیے نہیں ہے کہ دنیا ایک ایسے مقام سے گزر کر آگے جا چکی ہے جہاں اسلام کا اطلاق کیا جا سکے۔ بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ایک سرمایہ دارانہ دنیا میں رہتے ہیں، جہاں ہمارا اسلامی قانون انسان کے قانون سے ٹکرا جاتا ہے۔ اسلام کو اپنی زندگیوں پر لاگو کرنے کے لیے، اپنی زندگی کے ہر پہلو میں اللہ کی اطاعت کو یقینی بنانے کے لیے ہمیں نظام کو بدلنا ہوگا۔

 

اسلام مسئلہ نہیں ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت رہنے کا انتخاب کرنا مسئلہ ہے۔

جب ہم نظام کو بدلیں گے تو ہم دیکھیں گے کہ اللہ کے تمام قوانین ہم آہنگی کے ساتھ کیسے کام کرتے ہیں جو ہمیں دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی و ترقی میں مددگار ثابت ہوں گے۔

 

کیا اب وقت نہیں آیا کہ ہم تبدیلی کے لیے 'ہاں' کہیں؟

 

ہمارے پاس نہ کہنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ دنیا بھر میں مسئلہ یہ ہے کہ اس بارے میں  علم اور گہری سمجھ کی کمی ہےکہ تبدیلی کیسے لائی جائے۔

 

ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہمیں فوری نتائج کی ضرورت ہے،اور ہمیں انہیں حاصل کرنے کے طریقے بتادیے گئے ہیں اور ہم ان پر عمل کرتے چلے جاتے ہیں جنہیں ہم درست سمجھتے ہیں۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہ ایک سادہ سی صورتحال ہے، اگر ہم ان طریقوں پر عمل کریں جو ہمیں سرمایہ دارانہ نظام نے سکھائے ہیں تو ہم بہتری لاسکتے ہیں۔

 

لیکن یہ بات حقیقت سے بہت دور ہے – اس نظام کے اندر کام کرنا آسان ہے، لیکن یہ کسی حقیقی تبدیلی کا باعث نہیں بنے گا۔ ہم یہ دیکھ سکتے ہیں، کیونکہ ہم نے ان کے طریقے آزما لیےہیں اور مسائل جوں کے توں ہیں۔اور تو اور یہ مسائل نئے بھی نہیں ہیں - یہ وہی پرانے مسائل ہیں، جن کی وضاحتیں پہلے بھی سو بہانوں سے دی جاتی رہی ہیں۔

 

اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں بہتری آئے تو ہمیں نظام کو بدلنا ہوگا۔ ہمارے پاس ایسا کرنے کا صرف ایک طریقہ ہے -اور وہ یہ کہ ہمیں صرف قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ واحد رہنمائی ہے جس کی ہمیں بطور مسلمان ضرورت ہے۔ اور یہ واحد راستہ ہے جس سے ہم حقیقی تبدیلی لائیں گے - کیونکہ اسلامی نظریہ کا نفاذ ہی ہمارے لیے سرمایہ دارانہ نظام سے جان چھڑانے کا واحد راستہ ہے۔

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لئے لکھا گیا۔

فاطمہ مصعب

Last modified onجمعہ, 22 مارچ 2024 09:12

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک