الجمعة، 20 جمادى الأولى 1446| 2024/11/22
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

خون بمعاوضہ تیل: مسلم حکمرانوں نے فلسطینیوں کو تیل اور گیس کے عوض بیچ دیا!

 

          غزہ پر حملوں کو اب 5 ہفتوں سے زائد کا عرصہ گزر چکاہے ۔اگرچہ یرغمالیوں کے تبادلے کی اجازت دینے کے لیے 'انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ایک مختصر وقفہ' کیا گیا ہے، لیکن صیہونی وجود نے واضح کیا ہے کہ اس وقفے کے ختم ہونے کے بعد بھی وہ غزہ پر حملے جاری رکھیں گے۔

 

          اس دوران صیہونی وجود کو بڑے پیمانے پر نسل کشی کرنے کی اجازت دی گئی، جس کے نتیجے میں  14,000 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جس میں 6,000 سے زیادہ بچے بھی شامل ہیں۔ یہودی وجود کو غزہ کے شمالی حصوں کو ضم کرنے کی بھی اجازت دی گئی ہے، جبکہ   جنگ میں 'وقفے' کے دوران اپنا سامان جمع کرنے کے لیے واپس جانے کی کوشش کرنےوالے شہریوں پر بھی یہودی وجود نے  گولیاں چلائیں جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی فلسطینی کو واپس جانے کی اجازت نہیں دیں گے۔

 

          یہودی وجودکو ایسا  اور اس سے بھی زیادہ کرنے کی اجازت مغربی اور مسلم دنیا کے رہنماؤں نےدی  ہے۔ پچھلے چند ہفتوں کے دوران، ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح ان سب نے فلسطینیوں کی نسل کشی کی بھرپور حمایت کی ہے،  ہتھیاروں کو اپنی سرزمین سے گزر کر صیہونی وجود تک پہنچنے کی اجازت دی ہے اور جب صیہونیوں نے عالمی قانون کے تحت قرار دئیے گئے غیر قانونی ہتھیاروں کو پورے غزہ میں شہری آبادیوں پر استعمال کیا تو ان کے خلاف کوئی بامعنی کارروائی کرنے سے بھی انکار کر دیا گیاہے۔ انہوں نے پوری قوت سے  فلسطینیوں کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں کو روکا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ اہم میڈیا ذرائع صیہونی وجود کے حق میں حقائق کو مسخ کریں۔ ان حکمرانوں نے صیہونی وجود کی طرف سے غزہ کی طرف امداد بھیجنے کی اجازت دینے سے انکار کو قبول کیا، جبکہ انہوں نے خود صیہونی وجود کے ساتھ تجارت بھی جاری رکھی۔ انہوں نے صیہونی وجود کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے یا اُس پر کسی بھی طرح کی پابندی عائد کرنے سے بھی انکار کیا۔

 

          مغربی طاقتوں اور مسلم دنیا کے حکمرانوں کے اس طرز عمل کی متعدد وجوہات ہیں - جن میں سے زیادہ تر اس حقیقت سے پیدا ہوتی ہیں کہ انہوں نے اپنی وفاداری اور حمایت ایک ایسے نظام کے ساتھ منسلک کی ہوئی ہے جس میں قتل عام کو بار بار جائز قرار دےدیا جاتا ہے۔

 

          ان حکمرانوں نے ہمیں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اس بدترین صورتحال کی اصل وجہ  یہودی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو ہے، تا کہ ہمیں قائل کرسکیں کہ اسے ہٹانے سے تبدیلی آ جائے گی، لیکن ایسا ہرگزنہیں ہو گا۔ صیہونی وجود اس سرزمین پر موجود ہے جسے انہوں نے 1940ء  کی دہائی کے آخر میں مسلمانوں سے چھین لیا تھا اور انہوں نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر مکمل کنٹرول کے لیے مسلسل کام جاری رکھا ہوا ہے۔

 

          خونی تیل (بلڈ آئل)  کی اصطلاح کہاں سے آئی ہے؟

 

مجھے احساس ہے کہ  خونی تیل (بلڈ آئل) ایسی اصطلاح نہیں ہے جوموجود ہو، حالانکہ اسے ہونا چاہیے۔ جب ہم ان جنگوں کو دیکھتے ہیں جو قدرتی وسائل تک رسائی حاصل کرنے کے لیے لڑی جاتی ہیں، جیسا کہ  تیل و گیس ، اور اس کا موازنہ بلڈ ڈائمنڈز ، اور بلڈ منی جیسی اصطلاحات سے کریں، تو بلڈ آئل کی اصطلاح کافی موزوں معلوم ہوتی ہے۔

 

غزہ اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں تیل اور قدرتی گیس کے بے پناہ ذخائر موجود ہیں۔

 

UNCTAD کی ایک رپورٹ کے مطابق، "مقبوضہ فلسطینی علاقے کے مغربی کنارے کے علاقے (C) اور غزہ کی پٹی سے منسلک بحیرہ روم کے ساحل میں تیل اور قدرتی گیس کی دولت کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ تاہم، قابض وجود فلسطینیوں کو اپنے توانائی کے شعبوں کو ترقی دینے سے روک رہا ہے تاکہ اس طرح کے اثاثوں سے وہ (یہودی وجود)  خودفائدہ اٹھا سکے"۔ رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ  جو بھی  ان ذخائر کو ترقی دے کر استعمال کرے گا وہ ان سے "سیکڑوں ارب ڈالر" پیدا کر سکتا ہے۔

 

2015 میں، غزہ  کے سمندری ذخائر سے 2.5سے7 ارب ڈالر کی آمدنی کا تخمینہ لگایا گیا تھا لیکن 'اسرائیل' نے غزہ کے سرحد پار قدرتی گیس کے ذخائر پر اپنا کنٹرول برقرار رکھا ہے۔ مقبوضہ مغربی کنارے کے اندر واقع میگڈ آئل اور قدرتی گیس فیلڈ پر بھی ان کا کنٹرول ہے۔

 

حالیہ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ "مشرقی بحیرہ روم میں تیل اور قدرتی گیس کے نئے وسائل دریافت ہوئے ہیں جن کی مالیت 524 ارب ڈالر ہے" لیکن "ان اثاثوں کا ایک اہم حصہ فلسطین کے مقبوضہ علاقے سے حاصل کرنا پڑے گا"۔

اور یہ کہ "29 اکتوبر  کو ،جب جنگ جاری تھی  اور جنگ بندی کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا تھا ، نیتن یاہو کی حکومت نے ملک کے بحیرہ روم کے طاس کے علاقے سے قدرتی گیس کی تلاش کے لیے BP اور اٹلی کی ENI سمیت چھ کمپنیوں کو 12 لائسنس دیے"۔

 

لہٰذا، یہ واضح ہے کہ اگرچہ غزہ پر حملوں کی واحد وجہ یہ نہیں ہے، لیکن علاقے میں حالیہ پیش رفت میں تیل اور گیس کے ذخائر  کا بڑا کردار ہے۔ اور ان وسائل نے نہ صرف صیہونی وجود کے اقدامات کو متاثر کیا ہے بلکہ یہ دنیا بھر میں مغربی اور مسلم دونوں حکومتوں کے فیصلوں کے پیچھے بھی ایک اہم وجہ رہی ہے۔

 

ہر کوئی صیہونی وجودکی موجودگی اور اس کے وسائل سے فائدہ اٹھا رہا ہے

 

ہم سب جانتے ہیں کہ امریکہ نے ہمیشہ صیہونی وجود کی مکمل حمایت کی ہے۔ ان کے پاس اس کی سٹریٹجک وجوہات ہیں - صیہونی وجود کو استعمال کرتے ہوئے خطے میں اپنا کنٹرول برقرار رکھنا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ میں قائم کمپنی شیورون(Chevron) کے پاس صیہونی وجود کی گیس فیلڈز کے اکثریتی مالکانہ حقوق ہیں۔

"شیورون، جو اب نیو میڈ انرجی(NewMed Energy) کے نام سے جانی جاتی ہے اور اپنے  اقلیتی شراکت داروں کے ساتھ، 2009 اور 2010 میں'اسرائیل کی' گیس کی دیوہیکل دریافتوں - تامر اور لیویتھن - کے لیے ذمہ دار تھے  ، اور اس کے نتیجے میں عملاًاس کے پاس'اسرائیل' کے تمام گیس کے ذخائر  اور پیداوارکا کنٹرول آگیا تھا"۔(ذرائع)

گیس کے ان نئے ذخائر نے صیہونی وجود کو گیس کا برآمد کنندہ بنا دیا  ہے۔ ملک کی بجلی کی پیداوار کا تقریباً 70 فیصد اس  گیس سے بنتا ہے، اور ضرورت سے زائد گیس مصر اور اردن کو برآمد کی جاتی ہے۔

 

• ای ایم جی(EMG)پائپ لائن یہودی وجود اور مصر کے درمیان براہ راست سمندر سے گزرتی ہے۔ مصر گرمیوں کے مہینوں میں لائٹس آن رکھنے اور ایئر کنڈیشنر چلانے کے لیے یہودی وجود سے گیس کی درآمد پر انحصار کرتا ہے۔

 

• شمالی برآمدی لائن صیہونی وجود کے شمال سے اردن تک ، جو اردن میں عرب گیس پائپ لائن سے منسلک ہے اور جنوبی برآمدی لائن بحیرہ مردار کے مشرقی جانب اردن کی صنعتی تنصیبات سے براہ راست منسلک ہے۔ اردن، جو اپنی توانائی کی ضروریات کا 90 فیصد سے زیادہ درآمد کرتا ہے، مصر اور صیہونی وجود کے ذریعے فراہم کی جانے والی گیس پر انحصار کرتا ہے۔ 

 

لہٰذا، جب ہم سوچتے ہیں کہ مسلم ممالک کے درمیان  گھرے ہوئے صیہونی وجود کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ بغیر  کسی خوف اور رکاوٹ کےفلسطینیوں کو قتل کرتا جارہا ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے ۔ صیہونی وجود اور امریکہ نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ صیہونی وجود کے مسلمان پڑوسی اس وجود کے تحفظ میں باہمی مفاد رکھتے ہوں، اس حقیقت کے باوجود کہ صیہونی ملک اس سرزمین پر موجود ہے جسے انہوں نے مسلمانوں سے چھینا تھا،  اور اس سانحہ کےدوران فلسطینیوں کے خون کی ندیاں بہا دی گئی  تھیں-وہ سبھی موجودہ حقیقت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، چاہے وہ  اس مسئلے کے حل کے لیےکوئی بھی دوسری  تجویز  دیں۔

 

اور صرف صیہونی وجود کے قریبی پڑوسی ہی اس صورتحال سے فائدہ نہیں اٹھا رہے ہیں۔

 

"مارچ 2021 میں، مبادلہ (Mubadala)انرجی،جو مبادلہ انویسٹمنٹ کمپنی کی ایک ذیلی کمپنی ہے، اورجو ابوظہبی کی حکومت کی ملکیت ہے، اس نے تمر فیلڈ میں 22 فیصد حصص 1 ارب ڈالر سے زیادہ میں حاصل کیے – اس وقت متحدہ عرب امارات اور 'اسرائیل' کے درمیان یہ اس طرح کا سب سے بڑا معاہدہ تھا" (ذرائع

 

اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان یہودی وجود کے ساتھ تجارت میں شامل نہیں ہے، تو ہوسکتا ہے کہ اس کے صیہونی وجود سے براہ راست تعلقات نہ ہوں  لیکن وہ امریکہ اور مصر دونوں سے گیس درآمد کرتا ہے۔ یہ ایک بے معنی ربط لگ سکتا ہے، لیکن جب آپ اس حقیقت پر غور کریں کہ مصر اپنی گیس کی برآمدات کے لیے صیہونی وجود پر انحصار کرتا ہے، تو یہ بہت اہم  بات ہے۔

 

"مصر اپنی کچھ گھریلو صارفین کی طلب کو پورا کرنے کے لیے 'اسرائیلی' گیس کی درآمدات پر انحصار کرتا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ  اسی گیس کو دوبارہ برآمد کر کے نایاب غیر ملکی کرنسی  کما رہا ہے "(رائٹرز)۔

 

اور یوں یہ  گیس صیہونی وجود اور خطے میں امریکہ کے مفادات، دونوں کے لیے اہم ہے۔

 

امریکہ نے 'امریکہ-اسرائیل' توانائی تعاون کا معاہدہ بنایا جس میں کہا گیا ہے کہ "امریکہ- 'اسرائیل' توانائی تعاون اور 'اسرائیل' کے ذریعہ قدرتی وسائل کی ترقی امریکہ کے اسٹریٹجک مفاد میں ہے"،اور یہ  کہ "علاقائی حفاظت اور سلامتی کے مسائل"پراسرائیل کی مدد کرنے کا وعدہ کیا۔

 

مستقبل قریب میں بھی گیس کی ضرورت ہے ، ایک ایسی ضرورت جو یوکرین کی جنگ سے پیدا ہوئی ۔ یہ دیگر وجوہات میں سے ایک وجہ ہے کہ یورپی یونین کے ممالک صیہونی وجود کی جانب سے نسل کشی کرنے کے باوجوداس کے حق میں اس  قدر مضبوط حمایت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فلسطین کو جن وسائل سے نوازا ہے،  ان تک رسائی حاصل کرنے کے لیے صیہونی وجود کو خطے پر اپنا تسلط بڑھانا ہوگا۔

 

لیکن تیل کا کیا ہوگا؟

 

صیہونی وجود اس وقت دوسرے ممالک کے تیل پر انحصار کرتا ہے۔ وہ اپنا زیادہ تر تیل دو مسلم ممالک قازقستان اور آذربائیجان سے حاصل کرتا ہے۔ وہ گبون جیسے مغربی افریقی ممالک سے بھی تیل حاصل کرتا ہے اور پھر وہ امریکہ اور برازیل سے بھی تیل حاصل کرتا ہے۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا یہ تعجب کی بات ہے کہ صیہونی وجود فلسطین کی سرزمین کے نیچے تیل تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے؟

 

"اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے تجارت اور ترقیUNCTAD) )کے ایک مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ قابلِ حصول تیل کا تخمینہ 1.7 ارب بیرل ہے"۔

 

صیہونی وجود کو اس تیل کی ضرورت ہے - اُس نے فلسطینیوں کو ایندھن کے وسائل تک رسائی کی اجازت دینے سے انکار کر دیا،تا کہ فلسطینی عوام  اُس پر انحصار کریں اور وہ (یہودی وجود)ان وسائل پر اپنا کنٹرول بھی رکھے۔

 

لیکن یہ بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی - غزہ اور مقبوضہ فلسطینی علاقے IMEC کے نئے اقدام کے لیے اہم ہیں۔

 

اس سال کے G20 سربراہی اجلاس میں بھارت-مشرقِ وسطی- یورپ اقتصادی راہداری IMEC) )بنانے کے منصوبوں کا انکشاف ہوا ہے۔ اس منصوبے کا مقصد چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹوBRI)) کا مقابلہ  کرنا، "عالمی تجارتی راستوں کی نئی تعریف کرنا، رابطے کو فروغ دینا، اور صاف توانائی اور ڈیجیٹل مواصلات کی ترقی اور برآمد میں سہولت فراہم کرنا ہے"۔

 

نیتن یاہو نے اسے "تعاون کا ایک منصوبہ، جو ہماری تاریخ کا سب سے بڑا منصوبہ ہے"کے طور پر بیان کیا ، اورمزید کہا: "ہمارا ملک 'اسرائیل' اس اقتصادی راہداری میں ایک مرکزی چوراہا ہوگا؛ ہماری ریلوے اور ہماری بندرگاہیں بھارت سے بذریعہ مشرق وسطیٰ ،یورپ تک ایک نیا باب کھولیں گی"۔ ( ذرائع)

 

یہ راہداری بھارت سے شروع ہو کر بحیرہ عرب کو عبور کرے گی اورسعودی عرب، اردن، صیہونی وجود اور یورپ سے ہوتی ہوئی متحدہ عرب امارات پہنچے گی۔ اس راستے میں سمندری  اور ریلوے ٹرانسپورٹ، دونوں کے  اجزاء شامل ہیں، اور اس میں بجلی  اور مواصلاتی لائنوں کو جوڑنے کے لیے  تاروں کا سلسلہ شامل ہو گا۔ راہداری کے منصوبوں میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں پیدا ہونے والی ہائیڈروجن کی پائپ لائنیں بھی شامل ہیں۔

 

اور جبکہ خبریں ہیں کہ راہداری میں ترکی شامل نہیں ہو گا، تو اردگان نے کہا؛

 

"ہم کہتے ہیں کہ ترکی کے بغیر کوئی راہداری نہیں ہے...ہم ایک اہم پیداواری اور تجارتی مرکز ہیں۔ مشرق سے مغرب تک ٹریفک کے لیے سب سے آسان راستہ ترکی سے گزرنا چاہیے… اور اس نے عراق ڈیولپمنٹ روڈ کی تعمیر کے ذریعے ایک متبادل راستہ پیش کیا، جس کا مقصد ترکی کو عراقی بندرگاہ 'فاو' سے سڑک اور ریلوے کے ذریعے جوڑنا ہے"۔

 

اور ترکی  کے نقل وحمل  اور انفراسٹرکچر کے وزیر عبدالقادر یورالوگلو نے کہا کہ؛

 

"منصوبے کی منصوبہ بندی کا مرحلہ تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔ اب ہم چار ممالک اس  پر بات چیت کر رہے ہیں کہ اسے کیسے تعمیر جائے اور اسے کیسے چلایا جائے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ متحدہ عرب امارات اور قطر مضبوط پشت پناہی  اور مالی امداد کے اضافی ذرائع فراہم کریں گے --- بشمول یورپی بینکوں کے، تیل کی ادائیگی اور ترکی کی اپنی سرمایہ کاری --- زیر غور ہیں۔

 

اور اگر یہ واضح نہیں تھا کہ یہ سب منصوبےغزہ میں ہونے والے حملوں سے کیسے جڑے ہوئے ہیں – تو  یاد رہے کہ ترجیحی نہری راستہ غزہ کے  بالکل وسط سے گزرتا ہے۔

 

چنانچہ دنیا نے اس طرح یا دوسرے طریقے سے ہزاروں فلسطینی بچوں کو  محض تجارت کی خاطر مرنے دیا

 

یہ کوئی نئی پیشرفت نہیں ہے - تجارتی نیٹ ورک ایک نیا منصوبہ ہو سکتا ہے، لیکن مسلم دنیا کےحکمرانوں نے دہائیوں پہلے فلسطینیوں کو یہودی قابضین کے ہاتھ بیچنے کا انتخاب کر لیا تھا۔ اور اس کے بعد سے ہر حکومت نے اپنے باہمی قومی مفاد کی وجہ سے کسی نہ کسی طریقے سے اس انتخاب کو برقرار رکھا ہے۔

 

صرف چند مثالیں یہ ہیں کہ:

 

- غزہ پر حملوں کے باوجود صیہونی وجود کی تیل کی درآمدات ترکی سے گزر رہی ہیں۔

 

- مصر کے اعلیٰ جرنیلوں نے 1978 کے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد سے صیہونی وجود میں اپنے ہم منصبوں کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔ اور مصری سیکورٹی فورسز صیہونی وجود کے ساتھ مل کر غزہ کی پٹی کے اندر اور باہر نقل و حرکت پر پابندیاں نافذ کرنے کےلیے کام کر تی ہیں، جبکہ مصری اور یہودی وجود کی انٹیلی جنس فعال طور پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتی ہیں۔ مصر اور صیہونی وجود جنگ سے پہلے اور اس کے دوران غزہ میں داخل ہونے اور باہر جانے والے لوگوں کو کنٹرول کرنے کے لیے بھی تعاون کرتے ہیں۔

 

-صیہونی وجود اور اردن باہمی دوطرفہ، پانی اور شمسی توانائی کے معاہدوں پر عمل پیرا ہیں۔ صیہونی وجود ایک نئی پائپ لائن تعمیر کر رہا ہے جو پانی کی قلت کے شکار اردن کو بیچے جانے والے پانی کی مقدار کو دگنا کر دے گی۔ اردن نے امریکہ کو صیہونی وجود کے دفاع کے لیے خطے میں تعینات امریکی فوجیوں کے لیے فوجی سازوسامان خطے میں منتقل کرنے کی  اجازت بھی دی ہوئی ہے۔

 

ہم صیہونی وجود یا امریکہ کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کر سکتے - وہ بہت طاقتور ہیں۔

 

ایک بات جس پر ہمیں بالکل واضح ہونا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ مسلم دنیا کےحکمرانوں کے تعاون کے بغیر اس میں سے کچھ بھی ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے ہی صیہونی وجود کو فلسطینی عوام پر ظلم اور قتل عام کی اجازت دی ہے۔ انہوں نے ہی امریکہ کو اجازت دی ہے کہ وہ اپنی امداد، ان کی زمینوں، ہوائی اور سمندری راستوں سے صیہونی وجود کے لیے بھیجے۔

 

 "اردن اور 'اسرائیل' کے سول ایوی ایشن حکام نے مشرق اور مغرب کے درمیان 9 اکتوبر سے اپنی فضائی حدود کو 'آسمانی  پل'(sky bridge) کے طور پر کھولنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ اس معاہدے سے ہوائی جہاز اور کچھ فوجی طیارے دونوں ممالک کے اوپر سے اپنے راستے پر ایک طرف شمالی امریکہ اور یورپ سے اور دوسری طرف مشرق وسطیٰ اور مشرق بعید  آنے جانے کیلئے  پرواز کر سکیں گے …

 

معاہدے کے ساتھ منسلک ایک نقشے میں 'اسرائیل'، اردن، سعودی عرب، کویت، متحدہ عرب امارات، قطر اور عراق میں ٹیک آف اور لینڈنگ کے راستے دکھائے گئے ہیں اور ساتھ ہی ایک ایسا راستہ جس میں ایران کے اوپر سے فلائٹ شامل ہے"۔ (ذرائع)

 

انہوں نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ وہ صیہونی وجود کو اجتماعی نسل کشی کی اجازت دیں گے کیونکہ وہ صیہونی وجود کے ساتھ تعلقات کو معمول پر رکھنا چاہتے ہیں۔ یہاں تک کہ  انہوں نےصیہونی وجود کو عورتوں اور بچوں کے قتل سے روکنے کے لیے کوئی بھی  کارروائی کرنے کے خلاف مسلم فوجوں کو خبردار بھی کردیا۔

 

مصر کےصدر نے  مصری افواج کو مخاطب کرتے ہوئےکہا کہ" مصری فوج کا اپنی تمام تر صلاحیتوں، وسائل اور کارکردگی کے ساتھ صرف ایک مقصد ہے اور وہ ہے مصر اور اس کی قومی سلامتی کا تحفظ"۔ اس نے اپنے فوجیوں کو "طاقت کے سراب" کو اپنے ذہنوں میں جگہ دینے پر خبردار کیا اور ان سے کہا کہ فوج کی صلاحیتوں کو "دانشمندانہ" طور پر استعمال کیا جانا چاہیے"۔

 

دوسرے مسلم دنیا کے حکمرانوں نے بھی یہودی وجود اور امریکہ  کو اپنی حمایت فراہم کرنے کا انتخاب کرتے ہوئے یکساں طور پر واضح کیا کہ وہ غزہ کی حمایت میں اپنی فوجیں تعینات نہیں کریں گے – جبکہ فلسطینی شہری آبادی کا قتل عام  جاری ہے ۔

 

آخر وہ کیسے یہ سوچتے ہیں کہ ان کے یہ اعمال کسی بھی طرح قابلِ قبول  ہیں؟

 

ہم جانتے ہیں کہ اسلام میں مسلمان کے خون کا ایک قطرہ  بھی خانہ کعبہ اور اس کے تمام اطراف سے زیادہ مقدس ہے۔ لیکن ہمارے 'مسلم حکمرانوں' نے فیصلہ کیا ہے کہ ہزاروں فلسطینیوں کی جانوں کی،  جن میں زیادہ تر بچے ہیں، ان  کی ایک قیمت ہے ، اور وہ ہے تیل اور گیس۔ کیاہم اس طرح کے حکمرانوں کو اپنی نمائندگی کرنے دینا چاہتے ہیں؟

 

انہوں نے ہمیں بار بار دکھا دیا ہے کہ ان کے لیے ہماری جانوں کی کوئی قیمت نہیں ہےاوروہ  اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیں بیچنے سے گریز نہیں کریں گے ۔ تو پھر ہم ان کے حکم پر کیوں چل رہے ہیں؟ کیا ہم  یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے ہم محفوظ رہیں گے؟

 

کیا ہمیں ڈر ہے کہ اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کرنے سے ہمیں کوئی نقصان پہنچے گا؟ نہیں بالکل نہیں بلکہ اس طرح  ہمیں امریکہ اور اس کے تمام اتحادیوں سے نجات ملے گی، جو روزانہ کی بنیاد پر مسلمانوں کا خون بہاتے ہیں۔

 

غزہ میں ہماری بے عملی کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس خونریزی میں شریک ہیں جوبرپا ہو رہی ہے اور یہ سب کچھ تیل بمعاوضہ خون(بلڈ آئل) کی خاطر ہورہا ہے۔

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لئے لکھا گیا۔

 

فاطمہ مصعب

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کی رکن

 

 

Last modified onاتوار, 14 جنوری 2024 19:53

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک