بسم الله الرحمن الرحيم
امریکہ نے پاکستان کے آرمی چیف کے لیے احکامات جاری کر دیے
پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے 13 دسمبر 2023 کو امریکہ کا سرکاری دورہ شروع کیا۔ پاکستان میں سب سے زیادہ طاقتور عہدے پر فائز ہونے کے تقریبًا ایک سال بعد یہ ان کا امریکہ کا پہلا سرکاری دورہ تھا۔ جنرل عاصم نے محکمہ خارجہ اور محکمہ دفاع کی سینئر امریکی قیادت سے ملاقات کی جبکہ امریکی تھنک ٹینک کمیونٹی کے منتخب ارکان سے خطاب بھی کیا۔ یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب بین الاقوامی رائے عامہ میں واضح طور پر امریکہ کو غزہ کے مسلمانوں کے خلاف یہودی وجود کی نسل کشی کی حوصلہ افزائی کرنے والا اور اسے تحفظ فراہم کرنے والے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ جنرل عاصم منیر نے مجرم امریکی قیادت سے مصافحہ کیا، یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب پوری اسلامی دنیا کے مسلمان یہودی وجود کی حمایت کے لیے امریکا سے حساب مانگ رہے ہیں اور یہودی وجود کے خاتمے کے لیے فوجوں کو متحرک کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
اگر اس صورتحال پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو جنرل عاصم منیر کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان کو بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر ایسے دیکھا جارہا ہے جس کی کسی کو کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔ یہ صورتحال خاص طور پر اگست 2021ء میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء اور امریکہ -بھارت اسٹریٹجک پارٹنرشپ کے بڑھنے کے بعد واضح طور پر نظر آنے لگی ۔ یہ تاریخ کا ایک انوکھا لمحہ بھی ہے جہاں پاکستانی فوج کی قیادت بالخصوص آرمی چیف کا عہدہ ملک میں اقتدار پر اپنی عزت، وقار اور اخلاقی گرفت کھو بیٹھا ہے۔ یہ قیادت پاکستان کے مختلف طبقات میں بھی بدنام ہے۔ فوج کی قیادت کی غداری اور امریکہ کے ساتھ ملی بھگت پر اسے غصے سے دیکھا جارہا ہے۔ امریکہ آرمی چیف کے دفتر کے استحکام کو بہت اہمیت دیتا ہے کیونکہ یہ پاکستانی پالیسی اور سیاست پر اثر انداز ہونے کا اہم ذریعہ ہے۔
پاکستان میں غیر متعلقہ ہونےاور تنہائی کا بڑھتا ہوا احساس اس کی قیادت کے محدود وژن اور فوج کی قیادت میں افراد کی صریح غداری کا نتیجہ ہے۔ پاکستان نے تاریخی طور پر خود کو امریکہ کی قیادت میں مغربی اتحاد کے نظام کے ساتھ جوڑ کر رکھا چاہے سرد جنگ ہو یا سرد جنگ کے بعد کا بین الاقوامی ماحول۔ امریکہ نے اس بات میں اپنا فائدہ دیکھا کہ پاکستان کے بے پناہ وسائل اور جیوسٹریٹجک فوائد کو اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے استعمال کرے۔ پاکستانی فوج کی قیادت روایتی طور پر امریکی مقاصد کے ساتھ مثبت مطابقت برقرار رکھنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ اس طرح پاکستان جنوبی ایشیا میں امریکہ کے علاقائی منصوبوں کو نافذ کرنے میں امریکہ کے ہاتھ میں ایک اہم آلۂ کار بن گیا۔ اسے سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد کی قیادت کرنے، ہندوستان کو قابو کرنے اور اس کے بعد اس کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے، چین کے ساتھ تعلقات کے لیے استعمال کرنے ، نام نہاد "دہشت گردی کے خلاف جنگ" اور اسلام کے خلاف جنگ لڑنے کے کام تفویض کیے گئے تھے۔
تاہم پاکستان-امریکہ تعلقات برابری کی شراکت داری نہیں ہے۔ امریکہ نے پاکستان کو اس وقت چھوڑ دیا تھا جب اس کے اسٹریٹجک مفادات کی تکمیل کے لیے اس کی ضرورت بہت کم تھی۔ یہاں تک کہ اس نے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام پر سخت پابندیاں عائد کر دیں۔ اس نے 1990 کی دہائی میں پاکستان کو دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی ریاست کے طور پر نامزد کرنے کی دھمکی دی۔ جنوبی ایشیا میں اہم امریکی مفادات کی تکمیل کے علاوہ، پاکستانی قیادت علاقائی مواقع کو خطے کے مسلمانوں کے مفاد کے لیے استعمال کرنے سے قاصر رہی ، یا ان مواقعوں کو استعما ل کرنے پر تیار ہی نہیں ہوئی۔ مثال کے طور پر، پاکستانی فوج کی قیادت کشمیر کو آزاد کرانے اور بھارت پر قابو پانے کے لیے اپنی طاقت جمع کرنے کے بجائے، پشتون قبائل اور افغانستان کے مجاہد عوام کے ساتھ دشمنیاں بڑھا رہی ہے، جنہوں نےا مریکی قیادت میں موجود نیٹو افواج کو شکست دی تھی۔
جنوبی ایشیا میں ایک اور اہم بات بڑھتی ہوئی امریکہ- بھارت سٹریٹجک شراکت داری ہے۔ امریکہ کا مقصد پاکستان کے علاقائی کردار کو دہشت گردی کے خلاف محدود کرنا ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ پاکستانی صلاحیت اور توانائیاں مسلمانوں کے درمیان لڑنے میں ضائع ہوں، اور اس طرح ہندوستان کے لیے علاقائی بالادست قوت بننے کا راستہ کھل جاتا ہے، کیونکہ ہندوستان پھر پاکستان کے بجائے چین کا مقابلہ کرنے پر توجہ دے سکتا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ ہائی ٹیک فوجی اور سویلین سیکٹر کے تعاون کے ذریعے ہندوستان کی طاقت کو بڑھانے کے لیے بڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھی ہے۔ دریں اثناء ہند-بحرالکاہل میں امریکہ کی زیرقیادت کثیرالجہتی فوجی اتحادوں میں ہندوستان کی شمولیت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، جیسے QUAD۔ یہ سب کرنے کے لیے ایک کمزور پاکستان کی ضرورت ہے جو بھارتی مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کے بجائے اندرونی طور پر عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ اپنی توانائیاں ضائع کرتا رہے ۔ جنرل عاصم اپنے پیشرو کی طرح لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی برقرار رکھنے، مقبوضہ کشمیر کے ساتھ محاذ جنگ اور کمزور معیشت کو بے عملی کا بہانہ بنا کر امریکی ڈکٹیشن پر عمل پیرا ہیں۔
افغانستان کے نئے حکمرانوں ،طالبان، کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی ایک اور پہلو ہے جو گزشتہ ایک سال میں پاکستان کی خارجہ پالیسی پر غالب رہا ہے۔ ایک توقع تھی کہ افغانستان میں امریکی زیر قیادت نیٹو افواج کے خلاف طالبان کی فتح سے سرحدی کشیدگی اور عسکریت پسندی میں بڑی حد تک کمی آئے گی۔ یہ توقع کی جا رہی تھی کہ پاکستان پھر اس قابل ہو جائے گا جیسا کہ اس نے 1990 کی دہائی میں کیا تھا۔ تاہم اس کے الٹ، اس کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ پاکستان مخالف عسکریت پسندوں نے ڈیورنڈ لائن پر محفوظ علاقوں کو اپنی آماجگاہ بنا لیا ہے ، اور پاکستان کے اندر اپنے حملوں میں اضافہ کیا ہے۔ دوسری طرف، پاکستانی قیادت بھی جان بوجھ کر تیس لاکھ افغان مہاجرین کو جبری بے دخل کر کے، اور سرحدی نقل و حرکت کو محدود کر کے تناؤ کو ہوا دے رہی ہے۔ امریکہ دہشت گردی کے خلاف نئے طالبان حکمرانوں کو دباؤ میں رکھنے کے لیے پاکستانی فوج کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ مسلمانوں کے درمیان فتنے کی آگ کو ہوا دے رہا ہے۔
جہاں تک اس دورے کے نتائج کا تعلق ہے، انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کی پریس ریلیز کے مطابق، جو کہ مسلح افواج کا میڈیا سیل ہے، جنرل عاصم منیر نے اپنے جاری دورۂ امریکا کے دوران امریکی حکومت اور فوجی حکام سے ملاقاتیں کیں جن میں سیکریٹری آف اسٹیٹ انتھونی جے بلنکن، سیکرٹری دفاع جنرل لائیڈ جے آسٹن، ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ وکٹوریہ نولنڈ، ڈپٹی نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر جوناتھن فائنر اور چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف جنرل چارلس کیو براؤن بھی شامل ہیں۔ ملاقاتوں کے دوران دو طرفہ مفادات، عالمی اور علاقائی سلامتی کے مسائل اور جاری تنازعات پر تبادلہ خیال کیا۔ دونوں فریقوں نے مشترکہ مفاد کے حصول میں دوطرفہ تعاون کے ممکنہ راستے تلاش کرنے کے لیے ملاقاتیں جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ اس میں یہ بھی کہا کہ "دفاعی تعاون اور انسداد دہشت گردی تعاون کو تعاون کے بنیادی شعبے کے طور پر شناخت کیا گیا ہے"۔ امریکی کمانڈر سینٹ کام جنرل مائیکل ایرک کوریلا سے ملاقات کے حوالے سے آئی ایس پی آر نے بتایا کہ علاقائی سلامتی کے معاملات میں تعاون اور مشترکہ تربیت کے مواقع سے متعلق امور زیر بحث آئے۔
امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے جاری کی جانے والی تفصیلات میں زیادہ گرم جوشی نہیں تھی ۔ اس میں صرف بات چیت کے شعبوں کا اشارہ کیا گیا تھا جب اس میں یہ کہا گیا کہ "دونوں عہدیداروں نے حالیہ علاقائی سلامتی کی پیشرفت اور دو طرفہ دفاعی تعاون کے ممکنہ شعبوں پر تبادلہ خیال کیا"۔ امریکی چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل سی کیو براؤن کے ساتھ ملاقات کی تفصیل بھی اسی متن کی پیروی کرتی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے کوئی تفصیلات جاری نہیں کی گئی۔
جنرل عاصم منیر نے ممتاز امریکی تھنک ٹینکس اور میڈیا کے ارکان سے بھی بات چیت کی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق، "سی او اےایس نے جیو اکنامک اور جیو پولیٹیکل دونوں نقطہ نظر سے پاکستان کی اہمیت پر توجہ مرکوز کی اور وہ خود کو وسطی ایشیا اور اس سے آگے کنیکٹیویٹی کے مرکز اور گیٹ وے کے طور پر تیار کرنا چاہتے ہیں، تاہم وہ سیاست کو روکتے ہیں اور تمام دوست ممالک کے ساتھ تعلقات کو برقرار رکھنے پر یقین رکھتے ہیں"۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ، " چیف آف آرمی سٹاف (COAS)نے اس بات کو اجاگر کیا کہ پاکستان کئی دہائیوں سے بین الاقوامی دہشت گردی کے خلاف کھڑا ہے اور اس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے مثال تعاون اور قربانیاں دی ہیں"۔
کشمیر کے حوالے سے، آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ "COAS نے کشمیر کے لوگوں کی تحریک اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت پر زور دیا"۔ فلسطین کے حوالے سے، اس نے کہا کہ " COAS نے فوری طور پر جنگ بندی اور غزہ میں مصائب کے خاتمے، انسانی امداد کی فراہمی اور خطے میں پائیدار امن کے لیے دو ریاستی حل پر عمل درآمد کی ضرورت پر زور دیا"۔
مذکورہ بالا سرکاری طور پر جاری ہونے والی تفصیلات سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستانی آرمی چیف کا دورہ امریکہ کا ایجنڈا تھا؛
ا۔ افواج میںmilitary-to-militaryتعلقات کو بڑھانا، جو امریکہ نے منجمد کر دیے تھے،
ب۔ افغانستان میں انسداد دہشت گردی کےپارٹنر کے طور پر پاکستان کے کردار کو آگے بڑھانا،
ج۔ یوکرین کی فوج کو خفیہ گولہ بارود کی امداد دینے کے راستے تلاش کرنا اور دفاعی تعاون کی آڑ میں امریکی ضروریات کا اندازہ لگانا،
د۔ مشترکہ military-to-militaryتربیت کے مواقع تلاش کرنا،
ر۔ امریکہ کو یہ بتانا کہ پاکستان چینی کیمپ میں نہیں ہے، اور
س۔ سٹریٹیجک انویسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسلSIFC) )کو امریکی سرمایہ کاروں کے لیے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے ایک موقع کے طور پر پیش کرنا۔
ملاقات کا امریکی ایجنڈا اس کی جانب سے جاری ہونے والی سرکاری تفصیلات میں استعمال ہونے والی اصطلاحات کے ساتھ نظر آتا ہے، جیسے "علاقائی سلامتی کے ماحول پر تبادلہ خیال" اور "دوطرفہ دفاعی تعاون کے ممکنہ شعبے"۔ امریکی ایجنڈے میں بحیرہ احمر میں حوثی ملیشیا کے حملوں سے میری ٹائم ٹریفک کے تحفظ کے لیے نئی توسیع شدہ امریکی نیول ٹاسک فورس 153 کے لیے پاکستان کی حمایت حاصل کرنا بھی شامل ہے۔ اس میں دہشت گردی کے خلاف تعاون کی آڑ میں طالبان کی نئی افغان عبوری حکومت کو روکنے میں پاکستان کی حمایت کرنا بھی تھا۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان مسٹر ملر نے اپنی پریس بریفنگ کے دوران بتایا ،"امریکہ اور پاکستان نے مارچ 2023 میں اسلام آباد میں انسداد دہشت گردی کے خلاف ایک اعلیٰ سطحی مذاکرات کا انعقاد کیا تھا۔ ہمارے دونوں ممالک کو درپیش مشترکہ دہشت گردی کے خطرات پر تبادلہ خیال کرنے اور سرحدی سلامتی اور دہشت گردی کی مالی معاونت کا مقابلہ کرنے جیسے اہم شعبوں میں تعاون کے لیے حکمت عملی تیار کرنے کے لیے انسداد دہشت گردی کی سطح کی بات چیت کی گئی۔ اور ہم پاکستان میں انسداد دہشت گردی کی صلاحیت سازی کے کئی پروگراموں کو فنڈ کرتے ہیں جو قانون کے نفاذ اور انصاف پر مرکوز ہیں، اور ہم ان معاملات کو انجام دینے کے لئے کام کر رہے ہیں"۔
امریکہ پاکستانی رائے عامہ بشمول مسلح افواج کی رائے عامہ کو ، جہاد کی مسلسل کال اور غزہ کی حفاظت کے لیے مسلح افواج کو متحرک کرنے کے حوالے سے، پرسکون رکھنا چاہتا ہے۔ امریکہ بھارت کے خلاف پاکستان کے موجودہ طرز عمل یعنی مسلسل تحمل کی پالیسی کی یقین دہانی چاہتا ہے جو سرحدوں پر استحکام برقرار رکھنا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج کی صلاحیتوں کو رائٹ سائزنگ کے بینر تلے اس حد تک گھٹا دیا جائے کہ وہ فعال نہ رہیں ۔
امریکی حکومت نے کافی تاخیر اور بیک ٹو بیک مشاورت کے بعد پاکستانی آرمی چیف کے وسیع دورے کی منظوری دی تھی۔ غزہ کے بحران نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے لیے ایک عجلت پیدا کر دی ہے، جس کے نتیجے میں، جنوبی ایشیا کے ایک کم اہمیت والے اثاثے (یعنی پاکستان) کو ایک اعلیٰ سطحی پروٹوکول دیا گیا ۔ افغانستان سے امریکہ کے ذلت آمیز انخلاء کے بعد سے پاکستان کو جنوبی اور وسطی ایشیا سے نمٹنے کے لیے دوسرے درجے کی امریکی محکمہ خارجہ کی انتظامی ٹیم کے سپرد کر دیا گیا۔ پاکستان کے آرمی چیف کے دورے سے امت مسلمہ کے لیے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا، کیونکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان فتنے کی نئی جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ یہ دورہ غزہ اور مغربی کنارے کے محصور مسلمانوں کے لیے کوئی ریلیف نہیں لائے گا، کیونکہ جنرل عاصم نے امریکی حکام کو یہودی وجود کی حمایت بند کرنے کی دھمکی نہیں دی۔ مزید برآں، پاکستان کی قیادت بھارتی مقبوضہ کشمیرکو آزاد کرانے کی اپنی ذمہ داری سے بھی دستبردار ہو چکی ہے۔ یہ صورتحال اب بھی برقرار ہے جب بھارتی سپریم کورٹ نے حال ہی میں مودی سرکار کے مقبوضہ کشمیر کے غیر قانونی الحاق پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ پاکستان کی کمزور قیادت نام نہاد عالمی برادری سے مداخلت کی درخواست کرتی ہے۔ یہ قیادت یہ سب کچھ کررہی ہے جبکہ وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ غزہ میں جنگ نے اقوام متحدہ اور اس کے انسانی حقوق کے اداروں کو کس طرح ایک بار پھر بے نقاب کر دیا ہے۔
پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں مخلص عناصر کے لیے باعزت راستہ اسلام اور جہاد ہے۔ امت اسلامیہ کے لیے وقت آگیا ہے کہ وہ خلافت کے تحت اسلامی سرزمینوں کو یکجا کرکے خود ایک عالمی طاقت بن جائے اور ماضی کی شان کو بحال کرے۔ کیونکہ کفار کے ساتھ اتحاد کرنے میں ذلت ہی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
﴿وَلِلّٰهِ الۡعِزَّةُ وَلِرَسُوۡلِهٖ وَلِلۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَلٰـكِنَّ الۡمُنٰفِقِيۡنَ لَا يَعۡلَمُوۡنَ﴾
’’اور عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لیے ہے مگر منافقوں کو خبر نہیں‘‘۔(المنافقون 63:8)۔
نجات مکمل اطاعت اورخود کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سپرد کرنے میں ہے۔ کیا کسی پاکستانی فوجی رہنما کو واشنگٹن کی دہلیز پر اپنا وقت ضائع کرنا چاہیے، جبکہ یہ وقت مسلمان فوج کی قیادت کرنے، یہودیوں کو کچلنے اور اپنے ہاتھوں سے مسجد اقصیٰ کے دروازے کھولنے کا وقت ہے؟
محمد سلجوق، ولایہ پاکستان