الجمعة، 20 جمادى الأولى 1446| 2024/11/22
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

ایک خوبصورت سَراب

 

ہم ایک لالچ کی دُنیا میں رہتے ہیں۔ جیسے ہی ہم اپنے گھر سے نکلتے ہیں اور اپنی گاڑی میں بیٹھتے ہیں تو یہ خیال آنے لگتا ہے کہ گاڑی میں جگہ کی کچھ کمی سی ہے، گاڑی کوتھوڑا سا  بڑا ہونا چاہئے یا یہ کہ ایک بالکل نئی گاڑی ہونی چاہئے  ۔ اپنے ہمسایوں کے گھر کے پاس سے گزرتے ہوئے  یہ خیال آسکتا ہے   ”ان کا پورچ کتنا خوبصورت ہے، ... ہمیں بھی ایسا ہی بنوانا چاہئے“۔ دفتر کی طرف جاتے ہوئے ہمیں یہ خیال آسکتے ہیں کہ  ”اگر میں واقعی مقابلے کی دوڑ میں رہنا چاہتاہوں تو مجھے یقیناً اس جگہ سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے“۔ اور پھر مزید اور خیال...

 

”میرے بچوں کے بالوں کا سٹائل بدلوانے اور اُن کے نئے کپڑوں کی ضرورت ہے“، ”مجھے اپنے بچوں  کے Xbox  کے لئے نئی گیم لینی چاہئے“، ”ہم سب کو فیملی کے ساتھ کہیں چھُٹیاں منانے جانا چاہئے بلکہ مجھے سمندر کنارے یا اس جیسی کسی پوش جگہ پر ایک نیا گھر لینا چاہئے“۔

 

اس بات کا ہمیشہ یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم دوسروں سے حسد کرتے ہیں  لیکن انسان ہونے کے ناطے جیسے ہماری تخلیق کی گئی ہے،  ہمیں اکثر مادی اشیاء کی چاہ ہوتی ہے اور ہم ان کی خواہش کرتے ہیں۔ ایسا ہونا ہمیں کوئی  بُرا آدمی یا  بُرا مسلمان نہیں بنا دیتا۔

 

پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ... آخر کب ہم ان خواہشات  میں انتہائی دُور تک نکل جاتے ہیں  ؟ اور کب ہم دانستہ طور پر باڑھ کے دوسری جانب دیکھنا شروع کردیتے ہیں ، جہاں دوسری طرف کا سماں زیادہ ہرا بھرا  نظر آرہا ہوتا ہے ؟  آخر یہ کب ہوتا ہے کہ ہماری جبّلتیں اور خواہشات ہماری زندگی کو اپنی گرفت میں لے  لیتی ہیں اور ہم صرف مادی چیزوں کو ہی دیکھنا شروع کردیتے ہیں یا پھر اُن چیزوں کو جو ہمارے پاس نہیں ہوتیں ؟  ہم آخر کب ایک لکیر کھینچتے ہیں ؟  ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کبھی کبھی ہم ان خواہشات میں ہی قید سے ہو جاتے ہیں ؟

 

ہم فطری طور پر انسان ہیں ۔  ہماری کچھ جبلتیں ہیں۔  ہم کچھ خواہشات و آرزوئیں رکھتے ہیں جنہیں بحیثیتِ انسان  پُورا ہونے کی ضرورت ہے۔  ہمیں بھُوک بھی لگتی ہے  ... اور ہمیں معلوم ہے کہ ہمیں کھانے کی ضرورت ہے۔ اور یقیناً یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ جس کے لئے ہمیں اپنے آپ کو قصوروار سمجھنا  چاہئے۔ جس طرح ہمیں کھانے کی ضرورت ہوتی ہے  اسی طرح بحیثیت ِ انسان ہم ایک آرام دہ گھر اور عُمدہ لباس بھی پہننا چاہتے ہیں۔  جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : 

 

»لاَ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ". قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أَنْ يَكُونَ ثَوْبُهُ حَسَنًا وَنَعْلُهُ حَسَنَةً. قَالَ " إِنَّ اللَّهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ الْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ«

” جس شخص کے قلب میں رائی برابر بھی تکبر ہے وہ جنت میں داخل نہ ہو گا۔ ایک شخص نے سوال کیا کہ ایک شخص جو اچھے لباس اور جوتوں کے پہننے کو پسند کرتا ہے تو کیا وہ بھی تکبر کرتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔ تکبر حق کو رد کرنا اور دوسرے لوگوں کو کمتر سمجھنا ہے“ (مسلم)۔ 

 

غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ تمناؤں اور آرزوؤں کی اس دنیا میں ہم مختلف چیزوں کی چاہت میں لگے رہتے ہیں  اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ چاہتے ہیں کہ ہم ان کو حاصل کریں، اللہ سبحانہ وتعالیٰ چاہتے ہیں کہ ہم جستجو کریں، آگے بڑھیں اور ان چیزوں سے فائدہ اُٹھائیں جو کہ اللہ نے تخلیق کی ہیں۔

 

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :

 

﴿هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِن رِّزْقِهِ ۖ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ

”اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو نرم کردیا تو اس کے راستوں میں چلوپھرو اور اُس کا دیا ہوا رزق کھاؤ۔ اور تم کو اُسی کے پاس (قبروں سے) نکل کرجانا ہے“ ( الملک : 15)

 

اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمیں یہ حکم دیتے ہیں کہ ہم  اس زمین سے فائدہ اُٹھائیں جو کہ انہوں نے ہمارے لئے ہی تخلیق کی ہے اور اللہ کے ہی عطاکردہ رزق میں سے کھائیں اور اُسی کی طرف ہی ہمیں لوٹ کر جی اٹھنا ہے۔ اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمیں یہ یاددہانی کراتے ہیں کہ یہ سب اُسی ذات کا ہی دیا ہوا ہے اور اُسی کی طرف ہمیں واپس جاناہے اور یہ یاددہانی بھی کہ کائنات کے سب حُسن وجمال کا وہی خالق ہے لیکن کہیں ہم صرف اسی دُنیا میں ہی کھو کر نہ رہ جائیں اور راہِ حق سے یعنی اللہ کے دین کی دعوت سے ہٹ کر کہیں بھٹک نہ جائیں، یہ نہ بھُول جائیں کہ ہم اس  دُنیا میں کیوں لائے گئے ہیں، ان چیزوں کی لالچ اور فتنوں میں نہ پڑ جائیں جو اللہ نے حرام کردی ہیں کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں کہ ہمارے لئے اصل راحت وسکون کہاں ہے۔ 

 

اس کائنات پر نگاہ دوڑائیں تو ہمیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی تخلیق اور اس کی طرف سے یاددہانی کی لاتعداد نشانیاں ملتی ہیں اور اس کائنات سے بھی بہت بہتر نعمتیں ابھی آگے  ہیں۔

 

غور کریں،  جنگلات میں خطرناک جانور اور خونخوار درندے بھی پائے جاتے ہیں پھر بھی جنگلات میں کتنی خوبصورتی اور دلکشی ہوتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ سمندر کی لہریں ہمیں لمحوں میں غرق کرسکتی ہیں پھر بھی ہم ان کے سحر میں ڈوب جاتے ہیں۔ یہی اس دنیا  کی حقیقت ہے۔ یہ ایک طرح سے یاددہانی ہے کہ دُنیا کی یہ خوبصورتی اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جو ان شاءاللہ آنے والی زندگی یعنی آخرت میں ہماری منتظر ہے۔ دنیا کی زندگی کو اس انداز سے دیکھیں تو ہمیں اس دُنیا میں حقیقی اطمینان اور خوشی ملے گی کیونکہ پھر ہم چاہے گھومیں پھریں، تیراکی  کریں، ایک دوسرے سے محبت رکھیں ، ہنسی مذاق کریں ، ... اپنے خاندان والوں اور دوست احباب کے ساتھ باہر گھومیں پھریں، تیراکی کریں، ہم ہرحال میں اللہ کی تخلیقات سے خوش ہی رہیں گے، ہم اللہ کی رضا اور خوشنودی کی خاطر ہی ایک دوسرے سے محبت واُنس رکھتے ہیں اور ہم دوسروں کے دلوں میں خوشیاں لانے کے لئے ہی ہنستے مسکراتے اور ہنسی مذاق کرتے ہیں۔ لیکن یہ سب دُنیا کی زندگی کا ایک حصہ ہے، یہ ہماری اپنے رب کی عبادت کا بھی ایک حصہ ہے کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کاساتھ ہوتے ہوئے ہم اس دنیا میں کبھی بھی نہیں بِکھر سکتے ! زندگی میں چاہے جیسے بھی حالات کیوں نہ پیش آجائیں ، ہم ہر طرح کے حالات میں مطمئن ہیں کیونکہ اُن میں ہمارے لئے بھَلائی ہی ہوگی۔ کیا یہی حقیقی خوشی نہیں ہے ؟ کیا یہی وہ حقیقی مقصد نہیں ہے جسے لوگ اپنی پوری زندگی تلاش کرتے رہتے ہیں ؟

 

یہی ایک تکمیل کا احساس ہے !

لہٰذا اگر آپ مجھ سے پوچھیں  ...کہ کیا آپ اپنی زندگی سے مطمئن ہیں؟

تو میرا جواب یہی ہوگا کہ میں اپنی زندگی کے ہر لمحہ سے مطمئن ہوتا ہوں، اور اس کا فائدہ اُٹھاتا ہوں ،چاہے حالات اچھے ہوں یا نہ بھی ہوں۔ کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمیشہ ہمارے ساتھ ہیں۔ پس اس دُنیا کی زندگی میں  ...یعنی اس خوبصورت سَراب میں...ہم خوبصورتی کو حق میں ہی دیکھتے ہیں۔

 

Last modified onہفتہ, 16 دسمبر 2023 16:30

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک