السبت، 21 محرّم 1446| 2024/07/27
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

جمہوریت کا نظام پوری دنیا میں بلاامتیاز مذہب، نسل یا رنگ شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرنے میں ناکام رہا ہے

 

خبر:

 

            پاکستان کے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے 18 اگست 2023 کو جڑانوالہ میں اس ہفتے کے شروع میں گرجا گھروں میں توڑ پھوڑ اور جلانے میں ملوث عناصر کے خلاف سخت سرزنش کی۔  سینئر حکام نے توہین رسالت کے الزامات کی صداقت پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جس نے ہنگامہ آرائی کو جنم دیا۔

 

 

تبصرہ:

            16 اگست 2023 کو درجنوں عیسائی خاندانوں کو دو عیسائی نوجوانوں پر مبینہ قرآن پاک کی بے حرمتی کے الزامات کے بعد پرتشدد مسلم ہجوم سے جان بچا کر بھاگنا پڑا۔ کچھ مقامی لوگوں نے الزام لگایا تھا کہ پنجاب کے جڑانوالہ میں سینما کراس روڈ پر ایک گھر کے قریب سے قرآن پاک کے متعدد بے حرمتی والے صفحات ملے ہیں۔ مشتعل ہجوم نے چار گرجا گھروں اور عیسائیوں کے کئی گھروں کو آگ لگا دی۔ معاشرے کے ہر طبقے نے مبینہ قران پاک کی بے حرمتی اور اس پر پرتشدد ردعمل، دونوں کی مذمت کی۔

 

            تاہم، جو اہم سوالات پیدا ہوتے ہیں وہ یہ ہیں کہ: ایسے واقعات کیوں ہوتے ہیں؟ لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں کیوں لیتے ہیں؟

 

            اس سوال کا جواب یہ ہے کہ عوام کو جمہوریت کے نظام پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ لہٰذا، معاشرے میں قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا صرف مبینہ توہین رسالت کے واقعات تک محدود نہیں ہے، بلکہ ظلم یا جرم ہونے کے بعدکئی لوگ اس بات کا انتظار نہیں کرتے کہ جمہوریت کا نظام مجرم کو سزا دینے کے لیے اپنا راستہ اختیار کرے۔  اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ عدالتی نظام کئی سال لگائے گے،اور ان کی آزمائش شاید سزا کے اعلان پر ختم نہ ہو، کیونکہ جمہوریت کا نظام مجرم کی رہائی کو یقینی بناتا ہے۔

 

            لوگوں نے کئی بار دیکھا ہے کہ جمہوریت کے نظام میں نچلی عدالتوں اور اعلیٰ عدالتوں نے توہین رسالت کے ملزم کو سزا سنائی ، تاہم جیسے ہی مغربی حکومتیں اس معاملے پر متحرک ہوتی ہیں، وہی شخص سپریم کورٹ سے بری ہو جاتا ہے، اور جیسے ہی وہ آزاد ہوتا ہے، وہ مغربی افق کی جانب پرواز کرجاتا ہے۔

 

            جمہوریت کے نظام کی ناکامی اس قدر واضح ہے کہ یہ اکثریت اور اقلیت دونوں کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ یہ مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کوانصاف فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان میں مسلم اور غیر مسلم نوجوان لڑکیوں کو شدید غربت کی وجہ سے امیر گھروں میں کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ وہ اپنے مالکان کی طرف سے شدید تشدد کا شکارہوتی ہیں، اور ان کی شکایت پر حکام کارروائی کرنے اور انصاف فراہم کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتے، جب تک کہ یہ واقعات کسی نہ کسی طرح ٹوئٹر پر سرخی یا ٹرینڈ نہ بن جائیں۔

 

            جہاں جہاں جمہوریت ہے وہاں ایسا ہی ظلم ہوتا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت، ہندوستان میں مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں، نچلی ذات کے ہندوؤں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، انہیں بے گھر کیا جا رہا ہے اور قتل کیا جا رہا ہے۔ جمہوریت کے مسکن، مغرب میں مسلسل قرآن مجید کو جلایا جا رہا ہے اور پوری ریاستی رضامندی سے رسول اللہ ﷺ کی شان میں مسلسل گستاخی کی جا رہی ہے۔ مسلمانوں کو توہین رسالت کو قبول کرنے پر یہ کہہ کر مجبور کیا جارہا ہے کہ یہ تو اظہار رائے کی آزادی ہے۔ مغرب میں مسلمانوں کو شادی کے بندھن کے بغیر مرد و عورت کے تعلق، ہم جنس پرستی اور جینڈرازم کو قبول کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔

 

            یہ بات کسی بھی معقول شک و شبہ سے بالاتر ہو کر ثابت ہو چکی ہے کہ جمہوریت کا نظام شہریوں، ان کے عقائد اور مقدسات کے تحفظ میں ناکام رہا ہے، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب، نسل اور رنگ سے ہو۔

 

            مسلمان ہوں یا غیر مسلم، لوگ صرف ریاستِ خلافت کے تحت ہی سکون اور عزت کی زندگی گزار سکتے ہیں۔ یہ وہ ریاست ہے جہاں ہر شہری کی جان و مال، ان کے عقائد، عبادت گاہیں اور مذہبی کتابیں مکمل طور پر محفوظ ہوتی ہیں۔ کوئی مجرم گھناؤنا جرم کرنے کے بعد آزادی سے گھوم پھر نہیں سکتا۔ اورخلافت کی تاریخ اس دعوے کی تصدیق کرتی ہے۔ 15ویں صدی عیسوی میں جب اسپین کے نئے عیسائی حکمرانوں نے مسلمانوں اور یہودیوں کو عیسائیت قبول کرنے یا اسپین چھوڑنے کا حکم دیا تو بہت سے ہسپانوی یہودیوں نے عیسائی یورپ کی بجائے عثمانی خلافت کی طرف ہجرت کرنے کو ترجیح دی۔ سلطان بایزید دوم نے خلافت کی بحریہ کو ریاست خلافت کی سرزمین ، خاص طور پر تھیسالونیکی اور ازمیر کے شہروں تک، یہودیوں کو بحفاظت پہنچانے کے لیے روانہ کیا، اور یہ اعلان کرتے ہوئے کہا، "تم فرڈی نینڈ(اسپین کا عیسائی حکمران) کو عقلمند کہنے کا ارادہ کر رہے ہو، جس نے اپنے ہی ملک کو غریب اور مجھے امیر کردیا ہے!"

 

            خلافت میں غیر مسلم شہریوں کو مکمل تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ وہ مسلمانوں کے مقابلے میں بہت کم ٹیکس دیتے ہیں۔ انہیں ریاست کے دفاع کے لیے لڑنے کے لیے نہیں کہا جاسکتا۔ ان کے مذہبی معاملات جیسے نکاح، طلاق، نفقہ وغیرہ ان کے مذہب کے مطابق طے پاتے ہیں۔ وہ زندگی کے ہر شعبے میں حصہ لیتے ہیں، سوائے اس کے کہ وہ حکمرانی کے عہدوں پر نہیں آسکتے ۔ صفوان بن سلیمؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

أَلَا مَنْ ظَلَمَ مُعَاهِدًا أَوْ انْتَقَصَهُ أَوْ كَلَّفَهُ فَوْقَ طَاقَتِهِ أَوْ أَخَذَ مِنْهُ شَيْئًا بِغَيْرِ طِيبِ نَفْسٍ فَأَنَا حَجِيجُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ

"اس میں کوئی شک نہیں کہ جس نے کسی معاہد(غیر مسلم شہری) پر ظلم کیا، اس کے حقوق کو پامال کیا، اس پر اس کی استطاعت سے زیادہ کام کا بوجھ ڈالا، یا اس کی اجازت کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو میں (محمدﷺ) قیامت کے دن اس کا وکیل ہوں گا۔"(سنن ابوداؤد)

 

            پاکستان کے مسلمانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ان پر یہ فرض ہے کہ وہ اسلام کو نافذ کریں، اسلام کے مقدسات کی حفاظت کریں، اور غیر مسلم شہریوں اور ان کے مقدسات کی حفاظت کریں۔ اور یہ نبوت کے نقش قدم پر خلافت کے قیام کے بعد ہی ممکن ہے۔

 

يَهۡدِىۡ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضۡوٰنَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَيُخۡرِجُهُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوۡرِ بِاِذۡنِهٖ وَيَهۡدِيۡهِمۡ اِلٰى صِرٰطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍ

"اللہ اس سے ہدایت دیتا ہے اسے جو اللہ کی مرضی پر چلا سلامتی کے ساتھ اور انہیں اندھیریوں سے روشنی کی طرف لے جاتا ہے اپنے حکم سے اور انہیں سیدھی راہ دکھاتا ہے۔"(المائدہ5:16)

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے انجینئر شہزاد شیخ نے یہ مضمون لکھا۔

Last modified onپیر, 28 اگست 2023 04:34

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک