بسم الله الرحمن الرحيم
تقریر - 7
کورونا وائرس (کوویڈ۔ 19) کی وبائی مرضاور إسلام
ڈاکٹر اكمل
میں آپ سے مخاطب ہوں جبکہ کورونا وائرس (کوویڈ۔ 19) کی وبائی مرض کو روکنے میں مغربی ریاستوں کی قیادتوں پر ان کے اپنے ہی لوگ سوال اٹھارہے ہیں ، باقی دنیا کو چھوڑہی دیں۔ اس عدم اطمینان نے خود مغرب کے نظام کو تنقید کا نشانہ بنا دیا ہے اور لوگ اپنی دولت مند اشرافیہ کے کردار پر شکوک و شبہات رکھنے پر مجبور ہو رہے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ مغرب کی عوام اب ہر طرح کے سازشی مفروضوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نظر آ رہی ہے۔ لوگ utilitarianism اور مادی مفاد کی بنیاد پر اور انفرادی خود مختاری کی بنیاد پر کیے جانے والے فیصلوں اور قانون سازی میں موجود خرابیوں کو سمجھنے لگے ہیں ۔مغربی معاشروں میں موجود مختلف گروہوں کے متناقض مفادات کے آپس میں ٹکراؤ ان معاشروں میں انتشار پھیلانے کا باعث بن رہا ہے۔
موجودہ عالمی قیادت پرعدم اطمینان اور عدم دلچسپی مسلمانوں کے لئے عملی طور پر اسلام کو متبادل کے طور پیش کرنے کا موقع پیش کرتی ہے کیونکہ صرف اسلام کا نظام ہی، طبی اور معاشی بحرانوں کے پیشگی تدارک میں سرمایہ داریت سے بہتر ہے۔ یہ تو دو بنیادی نظریوں کا فرق ہے چنانچہ جہاں اسلام اللہ تعالی کی لا محدود علم جو زمان، مکان اور تجربہ کی قید سے یکسر آزاد ہے کی بنیاد پر کھڑا ہے دوسری طرف سرمایہ داریت انسان کی ناقص اور محدود فہم پر ماضی کے تجربہ کے آسرے پر انسانی مسائل کے حل کا دعوی کرتی ہے۔ مزید یہ کہ اسلام کے سیاسی نظام میں خلیفہ اس احساس کے ساتھ حکمرانی کرتا ہے کہ ایک دن دلوں کے رازوں کو جاننے والے رب کائنات کو ہر چھوٹی و بڑی، باطنی و ظاہری ہر بات کا حساب دینا ہے جبکہ دوسری طرف سرمایہ داریت میں حکمران اگلے الیکشن کے نتائج کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہے۔ اور یہ بات بھی اہم ہے کہ سرمایہ داریت میں سائنس کے دعوی کو بہت عمومی انداز میں اور بغیر تفریق اور اس بات کا تعین کیے بغیر کہ کیا اس دعوی کا اطلاق موجودہ صورتحال اور مسئلہ پر ہوتا ہے یا نہیں اس حل کو ا نسانی زندگی کے ہر پہلو پر لاگو کر دیا جاتا ہے۔ اور تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ فیصلے سائنس کے اٹل حقائق کی بنیاد پر لیے جا رہے ہیں۔ حالیہ واقعات نے اس دعوی کی قلعی کھول دی ہے۔ بظاہر نام نہاد اقتصادی سائنس نامکمل طبی سائنس سے ٹکراتی نظر آتی ہے۔ مغربی دنیا کے تمام ممالک کی عوام اس مخمصے میں پھنسے ہوئے تھے کہ اقتصاد کے ماہرین کی سنی جائے یا طبیات اور صحت کے ماہرین کی بات سنی جائے اور دوسری طرف عوام انفرادی آزادیوں کے نظریے کے تحت اس جھگڑے کو شک و شبہہ کی نظر سے دیکھ رہی تھی۔
اللَّـهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِۖوَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ﴿٢٥٧﴾
اللہ والی ہے مسلمانوں کا وہ انہیں اندھیریوں سے نور کی طرف نکالتاہے، اور کافروں کے حمایتی شیطان ہیں وہ انہیں نور سے اندھیریوں کی طرف نکالتے۔
اس صورتحال میں اسلام جو کہ اللہ تعالی کی دی ہوئی شریعت ہے ایک بالکل ممتاز اور متوازن لائحہ عمل کا حامل ہے۔ وبا کے دوران اسلامی ریاست میں حکمران اور عوام کا رویہ مناسب اور ان کی جانب سےموثر اقدامات نظر آتے ہیں۔ خلیفہ صرف اور صرف احکام شریعہ کی تنفیذ کرتا ہے اور عوام خلیفہ کی اطاعت کوایک حکم شرعی ہونے کے ناطے اپنے لیے لازم رکھتے ہیں ۔جس کی وجہ سے حکمران اور عوام اللہ کی رضا کے لیے تعاون کرتے ہیں۔ بشمول یہ کہ اسلام وبائی مرض کو محدود کرنے اور اس پر قابو پانے میں اس وقت موجود تمام ادیان یعنی سرمایہ داریت اور اشتراکیت سے برتر ہے۔
وبا سے نمٹنے میں چین کی اشتراکی قیادت کا حال ، اپنے ناکام حل کی شکل میں ،مغرب کی سرمایہ داریت پر مبنی قیادت سے مختلف نہیں۔ نام نہاد مفروضے اور خود ساختہ تھیوریاں اشتراکی سوچ کی پہچان ہیں جو کہ اصل میں مفاد پسندی ہی کی ایک اور شکل ہے اور اسی سوچ کی وجہ سے ابتدائی طور پر چینیوں نے اقتصادی خسارے سے بچنے کے لیے اس وبائی بحران کو چھپایا۔اور پھر مفاد پسندی ہی کی بنیاد پر اپنے صحت عامہ کے ڈھانچے کو مکمل طور پر بیٹھتے دیکھتے ہوئے ایک سخت اور مکمل لاک ڈاؤن کو نافذ کیا۔ جس نے یکسر نئے قسم کے مسائل اورپہلے سے بڑی پریشانی کو پیدا کر دیا۔
وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُۚإِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا ﴿٨١﴾وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَۙوَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا ﴿٨٢﴾
اور فرماؤ کہ حق آیا اور باطل مٹ گیا بیشک باطل کو مٹنا ہی تھا. اور ہم قرآن میں اتارتے ہیں وہ چیز (۱۷۹) جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے اور اس سے ظالموں کا نقصان ہی بڑھتا ہے،
اسلام میں ریاست کے لیے لازم ہے کہ کسی بھی بحران سے پہلے ، بحرانوں سے نمٹنے کی صلاحیت اور قدرت کو موجود رکھنے کو یقینی بنائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،
«كُلُّكُمْ رَاعٍ ، وَكُلُّكُمْ مَسْؤولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ ، فَالأَمِيرُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ»
“تم سب اپنے ریوڑ کےذمہ دار ہو۔ لوگوں کا امیر چرواہا ہے اور وہ اپنے ریوڑ کا ذمہ دار ہے۔ [بخاری ، مسلم]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریاست کے فرائض نبھاتے ہوئے صحت کی دیکھ بھال اور ضروریات کی فراہمی دونوں کو قائم کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،
من أَصْبَحَ مِنْكُمْ آمِنًا فِي سِرْبِهِ، مُعَافًى فِي جَسَدِهِ، عِنْدَهُ قُوتُ يَوْمِهِ، فَكَأَنَّمَا حِيزَتْ لَهُ الدُّنْيَا
تم میں سے جس نے بھی صبح کی اس حال میں کہ وہ اپنے گھریا قوم میں امن سے ہو اور جسمانی لحاظ سے بالکل تندرست ہو اور دن بھر کی روزی اس کے پاس موجود ہو تو گویا اس کے لیے پوری دنیا سمیٹ دی گئی (ترمذی)
اسلام کے حکمرانی کے دور میں خلافت میں بڑے پیمانے پر اعلی صلاحیت والا اور ریاست کی مالی مدد سے چلنے والاصحت عامہ کا ڈھانچہ موجود تھا کیونکہ اسلام نے اس طرح کا ڈھانچہ قائم کرنے کے لیے ریاست کو پابند کیا ہے۔ اسی لیے صحت کو خلافت نے نجی شعبے کے حوالے نہیں کیا۔ یہ نجی ادارے تو کاروبار ہیں جن کے لیے منافع کی شرح شہری کی صحت پر مقدم ہو تی ہے تاکہ سال بھر منافع کو برقرار رکھا جاسکے۔ اس نقطہ نظر پر بنائے گئےصحت کے شعبے کو بس معمول کی ضروریات کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہوتا ہے کیونکہ اولاً ریاست نے اس ڈھانچہ کو بحیثیت ایک فرض قائم نہیں کیا ہوتا اور سالہاسال کی کفایت شعاری کے شب خون اورمسلسل نظر انداز کیے جانے کی وجہ سے یہ نظام بس مختصر ترین قابلیت کا حامل ہوتا ہے اسی لیے بحرانوں کو سہنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔بلکہ بحران کا سامنا کرتے ہی ایسے نظام زمین بوس ہو جاتے ہیں ۔
خلافت کے اسپتالوں کو ریاست کی جانب سے مالی مدد فراہم کی جاتی تھی اور ان کی مستقل آمدن کے لیے اوقاف کا متحرک انتظام بھی موجود تھا۔ جب تک کہ مریض بیماری سے مکمل طور پر ٹھیک نہ ہوجاتا ، اس وقت تک اسپتال تمام ضروری ادویات اور ملازمین فراہم کرتے تھے۔ اسپتال آڈٹ ، تحقیق اور طبی تربیت میں سرگرم تھے ، اس تحقیق کی بنیاد وہی تھی جو آج کل مشہور ہے۔ چونکہ اسلامی ریاست دعوت و جہاد کے ذریعہ اسلام کو عام کرنے کو ایک بنیادی ذمہ داری سمجھتی تھی اس بات سےصحت کی دیکھ بھال کے نظام کو فائدہ ہوا۔ خلافتجنگ کے دوران پیش آنے والی صحت کی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیت رکھنے کے لئے بڑے پیمانے پر اسپتالوں کے وسیع نیٹ ورک قائم کیے رکھتی ۔ خلافت نے صدیوں تک غذائی علوم ، خوردنی اجناس اوران کی پیداوار اور ان کی سپلائی چین کو اعلی معیار تک پہنچایا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ اس کی فوجوں کو اسلام کے لیے نئے علاقےکھولنے کے دوران افواج کے لیے غذائیت سے بھرپور اور اچھی طرح سے محفوظ خوراک مہیا ہو۔ چنانچہ آج ایک بار پھر، نبوت کے طریقہ پر خلافت کی واپسی ہی دنیا کی عوام کے لئے راحت کا باعث ہوگی جو اس وقت جمہوریت کے جابرانہ ، خود ساختہ قوانین کے بوجھ تلے پِس رہے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔
جہاں تک اس طرح کی وباء کو روکنے کے لئے مفت صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے خاطر خواہ فنڈز کی فراہمی کے معاملے کی بات ہے تو ، اسلام اس سرمایہ دارانہ نظام جو کہ دنیا کا موجودہ نظام ہے اور دنیا پر حاوی ہے سے بالاتر ہے ۔ در حقیقت ، کورونا وائرس (کوویڈ ۔19) کی وبائی بیماری نے سرمایہ دارانہ معیشتوں کی ناقص اور نازک نوعیت کو بے نقاب کردیا ہے۔ سرمایہ داریت نے تو صرف اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ ملک کی دولت ایک چھوٹی اقلیت کے ہاتھ میں مرکوزر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی سرمایہ دار ریاستیں اپنے شہریوں کی جان اور صحت سے متعلق اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے میں ناکام ہو گئیں ۔پاکستان میں اس سلسلے میں صورتحال اس سے بھی بدتر ہے۔ در حقیقت ، خود یہ سرمایہ داریت انسانیت پر بوجھ ہے اور اسے بھوک اور وائرس کے درمیان انتخاب کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ،
﴿كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ﴾[59:7]
تاکہ وہ تمہارے مالداروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتا رہے
اسلام سرمایہ داریت کی اس سوچ کو مسترد کر تا ہے کہ معیشت میں تمام تر توجہ جی ڈی پی کو بڑھانے پر صرف کر دی جائے ، اور اس کے مقابلے میں ایک ایسا معاشی ماڈل پیش کرتا ہے جس میں معیشت کے انتظام میں دولت کی گردش اور تقسیم بنیادی اہداف ہیں ۔
اور مزید یہ کہ اسلام میں ملکیت کے اصول عوامی نوعیت کی املاک اور صنعت کی نجکاری کی مخالفت کرتے ہیں ۔ چنانچہ کثیر سرمائےکی محتاج صنعتوں کی ریاست کی تحویل میں ہونے سے ریاست کے پاس ہمہ وقت بھر پور آمدن اور وافر اموال میسر رہتے ہیں۔ چنانچہ صحت کے اخراجات جیسےبنیادی لوازمات پر سمجھوتہ نہ کرنا اسلامی ریاست کا خاصہ رہا ہے۔ عوامی ملکیت سے منسلک صنعتوں کی ریاستی تحویل میں ہونے کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ نے عنان ،ابدان اور مضاربہ جیسی کمپنی کے ڈھانچے قائم کیے جو قدرتی طور پر نجی شعبے اور انفرادی کاوش کو دستیاب سرمائے کی حد کو محدود کرتے ہیں اور کثیر سرمائے کی محتاج صنعتوں کی ملکیت کو نجی شعبے کے ہاتھوں میں جانے سے روک دیتے ہیں۔ اسلام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ توانائی کے شعبے اور معدنیات سے حاصل ہونے والی آمدنی کو نجکاری کے ذریعہ چند لوگوں کی جیبوں تک محدود کر دینے کی بجائےعوام پر خرچ کیا جائے۔ در حقیقت ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ نے یہ حکم دیا ہے کہ توانائی اور معدنی وسائل عوامی ملکیت ہیں ، جس کے فوائدعوام کے امور کے لئے مختص ہیں ۔
اسلام سود پر مبنی قرض کے گناہ کو بھی مسترد کرتا ہے ، خواہ یہ غیر ملکی قرضوں کی صورت میں ہو یا مقامی قرضے یا انعام کی لالچ میں افراد کا بانڈ خریدنا۔ سود کا سنگین گناہ دنیا بھر میں بھاری قومی قرضوں کی اصل وجہ ہے اور پاکستان کے معاملے میں زیادہ تر بجٹ سود پر مبنی قرضوں پر خرچ کیا جاتا ہے۔ لہذا ریاست سود پر مبنی قرض کی ادائیگی پر محصولات ضائع نہیں کرے گی اس لیے چاہے بحران ہویا معمول کے معاملات، ریاست عوام کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی مکمل اہلیت رکھتی ہے۔ درحقیقت ، اسلام نے بھوک یا بیماری کو لوگوں پر بطور انتخاب نہیں چھوڑا ، کیونکہ ریاست کا فرض ہے کہ وہ بیماری اور بھوک دونوں کو دور کرے۔
جب وبائی بحران پھوٹ پڑے تو اسلام میں ریاست اس بیماری کو ابتداء ہی سے پوشیدہ رکھے بغیر اس بیماری کا پیچھا کرتی ہے۔ ریاست اس بیماری کو اپنی اصل جگہ تک محدود رکھنے کے لئے سخت محنت کرتی ہے ، اور دوسرے خطوں میں صحت مند افراداپنے معمول کے کام کرتے رہتے ہیں اور ریاستی پیداوار میں اپنا حصہ ڈالتے رہتے ہیں ۔ یہ مفاہمت پسندی کی وجہ سے نہیں ، بلکہ اس لئے کہ یہ اسلام میں ایک حکم ہے۔
بخاری رحیم اللہ علیہ نے اسامہ بن زید سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی صحیح میں روایت کیا کہ انہوں نے کہا ،
,إِذَا سَمِعْتُمْ بِالطَّاعُونِ بِأَرْضٍ فَلَا تَدْخُلُوهَا وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَخْرُجُوا مِنْهَا
جب تم سن لو کہ کسی جگہ طاعون کی وبا پھیل رہی ہے تو وہاں مت جاؤ لیکن جب کسی جگہ یہ وبا پھوٹ پڑے اور تم وہیں موجود ہو تو اس جگہ سے نکلو بھی مت۔
اس طرح دوسرے خلیفہ راشد ، امیر المومنین ، عمر الفاروق کو بطور اسلامی ریاست کے حکمران کے جب یہ خبر ملی کہ شام میں طاعون پھیل گیا ہے تو آپ سفر کے دوران راستے سے واپس پلٹ آئے۔ اور ایسا کسی فائدے یا نقصان کی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف اس لئے کیا کہ یہ شریعت کا حکم تھا۔ لہذا ، اسلام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ریاست متعدی بیماری کو اپنی جگہ پر الگ کر دے اور بیماروں کو قرنطین کردے اور مفت میں دیکھ بھال اور علاج معالجہ فراہم کرے ، جبکہ صحت مند افراد اپنی معاشرتی اور معاشی زندگی کو جاری رکھیں جیسے یہ متعدی بیماری کے آنے سے پہلے تھی۔ اسلامی ریاست میں وبا کے دوران خوف اور تذبذب کی کیفیت نہیں ہوتی جیسے آج سرمایہ دارانہ ریاستوں میں اس وبائی مرض سے پیدا شدہ حالات میں خوف اور تذبذب ان ریاستوں کی پہچان ہے۔ بلکہ امت اور اس کی ریاست خلافت اس رویے کے بالکل برعکس مکمل یقین اور اعتماد کے ساتھ ایسے حالات کا مقابلہ کرے گی کیوں کہ اس کے پاس احکام شریعہ ہیں جو ہدایت اور شفا ء ہیں۔
وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَّ(17:82)
اور ہم قرآن میں اتارتے ہیں وہ چیز جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے
لہذا خلافت میں ریاست مکمل یکسوئی اور اطمینان کے ساتھ جارحانہ انداز میں ایسے بحرانوں سے نمٹے گی ۔ اس بات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کہ اسلام صحتمند افراد کواپنی ذمہ داریوں سے غفلت برتے بغیر معمول کی زندگی میں آگے بڑھنے کی اجازت دیتا ہے ، جیسے کہ جمعہ کی نماز کا انعقاد ۔ در حقیقت ، مسلم دنیا میں جمعہ کی معطلی انتہائی تکلیف دہ امر تھا جو کہ اس وقت تک برقرار رہی جب تک کہ مسلمانوں نے احتجاج اور مظاہروں کے ذریعے ان کٹھ پتلی حکومتوں کو اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور نہیں کردیا ۔ خلافت میں جمعہ کی نماز یا کوئی اور فرض کبھی معطل نہیں ہوں گے کیونکہ یہ اللہ سبحانہ وتعالی کا قانون ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے
إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّـهِ وَذَرُوا الْبَيْعَۚ
جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو [الجمعہ62:9]
اس آیت میں جمعہ کی نماز کے لیے طلب جازم ہے اور اس قرینہ کی وجہ سے ہے کہ اس آیت میں ایک جائز فعل یعنی کاروبارسے منع کیا گیا ہے اور یہ فیصلہ کن درخواست یعنی طلب جازم کی نشاندہی کرتی ہے۔ یہ اللہ سبحانہ وتعالی کا قانون ہے جو فیصلہ کرتا ہے کہ جمعہ سے مستثنیٰ افراد کون ہیں۔، الحاکم نے الصحیحین کے طرق پر طارق بن شہاب کے ذریعہ ، ابو موسی کی طرف سے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ، انہوں نے کہا ،
»الْجُمُعَةُ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ فِي جَمَاعَةٍ إِلَّا أَرْبَعَةٌ: عَبْدٌ مَمْلُوكٌ، أَوِ امْرَأَةٌ، أَوْ صَبِيٌّ، أَوْ مَرِيضٌ«
”جمعہ کی نماز جماعت سے ادا کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے سوائے چار لوگوں: غلام، عورت، نابالغ بچہ، اور بیمار کے
“
اور مزید اس میں وہ شخص بھی شامل ہے جو خوف میں مبتلا ہو، تو اس پر بھی جمعہ واجب نہیں ہے ، اس کی وجہ ابن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ فَلَمْ يُجِبْهُ فَلَا صَلَاةَ لَهُ إلَّا مِنْ عُذْرٍ ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ وَمَا الْعُذْرُ؟ قَالَ: خَوْفٌ أَوْ مَرَضٌ »
“ جس نے اذان سنی اس کو اس کا جواب دینا چاہئے ، اس کے لیے نماز نہیں جس کے پاس عذر ہو ۔ انہوں نے کہا:
یا رسول اللہ ﷺ عذر کیا ہے؟ آپ ﷺ نے کہا: خوف یا بیماری ”
چنانچہ ہر مسلمان پر جمعہ واجب ہے ، سوائے ان لوگوں کے جن کے پاس شرع سے عذر کے لیے نص موجود ہے اور جو عذر نہیں رکھتے ان پرجمعہ فرض ہے (فرد عین)۔
جس طرح خلافت اللہ کے گھروں میں اللہ کے حکم کے مطابق صلاۃ جمعہ کے تسلسل کو یقینی بنائے گی بالکل اسی شدومد کے ساتھ خلافت وبائی بیماریوں سے متعلق احکام شریعہ پر عمل پیرا ہوگی ، چنانچہ ان حکام شریعہ کی سنجیدگی اور مکمل دلجمعی کے ساتھ تکمیل ایسی بیماریوں کو پھیلنے سے روکے گی۔اور خلافت بحران میں صحت کی دیکھ بھال اورمفت سہولیات کی فراہمی اور اسلام کے معاشی نظام کے نفاذ کے ذریعے، اس بات کو یقینی بنائے گی کہ عوام تندرست اور آسودہ حال رہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،
»اَلْإِسْلَامِ يَعْلُو وَلَا يُعْلَى«
"اسلام بالاتر ہے اور کبھی بھی اس پر سبقت نہیں لی جا سکتی ۔" [ا لدارقطنی]
در حقیقت ، ہمارا عظیم دین ، دین حق ہے۔ اسلام ،سرمایہ داریت اور اشتراکیت بلکہ انسانیزندگی گزارنےکے تمام طریقوں اور ادیان سے افضل ہے ، اشتراکیت توگزر چکی اور انشااللہ سرمایہ داریت کا دور بھی اپنے اختتام کے قریب ہے۔ اسلام اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف سے نازل ہوا ہے اور ہر انسانی مسئلہ کے لئے اعلی رہنمائی اور وضاحت فراہم کرتا ہے۔ دنیا نے سرمایہ داریت کی ناکامی کو عملی طور پر دیکھ لیا ہے ، یہاں تک کہ اس کے علمبردار ممالک میں بھی سرمایہ داریت کی ناکامی واضح ہو گئ ہےجیسا کہ مغربی ریاستیں بشمول ریاستہائے متحدہ امریکہ ۔ دنیا آج تیار ہے کہ نبوت کی منہج پر قائم ہونے والی خلافت کے ہاتھوں عملی طور پر اسلام کے نفاذ کا مشاہدہ کرے۔
يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُورَ اللَّـهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّـهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ ﴿٣٢﴾هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ ﴿٣٣﴾
یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیں ہے خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ یہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔
Latest from
- عالمی قانون کا انہدام ...اور ان دنیا والوں کی ناامیدی...
- بچوں کو اغوا کرنے اور ان پر تجربات کرنے کی”اسرائیلی“ قبضے کی ایک لمبی داستان موجود ہے
- امریکی قیادت اور نگرانی میں: ایران کی صفوی حکومت اور یہودی وجود...
- شنگھائی تعاون تنظیم امریکن ورلڈ آرڈر کا حصہ ہے
- استعماری طاقتوں کی تنظیمیں ہماری سلامتی اور خوشحالی کی ضامن نہیں ہو سکتیں