الأحد، 22 محرّم 1446| 2024/07/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

سوال وجواب: ازدواجی زندگی کے اختلافات

بسم الله الرحمن الرحيم


سوال: ہم کتاب و سنت میں خوشگوار، مطمئن اور مامون ازدواجی زندگی کے بارے میں پڑھتے ہیں، لیکن ہمارے اس دور، جس میں ہم زندگی بسر کررہے ہیں، ازدواجی بندھن میں جڑے جوڑوں میں بہت اختلافات پائے جاتے ہیں ، حتٰی کہ دعوت میں شریک لوگوں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ یہ اختلافات کبھی میاں بیوی کے مابین اپنے رہائشی گھر کے انتخاب پر، یا دلہا دلہن کے والدین کے ساتھ تعلق پر، یا انکے رشتہ داروں سے ملاقات پراور بالخصوص شوہر کے رشتہ داروں سے ملاقات پر، جنہیں (حدیث میں) موت گردانا گیا ہے، نظرآتے ہیں۔ دونوں کے والدین اس پر اصرار کرتے ہیں کہ یہ اس کے بیٹے یا اسکی بیٹی کا حق ہے یا یہ اور یہ داماد یا بہو کی ذمہ داری ہے ، اور دونوں اپنی رائے پر، اس خیال سے کہ وہ شریعت کی رُو سے حق بجانب ہیں ، سختی سے ڈٹے رہتے ہیں ، اور اپنی پوزیشن سے ذرا سا بھی پیچھے ہٹنے یا ترمیم پر تیار نہیں ہوتے۔ اس سلسلے میں آپ کیا نصیحت کریں گے خصوصاً ان لوگوں کو جو دعوت کی سرگرمیوں میں شامل ہیں؟ مزید یہ کہ اس آیت مبارکہ کا کیا معنی ہے؛
وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى
"اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم کر اور خود بھی اس پر قائم رہ۔ ہم تجھ سے روزی نہیں مانگتے، ہم تجھے روزی دیتے ہیں اور پرہیزگاری کا انجام اچھا ہے۔"
(سورہ طہ۔ 20:132)
جزاک اللہ خیراً

 

جواب: ہمیں آپ کے اس سوال سے حیرانی کے ساتھ ساتھ دکھ بھی ہوا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ جو اس خالص اور پاک دعوت کو لے کر چل رہے ہوں، اپنی ذاتی زندگیوں میں ہی ناکام ہو سکتے ہیں؟ آخر کیسے ان کی زندگیاں احترام اور محبت کے بجائے نفرت اور بغض سے بھر سکتی ہیں...؟
درحقیقت شادی شدہ زندگی بے جان چیزوں کی مانند 1+1=2کی مساوات نہیں، یہ تو رحمت اور شفقت، سکون اور اطمینان سے عبارت ہوتی ہیں۔ اس عائیلی زندگی کو ایسی بے جان اور جامدمساوات سمجھنے والے ہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے زندگیوں کو رحمت، قربت اورگرمجوشی سے بھرنے سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا؛
وَمِنْ آَيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآَيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
"اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہیں میں سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان کے پاس جا کر سکون حاصل کرو، اور تمہارے درمیان محبت اور مہربانی پیدا کر دی، بے شک جو لوگ غور و فکر کرتے ہیں ان کیلئے اس میں نشانیاں ہیں۔" (سورہ روم:21)
ایسے لوگوں کو کافی زیادہ سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے ، اور انھیں اس پر غور کرنا چاہئے جو کچھ انھوں نے سیکھا ہے۔ مزید برآں ایسے لوگوں کو سزا بھی ملنی چاہئے! بہر کیف ، سوالات کے جوابات درج زیل ہیں؛
1)ازدواجی زندگی سے متعلق سوالات کے جوابات:
شادی شدہ لوگوں سے متعلق رسول اللہ کی حدیث پاک ہے،
«خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي» أخرجه الترمذي وابن ماجة.
''تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں سے اچھا ہے اور میں اپنے گھر والوں سے سلوک میں سب سے بہتر ہوں۔'' ترمذی، ابن ماجہ
بیویوں کیلئے: ابوہریرہ رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں،
«لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا»
''اگر میں کسی کو کسی کے آگے سجدے کا حکم دیتا تو میں عورتوں کو ان کے شوہروں کے آگے سجدے کا حکم دیتا۔''
( یہ حدیت ترمذی میں روایت ہے ، اسی طرح کے الفاظ میں ابن ماجہ میں ہیں۔ یہ حدیث سعید بن مسیب اور عائشہ سے بھی روایت ہے)
میں ایک بار پھر اس بات کو دہرانا چاہتا ہوں کہ شادی شدہ جوڑوں کیلئے یہ ایک لازمی امر ہیں کہ وہ سمجھیں کہ خانگی زندگی 1+1=2کی طرح کی بے جان اورجامد مساوات نہیں، بلکہ یہ تعلق تو خوشیوں اور اطمینان کا باعث ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے؛
لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً
"تاکہ تم ان کے پاس جا کر سکون حاصل کرو، اور تمہارے درمیان محبت اور مہربانی پیدا کر دی۔" (سورہ روم:21)
بیوی کو اپنے شوہر کا وفادار ہونا چاہئے اور ان کواپنے شوہرکے دل کو خوشیوں سے بھر دینا چاہئے خواہ یہ سب کچھ ان کے اپنے آرام اور سکون کی قیمت پرہی کیوں نہ ہو۔ کوئی بھی عقلمند عورت اپنے شوہر سے یہ نہیں کہے گی کہ میں آپکی وفادار ہوں لیکن مجھے آپکے والدین سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ اسلئے ہے کہ ہر عقلمند عورت کو پتا ہو گا کہ اگر وہ اپنے شوہر کے والدین سے اچھا برتاؤ کرے گی اور ان کا خیال رکھے گی تو اس کا یہ برتاؤ اسکے شوہر کیلئے خوشیوں کا باعث بن جائے گا جو کہ اس کیلئے فرض ہے...رسول اللہﷺ نے فرمایا؛
«مَا اسْتَفَادَ الْمُؤْمِنُ بَعْدَ تَقْوَى اللَّهِ خَيْرًا لَهُ مِنْ زَوْجَةٍ صَالِحَةٍ إِنْ أَمَرَهَا أَطَاعَتْهُ وَإِنْ نَظَرَ إِلَيْهَا سَرَّتْهُ وَإِنْ أَقْسَمَ عَلَيْهَا أَبَرَّتْهُ وَإِنْ غَابَ عَنْهَا نَصَحَتْهُ فِي نَفْسِهَا وَمَالِهِ» أخرجه ابن ماجه عن أبي أمامة
''مومن کیلئے تقوی کے بعد اچھی بیوی سے بڑھ کر کسی بھی چیز میں خیر نہیں کہ جب وہ اسے کسی چیزکا حکم دے تو وہ اسے پورا کرے، اور جب وہ اس پر نگاہ ڈالے تو اس کا دل خوشی سے بھر جائے، اگر وہ شخص اس کے لیے قسم کھائے ، تو وہ اس کو سچ کر دکھائے، اور جب اس کا شوہر دور ہو تو بیوی اسے اچھی نصیحت کرے اور اپنے اور شوہر کے مال کی حفاظت کرے۔'' (یہ حدیث ابن ماجہ میں ابو امامہ اور اسی طرح کی حدیث ابو داؤد میں ابن عباس نے روایت کی ہے۔)
اسی طرح شوہر کیلئے لازم ہے کہ وہ اپنی بیوی سے احسن برتاؤ کرے اور اس کی زندگی کو آرام دہ بنائے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا؛
وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا
''اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بود و باش رکھو گو کہ تم انھیں ناپسند کرو، بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت سے بھلائی کر دے۔''
(النساء: 19)
شوہر کو چاہئے کہ وہ اپنی بیوی کی اچھی زندگی کے حقوق پورے کرے اور اسی طرح وہ اپنے والدین کے حقوق کو بھی پورا کرے جو کہ اس پر فرض ہیں، لیکن بیوی کے حقوق میں کسی قسم کی کمی کئے بغیر۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا؛
وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا
''اور تمہارا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنااور ماں باپ کے ساتھ احسن سلوک کرنا۔'' ( الاسرا ء:23)
اور فرمایا؛
وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا
'' اور ہم نے ہر انسان کو اپنے والدین کے ساتھ عمدہ برتاؤ کرنے کی نصیحت کی ہے۔''
عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں ؛
«سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ قَالَ الصَّلَاةُ عَلَى مِيقَاتِهَا قُلْتُ ثُمَّ أَيٌّ قَالَ ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ قُلْتُ ثُمَّ أَيٌّ قَالَ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ» أخرجه البخاري.
میں نے رسول اللہ سے پوچھا؛ ''اے اللہ کے نبیﷺ، سب سے بہترین عمل کونسا ہے؟'' آپ ﷺنے جواب دیا؛ ''نماز کو اپنے اولین اوقات میں ادا کرنا''۔ میں نے پوچھا ؛ ''اور اے اللہ کے رسول! اس کے بعد؟'' آپﷺ نے جواب دیا ، ''والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ۔'' میں نے مزید پوچھا، ''اور اس کے بعد؟'' آپ ﷺ نے فرمایا؛ ''اللہ کی راہ میں جہاد میں شرکت۔'' (بخاری)
کوئی عقلمند شوہر بیوی کو اپنے والدین اوررشتہ داروں سے اچھے تعلق سے منع نہیں کرے گی، نہ ہی وہ اسے ان سے اچھے برتاؤ اور تعلقات بڑھانے سے روکے گا ، جسکی بدولت دونوں میں ازدواجی قرابت داری پیدا ہو گی۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس آیت میں سسرالی رشتہ داریوں کو خونی رشتہ داریوں سے مماثلت دی۔ فرمان ہے؛
أَلَمْ تَرَ إِلَى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ وَلَوْ شَاءَ لَجَعَلَهُ سَاكِنًا ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيلًا...
''کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے سائے کو کس طرح پھیلا دیا ، اگر چاہتا تو اسے ٹھہراتا ہوا ہی کر دیتا، پھر ہم نے سورج کو اس کا سبب بنا دیا طلوع آفتاب کے بعد سایہ گھٹتا رہتا ہے اور کم ہوتے ہوتے ختم ہو جاتا ہے اور پھر زوال کے بعد سایہ بڑھتے بڑھتے غروب کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے اور اگر سورج نہ ہوتا تو سایہ بھی نہ ہوتا..."
یہاں تک کہ اللہ فرماتا ہے؛
وَهُوَ الَّذِي مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هَذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَهَذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَحِجْرًا مَحْجُورًا * وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا
''اور وہی ہے جس نے دو سمندر ایسے ملا رکھے ہیں ، یہ ہے میٹھا اور مزیدار اور یہ ہے کھاری اور کڑوا، اور دونوں کے درمیاں ایک مستحکم آڑ بنا دی ہے۔اور وہی ہے جس نے انسان کو پانی سے پیدا کیا ہے، اور پھر اسے نسب سے رشتہ والا بنا دیا اور سسرالی رشتوں والا بنا دیا۔ اور بلاشبہ آپ کا پروردگار ہر چیز پر قادر ہے۔ '' (الفرقان: 53-54)
سسرالی رشتوں اور نسبی رشتوں سے نسبت دینے سے واضح ہوتا ہے کہ دونوں رشتے قابل احترام اور قابل توجہ ہیں اور دونوں رشتوں سے رب کی عظمت اورطاقت کی عکاسی ہوتی ہے۔
یہ نکات اکیلے ایک عقلمند شوہر اور ایک عقلمند بیوی کیلئے کافی ہیں
إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ
''بے شک اس میں اس شخص کے لیے بڑی عبرت ہے جس کے پاس (فہیم) دل ہو یا وہ متوجہ ہو کر (بات کی طرف) کان ہی لگا دیتا ہو '' (سورہ ق: 37)
اور وہ لوگ جو اس سے سبق حاصل نہیں کرتے تو ان کیلئے مزید تفصیل بھی کافی نہیں ہو گی۔

2)جہاں تک دیگر سوالات کا تعلق ہے تو اگرچہ وہ مرکزی سوالات نہیں تاہم متعلقہ ضرور ہیں۔
ا) جہاں تک سسرالی رشتہ داروں کا انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہونے کا تعلق ہے یہاں تک کہ ان کو موت سے تشبیہ دینے کی بات ہے ، جیسا کہ بخاری میں عقبہ بن عامر سے روایت حدیث میں ہے؛
«إِيَّاكُمْ وَالدُّخُولَ عَلَى النِّسَاءِ فَقَالَ: رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَرَأَيْتَ الْحَمْوَ قَالَ الْحَمْوُ الْمَوْتُ»
'' اللہ کے نبی ﷺنے کہا ؛ ''عورتوں سے میل ملاپ سے خبردار رہو۔'' انصار میں سے ایک شخص نے کہا ؛ ''الْحَمْو (شوہر کے بھائی اور بھتیجے وغیرہ) کے بارے میں کیا حکم ہے؟'' رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا؛ '' 'الْحَمْ' تو موت ہے۔''
یہ معاملہ ایسی صورتحال سے متعلق ہے جہاں عورت کا شوہر یا کوئی محرم موجود نہ ہو ، اور وہ اپنے ایسے سسرالی رشتہ داروں کے مابین اکیلی(خلوت میں) ہوجو اس کے محرم نہیں۔ 'الْحَمْو'، شوہر کے وہ رشتہ دار ہیں جو بیوی کیلئے محرم نہیں جیسے کہ شوہر کے بھائی یا کزن ... جہاں تک سسر کا تعلق ہے ، اگرچہ لغوی طور پر وہ بھی 'الْحَمْو' میں شامل ہے لیکن وہ اس حدیث کے زمرے میں نہیں آتا کیونکہ وہ عورت کیلئے محرم ہے۔ 'الْحَمْو' کے عورت سے خلوت میں ملنے کو موت سے تشبہہ دی گئی ہے جو کہ معاملے کی حرمت کی سنجیدگی اور شدت کو ظاہر کرتاہے۔
پس ایسی صورتحال میں جہاں شوہر یا عورت کا محرم رشتہ دار موجود ہو ، تو اس صورتحال میں کوئی مسئلہ نہیں ہے اور شرع نے اس کی اسی طرح اجازت دی ہے جیسے نسبی رشتہ داروں سے ملنا یا کھانے کے موقع پر اکٹھے ہونا، جو چیز منع ہے وہ خلوت میں ملنا ہے۔ اسی حدیث کی تشریح میں ابن حجر فتح الباری میں رقمطراز ہے؛
''ابنِ وھب نے اس حدیث کی تشریح میں مزید یہ بات بیان کی جسے مسلم نے روایت کیا ہے : میں نے لیث ابن سعیدکو کہتے سنا : 'الْحَمْو' کا مطلب ہے شوہر کا بھائی یا اس طرح شوہر کے رشتہ داروں میں سے دوسرے لوگ جیسے کہ کزن وغیرہ۔ اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد ترمذی لکھتے ہیں ؛ "یہ کہا گیا ہے کہ یہ شوہر کے بھائی سے متعلق ہے ... وہ مزید کہتے ہیں : یہ حدیث جیسا کہ روایت ہے بیان کر رہی ہے کہ ایک مرد کو ایک عورت کے ساتھ خلوت میں نہیں ہونا چاہئے ، اور جب وہ خلوت میں ہو تو ان کے درمیان تیسرا شیطان ہوتا ہے۔"
اسی طرح ایک حدیث ان عورتوں کے متعلق بھی ہے جن کے شوہر موجود نہ ہو۔ ترمذی اور مسلم میں جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
«لَا تَلِجُوا عَلَى الْمُغِيبَاتِ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنْ أَحَدِكُمْ مَجْرَى الدَّمِ»
''ان عورتوں سے ملنے مت جاؤجن کے خاوند گھروں سے دور ہو ں کہ شیطان تم میں ایسے موجود ہے جیسے کہ خون جسم میں دوڑتا ہے۔''
پس 'الْحَمْو' کا معاملہ اور ان کا عورت سے خلوت میں ملنے کے معاملے کا تعلق اس جگہ تک ہے جب اس عورت کا شوہر یا دوسرے محرم رشتہ دار موجود نہ ہو۔ شوہر کے گھر سے دور ہونے یا موجود نہ ہونے کے وقت عورت سے ملنے سے ممانعت دراصل خلوت میں ملاقات سے منع کرنے کا معاملہ ہے۔ جہاں تک شوہر یا دوسرے محرم رشتہ داروں کی موجودگی میں ملنے کا تعلق ہے تو شرع نے اس کی اجازت دے رکھی ہے۔ پس بیوی کے اپنے شوہر کے خاندان سے اور شوہر کے اپنی بیوی کے خاندان سے تعلق کو شرع کے مطابق مضبوط بنانے کی مکمل اجازت ہے۔
ب ) بیوی کا گھر وہی ہے جہاں اس کا شوہر رہتا ہے۔ اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ سکونت اختیار کرے جب تک کہ وہ گھراسے نفیس زندگی فراہم کرے اوروہ شوہر کی استطاعت کے لحاظ سے ہو۔ اسے شوہر کو حکم دینے کا حق نہیں کہ وہ اپنے شوہر کو بتائے کہ اسے کہاں رہنا ہے ، بلکہ وہ رہائش سے متعلق اچھے انداز سے شوہر سے گفتگو و شنیدکرے۔ تاہم اس معاملے میں شوہر کی رائے حتمی ہوتی ہے اور بیوی کو وہیں رہنا چاہئے جہاں اس کا شوہر اس کو ٹھہرائے۔ قرآنِ پاک میں ہے؛
أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ
''ان کو (مطلقہ عورت کو) وہاں بساؤ جہاں تم رہتے ہو، حسب توفیق۔'' ( الطلاق :06)
یہ آیت ایک مطلقہ عورت کے عدت کی مدت کے دوران رہنے کی جگہ کے بارے میں ہے کہ یہ اس کے سابقہ شوہر کا فرض ہے کہ وہ عدت کی مدت میں اس کو رہنے کی جگہ مہیا کرے۔ پس بیوی کے معاملے میں یہ بدرجۂ اُولیٰ ہے۔ 'سَكَنْتُمْ' کا مطلب ہے جہاں تم رہتے ہو، اور 'مِنْ وُجْدِكُمْ' کا مطلب ہے حسبِ توفیق۔ پس جب تک عورت کو ایک مناسب اور محفوظ گھر شریعت کے مطابق مہیا کیا گیا ہو ، جس کی اس کا شوہر استطاعت رکھتا ہوں، تواس کا اپنی مرضی کے گھر کا مطالبہ پورا نہ ہونے پر خلع یا طلاق طلب کرناشرعی احکامات کے خلاف ہے۔۔۔
پ) شوہر کو اجازت نہیں کہ وہ بیوی کو اپنے والدین سے تعلق رکھنے سے روکے:
یہ اسلئے ہے کہ مرد اور عورت دونوں کو شرع نے حکم دیا ہے کہ وہ اپنے نسبی رشتہ داروں سے تعلق کو قائم رکھیں۔ یہ حکم نہ صرف مرد کیلئے ہے بلکہ یہ عورت کیلئے بھی ہے کیونکہ خطاب عام ہے اور اس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں۔ رسول اللہﷺنے فرمایا؛
«لا يدخل الجنة قاطع رحم»
''قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔''
'قطع رحمی کرنے والا' عمومی حکم ہے ممنوعیت کے لحاظ سے، اور 'جنت نہیں جائے گا' بھی عام ہے اور اس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہے۔ جس طرح شوہر کیلئے اپنے والدین سے تعلق قائم رکھنا فرض ہے ، اسی طرح عورت کیلئے اپنے والدین سے تعلق رکھنا فرض ہے۔ پس اگر شوہر، بیوی کو اپنے والدین سے تعلق قائم رکھنے سے منع کرے گا تو وہ گناہ گار ہو گا۔ اگر ایسا معاملہ ہمارے نوٹس میں آیا تو ہم اس پرمناسب انتظامی سزا دیں گے۔
نتیجہ: یہ شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ بیوی کے والدین کے ساتھ بیوی کے تعلقات قائم رکھنے کو آسان بنائے، بغیر اس امر کے کہ بیوی اپنے شوہر اوراسکے گھر کے حقوق میں کوئی کوتاہی کرے۔ ایک دانا شوہر اور بیوی، جو متقی اور مخلص ہوں ، کیلئے یہ معاملہ آسان ہے۔ انہی جوڑوں کے صلہ رحمی کے معاملے مشکل بنتے ہیں جو اس دعوت کی جنس سے نہ ہوں ، جو کہ اللہ کے ساتھ اخلاص اور رسول اللہ اکے ساتھ صدق کا تقاضا کرتی ہے۔
ت) جہاں تک اس آیت کا تعلق ہے:
وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى
"اپنے گھرانے کے لوگوں کو نماز کی تاکید کر اور خود بھی اس پر جما رہ۔ ہم تجھ سے روزی نہیں مانگتے بلکہ ہم خود تمھیں روزی دیتے ہیں اور اچھا انجام (جنت) تو متقیوں ہی کیلئے ہے۔" (طہ: 20-132)
اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اور تمھارا گھرانہ اللہ کی عبادت کرو، نماز پڑھو ، اوزندگی اور رزق کے معاملے کو سر پر سوار نہ کرو۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ تمھیں رزق دیتے ہیں اور ہم تمھیں یہ نہیں کہتے کہ تم اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کے رازق بنو۔ تمہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا مطیع ہونا چاہئے اور اپنے خاندان کو بھی یہ حکم دینا چاہئے ، اور یاد رکھو کہ اچھا انجام تو متقیوں کیلئے ہے۔
موطا امام مالک میں زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ، ''عمر بن الخطاب رات کو عبادت میں اس قدر مصروف رہا کرتے جتنا کہ الل ان کیلئے چاہتے تھے، اور وہ رات کے آخری حصے میں اپنے گھر والوں کو اٹھاتے اور کہتے 'نماز، نماز' اور یہ آیت تلاوت کرتے ؛
وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى
''اپنے گھرانے کے لوگوں کو نماز کی تاکید کر اور خود بھی اس پر جما رہ۔ ہم تجھ سے روزی نہیں مانگتے بلکہ ہم خود تمھیں روزی دیتے ہیں ، اور اچھا انجام (جنت) تو متقیوں ہی کیلئے ہے۔'' (طہ: 20-132)
اللہ سبحانہ و تعالی نے لفظ 'وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا' کالفظ استعمال کیا جس کا مفہوم 'جما رہ، ڈٹ جاؤ' کا ہے۔ یہاں 'وَاصْبِرْ عَلَيْهَا' کی بجائے 'وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا' استعمال کیا گیا ہے جس میں زیادہ سختی ہے ، جس کا مفہوم 'صبر کرتا رہ'ہے۔ یہ زیادہ شدت اور کوشش کی جانب اشارہ ہے۔ کیونکہ ایک انسان کو اپنے آپ اور گھر والوں کو حق پر لانے، آگ سے بچانے اور عمل کی جانب لانے میں انتہائی کوشش، صبر اور صعوبت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور اللہ نیکو کاروں کی حفاظت کرتاہے۔
یہاں پر اس آیت کی یاد دہانی بھی اہم ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُون
''اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں ، اس پر فرشتے سخت دل اور قوی ہیکل مقرر ہیں ، وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے جو وہ انہیں حکم دے ، اور وہ وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔'' ( التحریم:06)
بچاؤ اپنے آپ اور اپنے خاندان کو آگ سے، کا مطلب ہے: اپنے بیوی اور بچوں کو اس آگ سے دور کرو، اللہ سے دعا کر کے، اور انھیں معروف کا حکم دے کر اور منکر کی نہی کر کے، اس دین کے احکامات سیکھ کر اور اپنے خاندان کو سکھانے کے ذریعے ، ان کی احسن تربیت کر کے اوراحکامِ شرع کے مطابق انھیں سزا دے کر ، اور اپنے گھر والوں کو نماز، روزے، زکواة ، حج اور دیگر تمام شرعی احکاما ت کا حکم د ے کر۔۔۔
میں دوبارہ اسے دہراتا ہوں جہاں سے ابتدا کی تھی، مجھے اس امر سے شدید دکھ ہے کہ شباب شوہر اور بیویاں اپنے ازدواجی تعلقات میں اس قدر مسائل میں ہیں ، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دعوت نے ابھی تک ان میں جڑیں نہیں پکڑی ہیں اور انھوں نے اس کے اخلاق واطوار نہیں اپنائے۔ اور انھوں نے اس کو ایسے سرانجام نہیں دیا جیسا کہ اس کا حق ہے، نہ انھوں نے اس کو مضبوط کیا۔ مجھے خو ف ہے کہ قدم قائم ہونے کے بعد متزلزل نہ ہوجائیں۔

 

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک