السبت، 21 محرّم 1446| 2024/07/27
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

سوال وجواب:  امریکہ میں بجٹ اورقرضوں کی حد اونچی کرنے کے حوالے سے حالیہ رسہ کشی کی حقیقت

بسم الله الرحمن الرحيم

 

سوال: اس وقت یونائیٹڈ اسٹیٹس میں ایک طرف اوباماانتظامیہ اورڈیموکریٹک پارٹی کے درمیان اوردوسری طرف حریف ریپبلکن پارٹی کے درمیان زبردست رسہ کشی عروج پرہے.یہ کشمکش بجٹ اورقرضوں کی حد اونچی کرنے کے حوالے سے ہے.اوباماحکومت قرضوں کی حد کو بڑھانے کا شدید تقاضاکررہی ہے ۔ بجٹ منظورکرنے میں ناکامی کے باعث بحران میں اس حد تک شدت آئی کہ وفاقی حکومت کےلاکھوں ملازمین کونوکریوں سے فارغ کرناپڑا، اس کو انہوں نے بغیر ادائیگی کے جبری رخصت کانام دیا۔
اب سوال یہ ہے کہ سرمایہ دارجمہوری ممالک کا پیشواامریکہ جیسی ریاست میں یہ حالات کیسے ظہورپذیر ہوئے ۔یہ کس نوعیت کی جمہوریت ہے جس کے بارے میں خیال کیاجاتا ہے کہ یہ لوگوں کوانصاف فراہم کرتی ہے ؟ ان لوگوں سے کام کرنے میں کوئی کوتاہی سرزد ہوئی ہے، یاپھر جمہوریت ان کوان کے ناکردہ گناہ کی سزا دےرہی ہے،جوعوام کوان کی تنخواہوں سے محروم کرتی ہے؟ پھر یہ کہ الٹا حکومت قرضوں کی حد بڑھانے پراصرار کر رہی ہے ،حالانکہ ہوناتویہ چاہئے تھا کہ حکومت قرضے گھٹانے پر اصرار کرتی؟
اس کی ایسی وضاحت درکارہے جسے آسانی کے ساتھ سمجھاجاسکے ،جزاک اللہ خیراً ۔

 

جواب: آپ کے سوال کاجواب مندرجہ ذیل امور پرغورکرنے سے واضح ہوگااوربآسانی سمجھ میں آجائے گا۔
پہلا : امریکی بجٹ :
امریکی بجٹ کی منظوری کیلئے کانگریس کے دونوں ایوانوں سے منظوری ضروری ہوتی ہے۔ امریکی سینٹ میں اکثریت ڈیموکریٹس کی ہے اورامریکی ایوان نمائندگانمیں اکثریت ریپبلکن کی ہے ۔ بات چیت کازبردست راؤنڈ ہوا،جس میں امریکی سینٹ اورایونِ نمائندگان کے درمیان سوموار 03/9/2013 کی شام تک تجاویز اورتحریروں کاتبادلہ ہوتارہا ،لیکن امریکی کانگریس 1/10/2013 کے ابتدائی گھنٹوں سے قبل، جب کہ امریکہ کے نئے مالی سال کاآغاز ہوتاہے،عارضی بجٹ پاس کرنے میں ناکام ہوئی ۔
دوسرا : قرضوں کی حد کاموضوع :
امریکی قرضہ وفاقی حکومت پربراہ راست قرضے کی مجموعی مقدار ہے،جو یونائیٹڈاسٹیٹس سے باہر اور اندرکی پارٹیوں کے پاس موجود ٹریژری بانڈز ہیں جو امریکی وزارت خزانہ کی طرف سے جاری کئے گئے ہیں ۔
امریکی قرضے کی حد کا تعین کانگریس کرتی ہے ،جس سے تجاوز کرناوفاقی حکومت کیلئے جائز نہیں ،اورجس کی مقدارفی الحال 16.7ٹریلین ڈالرہے ۔توقع یہ ہے کہ حکومت 17/10/2013، کواس حدسے تجاوز کرجائے گی ،اس لئے وفاقی حکومت نے اس تاریخ کو کانگریس کی طرف سے کیے جانے والےفیصلے کے انتظارمیں اپنی دھڑکنوں کوروکاہواہے ۔
تیسرا : پیش آمدہ بحران اوراس کے اسباب وعوامل :
1ـ اوبامانے ہیلتھ کئیرکاایک پروگرام پیش کیاجسے اس نے "اوباماکئیر"کانام دیا،اس کامقصد کم آمدنی والے 46ملین امریکیوں کوسماجی تحفظ اورہیلتھ انشورنس فراہم کرناتھا،تاکہ جو لوگ انشورنس نہیں کرواسکتے ،ان کیلئے ہیلتھ انشورنس حاصل کرناممکن ہوجائے ۔اس پروگرام کوچلانے کیلئے 2013ـ 2014 کی بجٹ میں اس کیلئے مختص کئے گئےکوٹے کی ڈکلئیریشن ضروری ہے۔بجٹ کاآغاز 1/10/2013سے ہوتاہے ،مگر ری پبلیکنز نے دیکھاکہ پروگرام کامقصد ڈیموکریٹک پارٹی کیلئے عوامی حمایت اوررائے عامہ کاحصول ہے ،بالخصوص جبکہ کانگریس کے مڈٹرم الیکشن نومبر 2014 میں ہونے والے ہیں اوریہ توقع کی جاتی ہے کہ اس میں اوباماکاہیلتھ کئیرپروگرام موضوع بحث ہوگا۔اس لئے ری پبلیکنز نے اوباماپروگرام کیلئے بجٹ کی تخصیص کواس وقت تک کے لیے روک دینے کا مطالبہ کیا جب تک اس سے متعلق قانون پر مذاکرات اور ترامیم جاری ہیں ۔ یہ مطالبہ اس لیے کیا گیا تاکہ پیکج میں ری پبلیکنز کے نقطہ نظر کو گنجائش دے کراس کودونوں پارٹیوں کے مشترکہ نام سے جاری کیاجائے ، صرف اوباماکے نام سے جاری نہ ہو،اس طرح اوباماڈیموکریٹک پارٹی کیلئے آئندہ انتخابات میں کوئی ووٹ بینک نہ بناسکے گا،اور چونکہ امریکی ایوان نمائندگان میں ری پبلیکنز کی اکثریت ہے ،اس لئے وہ اس قابل ہیں کہ اس قانون کومعطل کردیں۔
چونکہ دونوں پارٹیوں کے نزدیک ایشولوگوں کی خدمت کرنانہیں،بلکہ یہ آنیوالے انتخابی فصل کوکاٹنے کیلئے ایک سیاسی تنازع ہے ،اس لئے ہرایک نے اپنے موقف پراصرار کیا،چاہے لوگوں کااس میں نقصان ہو،جیساکہ حال ہی میں سامنے آیا۔اوباما اس پیکج کی منظوری کاخواہشمندہے ،جبکہ ری پبلیکنز اس کے بارے میں بات چیت کیلئے اس کوملتوی کرنے اوراس کواوباماسے الگ کرکے اس کوایسا رنگ دینا چاہتے ہیں جس میں ان کابھی حصہ ہو ۔ اس طرح ماہِ اکتوبرکے ابتدائی گھنٹوں سے پہلےعارضی بجٹ پیش کرنے میں کانگریس کی ناکامی نےاس بحران میں اضافہ کیا،جو اس کی منظوری کاطے شدہ وقت ہے۔ اوردونوں پارٹیوں کے درمیان اس کے مقررہ تاریخ تک بحث ومباحثہ ہوتارہا۔
2ـ اس کے نتیجے میں"وفاقی حکومت نے شٹ ڈاون " کیا،کیونکہ ری پبلکن پارٹی نے 30/9/2013کوبجٹ 2014 کے قانون پر ووٹنگ کومسترد کردیااوراس کی وجہ سے 8 لاکھ سے زیادہ حکومتی ملازمین کومعاؤضےاداکیے بغیر جبری رخصت دے کرمعطل کردیاگیا،اورتمام امریکی اداروں سے اپنے ملازمین میں کمی اوربڑی تعداد کوچھٹی دینے کی توقعات کی گئیں ،جیساکہ سابقہ ادوار میں ہوا، جب بل کلنٹن کے دورمیں دسمبر 1996 تاجنوری 1997تک 21 دن حکومتی سرگرمیوں کومعطل کیاگیاتھا،اس وقت حکومت کو اس شٹ ڈاؤن سے دوبلین ڈالر کانقصان ہوا تھا ۔
3ـ یہ اس بحران کی ایک کڑی ہے، بلکہ آئندہ بحران کے آنے کا اعلان اور زریعہ ہے ،یعنی حکومتکانگریس میں اس معاملے پربحث کرنے کیلئے طے شدہ وقت میں جو قریباً ایک ہفتہ بعد 17/10/2013 کوآرہاہے، قرضے کی حد بڑھانے کامطالبہ کرے گی ،اس لئے کہ حکومتی قرضہ جائز مقدار سے تجاوز کرگیاہے، جو 16.7ٹریلین ڈالر ہے ۔اس حد کی منظوری کانگریس نے دی ہے اورحکومت پریہ لازم کردیاہے کہ وہ اس سے زائد قرضہ نہ لے ۔ مگرحکومتی خزانہ 17/10/2013 کودیوالیہ ہونے کے قریب ہے ،کیونکہ حکومتی خزانے میں متوقع پیش گوئیوں کے مطابق ،سوائے 30 بلین ڈالرکے اورکچھ نہیں رہے گا،جس کی بناپر حکومت اپنی مالی ذمہ داریوں کوپوراکرنے کی اہل نہیں رہے گی۔
4ـ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے پرالزامات کی بوچھاڑ کرنے لگی ہیں ،بالخصوص جبکہ ان دونوں پارٹیوں کے مسائل کی وجہ سے عوام کوپریشانیوں کاسامناکرناپڑاہے ۔اب ہرایک پارٹی دوسری پرکیچڑ اچھالنے کی کوشش میں ہے ۔اوباماری پبلکنں پارٹی کوان حالات کاذمہ دار ٹھہراتاہے اورکہتاہے کہ اس نے ملک کواپنے پارٹی مفادات کے بدلے گروی رکھ لیاہے ۔اس نے 8/10/2013 کو وائٹ ہاوس میں ایک پریس کانفرنس میں کہا " سینٹ کے اندرکانگریس کے اراکین اوربالخصوص ری پبلیکنز اپنے فرائض کی ادائیگی کے بدلے کسی معاوضے کامطالبہ نہیں کرسکتے ۔ ان کے دوبنیادی کام یہ ہیں کہ وہ بجٹ پاس کریں اوراس بات کی یقین دہانی کرائیں کہ امریکہ ان بلوں کواداکرے گا"۔
امریکی ایوان نمائندگان کے سپیکر کاکہناتھا کہ وہ کانگریس کوہرگز قرضوں کی حد اونچی کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے، جب تک کہ اوباما ،ہیلتھ کئیرالمعروف اوباماکئیرکے حوالے سے کچھ دستبردار یوں کااعلان نہ کردے اوراس حوالے سےبات چیت پراتفاق نہ کرے ، ورنہ" ہم قرضوں کی حد نہیں بڑھائیں گےجب تک اس حوالے سے سنجیدہ مذاکرات نہ ہوں جو قرضوں کے بڑھنے کا سبب بن رہے ہیں" ۔
5ـ دونوں پارٹیوں کی کھینچا تانی سے یہ واضح ہے کہ دونوں قرضوں کی مقررہ حد میں اضافہ کرنے کی خواہش مندہیں ،مگرری پبلکنض پارٹی اس کے بارے میں ہم آہنگی کوہیلتھ کئیر پیکج کے قانون میں ترمیم کے ساتھ جوڑتی ہے ،تاکہ اس میں ان کابھی رنگ شامل ہو۔مگرغورکی بات یہ ہے کہ عام ممالک کے امور کوایسے انداز سے چلایاجاتاہے ،جس سے ان کی معاشی اورمالی حالات کنٹرول کیے جاسکیں تاکہ ان کے قرضے بڑھنے کی بجائے ان کوگھٹایاجاسکے،مگرامریکہ واحدریاست ہے جسے اس کی کوئی پروانہیں کہ وہ قرضوں کی دلدل میں سرتاپاغرق ہوجائے ،کیونکہ یہ اب بھی بانڈز جاری کرتاہے اورمناسب وقت پہ ان کی ادائیگی کی ضمانتیں بھی دیتاہے ، اگرچہ اپنے مالی حالات کی وجہ سے ان کی ادائیگی کے قابل نہ رہے ،کیونکہ جب اسے کوئی مفاد نظر آئے تو وہ دیگر ریاستوں کے برعکس لامحدودپیمانے پراپنے خزانے میں پڑے ہارڈ کرنسی سےمزید ڈالرچھپواسکتاہے،بالخصوص جبکہ اس کی کرنسی بڑی حد تک دیگرریاستوں کے ریزرواثاثوں کوکنٹرول کرتی ہے ۔امریکہ آئی ایم ایف سےخفیہ اجازت لے کر مزید ڈالرچھپواسکتاہے ،بلکہ بغیراجازت کے کھل کربھی ایساکرسکتا ہے ،کیونکہ آئی ایم ایف میں اصل اثرونفوذ اس کاہوتا ہے۔امریکہ جعلی اسباب کاپروپیگنڈاکرکے اصل حقائق لوگوں کی نظروں سےچھپالیتاہے ،اس میں آئی ایم ایف اس کوسہارادیتاہے ۔وہ ایساکرتاہے ،اگرچہ ڈالر پرنٹنگ کے باعث اس کی قیمت گرے یامہنگائی میں اضافہ ہو، بشرطیکہ اس میں کوئی مصلحت نظر آئے ۔ مثال کے طورپر ذرائع نے نقل کیاہے کہ امریکہ نےتیل پرسٹے بازیوں کے دوران 2ٹریلین ڈالر تا4ٹریلین ڈالر چھپوائے ،جس کی وجہ سے قمتیں بڑھ کر 2008میں 150 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی تھیں۔امریکہ اس سٹے بازی سے الگ نہیں رہا،چنانچہ اس نے تیل کی بالواسطہ یابلاواسطہ بڑی مقدار کی خریداری کیلئے پیپر پرنٹ کروائے،پھر اس تیل کواپنے گوداموں میں محفوظ کرلیا۔امریکہ کااس میں اپنامفاد پیش نظر تھا ،جومہنگائی بڑھنےاورڈالرسستاہونےکے مقابلے میں اعلیٰ تھا۔
اس لئے امریکی وفاقی حکومت کے قرضوں کی حد مجبوراً بلند کی جارہی ہے ،مثلاً حکومتی قرضے( مرکزی ادارہ اورعلاقائی ادارہ جات )1990میں 4.3ٹریلین ڈالر سے بڑھ کر2003میں 8.4ٹریلین ڈالر تک اور2007 میں 8.9ٹریلین ڈالر تک پہنچ گئے۔ 2009میں اوباماحکومت کے ابتدائی دنوں میں قرضہ 10.3ٹریلین تھا، 2011میں اس نے 14ٹریلین امریکی ڈالر کی حد پارکی،جبکہ آج کل یہ 16.7ٹریلین ڈالر کوعبورکررہاہے۔کوئی اور ریاست اگران قرضوں سے بہت کم مقدارمیں ڈوب جاتی تووہ کب کی گرچکی ہوتی اوراس کی معیشت کاکباڑاہوجاتا،مگرامریکہ کو قرضوں کی کوئی پروانہیں،کیونکہ یہ اس کااندرونی مسئلہ ہے ،چنانچہ کانگرس جب چاہے قرضوں کی حد بڑھادیتی ہے ،اس کی معیشت چل پڑتی ہے اوراگر اس کی معیشت مضبوط ہو توقرضوں کو اپنی اقتصادی قوت کے ذریعے پوراکردیتی ہے،ورنہ بلاروک ٹوک کےکرنسی نوٹ جاری کردیتاہے،اس لئے امریکی معیشت کوصرف اس وقت ہی زوال وانحطاط سے دوچارکیاجاسکتا ہے،جب کرہ ارض پرکوئی ایسی ریاست رونماہوجائے، جوامریکی ڈالر کوکسی تول میں نہ لائے ،بلکہ اس کے ساتھ یاتوسامان کے بدلے سامان کامعاملہ رکھے، یاگولڈ اینڈ سلور سٹینڈرڈکرنسی( سونے چاندی کےزرمبادلہ) کوپھرسے رواج دے۔
6ـ یوں سرمایہ دارنہ جمہوری بلاک کاسرغنہ جمہوری سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی کاثبوت دے رہاہے ،اوریہ کہ یہ نظام برسراقتدارسرمایہ دارطبقے کی من مانی کے سواکچھ نہیں،جو لوگوں ،بالخصوص متوسط طبقہ اوراس سے کہیں زیادہ عوام کی قسمتوں کافیصلہ کرتاہے۔اوبامانے اپناایشو"اوباماکئیرپروجیکٹ" کوبنایا ہے۔اوبامااس کیلئے یہ دلیل دیتاہے کہ وہ لاکھوں لوگوں کوہیلتھ کئیرکے حوالے سے تعاون فراہم کرے گا،مگردوسری جانب اس نے لاکھوں ملازمین کوبغیرادائیگی کے رخصت دیکرمعطل کردیا۔۔! اس کامطلب ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی اس قانون کے ذریعے لوگوں کی خدمت نہیں کرناچاہتی بلکہ اسے مستقبل میں اپنے انتخابی مقاصد عزیزہیں،ورنہ لوگوں کی خدمت کرنے کےنتیجےمیں ان کوبغیرکسی کوتاہی کے نوکریوں سے فارغ کردیاجائے ،یہ کس قسم کی منطق ہے؟ری پبلکنی پارٹی کی نظرمیں ہیلتھ کئیرکاہونایانہ ہوناکوئی ایشونہیں ،بلکہ اس کے پیش نظر یہ ہے کہ اس پیکج کی نسبت صرف اس کے حریف کی طرف نہ کی جائے بلکہ اس میں ان کی بھی شرکت اور کردارکو یقینی بنایاجائے ، دونوں پارٹیوں کوصحت عامہ کی کوئی فکرنہیں ، اس کی دلیل یہ ہے کہ ری پبلکنم پارٹی اس بات پرمذاکرات کے بعد ہم آہنگ ہوجائے گی ،کہ اس کی نسبت دونوں پارٹیوں کی طرف کی جائے۔ پس اس پروجیکٹ کا مواد ( content)ایشونہیں ،بلکہ اس کے انتخابی فوائدونتائج پیش نظرہیں،خواہ اس کے نتیجے میں لوگ سختی اورزبوں حالی کاشکار کیوں نہ ہوجائیں،اور کتناہی ان کیلئے باعث آزارہو۔ نیز اس پروجیکٹ میں یہ لازمی شرط بھی رکھی گئی ہے کہ بڑی کمپنیاں اپنے ملازمین کی ہیلتھ انشورنس کرائیں،توپروجیکٹ ہولڈراوبامانے گزشتہ مئی میں اس شرط کوایک سال تک ملتوی کرنےکابذات ِخوداعلان کیاتھا،تاکہ ان کمپنیوں اوران کی سپورٹر ری پبلنیں پارٹی کی خوشنودی حاصل کی جائے۔اوباماکاخیال تھاکہ ری پبلکنِ پارٹی اس پیکج میں اس کے ساتھ اتفاق کرلے گی۔ اس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ کسی ایک پارٹی کوبھی لوگوں کے امور کی صحیح طریقے سے دیکھ بھال کی اتنی فکرنہیں جتنی ان کواپنی انتخابی مقبولیت کی فکر ہے۔اس سے یہ بھی واضح ہوتاہے کہ ان کی سرمایہ داریت یہ ہے کہ سرمایہ داراپنے سرمائے کی بڑھوتی کیلئے عوام کااستحصال کرے ،جبکہ ان کی جمہوریت عوام کی خدمت کیلئے نہیں، بلکہ اس لئے ہے کہ عوام جمہوریت کے"بڑے "مالکان کی خدمت گزاری کریں،اگرچہ بلامعاوضہ بھی ہو۔
7ـ آخرمیں ہم اس پراللہ کاشکراداکرتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں ،اللہ تعالیٰ نے اس نظام کی طرف ہماری رہنمائی کی ہے جوحکیم اورخبیر ذات کی طرف سے ہے۔اس نظام میں اگرعام لوگ بھوکے ہوں توخلیفہ بھی بھوکارہتاہے ،لوگ سیرہوں تووہ بھی سیرہوتاہے ،وہ تب ہی امن محسوس کرتاہے جب لوگ امن سے ہوں۔ اللہ کی طرف سے دیاہوایہ وہ نظام ہے جوتمام رعایا کیلئےگھر،لباس اورکھانے پینے جیسے بنیادی ضروریات کاضامن ہوتاہے ،جوآدمی کام کاج کے قابل ہو ،اسے روزگارفراہم کرتاہے اورجوکام کرنے سے قاصرہو،اس کاکوئی رشتہ داربھی نہ ہوجواس کاخرچہ برداشت کرے ،توخلیفہ ہی اس کے مروجہ خرچے کابندوبست کرتاہے اوربا نفس نفیس اس کی سرپرستی کرتاہے۔یہ وہ نظام ہے جس میں عوام کی ملکیت کوان کے امن اورمعیشت کے تحفظ کیلئے عوام میں تقسیم کیاجاتاہے، چنانچہ ان کی طرف سےدیےگئے اموال ان کی پیدائش سےہی ان پر نچھاور کئے جاتے ہیں۔یہ وہ نظام ہے جوایک پرامن ،عدل پر مبنی معاشی زندگی دیتاہے،جس کی وجہ سے انسانوں کے حالات سدھرتے ہیں ،کیونکہ خالق لوگوں کی فلاح وبہبوداور ان کے خیر وشر کوسب سے زیادہ جانتاہے﴿أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ﴾"بھلاوہ بھی بے علم ہوسکتاہے جو خالق ہو ، اور پھر باریک بین اورپوراباخبرہو " ۔
ہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے خلافت راشدہ کی واپسی کیلئےمدد اورتوفیق کی دعاکرتے ہیں،جو نہ صرف دارالاسلام میں بھلائی عام کردے گی ،بلکہ ہرذی عقل اورامن پسندکواس کافائدہ پہنچے گا،والحمدللہ رب العالمین۔

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک