بسم الله الرحمن الرحيم
قابلِ قدر فقیہ، امیرحزب التحریرعطا ءبن خلیل ابو الرَشتہ کا
ریاستِ خلافت کے خاتمے کے 99 سال پورے ہونے کے موقع پر خطاب
سب تعریفیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے ہی ہیں ، اور رحمتیں نازل ہوں رسول اللہﷺ پر ، آپ کی آل او ر اصحابؓ پر اور ان لوگوں پر جنہوں نے آپﷺ کی پیروی کی۔۔۔امابعد! یہ پیغام امتِ اسلامیہ کی طرف ہے جو ایک بہترین امت ہے، جسے انسانیت کی فلاح کے لیے کھڑا کیا گیا۔۔۔اورخصوصاً حزب التحریر کے شباب کی طرف جنہیں اللہ نے اس فضل سے نوازا کہ وہ اخلاص کے ساتھ اللہ کی دعوت کو پیش کررہے ہیں ۔۔۔ اور ویب سائٹ کو پڑھنے والے محترم افرادکی طرف جومحبت کے ساتھ اس ویب سائٹ سے بھلائی اور روشنی حاصل کرتے ہیں :
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج کے دن 99 سال قبل ، اُس دور کے مجرم مصطفیٰ کمال نے خلافت کا خاتمہ کردیا تھا اگرچہ یہ بات روزِ روشن کی طرح لوگوں کے سامنے موجودتھی اور دلیل سے ثابت تھی،بلکہ ایک سے زائد دلائل کی بنیاد پرثابت تھی کہ اسلام کی حکمرانی کا خاتمہ کفر بواح یعنی کھلم کھلا کفر ہے ، اوراس کا ارتکاب کرنے والے اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کا تلوار کے ذریعے مقابلہ کیا جائے کیونکہ رسول اللہﷺ نے بیان کیا ، جسے بخاری اور مسلم نے جنادۃ بن ابی امیہ سے روایت کیا، جنہوں نے کہا: ہم عبادہ بن صامت ؓکے پاس پہنچے جبکہ وہ بیمار تھے۔ ہم نے کہا،'اللہ آپ کو صحت عطا فرمائے۔ کیا آپ ہمیں کوئی حدیث سنائیں گے جو آپ نے پیغمبرﷺ سے سنی تھی اور اللہ اس پر آپ کو نفع بخشے'۔ تو عبادہ بن صامتؓ نے کہا،'پیغمبر ﷺ نے ہمیں بلایا اور ہم نے انہیں اسلام کی بنیاد پر بیعت دی اور انہوں نے کچھ شرائط کے ساتھ ہم سے بیعت لی،«أَنْ بَايَعَنَا عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي مَنْشَطِنَا وَمَكْرَهِنَا وَعُسْرِنَا وَيُسْرِنَا وَأَثَرَةً عَلَيْنَا وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ إِلَّا أَنْ تَرَوْا كُفْراً بَوَاحاً عِنْدَكُمْ مِنْ اللَّهِ فِيهِ بُرْهَانٌ»" کہ ہم چستی اور گرانی دونوں حالتوں میں ، تنگی اور کشادگی کے عالم میں اور اپنے اوپر ترجیح دیے جانے پر بھی، اطاعت و فرمانبرداری کریں اور یہ بھی کہ ہم حکمرانوں کے ساتھ حکومت کے بارے میں اس وقت تک جھگڑا نہ کریں جب تک ان سے اعلانیہ کفر(کفر بواح) کاظہورنہ دیکھ لیں کہ جس پر ہمارے پاس اللہ کی طرف سے قطعی دلیل موجود ہو" ۔
فرض یہ تھا کہ اس غدارسے لڑا جاتا اور اس (خلافت) کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دی جاتی۔ لیکن اس جابر کو امت کی جانب سے وہ جواب نہیں ملا جس کا وہ حق دار تھا، یعنی کہ اس کی جڑکاٹ دی جاتی! لہٰذا امت کی تاریخ تاریک ہو گئی، وہ امت جو بہترین امت تھی اور انسانیت کے لیے اٹھائی گئی تھی جس کی ایک ریاستِ خلافت تھی، جس سے دشمن خوف کھاتے تھے، اور جو سچائی اور انصاف کی علم بردار تھی، وہ اب پچاس سے زائد کٹے پھٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئی ، جو آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں، اور ان پر وہ طاقتیں غالب آچکی ہیں جن کے دلوں میں ان کے لیے کوئی رحم نہیں ہے اور ان کے امور کی نگہبانی کرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ان پر الرُّوَيْبِضَةُ (گھٹیا) حکمران مسلط ہیں، جوکفار کے اطاعت گزار اور استعمار کے غلام ہیں، اورامت کی دولت اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے دین کے دشمنوں کی معیشت چلانے کے لیے استعمال ہورہی ہے ۔ مسلم علاقوں اور اس میں بسنے والوں کی معیشت کوتباہ وبرباد کیا جا رہا ہے اور لُوٹا جا رہا ہے،مسلمان خود اپنی ہی معیشت سے فائدہ نہیں اٹھاسکتے بلکہ ان کی حالت صحرا میں پیاس سے مرتے ہوئے ایسے مویشیوں کی سی ہے کہ پانی جن کی کمر پر لدا ہوا ہو۔ یہ سب کچھالرُّوَيْبِضَةُ (گھٹیا) حکمرانوں کی آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے۔ غربت لوگوں میں عام ہے سوائے ان کے جو حکمران اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں یا ان کے حواری ہیں، جنہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ، رسول اللہﷺ اور ایمان والوں سے غداری کرنے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات کے نفاذ میں رکاوٹ ڈالنے اور استعماری آقاؤں کی خدمت کے عوض جو انعام ملتا ہے وہ ذلت ورسوائی کے غلاف میں لپٹا ہوتا ہے۔
اے مسلمانو! خلافت مسلمانوں کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، اس کے ذریعے اللہ کی حدود نافذ ہوتی ہیں،حرمات کا تحفظ ہوتا ہے، علاقے فتح ہوتے ہیں، اور اسلام اور مسلمان عزت حاصل کرتے ہیں، اور یہ سب کچھ اللہ العزیز الحکیم کی کتاب، رسول اللہﷺ کی سنت اور اجماعِ صحابہؓ سے ثابت ہے۔ خلافت کتنا اہم اور عظیم فرض ہے اس سےآگاہی کے لیے مسلمانوں کا ان تین دلائل کو پڑھنا کا فی ہے:
اول: رسول اللہﷺ کے الفاظ جو طبرانی نے معجم الکبیر میں عاصم سے، انہوں نے ابو صالح اور انہوں نے معاویہ سے روایت کیے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: «مَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ مَاتَ مَيْتَةً جَاهِلِيَّةً»" اور جوکوئی بھی اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں (خلیفہ کی) بیعت موجود نہ تھی، تو وہ جاہلیت کی موت مرا"۔
یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ ان استطاعت رکھنے والے مسلمانوں کا گناہ کتنا بڑا ہے جو خلیفہ کے تقرر کےلیے کام نہیں کرتے، جس کودی جانے والی بیعت کےنتیجے میں خلیفہ کی بیعت کا طوق ان کی گردن میں موجود ہوجاتا۔ تو یہ خلیفہ کے موجودہونے کے حکم کی دلیل ہے، جو اپنی موجودگی کی وجہ سے اس بات کا حق رکھتا ہے کہ ہرمسلمان کی گردن پر اس کی بیعت کا طوق ہو۔
دوئم: صحابہ کرامؓ کا رسول اللہﷺ کی تدفین کو چھوڑ کر خلافت کے قیام اور خلیفہ کو بیعت دینے میں مشغول ہوجانا جبکہ شریعت نے حکم دیاہے کہ میت کی تدفین میں جلدی کی جائے۔ بیھقی نے معارفت السنن والآثار میں بیان کیا ہے کہ امام شافعی نے ابو سعید سے روایت کیا، "اگر موت کی تصدیق ہو جائے توترجیح اس بات کو ہے کہ میت کو دفن کرنے میں جلدی کی جائے"۔ یہ حکم کسی بھی میت کے لیے ہے، تو اگر جسدِ اطہر رسول اللہﷺ کا ہو توپھر اس کام کو کتنی اہمیت دی جانے چاہئے ؟ لیکن اس کے باوجود صحابہؓ نے رسول اللہﷺ کی تدفین کی بجائے خلیفہ کو بیعت دینے کے امور میں مشغول ہوجانے کو ترجیح دی۔ اس سے خلیفہ کے تقرر کی فرضیت پر صحابہؓ کا اجماع ثابت ہوتا ہے کیونکہ انہوں نےرسول اللہﷺ کے وصال کے بعد ان کی تدفین میں تاخیر کی کیونکہ انہوں نےخلیفہ کو مقرر کرنے کے عمل کوترجیح دی۔
تیسرا: عمرؓ نے اپنی شہادت کے دن چھ عشرہ مبشرہ صحابہؓ میں سے کسی ایک کو خلیفہ چننے کے لیے تین دن کی مدت کا تعین کیا ۔۔۔پھر عمرؓ نے فرمایا کہ اگر تین دنوں میں کسی ایک شخص کی خلافت پر رضامندی حاصل نہیں ہو تی تو جو تین دن کے بعد بھی اختلاف پر قائم رہیں انہیں قتل کر دیا جائے۔ پھر آپؓ نے اپنے اس حکم پر عمل کرنے کی ذمہ داری مسلمانوں میں سے پچاس لوگوں کو سونپی ، یعنی اختلاف کرنے والے کو قتل کردیا جائے جبکہ یہ وہ صحابہؓ تھے جنہیں دنیا میں ہی جنت کی بشارت دی گئی تھی، یہ وہ صحابہ تھے جو اہل شوریٰ میں سے تھے اور جن کا شمار عظیم صحابہؓ میں ہوتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے یہ تمام احکام صحابہؓ کے سامنے دیے اور ایسی کوئی روایت نہیں ملتی جس سے یہ معلوم ہو کہ کسی ایک صحابی ؓ نے بھی حضرت عمرؓ کے اس فیصلے سے اختلاف کیا ہواور اسے مسترد کیا ہو۔ لہٰذا یہ صحابہؓ کا اجماع ہے کہ مسلمانوں پر یہ حرام ہے کہ وہ تین دن سے زیادہ خلیفہ کے بغیر رہیں جس میں ان ایام کی راتیں بھی شامل ہیں۔ جبکہ کتنے ہی تین تین دن ہمارے سامنے گزر چکے ہیں، لاحول ولا قوۃالا باللہ! پس اے مسلمانو، خلافت مسلمانوں کے لیے ایک انتہائی اہم اور زندگی و موت کامسئلہ ہے۔
اے مسلمانو! اس بات کے باوجود ہم اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہیں ،إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ"کہ اللہ کی رحمت سے بےایمان لوگ ناامید ہوا کرتے ہیں"(یوسف 12:87)۔خصوصاً جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اُن ایمان والوں سے وعدہ کر رکھا ہےکہ جو نیک اعمال کریں گے ،کہ اللہ انہیں زمین پر حکمرانی عطا فرمائے گا،﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ﴾"جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ انہیں زمین کا حاکم بنادے گا جیسا ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنایا تھا"(النور 24:55)۔
اسی طرح رسول اللہﷺ نے ظلم و جبر کی حکمرانی کے بعد نبوت کےنقشِ قدم پر خلافت کی واپسی کی خوشخبری دی ہے، «ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ»"اور پھر نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت ہو گی"(احمد نے حذیفہ بن یمانؓ سے روایت کی)۔
ہم تصدیق کرتے ہیں اور دہراتے ہیں جو ہم نے پہلے کہا ، کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ، القوی العزیز ہماری مدد اور حمایت کریں گے اگر ہم اللہ کے دین کی مدد کریں گے اور مخلص اور سچے سرگرمِ عمل لوگوں میں سے بنیں گے۔ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی سنت ہے جو اس بات کو لازم کرتی ہے کہ اگر ہم آرام دہ مسندوں پر ہی بیٹھے رہے توفرشتے ہمارے حصے کا کام کرنے کے لیے نہیں اتریں گے، اور ہمارے لیے خلافت قائم نہیں کریں گے۔ بلکہ اگر ہم خلافت کے قیام کے لیے جدوجہد کریں گے تو اللہ اپنے فرشتے بھیجے گا کہ وہ ہمارے کام میں ہماری مدد کریں، اورہر کامیابی میں یہی اللہ کا وعدہ ہے، خواہ یہ مخلص اور سچے اعمال کے ذریعے خلافت کو قائم کرنا ہو یا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہو۔
ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے حزب التحریر کے قیام کے ذریعے اس امت کی عزت افزائی کی جس نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اذن سے خود کو سنجیدہ اور مخلصانہ کام کے لیے وقف کردیا ہے تا کہ خلافتِ راشدہ کے قیام کے ذریعے اسلامی طرزِ زندگی کو بحال کیا جائے۔ حزب التحریر وہ رہنما ہے جواپنے لوگوں سے جھوٹ نہیں بولتی۔ یہ وہ جماعت ہے جو اپنے لوگوں میں خیر کو نکھار دیتی ہے اور جو اس خیر کی روشنی کو برداشت نہیں کرپاتے وہ حزب سے جدا ہوجاتے ہیں۔ ہم اس مسئلے کو یوں سمجھتے ہیں اور ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ شباب اللہ کے حکم سے پوری سنجیدگی اور سخت محنت سے اس کے لیے کام کررہے ہیں، حزب کے شباب مخلص کارکن ہیں جو دنیا کی زندگی پر آخرت کی زندگی کو فوقیت دیتے ہیں۔ وہ دن رات کام کررہے ہیں، اور یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ اللہ کی رحمت حاصل کرلیں گے جس کا اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے اور رسول اللہﷺ نے جس کی بشارت دی ہے ، اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لیے ایسا کرنا انتہائی آسان ہے۔
اور آخرمیں یہ کہ اے مسلمانو! خلافت کے قیام کی کوشش صرف حزب التحریر کے شباب پر فرض نہیں بلکہ استطاعت کے حامل تمام مسلمانوں پر اس کے قیام کے لیے کام کرنا فرض ہے۔ لہٰذا اے مسلمانو، ہماری مدد کرو، ہمارا ساتھ دو، اے مسلم افواج ہماری مددو نصرت کرو،انصار کی سیرت کو زندہ کروجب انہوں نے اللہ کے دین کی مدد اور حمایت کی تھی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انہیں مہاجرین کے برابر رتبہ دیا ، ان کی تعریف کی اور اپنی عظیم کتاب میں ان سے بلا مشروط رضامندی کا اعلان کیا، یہ رضامندی ان کے لیے بھی ہے جو احسن انداز میں ان کی پیروی کریں، گویا یہ رضامندی مشروط ہے، ارشاد فرمایا: ﴿وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَداً ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ﴾"جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے) پہلے (ایمان لائے) یعنی مہاجرین وانصار ۔ اور جنہوں نے احسن انداز میں ان کی پیروی کی اللہ ان سے خوش ہے اور وہ اللہ سے خوش ہیں اور اس نے ان کے لیے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اوروہ ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ یہ بڑی کامیابی ہے" (التوبۃ 9:100)۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ اللہ کے دین کی مددو نصرت اور خلافت کا قیام اجرِعظیم اورفضلِ کریم کا باعث ہے ، اس حد تک کہ انصار کے سردار سعد بن معاذ کا جنازہ فرشتوں نے اٹھایا جیسا کہ مستدرک میں حاکم نے روایت کیا، یہ اللہ کے دین کی مددو نصرت کے نتیجے میں ملنے والے اجروفضل کی تصدیق کرتا ہے۔
اور آخری بات یہ کہ جو شخص خلافت کے قیام سے قبل اس کے قیام کے لیے جدوجہد کرتا ہے ، اس کااجر اس شخص کے اجر سے کہیں زیادہ ہے جو خلافت کے قیام کے بعد اس کی حمایت کرے گا، ﴿لَا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُولَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَكُلّاً وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ﴾" جس شخص نے تم میں سے فتح (مکہ) سے پہلے خرچ کیا اور لڑائی کی وہ( اور جس نے یہ کام بعد میں کئے وہ) برابر نہیں۔ ان کا درجہ ان لوگوں سے کہیں بڑھ کر ہے جنہوں نے بعد میں (اموال) خرچ کیے اور (کفار سے) جہاد وقتال کیا۔ البتہ اللہ نے (ثوابِ) نیک (کا) وعدہ تو سب سے کیا ہے۔ اور جو کام تم کرتے ہو اللہ ان سے واقف ہے"(الحدید57:10)۔
اور ہم پورے اخلاص سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ خلافت کے خاتمے کے 99 سال پورا ہونے پر یہ یاد دہانی اللہ عزو جل کی طرف سے کامیابی کا پیش خیمہ ثابت ہو، قبل یہ کہ خلافت کے خاتمے کو ایک صدی پوری ہو جائے ، اور خلافتِ راشدہ ایک بار پھر دنیا کو اپنی آب و تاب سے روشن کرے۔
﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾
"اور اُس روز مومن خوش ہوجائیں گے۔(یعنی) اللہ کی مدد سے۔ وہ جسے چاہتا ہے مدد دیتا ہے اور وہ غالب (اور) مہربان ہے"(الروم:5-4)۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
آپ کا بھائی، عطا ء بن خلیل ابو الرشتہ
امیر حزب التحریر
پیر،28 رجب 1441 ہجری
23مارچ 2020 ء
(اردو سب ٹائٹل کے ساتھ ویڈیو)
ویڈیو 1
ویڈیو 2
ویڈیو 3
ویڈیو 4
ویڈیو 5
ویڈیو 6
ویڈیو 7
#ReturnTheKhilafah #YenidenHilafet #TurudisheniKhilafah أقيموا_الخلافة#