بسم الله الرحمن الرحيم
یورپ کی خودمختاری کے امکانات اور اس میں حائل ہونے والی مشکلات
(ترجمہ)
تحریر – استاذ اسعد منصور
یورپی کمیشن کی صدر، اُرسلا فان ڈیر لیئن (Ursula von der Leyen) نے 10 ستمبر 2025ء کو فرانس کے شہر اسٹراسبرگ (Strasbourg) میں یورپی پارلیمنٹ کے سامنے اپنے اسٹیٹ آف یونین خطاب میں کہا: ”طاقت پر مبنی ایک نئے عالمی نظام کے لئے محاذ آرائی کی لکیریں اس وقت کھینچی جا رہی ہیں۔ لہٰذا، جی ہاں یورپ کو اپنے مقام کی خاطر لڑنا ہوگا، ایک ایسی دنیا میں جہاں بہت سی بڑی طاقتیں یورپ کی مخالفت میں تذبذب کا شکار ہیں یا پھر کھلے عام اس سے دشمنی رکھتی ہیں … یہ لمحہ یورپ کی آزادی کا لمحہ ہونا چاہئے … اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یورپ کا مشرقی حصہ پورے یورپ کو بحیرۂ بالٹک سے بحیرۂ اسود تک محفوظ رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں مشرقی محاذ کے ذریعے اس کی مدد کرنے کے لئے سرمایہ کاری کرنی ہوگی… یورپ اپنی سرزمین کے ہر انچ کا دفاع کرے گا“۔
یہ بیانات اس کے بعد آئے جب اُرسلا فان ڈیر لیئن نے 19 مارچ 2025ء کو ”یورپی دفاعی تیاری- 2030ء کے لئےوائٹ پیپر“ پیش کیا، جس میں یورپ کے دفاع کے ایک منصوبے کا خاکہ بیان کیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے: ”تدریجی عمل درآمد کی توقعات کی بنیاد پر، دفاعی سرمایہ کاری آئندہ چار سالوں میں کم از کم 800 ارب یورو تک پہنچ سکتی ہے، جس میں SAFE (Security Action for Europe) کے 150 ارب یورو بھی شامل ہیں، جو قومی اسکیپ شقوں (national escape clauses) کے تحت خودکار طور پر اس سرمایہ کاری کے لئے قابلِ عمل ہوں گے“۔ (صفحہ 16)۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ”روس میدان جنگ میں ایک بڑا اسٹریٹجک خطرہ ہے۔ اس نے یورپ اور ہمارے پارٹنرز کو یورپی براعظم میں بڑے پیمانے پر اس مشینی جنگ کی ایسی شدید نوعیت کی حقیقت کا سامنا کرنے پر مجبور کیا ہے، جو 1945ء کے بعد سے نہیں دیکھی گئی“ (صفحہ 4)۔ مزید یہ کہ رپورٹ مطالبہ کرتی ہے: ”کثیرصلاحیت اور وسیع پیمانے کے حامل اسلحہ خانے کی فراہمی، جس کا کم از کم ہدف دو ملین راؤنڈ سالانہ ہے۔ یوکرین کو 2025ء کے دوران گولہ بارود کی ترسیل کو مکمل طور پر فنڈ کرنے کی ایک فوری، قلیل مدتی ضرورت ہے، جس میں ذخائر سے محرک عطیات اور فراہمی بھی شامل ہے“۔ (صفحہ 10)
یہ بیانات اور مؤقف اُس وقت سامنے آئے جب امریکہ نے اعلان کیا کہ وہ یورپ کے ساتھ اپنے سکیورٹی معاہدوں کی ذمہ داریوں سے دستبردار ہو جائے گا۔ اس کے بعد یورپ نے اپنی فوجی صنعت کو فروغ دینے اور امریکہ سے اپنی خود مختاری کے حصول پر غور کرنا شروع کر دیا۔ اور اسی وجہ سے یورپ اپنی خودمختاری کو مضبوط کرنے کے لئے چین کے ساتھ تعلقات بڑھانے اور روس کے ساتھ مفاہمت کی کوشش کر رہا ہے، لیکن امریکہ اس کو روکنے کی کوشش میں ہے۔
اسی مقصد کے لئے اپریل 2023ء میں فرانسیسی صدر میکرون نے اُرسلا فان ڈیر لیئن کے ہمراہ چین کا دورہ کیا۔ اس وقت امریکہ کے لیڈروں نے میکرون پر تنقید کرنا شروع کر دی کہ ”وہ چین کے آگے جھک رہا ہے“ اور کہا کہ ”اس کا یہ دورہ امریکہ کی ان کوششوں کو نقصان پہنچا رہا ہے جو چین کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کے لئے کی جا رہی ہیں“۔ اس پر میکرون نے اپنے اور یورپی مؤقف کا دفاع کرتے ہوئے امریکہ کے آگے جھکنے کو مسترد کر دیا اور کہا: ”حلیف ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم (امریکہ کے) محکوم بن جائیں … اور نہ ہی اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ہمیں اپنی سوچ رکھنے کا حق نہ ہو“۔
تاہم، اس خود مختاری کو حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ یورپ اور امریکہ کے درمیان تجارتی تبادلے کا حجم سالانہ 1.2 کھرب ڈالر ہے، جو چین کے ساتھ یورپ کی تجارت کے حجم سے چار گنا زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ، یورپ میں امریکی سرمایہ کاری، خواہ مالیاتی ہو یا منصوبوں کی شکل میں، تقریباً 2.3 کھرب ڈالر تک پہنچتی ہے۔ لہٰذا، امریکہ کی یورپ پر معاشی بالادستی نے اسے اقتصادی، سیاسی اور میڈیا کے حلقوں میں بھی سرایت کرنے کا موقع دے رکھا ہے۔ اسی وجہ سے یورپ کے لئے امریکہ کے اس غلبے سے چھٹکارا پانا اتنا آسان نہیں ہے۔
اسی طرح، امریکہ نے یورپ اور اس کے ساحلوں پر تقریباً 1 لاکھ فوجی، 150 جنگی طیارے، 140 بحری جہاز، جوہری ہتھیار ذخیرہ کرنے کے لئے 3 اڈے، اور 100 ایٹمی میزائل تعینات کر رکھے ہیں۔ یورپ دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے ہی امریکہ کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور اپنے دفاع کے لئے امریکہ پر انحصار کرتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی کوششوں کے باوجود وہ کوئی مشترکہ دفاعی پالیسی اور آزاد فوج قائم نہیں کر سکا، اور اب تک نیٹو ہی مشترکہ دفاعی پالیسی ہے۔ تاہم اب یہ خطرے میں ہے، کیونکہ امریکہ یورپ کا دفاع کرنے کے لئےتیار نہیں ہے، اور اب اس کا نعرہ یہ ہے کہ ”سب سے پہلے، امریکہ“۔ اور یوکرین کی جنگ اس کی واضح مثال ہے۔
اگر نیٹو کے کسی رکن ملک پر حملہ ہوتا ہے اور امریکہ اس کا دفاع نہیں کرتا، تو اتحاد کے بکھرنے کا خدشہ ہے۔ 7 نومبر 2019ء کو میکرون نے اکانومسٹ کے ساتھ ایک انٹرویو میں بات کرتے ہوئے کہا تھا: ”جو کچھ ہم اس وقت دیکھ رہے ہیں، وہ نیٹو کی دماغی موت (brain death) ہے“، اور اس نے اس بات پر زور دیا کہ نیٹو پر اعتماد کچھ زیادہ نہیں رہا ہے۔
چنانچہ یورپ موجودہ حالات میں، جبکہ روس کے ساتھ جنگ جاری ہے، ان سب چیزوں سے اتنی جلدی خلاصی حاصل نہیں کر سکتا۔ اور اس کے لیے چار سال سے کہیں زیادہ وقت درکار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یورپی اتحاد میں 27 ممالک شامل ہیں جو نہ تو ایک جیسے ہیں اور نہ ہم آہنگ؛ بلکہ ان میں سے بعض ایک دوسرے سے الجھتے رہتے ہیں۔ ہر ملک سب سے پہلے اپنی مفاد پر نظر رکھتا ہے، پھر اپنی قومیت سے وابستہ رہتا ہے، اور اس ملک کے لئے یورپی یونین کا مقام تیسرے درجہ پر آتا ہے۔ ان سب کے اپنے داخلی، اقتصادی اور سیاسی مسائل بھی ہیں۔ اس لئے وہ دفاع پر زیادہ خرچ کرنے کو بھی تیار نہیں ہیں، حتیٰ کہ مالیاتی طور پر زائد سرمایہ رکھنے والے ممالک، جیسا کہ ناروے بھی ایسا کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ یوں خود غرضی ہر ملک پر غالب ہے، کیونکہ بہرحال وہ سرمایہ داریت پر مبنی ہی ہیں جو کہ فائدے کو اپنی سوچ کی بنیاد اور اپنے عمل کا پیمانہ بناتے ہیں۔
پس یہ سب عوامل اس بات میں رکاوٹ بنتے ہیں کہ یورپ کسی ایک فیصلے پر متحد ہو سکے اور پھر فی الوقت امریکہ سے اپنی خودمختاری حاصل کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ ہر ایک یورپی ملک کو الگ الگ طریقے سے یا تو لالچ دے کر، یا دھوکہ دے کر، یا دھمکا کر اپنے قابو میں رکھتا ہے۔ مزید یہ کہ یورپ کے ہر ملک میں قوم پرست انتہا پسند جماعتیں بھی موجود ہیں جو یورپی اتحاد کے خلاف ہیں اور اس سے علیحدگی چاہتی ہیں، اور امریکہ ان کو شہ دیتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اٹلی میں جب سے دائیں بازو کی جماعتوں کا اتحاد وزیراعظم میلونی کی قیادت میں برسرِ اقتدار آیا ہے، وہ یورپ کے امریکہ سے الگ ہونے کے موقف کے خلاف کھڑا ہے اور خاص طور پر فرانس سے ٹکرا رہا ہے۔ اسی طرح ہنگری اور چیک جمہوریہ بھی ہیں۔
جرمنی نے 2022ء میں اپنی مخصوص نئی سکیورٹی حکمتِ عملی تیار کی ہے اور فوجی صنعت کو ترقی دینے کے لئے 100 ارب یورو مختص کیے ہیں۔ درحقیقت حالیہ عرصے میں جرمنی نے اسلحہ سازی کی کمپنیوں کی حمایت شروع کر دی ہے اور انہیں معیاری قسم کا اسلحہ تیار کرنے پر بھی زور دیا ہے، اس کے ساتھ ہی وہ تمام سویلین فیکٹریوں سے رابطہ کر رہا ہے تاکہ انہیں فوجی مصنوعات کی تیاری کے لئے تیار کیا جا سکے۔ نیز وہ نوجوانوں پر لازمی فوجی بھرتی عائد کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اور جنگی بجٹ بڑھانے کے لئے انسانی امداد میں کٹوتی پر بھی کام کر رہا ہے۔ اور اگست 2024ء میں جرمنی نے روسی خطرہ کا مقابلہ کرنے کے لئے لیتھوینیا شہر میں پہلا مستقل فوجی اڈہ قائم کرنے کا اعلان کیا جس میں تقریباً 4,800 فوجی اور 2,000 فوجی گاڑیاں تعینات کی جائیں گی، اور اس سے بالٹک ریاستوں کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
چنانچہ موجودہ حالات یورپ کو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ خود اپنے آپ پر انحصار کرے، اپنی طاقت کو مضبوط بنائے، اور اپنی یکجہتی اور خودمختاری حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ تاہم، جیسا کہ ہم نے ذکر کیا، ان چیلنجز پر قابو پانا اتنا آسان نہیں ہے اور نہ ہی قلیل مدت میں ممکن ہے، بلکہ شاید یہ درمیانی مدت میں یعنی چار سال سے زیادہ وقت میں حاصل کیا جا سکے۔
ماضی میں بھی ایسا ہوا ہے کہ یورپی اقوام اُس بیرونی طاقت کے خلاف متحد ہوئیں جو انہیں خطرہ دیتی تھی، جیسا کہ خلافتِ عثمانیہ کے دور میں اسلامی فتوحات کے مقابلے میں ہوا۔ اسی طرح وہ سوویت یونین کے خلاف بھی متحد ہوئے، لیکن امریکہ نے ان پر کنٹرول حاصل کر لیا، ان پر اپنی قیادت مسلط کی اور انہیں اپنا محتاج بنا دیا۔ چنانچہ امریکہ سے مدد طلب کرنا ان کے لئے سیاسی خودکشی ثابت ہوا اور وہ اس کے شکار بن گئے، جن سے وہ آج تک چھٹکارا حاصل نہیں کر سکے۔ یکجہتی سے ہماری مراد یہ نہیں کہ وہ ایک ریاست بن گئے اور بہرحال ایسا ہونا مشکل ہے کیونکہ ان کا اتحاد کمزور اور ناپائیدار ہے۔
بلکہ اتحاد سے مراد یہ ہے کہ وہ بیرونی طاقت کے مقابلے میں یکجا ہوں جو سب کو خطرہ پہنچا رہی ہے، جیسا کہ اس وقت روس ہے۔ اور اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ یونین کے اندر موجود دو بڑی فوجی و معاشی طاقتوں، جرمنی اور فرانس، پر انحصار کیا جائے، اور یونین کے باہر برطانیہ کی حمایت حاصل کی جائے، جو روس اور امریکہ دونوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مجبوراً اس تعاون پر آمادہ ہوگا۔ لیکن یہ سب کرنا خطرات سے خالی نہیں، کیونکہ یہ تینوں یورپی طاقتیں، برطانیہ، فرانس اور جرمنی ایک دوسرے کی مطیع نہیں ہیں بلکہ ہر ایک یہ کوشش کرتی ہے کہ حالات سے فائدہ اٹھا کر منظرنامے پر حاوی ہو جائے۔ یوں اس طرح ان کا اتحاد اپنے اندر ہی باہمی مقابلے اور مستقبل کے تصادم کے بیج سموئے ہوئے ہے، خصوصاً اس وقت کے بعد جب بیرونی قوت کو شکست دے دی جائے گی یا اس کا خطرہ ختم ہو جائے گا۔
خلافت کے قیام کے لئے سرگرم باشعور سیاسی کارکنوں پر لازم ہے کہ وہ بین الاقوامی حالات کا بغور مشاہدہ کریں اور مغربی حلیفوں کے مؤقف میں تضادات کو نوٹ کرتے رہیں، اور ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں، تاکہ وہ اپنی امت سے ان کے شر کو دور کر سکیں اور خیر اور رہنمائی والی اپنی ریاست قائم کریں اور پھر اسلام کو یورپین اور دوسروں تک پہنچا سکیں۔
Latest from
- سیاسی فہم اور پالیسی سازی کے لئے درکار مطلوبہ شرائط (حصہ-4) اقوام کی تاریخ، ان کی صفات، باہمی اتحاد، اور تنازعات
- امت کو اپنے مقدسات کی حفاظت کے لیے خلافت کی ضرورت ہے نہ کہ دفاعی معاہدوں کی جن کا مقصد ایجنٹ حکمرانوں کی حفاظت ہو۔
- استنبول اعلامیہ اور سابقہ فتووں میں بہت بڑا فرق!
- پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی اسٹریٹجک معاہدہ
- ٹرمپ، جو غزہ اور پورے فلسطین میں یہودی وجود کے ننگے جرائم کا بنیادی حامی ہے، مسلم ممالک کے حکمرانوں کے ایک گروہ کے سامنے غزہ کے کھنڈرات سے متعلق حل صرف پیش نہیں کر رہا بلکہ اسے تھوپ رہا ہے!!