الإثنين، 03 صَفر 1447| 2025/07/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

امریکہ کا ڈوبتی ہوا ستارہ اور خلافت کے تصور کا آغاز

(عربی سے ترجمہ)

 

تحریر: حاتم جعفر (ابو أواب) ایڈووکیٹ*

 

امریکہ کے 47ویں صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، جب اقتدار کی کرسی تک پہنچے تو انہیں امریکہ کو درپیش اندرونی اور بیرونی بحرانوں کی  گوناگوں وراثت ملی۔ اس میں سب سے نمایاں بحران، امریکہ کی بین الاقوامی ساکھ اور وقار کا متزلزل ہونا تھا۔ تاہم ٹرمپ، جو ایک ہٹ دھرم، خوداعتماد، جدوجہد کا ماہر اور ناامیدی سے ناآشنا شخص ہے، نے اپنے مخالفین کو خوفزدہ کر دیا، پارٹی کی قیادت پر خود کو مسلط کر دیا، اور اب ایک بار پھر بھرپور قوت کے ساتھ وائٹ ہاؤس لوٹ آیا ہے۔

 

اُس نے ڈیموکریٹک امیدوار، کمالا ہیرس کو فیصلہ کن شکست دے کر دوبارہ اقتدار حاصل کیا۔ اسے نہ صرف بڑی سرمایہ دار کمپنیوں کی بھرپور پشت پناہی حاصل ہے بلکہ اس کی حمایت میں دو دھڑوں پر مشتمل سرمایہ دارانہ نظام کی نمائندہ قوتیں بھی شامل تھیں۔ ایک طرف کلاسیکی سرمایہ دارانہ قوتیں—جیسے تیل، اسلحہ، اور ریل کی کمپنیاں—جو روایتی طور پر ریپبلکن پارٹی کی پشت پناہ رہی ہیں، اور دوسری طرف جدید ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیاں—جیسے سیلیکون ویلی کی نمائندہ ادارے: میٹا، ایپل، ایمازون وغیرہ—جو ابتدا میں کمالا ہیرس کی حمایت میں کھڑی تھیں، لیکن پھر جلد ہی ٹرمپ کی کامیابی کے قافلے میں شامل ہو گئیں۔ ان میں سے اکثر کمپنیوں نے ٹرمپ کی تقریبِ حلف برداری کے لیے ایک ایک ملین ڈالر کی خطیر رقم بھی دی۔

 

اس بار ٹرمپ ایک نئی فکری و سیاسی جہت کے ساتھ اقتدار میں آیا ہے یعنی قدامت پسند دائیں بازو کی تحریک کے بل بوتے پر، جو امریکہ کی پیدائش کے ساتھ ہی وجود میں آئی، اور بیسویں صدی کی پچاس کی دہائی میں ایک بااثر سیاسی قوت کے طور پر ابھری۔ یہ تحریک "سفید فام پروٹسٹنٹ مرد" کی حکمرانی اور خاندانی اقدار کی بحالی کو اپنا نصب العین سمجھتی ہے۔ اس کے نمایاں ترین سیاسی نمائندوں میں سابق صدر رونالڈ ریگن کا نام سرفہرست ہے۔

 

اور چونکہ امریکہ کے حکمرانوں کی سب سے نمایاں خصوصیت "تیزی سے بدلتی ہوئی پالیسی" ہے—کیونکہ وہ بنیادی طور پر رائے عامہ اور تھنک ٹینکس (فکری اداروں) کی رپورٹس پر انحصار کرتے ہیں—اسی لیے ٹرمپ کی اس صدارتی مدت میں جو پالیسیاں اختیار کی گئی ہیں، ان کا سرچشمہ "ہیریٹیج فاؤنڈیشن" (Heritage Foundation) نامی ادارہ ہے۔

 

یہ ادارہ ایک تحقیقی اور تعلیمی مرکز ہے، جو 1973 میں قائم کیا گیا، اور اس کا سالانہ بجٹ تقریباً 80 ملین ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ ہیریٹیج فاؤنڈیشن کو قدامت پسند دائیں بازو کے سب سے مؤثر فکری مراکز میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کی بنیاد ان لبرل تھنک ٹینکس کے مقابلے میں رکھی گئی تھی، جو اس زمانے میں ابھر رہے تھے—جن میں "بروکنگز انسٹیٹیوشن" (Brookings Institution) جیسا ادارہ نمایاں ہے۔ ہیریٹیج فاؤنڈیشن کی پالیسی تجاویز اور تحقیقی مطالعات نے 1980 کی دہائی میں سابق صدر رونالڈ ریگن کو سرد جنگ جیتنے میں نمایاں مدد فراہم کی۔

 

ٹرمپ کی موجودہ پالیسیوں کا ماخذ ایک تحقیقی مطالعہ ہے جو سنہ 2023 میں قدامت پسند ادارے "ہیریٹیج فاؤنڈیشن" نے شائع کیا۔ اس منصوبے کو "2025 کا صدارتی انتقالِ اقتدار کا منصوبہ" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس منصوبے کی حکمتِ عملی ایک کتاب میں پیش کی گئی ہے، جس کا عنوان ہے:   "Mandate For Leadership: The Conservative Promise" یہ مطالعہ، جس پر 2 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی لاگت آئی، ٹرمپ کی پالیسیوں میں عملی طور پر ڈھل چکا ہے۔ اس منصوبے کا مرکزی ہدف ریاست کے گہرے ڈھانچے (Deep State) کو توڑنا، اقتدار کو عوام کے ہاتھ میں واپس دینا، امریکہ میں جاری سیاسی تقسیم کو دائیں بازو کے قدامت پسند دھڑے کے حق میں حتمی طور پر ڈھالنا، داخلی انتشار کو ختم کرنا، وفاقی قرضوں کے اس پہاڑ کا علاج کرنا ہے جو اب 36.2 ٹریلین ڈالر تک جا پہنچا ہے اور بین الاقوامی سطح پر امریکہ کی ساکھ کو پھر سے بلند کرنا۔

 

ٹرمپ کی خارجہ پالیسی پر جو وسیع تر خاکہ حاوی ہے، وہ تین نکات کے گرد گھومتا ہے: اخراجات میں کمی، دھونس اور دباؤ کے ذریعے مفادات حاصل کرنا، اور دوسروں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا۔ رہی بات مسلم دنیا کی، تو وہاں ٹرمپ کی پالیسی کا مرکزی محور اسلام اور بالخصوص خلافت کی واپسی کو روکنا ہے، جو کہ اسلام کے ریاستی نظام کو عملاً نافذ کرنے کا حقیقی طریقہ ہے۔ اسی لیے امریکہ نے مسلم سرزمین میں اپنے سب سے اہم اسٹریٹیجک اڈے—یعنی یہودی وجود —کے تحفظ کو اولین ترجیحِ بنایا ہوا ہے۔

 

جہاں تک ذرائع اور طریقۂ کار کا تعلق ہے، ٹرمپ کی پالیسی سخت طاقت (Hard Power) کے استعمال یا اس کے استعمال کی دھمکی پر مبنی ہے۔ وہ نرم طاقت (Soft Power)، جو درحقیقت کہیں زیادہ مہلک اور تباہ کن ثابت ہوتی ہے، کو یکسر نظرانداز کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دنیا بھر کے کیمروں کے سامنے غزہ میں نسل کشی کے جرائم کی مرتکب ہو رہا ہے اور وہاں کے باسیوں کو ان کے وطن سے بےدخل کرنے کے درپے ہے اور اس مقصد کے لیے وہ اپنے مہرے "یہودی وجود" کو استعمال کر رہا ہے۔ اسے نہ مسلمانوں کے جذبات کی کوئی پروا ہے، اور نہ ہی دنیا کے آزاد انسانوں کے احساسات کی۔ بلکہ وہ بین الاقوامی قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے، اپنے لڑاکا طیارے استعمال کر کے ایران کے جوہری تنصیبات کو نشانہ بناتا ہے، اور اُن ہی اداروں کو روندتا ہے جنہیں امریکہ نے خود دنیا پر اپنی قیادت مسلط کرنے کے لیے تخلیق کیا تھا۔

 

ٹرمپ تو یہاں تک جا پہنچا ہے کہ وہ خطے کی مزید ریاستوں کو "ابراہام معاہدوں" کے تحت "یہودی وجود" سے تعلقات معمول پر لانے پر مجبور کرنا چاہتا ہے—ایسے معاہدے جن کا مقصد یہودی وجود کو خطے میں ان نام نہاد مسلم ریاستوں پر ایک "بڑے بھائی" کی حیثیت دینا ہے، جن پر ایجنٹ حکمران مسلط ہیں۔ عرب ٹیلی وژن نے ٹرمپ کا یہ بیان نقل کیا: "بہت سی ریاستیں ابراہام معاہدوں میں شامل ہونا چاہتی ہیں، اور ایران ہی اصل رکاوٹ تھا۔"

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹرمپ، جو طاقت کے خمار میں سرشار ہے، اور جسے دنیا بھر کے حکمرانوں کی تابعداری کا زعم لاحق ہے، دو بنیادی حقائق سے مکمل طور پر ناآشنا ہے:

 

اوّل: وہ حقائق جو خود امریکہ اور اس کی داخلی پالیسی سے متعلق ہیں:

 

یہ کہ امریکہ زوال کے راستے پر کافی فاصلہ طے کر چکا ہے، اور ٹرمپ کی پالیسی درحقیقت ایک کمزور حکمتِ عملی ہے، جس کے ذریعے وہ اپنی ریاست کو دوبارہ عظیم بنانے کی کوشش کر رہا ہے—جیسا کہ اُس کے نعرے "میک امریکہ گریٹ اگین (MAGA)" سے ظاہر ہے۔

 

امریکی معاشرہ اندرونی طور پر شدید دراڑوں کا شکار ہے: ایک طرف سیاسی مفادات کی بنیاد پر، ریاستی اسٹیبلشمنٹ اور ڈیپ اسٹیٹ (گہری ریاست) کے درمیان ٹکراؤ جاری ہے؛ دوسری طرف نسلی بنیادوں پر، سفید فام اور غیر سفید فام اقوام کے مابین کشیدگی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ٹرمپ کی پالیسیاں ان تمام دراڑوں کو مزید گہرا کر رہی ہیں، اور وہ قدامت پسند دائیں بازو کے نظریے کے مطابق، سفید فام مرد کی حکمرانی بحال کرنا چاہتا ہے—ایسا رجحان جو نہ صرف معاشرتی ہم آہنگی کو کھوکھلا کرتا ہے، بلکہ ریاستی ڈھانچے کو بھی کمزور کر رہا ہے۔

 

امریکہ جو دوسری عالمی جنگ کے بعد خود کو آزادی، انسانی اقدار اور اعلیٰ اخلاقی اصولوں کا علمبردار کہتا رہا—یہ دعویٰ اس بنیاد پر تھا کہ وہ خود کئی یورپی سلطنتوں کی نوآبادیات سے جنم لینے والی ریاست ہے—اب اُس کا چہرہ پوری طرح بے نقاب ہو چکا ہے۔ آج اقوامِ عالم یہ بات جان چکی ہیں کہ امریکہ ہی درحقیقت دنیا کی اوّل نمبر استعماری ریاست ہے۔

 

یہ ایک ایسی شیطانی سلطنت بن چکی ہے جو شر کے علاؤہ کچھ نہیں ہے اور ہر قسم کی قدر سے خالی ہے۔ اس کی حیثیت منگولوں اور تاتاریوں جیسی جارح قوموں سے مختلف نہیں، جنہوں نے ماضی میں دنیا کو روند ڈالا تھا۔ اور اسی بنیاد پر امریکہ نے خود کو عالمی قیادت کے منصب سے گرا دیا ہے، سوائے اس کے کہ اس کے پاس اب بھی طاقت کا بے رحم ہتھیار باقی ہے۔

 

ثاني: وہ حقائق جو اسلام اور مسلمانوں سے متعلق ہیں:

 

یہ کہ اسلام وہ برحق دین ہے جو ایک دانا اور باخبر ربّ کی طرف سے نازل کیا گیا، تاکہ انسان کے دنیاوی معاملات کو سنوارے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک سچا مسلمان، درحقیقت اللہ سبحانہ وتعالى کا بندہ ہوتا ہے، وہی اس کا آقا و مالک ہے، اور وہی اس کا سہارا و مددگار۔ اللہ تعالیٰ ہی قوت و عزت کا مالک، جبروت و ملکوت کا شہنشاہ ہے، جس کے جلال و کبریائی کے سامنے تمام مخلوقات سراپا عجز و انکسار ہیں۔ اور اللہ ہی اپنے مومن بندوں کا مددگار ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی—جیسا کہ قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

 

﴿إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُواْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ﴾

"یقیناً ہم اپنے رسولوں اور اُن لوگوں کی مدد ضرور کریں گے جو ایمان لائے، دنیا کی زندگی میں بھی اور اُس دن بھی جب گواہ کھڑے کیے جائیں گے۔" (سورۃ غافر: آیت 51)

 

یہ وہ مسلمان ہے جو بندگی کے اعلیٰ ترین مرتبے پر فائز ہوتا ہے۔ یہ اللہِ واحد و قہار کا بندہ ہوتا ہے جو صرف اُسی پر توکل کرتا ہے، اور اُسی سے نصرت، قوت اور مدد کا طلبگار ہوتا ہے۔ ایسا مسلمان نہ امریکہ کی طاقت سے مرعوب ہوتا ہے، نہ اُس کی جھوٹی عظمت کو خاطر میں لاتا ہے اور تاریخ اس بات کی گواہی سے بھری ہوئی ہے۔

 

اور وہ ہولناک واقعات جنہوں نے گذشتہ چند دہائیوں کے دوران امتِ مسلمہ کو چُور چُور کر دیا، اُسے روند ڈالا، پیس کر رکھ دیا اور جو اب بھی جاری ہیں، تو انہی مصائب و آزمائشوں نے امت میں ایک نیا اندازِ فکر پیدا کیا ہے۔ ان سانحات نے اُس کی توجہ اُس کے درخشاں ماضی اور آج کے پُرملال حال کی طرف مبذول کی ہے اور امت نے بالآخر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے اس بلیغ قول کی حقیقت کو ازسرِ نو جان لیا:

 

نحن قوم أعزنا الله بهذا الدين فمهما ابتغينا العزة في غيره أذلنا الله

"ہم وہ قوم ہیں جسے اللہ نے اسلام کے ذریعے عزت بخشی؛ جب بھی ہم کسی اور ذریعے سے عزت تلاش کریں گے، اللہ ہمیں ذلیل کر دے گا".

 

امت کو اب یہ بات بخوبی سمجھ آ چکی ہے کہ یہ دین اُس وقت تک زندہ اور مؤثر نہیں ہو سکتا، اور امت کی زندگی کے مسائل اور بحران اُس وقت تک حل نہیں ہو سکتے—جب تک کہ یہ دین اپنی ریاست، یعنی نبوت کے نقشِ قدم پر قائم خلافت کے ذریعے نافذ نہ ہو جائے۔

 

نتیجتاً، خلافت کا تصور طلوع ہوا، اور آج بھی یہ مخلص لوگوں کی محنت کی بدولت مسلمانوں کی سرزمینوں میں مسلسل بلندی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہاں تک کہ یہ تصور، رائے عامہ کی صورت اختیار کر چکا ہے یہاں تک کہ کافر استعماری قوتیں—جن کی قیادت اب اپنے زوال کے دہانے پر کھڑی امریکہ کے ہاتھ میں ہے—اس حقیقت کو سمجھ چکی ہیں، اور خلافت کے تصور کے پہیوں میں رکاوٹیں ڈالنے پر مجبور ہو چکی ہیں، لیکن وہ کامیاب نہیں ہوں گی، کیونکہ خلافت مسلمانوں کے دلوں میں بستی ہے، اور مخلص اہلِ فکر و نظر کے اذہان میں واضح صورت میں موجود ہے—ایسے اہلِ عزیمت جو اس ریاست کے لیے ایک فکری و عملی خاکہ (blueprint) رکھتے ہیں، اور اسے نبوت کے نقشِ قدم پر ایک راشدۃ خلافت کے طور پر قائم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ حقیقت پکار پکار کر کہ رہی ہے کہ خلافت کی واپسی یقینی ہے۔

 

مظلوم مسلمانوں—خواہ وہ غزہ میں ہوں یا کسی اور خطے میں—کی مدد و نصرت کا فریضہ؛ مسلمانوں کی وہ تمام مشکلات جو اسلامی نظام کے بغیر زندگی گزارنے کے نتیجے میں پیدا ہوئیں؛ مسلمانوں کو، تمام انسانوں سے الگ، دوبارہ ایک واحد امت بنانے؛ ان خائن حکمرانوں کا خاتمہ کرنے جنہوں نے امت کو ذلت و رسوائی کے گڑھے میں دھکیل دیا ہے؛ ان مسلم ممالک کے وسائل و خزانوں کی لوٹ مار کا سدباب کرنے، جہاں اہلِ ایمان فاقوں سے مر رہے ہیں—خواہ وہ غزہ کی گلیاں ہوں یا دارفور کے صحرائی کنارے، جیسے تمام کام خلافت کے ناگزیر ہونے کو ثابت کرتے ہیں، اور خلافت کے تصور کے طلوع ہونے کی وضاحت کرتے ہیں—ایسی خلافت جو ایک زندہ، متحرک عقیدے سے جنم لیتی ہے، اور جس کی حامل وہ امت ہے جس کے بارے میں قرآن گواہی دیتا ہے کہ وہ بہترین امت ہے:

 

﴿كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللهِ﴾

"تم بہترین امت ہو، جو لوگوں کے لیے نکالی گئی ہے؛ تم بھلائی کا حکم دیتے ہو، برائی سے روکتے ہو، اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔"

(سورة آل عمران - آیت 110)

 

* ولایۂ سودان میں حزب التحریر کے رکن

 

Last modified onاتوار, 27 جولائی 2025 17:34

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک