بسم الله الرحمن الرحيم
تقریر - 2
جمہوریت اپنے مسکن مغرب میں بھی کیوں ناکام ہو رہی ہے؟
محمود کار
سربراہ میڈیا آفس حزب التحریر ولایہ ترکی
تمام ناظرین اور مہمانوں کو
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
محترم بھائیوں اور بہنوں!
انگریزوں اور ان کے مقامی ایجنٹوں کے ذریعہ خلافت عثمانیہ کو ختم ہوئے 100 سال ہوچکے ہیں۔ یہودی وجود کے ذریعہ مسجد الاقصی کے قبضے کو 75 سال گزر چکے ہیں۔ سرد جنگ کے خاتمے کو 30 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ہم اس کے بعد یہ کہہ سکتے ہیں کہ امریکی دور نے بھی یورپ کے صنعتی عہد کے خاتمے کا اعلان کیا ، کیونکہ ایک بوسیدہ جمہوریت کے سوا مغربی کفار کے پاس انسانیت کو پیش کرنے کے لئے کچھ نہیں بچا ہے۔
ان کا خیال تھا کہ وہ اپنی جمہوریت سے انسانیت کو کئی سالوں تک ہائبرنیشن میں یعنی سلائے رکھیں گے ، اور انہوں نے مسلم ممالک کی سرزمین پر جمہوری تہذیب کے قیام کا خواب دیکھا تھا۔ در حقیقت ، وہ یقین کے ساتھ یہ جانتے ہیں کہ ان کے خواب پورے نہیں ہوسکتے لیکن وہ اس کے سوا کچھ اور کر بھی نہیں سکتے۔ ان کے ہاتھوں میں جو کچھ رہ گیا ہے وہ ایک ہی چیز ہے: بوسیدہ جمہوریت۔ انہوں نے جمہوریت دینے کے وعدے کے ساتھ افغانستان ، عراق اور شام پر قبضہ کیا ، اور تیونس ، مصر اور لیبیا میں اپنی کٹھ پتلی حکومتیں قائم کیں، جمہوریت کے و عدے ان کی بقا کا معاملہ ہے۔ اور اس کے لیے انہوں نے الجزائر میں اسلامک سالویشن فرنٹ ، ترکی میں ویلفیئر پارٹی ، مصر میں اخوان المسلمین ، اور فلسطین میں حماس کو جمہوری انتخابات میں حصہ لینے کی ترغیب دی ، لیکن جب انھیں مصر میں یہ انتظام مناسب نہیں لگا تو انہوں انتخابات میں فتحیاب مرسی کے خلاف بغاوت کا آغاز کیا اور اس کے خلاف سیسی کے بغاوت کی حمایت کی۔
معزز ناظرین! اس طرح امریکہ اور مغرب کا اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ یہ رویہ رہا ہے۔ یہ ایک آفاقی رویہ ہے جو سو سال سے جاری ہے، اور جو کچھ کفار کے ہاتھوں میں رہ گیا ہے وہ ایک ثقافتی ہتھیار ہے: فرسودہ جمہوریت کا ہتھیار۔ لیکن یہ ایک تکلیف دہ بات ہے کہ ہمارے درمیان غدار کٹھ پتلی حکمران ہیں جنھیں مغرب مسلمانوں کے خلاف ہتھیاروں کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے عراق پر امریکہ کے قبضے کو خطے میں جمہوریت کو متعارف کرانے کی کوشش کے طور پر دیکھا اور ان لوگوں میں ترکی کے صدر اردگان بھی شامل تھے، جنہوں نے گریٹر مڈل ایسٹ پروجیکٹ گروپ کی سربراہی کرتے ہوئے کئی سال تک وفاداری سے کام کیا۔ لیکن ان کی بدقسمتی کہ عرب بہار کے طوفان نےکسی حد تک ان کی کاوشوں کو ناکام کردیا کسی حد تک ناکام کردیا۔
انہی حکمرانوں کی طرح ، یہاں ماڈرنسٹ اسکالرز اور علمی لوگ موجود ہیں جو کہتے ہیں کہ اسلام کا اپنا کوئی نظام نہیں ہے ، اور یہ کہ خلافت ایک خیالی تصور ہے،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت ایک خیالی تصور اورمبہم نظام ہے کیونکہ اس کا عملی اطلاق ممکن ہی نہیں ہے۔ اور ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ کوئی بھی عوام حکمرانی اور انتظامیہ کو خود استعمال نہیں کرسکتے، اور اس نظان میں اکثریت کی مرضی کی نمائندگی بھی نہیں ہوتی۔ زیادہ تر ممالک جو جمہوری کہلاتے ہیں ان کے معاملات یا تو کوئی ایک اقلیتی گروہ چلاتا ہے یا ایسی حکومت کے ذریعے ملکی معاملات چلائے جاتے ہیں جو کئی جماعتوں کے اتحاد پر مشتمل ہوتی ہے۔ لہذا ، یہ قول کہ "وہ ممالک جو جمہوریت کو نافذ کرتے ہیں ، ان کی پارلیمان اکثریت کی نمائندگی کرتی ہے" جھوٹ اور فریب ہے۔
اس حقیقت کی سب سے واضح مثال مغربی ممالک ہیں۔ امریکا میں جو کوئی بھی انتخابات کے ذریعے ریاست کا صدر یا سینٹ کا رکن بنتا ہے تو اس کا انتخاب اکثریت کی مرضی کا مظہر نہیں ہوتی بلکہ بڑی بڑی سرمایہ دار کمپنیوں کی مرضی کا مظہر ہوتی ہے۔ لہٰذا آج کے دن تک جتنے بھی امریکا کے صدور اور سنیٹرز منتخب ہوئے وہ تیل و گیس اور اسلح ساز کمپنیوں کے مالکان کے نمائندگان تھے جو ان کی انتخابی مہم چلانے کے لیے پیسہ فراہم کرتے ہیں بلکہ ان کے انتخابات میں رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کے لیے پراپیگنڈا مہم بھی وہ ہی چلاتے ہیں۔
امریکا مفادات کے حصول کے لیےجس جمہوریت پر ایک طویل عرصے سے اتنی سرمایہ کاری کررہا ہے وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ کمزور اور لڑکھڑا ر کر گر رہی ہے،ا ور اسی لیے سابق صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کو اب بھی جاری رکھنے کے لیے انسانی حقوق کی آڑ لی جارہی ہے ، اور اب بائیڈن ٹرمپ کے چھوڑے کچرے کو سمیٹنے کی کوشش کررہا ہے۔ لیکن دوسری جانب ایسا کرتے ہوئے بائیڈن ٹرمپ سے بدلہ بھی لینا چاہتا ہے، اور اس طرح امریکہ اپنے اندرونی مسائل اور خرابیوں کا شکار رہے گا۔
امریکہ اب اس مقام پر پہنچ گیا ہے کہ وہ دوسرے ممالک کو اپنے استعماری کنٹرول میں رکھنے لیے مزید اس سحر انگیز قول کو استعمال نہیں کرسکتا کہ،"ہم آپ کے لیے جمہوریت لائے ہیں"، کیونکہ دنیا بھر کے لوگ اب یہ کہہ رہے ہیں :
پہلے امریکا اپنے ملک میں تو جمہوریت تلاش کرلے، اور پہلے مغرب اپنے علاقوں میں اور لوگوں پر جمہوریت کو نافذ کر ے۔
وہ نہ تو جمہوریت کو تلاش کرسکیں گے اور نہ ہی اسے نافذ کرسکیں گے کیونکہ پچھلے ایک سو سال کے دوران جمہوریت وہ سب سے بڑا جھوٹ ہے جسے سرمایہ دار کمپنیوں اور استعماری ریاستوں نے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے بولا ہے۔
آپ نے مینیسوٹا میں پولیس کے ہاتھوں جارج فلائڈ کے قتل کے بعد 25 مارچ 2020 کو ہونے والے مظاہروں پر امریکہ کا ردعمل دیکھا ہے۔ ٹرمپ نے مظاہرین کے خلاف طاقت کے بھر پور استعمال کی دھمکی دی اگر انہوں نے وائٹ ہاوس کے دروازے پار کرنے کی کوشش کی، لیکن جب ٹرمپ کو انتخابات میں اپنی شکست نظر آگئی تو اس نے اپنے حامیوں کو کیپیٹل ہل پر حملہ کرنے سے روکا نہیں! کیا آپ اس کا تصور بھی کرسکتے تھے؟ امریکہ کے لوگ جو دنیا میں جمہوریت کو پھیلا رہے ہیں، ان انتخابات کو غیر قانونی سمجھتے ہیں ، اور وہ ریاستی اداروں کے عمارتوں میں حفاظتی بند توڑتے ہوئے داخل ہورہے ہیں اور اس طرح امریکی خواب کو زمین بوس کررہے ہیں۔
اور اگر جمہوریت حقیقی ہوتی تو امریکا سب سے پہلے اپنے لوگوں کی جانب ہاتھ بڑھاتا لیکن اُس نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس نے اُن کے سینوں پر بندوقیں تان لیں۔
جمہوریت کی حقیقت اس سوا کچھ نہیں کہ یہ ایک بدصورت، مکروہ، سڑتا ہوا اور ناکارہ نظام ہے۔ درحقیقت جمہوری آزادیاں انسانیت کو بحیثیت مجموعی تباہی کی جانب لے جارہی ہیں۔ اس نظام میں لوگ ہر چیز حاصل کرنا چاہتے ہیں، اور جب وہ ایسا نہیں کرپاتے تو وہ مایوس ہوتے ہیں اور کہتے ہیں: زندگی کی بنیاد دولت ہے، اور تمام جمہوریتوں میں دولت چند لوگوں کے ہاتھوں میں جمع ہوجاتی ہے، اور پھر یہ اقلیت اپنے مفادات کے لیے اکثریت کی رائے کو استعمال کرتی ہے اور حکومتوں کو بتاتی ہے کہ انہیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے۔
۔ دنیا کی آدھی آبادی، 3 ارب لوگوں سے زائد، کی روز کی آمدن 2 ڈالر سے بھی کم ہے۔
۔ 1.5ارب لوگوں کی روز کی آمدن ایک ڈالر سے بھی کم ہے۔
۔ اس طرح دنیاکی آبادی کا صرف 10 فیصد غیر منصفانہ طور پر دنیا کی کُل آمدنی کے 70 فیصد پر قابض ہے۔
۔ 1.1ارب لوگ شدید غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔
۔ ایک کروڑ سے زائد بچے بھوک کی وجہ سے موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔
مغربی ممالک، جو جمہوریت نافذ کرتے ہیں، میں کرپشن کن انتہاوں کو چھو رہی ہے اس کی تصویر آپ کے سامنے لانے کے لیے آپ کے سامنے مزید کچھ اعدادوشمار پیش کرتا ہوں:
۔ امریکا میں ہر 11 منٹ میں ایک شخص خودکشی کرتا ہے، اور جون کے آخر میں 40 فیصد بالغ امریکیوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ ذہنی مسائل کا شکار ہیں یا وہ منشیات استعمال کرتے ہیں۔
۔ امریکا میں ہر 23 منٹ میں ایک شخص قتل ہوجاتا ہے، ہر دو منٹ میں ایک عورت کی عصمت دری ہوتی ہے، اور ہر 49 سیکنڈ میں ایک شخص پر حملہ ہوتا ہے۔
معزز ناظرین:
کسی بھی نظام کا صحیح یا غلط ہونے کا معیار یہ ہوتا ہے کہ اس کی فکری بنیاد صحیح ہے یا غلط ہے، اور آج وہ تاریخی جمہوریت، جس کا تجربہ امریکا اور یورپ میں کیا گیا تھا اور جسے مسلمانوں کو پیش کیا جارہا ہے، اگر اس کا ایک سرسری جائزہ ہی لیا جائے کہ انسانیت نے اس کو کیسا پایا ہے تو ہمیں کرپشن اور غلاظت کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ اس کے برخلاف اگر اسلامی سیاسی نظام کے تجربے کا جائزہ لیں جو 13 سو سال تک نافذ العمل رہا ، تو ہمیں روشن خیالی اور ترقی نظر آتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے غداروں، مسلمانوں پر مسلط حکمرانوں کے افکار پراسرار ہیں، اور ان کے مفکرین نے اپنے چہروں کا رخ مغرب کی جانب کیا ہوا ہے، اور ان کی زندگی کا مقصد مسلم ممالک میں مغربی جمہوریت کی ترویج ہے جیسے ہمارے لیے کوئی خاص منصوبہ ہی نہیں ہے ، اور اسلام نے حکمرانی اور انتظامیہ کے لیے کوئی مخصوص منصوبہ دیا ہی نہیں ہے!
ان سب باتوں کے بعد ہم یہ بات اپنی پوری قوت کے ساتھ کہتے ہیں: ہاں! ہم خلافت کے داعی ہیں کیونکہ ہمارا اپنا ایک مخصوص منصوبہ ہے، کیونکہ اسلام ایک ڈاکٹرائن ہے جس کے عمومی و جامع قوانین اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ بغیر کسی استثناء کے زندگی کے تمام شعبوں کو اسلام کے ضابطے میں لایا جائے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً﴾
"(اور) آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین کے طور پر پسند کیا" (المائدہ:3)
اسی لیے ہم یہ بھی کہتے ہیں: ہمارا اپنا منصوبہ ہے، خلافت راشدہ کا منصوبہ۔ خلافت راشدہ وہ طرز حکمرانی ہے جس میں اسلام نافذ کیا جاسکتا ہے۔ خلافت راشدہ کا قیام ایک فرض ہے جو کہ مکمل طور پر واضح ہے۔
اور میں اپنی تقریر کا اختتام 6 سال قبل خلافت کانفرنس :"جمہوری صدارتی ماڈل یا خلافت راشدہ؟" میں امیر حزب التحریر عطاء بن خلیل ابو الرشتہ کے امت سے کیے گئے خطاب کے ایک اقتباس پر کرو ں گا، جس میں معزز امیر نے فرمایا تھا:
"حقیقی خلافت کوئی غیر معروف چیز نہیں ہے۔ یہ ایک منفرد نظام ہے جس کا عملی مظاہرہ رسول اللہﷺ نے کیا اور پھر آپﷺ کے خلفائے راشدین نے اس پر عمل کیا ۔ خلافت کوئی سلطنت نہیں ہوتی اور نا ہی بادشاہت ہوتی ہے۔ یہ صدارتی یا پارلیمانی جمہوریت بھی نہیں ہوتی اور نا ہی آمریت ہوتی ہے جو اللہ کے قوانین کو نافذ نہیں کرتے اور نا ہی خلافت کوئی انسانوں کا بنایا ہوا نظام ہے، بلکہ یہ انصاف کی خلافت ہے، اور اس کے حکمران خلفاء ، امام ہوتے ہیں، لوگ ان کے پیچھے رہ کر لڑتے ہیں اور ان کے ذریعے سے تحفظ حاصل کرتے ہیں۔۔۔یہ وہ خلافت ہے جو جان ، عزت اور مال کی حفاظت کرتی ہے، اور ذمیوں کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی مکمل پاسداری کرتی ہے، اور بغیر کسی جبر و کرہ کے لوگوں کی مرضی کے مطابق بیعت لیتی ہے، لوگ اس کی جانب ہجرت کرتے ہیں اور اس کو چھوڑ کر افراتفری کے عالم میں بھاگتے نہیں۔۔۔"
والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته
Latest from
- عالمی قانون کا انہدام ...اور ان دنیا والوں کی ناامیدی...
- بچوں کو اغوا کرنے اور ان پر تجربات کرنے کی”اسرائیلی“ قبضے کی ایک لمبی داستان موجود ہے
- امریکی قیادت اور نگرانی میں: ایران کی صفوی حکومت اور یہودی وجود...
- شنگھائی تعاون تنظیم امریکن ورلڈ آرڈر کا حصہ ہے
- استعماری طاقتوں کی تنظیمیں ہماری سلامتی اور خوشحالی کی ضامن نہیں ہو سکتیں