الإثنين، 17 رمضان 1446| 2025/03/17
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

المكتب الإعــلامي
یمن

ہجری تاریخ    10 من رمــضان المبارك 1446هـ شمارہ نمبر: 13 / 1446
عیسوی تاریخ     پیر, 10 مارچ 2025 م

 

پریس ریلیز
نیا سرمایہ کاری قانون بھی سابقہ قانون کی طرح سرمایہ دارانہ ہے

اور اس کی سب سے نمایاں خامی یہ ہے کہ یہ اسلام کے شرعی احکام کے خلاف ہے

 

(ترجمہ)

 

صنعاء (یمن) میں تبدیلی اور تعمیر پارٹی کی حکومت نے ایوان نمائندگان اور سپریم پولیٹیکل کونسل کی منظوری کے بعد سرمایہ کاری کا نیا قانون متعارف کرایا۔ یہ قانون وزارت معیشت، صنعت اور سرمایہ کاری اور وزارت خزانہ کی جانب سے 2010ء میں جاری کردہ سرمایہ کاری قانون کی ہی ایک ترمیم ہے۔ تو پھر سپریم پولیٹیکل کونسل کے تحت اس نئے قانون اور اس سابقہ قانون کے درمیان فرق کیا ہے، جب کہ دونوں ہی سرمایہ دارانہ معاشی نظام سے پھوٹتے ہیں؟!

 

اس قانون نے یمن میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے دروازے پوری طرح سے کھول دئیے ہیں جن میں غیر مسلم سرمایہ کار بھی شامل ہیں جو ملک کے لیے تباہ کن سرمایہ دارانہ ایجنڈے کو نافذ کریں گے۔ اس قانون کے آرٹیکل (2) میں سرمایہ کار کی تعریف یوں کی گئی ہے: "کوئی بھی مقامی یا قانونی شخص، چاہے وہ یمنی ہو یا غیر یمنی، چاہے وہ یمن کا رہائشی ہو یا غیر رہائشی، جو اس قانون اور سابقہ سرمایہ کاری قوانین کے مطابق، ملک میں کسی بھی شعبے یا سیکٹر میں سرمایہ کاری کرے"۔ یہ قانون سرمایہ کاروں، حتیٰ کہ غیر مسلم لوگوں کو بھی، مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کی اجازت دیتا ہے، جیسے کہ صحت کا شعبہ، تعلیم کا شعبہ جس میں اسکول، یونیورسٹی، فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم بھی شامل ہے، انفراسٹرکچر کا شعبہ جس میں سڑکوں، بندرگاہوں، ہوائی اڈوں، میٹرو سسٹم، ریلویز، ڈیموں اور بجلی گھروں کی تعمیر بھی شامل ہے، زرعی اور تجارتی مراکز، سیاحت اور ہوٹلوں کے قیام، خواہ یہ منصوبے خشکی پر ہوں یا جزیروں پر ... مزید برآں، یہ قانون انہیں ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی میں چھوٹ، بیرون ملک سے مزدوروں کی بھرتی، اپنی دولت کی آزادانہ منتقلی، اور انٹلیکچول پراپرٹی رائٹس (intellectual property rights) کے تحفظ جیسی سہولیات فراہم کرتا ہے!

 

یہ قانون شریعتِ اسلامی کے احکام کے خلاف ہے، کیونکہ اس کے ذریعے ریاست نے صحت، تعلیم، سڑکوں اور ہوائی اڈوں کی تعمیر، پانی اور بجلی کی فراہمی جیسی بنیادی ضروریات کو سرمایہ کاروں کے حوالے کر کے عوام کے لئےاپنی شرعی ذمہ داری سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے! اس قانون کے تحت ہر وزیر کو اپنی وزارت کے دائرہ کار میں سرمایہ داروں کے مفادات کے مطابق سہولیات فراہم کرنے کا حکم دیا گیا ہے، مثال کے طور پر وزارتِ بجلی کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ سرمایہ کاروں کے منصوبوں کو بجلی کی ترسیل اور فراہمی کے لئے تمام ضروری لاجسٹک سہولیات فراہم کرے اور صوبوں کے گورنرز کو اپنے اختیارات کے تحت سرمایہ کاری منصوبوں کی سہولت کاری کے احکامات پر عملدرآمد کروانے کا ذمہ دار بنایا گیا ہے۔یہ سب کچھ ثابت کرتا ہے کہ یہ ریاست عوام کی فلاح و بہبود کے بجائے صرف محصولات اور ٹیکس وصولی پر توجہ دے رہی ہے! مزید برآں، یہ قانون اسلامی شریعت سے اس پہلو میں بھی متصادم ہے کہ یہ جوائنٹ اسٹاک کمپنیوں کے قیام کی اجازت دیتا ہے، حالانکہ اسلامی قوانین کے مطابق ان کمپنیوں کے معاہدے باطل ہیں۔

 

ہم ، حزب التحریر کی جانب سے، اپنی متعدد اشاعتوں میں اس قانون کی کرپشن کو واضح کر چکے ہیں، جن میں "اسٹاک مارکیٹوں کا اتار چڑھاؤ  (The Turbulence of the Stock Markets)" نامی کتابچہ بھی شامل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ قانون مستقل کسٹمز اور ٹیکسوں کو قانونی حیثیت دیتا ہے، حالانکہ اسلامی شریعت کے مطابق مسلمانوں سے ان کا وصول کرنا حرام ہے۔

 

اس قانون کے اجراء پر جو نعرے لگائے گئے تھے، جیسے کہ خودکفالت کا حصول وغیرہ، وہ محض کھوکھلے دعوے ہیں۔ بھلا ایسی خودکفالت کیسے ممکن ہے جبکہ یہ حکومت سینکڑوں مقامی سرمایہ کاروں کو بے دخل کر چکی ہے اور وہ اب بھی بڑی استعماری بین الاقوامی تنظیموں جیسے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO)، عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) اور عالمی بینک کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہے ؟ اس کے علاوہ، صنعتی اور زرعی سرمایہ کاری منصوبوں کے بنیادی عناصر بھی غیر ملکی ہیں، جیسے کہ مشینری، خام مال، جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیج، کھادیں، کیڑے مار ادویات، ویکسین، جانوروں کی خوراک کے اجزا، کوئلہ، گیس اور ڈیزل۔

 

نیا سرمایہ کاری قانون، جو 101 آرٹیکلز اور 49 صفحات پر مشتمل ہے، اس میں اسلامی شریعت سے کوئی ایک بھی دلیل نہیں ہے! بلکہ، اس کے آرٹیکلز اور صفحات سرمایہ دارانہ نظریات اور احکامات سے بھرے ہوئے ہیں جو اسلامی شریعت سے متناقض ہیں۔ مزید برآں، پہلے کے قوانین کی طرح، یہ قانون بھی عوام کو دھوکہ دینے کے لیے محض دکھاوے کے جملے استعمال کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، آرٹیکل نمبر 5 میں لکھا گیا ہے کہ: "اس قانون کے تحت سرمایہ کاروں کو، بشرطیکہ وہ اسلامی شریعہ کے احکام سے متصادم نہ ہوں، کسی بھی اقتصادی شعبے میں سرمایہ کاری کی آزادی حاصل ہوگی، بشرطیکہ یہ ریاست کی سرمایہ کاری پالیسیوں کے مطابق ہو"۔

 

نیا سرمایہ کاری قانون مغربی استعماری کمپنیوں، جیسے بیکٹل (Bechtel)، مین (MAIN )، اسٹون اینڈ ویبسٹر (Stone & Webster)، اور براؤن اینڈ روٹ (Brown & Root) جیسی کمپنیوں کے لئے ایک داخلی دروازہ ہے، تاکہ وہ گزشتہ دہائیوں کی جنگ کے دوران تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے کی بحالی کے نام پر یمن میں داخل ہو سکیں۔ یہ مغربی کمپنیاں اور ان جیسی دیگر استعماری ادارے یمنی عوام کی حقیقی ترقی اور بحالی کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے، بلکہ صنعتی اور تکنیکی خلا کو وسیع رکھنے کو یقینی بنائیں گی، تاکہ آپ کبھی بھی ان کے برابر نہ آ سکیں ؟!

 

حقیقی ترقی صرف اسی وقت ممکن ہے جب وہ کائنات، انسان، اور زندگی کے بارے میں ایک مکمل نظریہ (عقیدہ) پر استوار ہو،  اور یہی عقیدہ ایسا نظام تشکیل دیتا ہے، جو زندگی کے تمام مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔ یہ صرف دوسری خلافت راشدہ کے قیام کے ذریعے ہی ممکن ہے، جو نبوت کے طریقے پر قائم ہوگی۔ حزب التحریر کے اراکین نے خود کو اسی عظیم مقصد کے لیے وقف کر رکھا ہے، تاکہ زمین پر عدل و انصاف بحال کیا جا سکے اور سرمایہ داریت اور اس جیسے دیگر انسان کے بنائے گئے استعماری نظاموں کے شر کو جڑ سے ختم کیا جا سکے۔

 

 

ولایہ یمن میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

 

 

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
یمن
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
تلفون: 735417068
http://www.hizb-ut-tahrir.info
E-Mail: khelafah53@gmail.com

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک