الخميس، 19 جمادى الأولى 1446| 2024/11/21
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

امریکہ یمن میں قتل و غارت کے لیے اپنی فوجیں اتار رہا ہے، ...

 ... جبکہ حریف نہ صرف دیکھ رہے ہیں بلکہ اس کی مدد بھی کر رہے ہیں!!!

امریکی محکمہ دفاع نےبروز اتواریمن میں القاعدہ کے عسکریت پسندوں کے ساتھ جھڑپوں کے نتیجے میں اس کے فوجیوں میں سے ایک کے مرنے اور تین کے  زخمی ہونے کا اعلان کیا۔ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی "اے ایف پی"نے  پینٹاگون کے حوالے سے مزید تفصیلات دیےبغیر یوں کہا کہ "مرکزی یمن کے صوبے البیضاء میں القاعدہ پر حملے کے نتیجے میں ایک امریکی سروس ممبر ہلاک اور تین زخمی ہوئے ہیں"۔

Read more...

انتہا ہوگئی اس فریب اور منافقت کی، اور ہم تم سے مطالبہ کرتے ہیں وہ تمام بے نقاب کیا جائے جو چھپایا جا رہا ہے

   پٹروفیک کمپنی کرکنہ  میں اپنا صدر دفتر بند کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، اس خبر کے بے نقاب ہونے کے تھوڑے ہی وقت میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح تمام میڈیا  پلیٹ فارمز پر پھیل گئی اور اس کے نتیجے میں واویلا اور ماتم گری کا ایک بھونچال سا برپا ہو گیا۔ یہ سب اس صورت میں ہوا کی صورتحال ایسی نہ تھی کہ جس کے نتیجے میں یہ فیصلہ لیا جاتا اورابھی تو اس فیصلے کی تصدیق نہ تو  حکومت اور نہ ہی کمپنی کی جانب سے کی گئی تھی جبکہ حکومتی ایماء پر چلنے والے میڈیا نے اس انداز میں سیاسی منظرنامے کو استعماری کمپنی کے حق میں موڑا کہ حکومتی مذاکراتی نمائندگان برطانوی سامراج کے آلۂ کار اور غلام نظر آنے لگے۔

Read more...

حوثیوں‬ نے ‫حزب التحر‬ کے رکن کو " فیصلہ کن طوفان" آپریشن کو بے نقاب اور اس کی مذمت کرنے والے پمفلٹ کو تقسیم کرنے پر گرفتار کر لیا ؟!!

حوثی ملیشیا نے صوبہ عمران کے ضلع ریدہ میں ہمارے بھائی مطہر احمد الراشدی کو گرفتار کرلیا ہے جن کی عمر 43 سال ہے اور جو کہ اسی ضلع کے ایک اسکول کے پرنسپل ہیں۔ مطہر احمد الراشدی کو ان کے گھر سے پیر30 مارچ2015 کو گرف ری تار کیا گیا پھر ان کو صوبے کے مرکز روانہ کردیاکیا گیا۔ ان کی گرفتاری حزب کے پمفلٹ تقسیم کرنے کے بعد ہوئی جس کا موضوع تھا ، "بالآخر ایجنٹ حکمرانوں کے طیارے حرکت میں آگئے..... مگر دشمنوں سے لڑنے کے لئے نہیں بلکہ مسلمانوں کو قتل کرنےکے لئے!" پمفلٹ میں لکھا ہے کہ " حکمرانوں کے طیارے اور جنگی بحری جہازیہود یوں سے لڑنےکے لیے حرکت میں آتے وہ یمن پر بم برسانے کے لئے حرکت میں آئےحالانکہ سبا(یمن )کی سرزمین کی بنسبت یہودی وجود ان کے زیادہ قریب واقع ہے!اس کاروائی کے لیے جو جواز پیش کیے گئے ہیں ان میں سے بد ترین جوازیہ ہے کہ یہ حملہ مسلمانوں کے قبلہ کےتحفظ کی خاطر ہے، حالانکہ حرم شریف پر تو حملہ ہوا بھی نہیں جبکہ مسلمانوں کا قبلہ اول جس پر یہودی حملہ کر کے قبضہ کر چکے ہیں اور وہ کئی دہائیوں سے یہودیوں کے قبضے میں ہے ، اورپکار پکار کر اِن حکمرانوں سے مدد کے لئے فریاد کرتا آرہا ہے،اس کی خاطریہ حکمران حرکت میں نہیں آتے!ان کے طیارے یمن کی طرف اس لئے پرواز کرتے ہیں تاکہ استعماری کفار کے منصوبوں کو مکمل کیا جائے، یہ طیارے فلسطین کی ارضِ مقدس کو چھڑوانے کے لئےکبھی نہیں اُڑتے جس پرمسلمانوں کے شدید ترین دشمن قابض بنے بیٹھے ہیں!"۔


حوثی اور بعض دوسری سیاسی قوتیں اس پمفلٹ سے بوکھلا اٹھے جو حزب نے شائع کیا تھا حالانکہ یہ صرف حق کی للکار تھی جس میں کسی حکمران،جماعت یا گروہ کی چاپلوسی نہیں کی گئی تھی۔ حزب نے اپنے طویل سیاسی سفر کے دوران ایک خیر اندیش اور تنبیہ کرنے والی جماعت کا کردار ادا کیا ہے جو مغرب کی سازشوں،اس کے آلہ کار حکمرانوں اور ان کے پہلو بہ پہلو چلنے والوں اور ان کے گود میں پلنے والوں کو بے نقاب کرتی رہتی ہے چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ حزب معاملات کو صرف شریعت کی نظر سے دیکھتی ہے اور وہ ہمیشہ اپنا موقف اسی کے مطابق اختیار کرتی ہے ۔ وہ چپقلش کے دونوں فریقوں کو بد بودار گروہی تعصب کے عینک سے نہیں دیکھتی جس کو مغرب مسلمانوں کے درمیان ہوا دینے کی کوشش کرتا ہے بلکہ حزب کے تجزئیے اور واقعات پر گہری نظر ہو تی ہے اور وہ صورت حال کا درست نقشہ پیش کرتی ہےلیکن یمن تنازعے کے دونوں فریق کڑوی حقیقت کا سامنا کرنے اور سچی نصیحت سنے کی طاقت نہیں رکھتے۔


حزب نے اپنے پمفلٹ میں یمن میں جاری تنازعے کی حقیقت اور اس کے ایجنٹ فریقین کی حقیقت کو واضح کیا اوریہ بتا یا کہ یہ بین الاقوامی انگلو امریکن(امریکہ اور برطانیہ کی) کشمکش ہے۔ پمفلٹ میں کہا گیا کہ "امریکہ نے ایران کے ذریعے حوثیوں کو انواع واقسام کا اسلحہ اور سامان ِجنگ فراہم کرکے ان کی مدد کی تاکہ وہ طاقت کے بل بوتے پر یمن پر تسلط حاصل کرلیں ۔ امریکہ یہ جانتا ہے کہ سیاسی میدان میں زیادہ تر برطانیہ کے پروردہ سیاست دان چھائے ہوئے ہیں۔ لہٰذا امریکہ نے حوثیوں کے ذریعے طاقت کے بل بوتے پریمن پر تسلط جمانے کی راہ اختیار کی ۔حوثیوں نے صدر کا محاصرہ کر لیااور اس پر زور ڈالا کے وہ ان کی مرضی کے قوانین منظور کرے۔ یمن کا صدر ہادی ان قوانین کے نفاذ پرحوثیوں کے ساتھ اتفاق کرلیتا اور پھر اِن معاہدوں اور قوانین کو عملی جامہ پہنانے میں ٹال مٹول کرنے لگتا تھا ، یہ کھیل جاری رہا اور پھر وہ وقت آگیا جب حوثیوں نے صدر کو اس کے گھر میں قید کردیا لیکن وہ کسی طرح فرار ہو کر عدن پہنچ گیا۔ حوثیوں نے عدن تک اس کا پیچھا کیا، مگر وہ دوبارہ ان کے ہاتھوں بچ نکلا۔۔۔۔یوں یہ کشمکش طویل ہوتی چلی گئی اور حوثیوں کی طاقت کسی ایک مرکز پر جمع نہ رہ سکی بلکہ پورے ملک کے اندر پھیل جانے سے کمزور ہوگئی اور حوثی وہ کچھ حاصل نہ کرسکے جو وہ چاہتے تھے سوائے اس کے کہ علی صالح اور اس کے حواریان کے ساتھ شامل ہوگئے تا کہ اگر حوثی ، صدر ہادی کے خلاف کامیاب ہو جاتے ہیں تو حاصل ہونے والے انعام میں سے وہ بھی اپنا حصہ وصول کرسکیں ۔ اور اگر حوثی ناکام ہو جاتے ہیں تو انہیں چھوڑ دیا جائے۔ برطانوی ایجنٹوں کی اس حکمتِ عملی کے ابتدائی آثار دکھائی دے رہے ہیں"۔ پھر حزب نے اپنے پمفلٹ میں " فیصلہ کن طوفان" کے نام سے حوثیوں پر حملے کی حقیقت کے بارے میں تجزیہ کرتے ہوئے یہ لکھا تھا کہ "جب امریکہ نے دیکھا کہ ان کے حوثی حواری مخمصے کا شکار ہیں ، انہوں نے اپنی قوت کو پورے یمن میں پھیلا دیا ہے جس کے باعث نہ تو وہ مکمل طور پر اپنی بالادستی کو قائم کر پارہے ہیں اور نہ ہی وہ شمال میں اپنے مرکزکی طرف واپس جاسکتے ہیں،تو امریکہ نے محدود فوجی آپریشن کے ذریعے انہیں اس صورتحال سے نکالنے کا فیصلہ کیاکہ ایک تیر سے دو شکار ہوجائیں۔ پہلا :لوگ حوثیوں کو ایک جابر کی نظر سے دیکھنا شروع ہو گئے ہیں یہ فوجی حملے ان کے مظلوم ہونے کا تاثر قائم کریں گے اور دوسرا یہ کہ بحران کے بڑھنے سے ہنگامی مذاکرات کے لئے ماحول بن سکے گا اور کوئی مصالحتی حل سامنے آئے گا۔ ہر اس معاملے میں جہاں امریکہ تنہا کوئی مفاد حاصل کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو وہ یہی روش اختیار کرتا ہے ۔۔۔ جو کچھ پہلے ہوچکا ہے اور جو کچھ اب ہورہا ہے اس نے صورتحال کو واضح کردیا ہے۔ سعودی عرب نے عسکری کاروائی سے قبل امریکہ سے مشاورت کی ، اورامریکہ کے ایجنٹ ہی اس آپریشن میں پیش پیش ہیں یعنی سعودی عرب کا شاہ سلمان اورمصر کا جنرل سیسی ۔ جہاں تک باقی خلیجی ریاستوں اور اُردن ومراکش کا تعلق ہے تو ان کا کردار زیادہ تر سیاسی ہے ، ان کا رویہ برطانیہ جیسا ہے، کہ برطانیہ امریکہ کا ساتھ دیتا ہے ، تا کہ یہ نظر آئے کہ وہ بھی متحرک ہے اور عنقریب ہونے والے مذاکرات میں اس کا بھی کچھ نہ کچھ کردار ہو اور اس طرح جو بھی حل سامنے آئے اس کے نتیجے میں طاقت کے مراکز میں اس کا بھی اثرو رسوخ موجود رہے۔اگر چہ فوجی کاروائی کو مسلط کرنا بسا اوقات مذاکرات کا سلسلہ شروع کرانے میں کا میاب رہتا ہے ، مگر کبھی یہ حربہ ناکام بھی ہو جاتا ہے ، جس کے نتیجے میں یمن کی صورتحال مزید غیر مستحکم ہو سکتی ہے اور اسے جنگ کی آگ میں دھکیل سکتی ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب یمن مستحکم اور خوشحال تھا جب اس کی پاک مٹی پر ایجنٹوں اور استعماری کفار کے ناپاک قدم نہیں پڑے تھے"۔


ہم یہ جانتے ہیں کہ تحریکوں میں مخلص کار کن بھی ہیں جو بس اسلام کا نام ہی استعمال کرتی ہیں اور حوثی بھی ایسے ہی ہیں، لیکن بین الاقوامی موقف اور ایجنٹ حکمرانوں کی حقیقت کے بارے میں جانے بغیر صرف اخلاص ہی کافی نہیں ہوتا۔ اگر حوثی اور یمن میں تنازے کے فریقین کو ایجنٹ کہنا برا لگتا ہے تو وہ اس لفظ کے اصطلاحی معنی کو دیکھیں تو ان کو معلوم ہو جائے گا کہ ایجنٹ وہ ہو تا ہے کہ جو دشمن کے منصوبوں کو کامیاب بنائے چاہے وہ اس حقیقت کو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔ ان سب کو یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ حزب التحریرکے جوان اللہ پر توکل کرتے ہوئے اپنے رب کے وعدے کو پانے کی طرف بڑھ رہے ہیں کہ یا تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ خلافت راشدہ کے قیام کے ذریعے اپنے دین کو غالب کردیں گے یا وہ اپنی گردنیں کٹوالیں گے ۔ان کو یہ بھی جان لینا چاہیے کہ حزب ہی اس امت کی امیدوں کی محور اور اللہ کے اذن سے اس کے قائدین اور اس کو یکجا کرنے والے اور اس کی صفوں کو سیدھی کرنے والی ہے۔ وہی اس امت کے اندر سے فرقہ واریت کو ختم کرے گی اور دشمنوں کو رسوا کرے گی، اسلام کے اقتدار کو بحال،کلمہ حق کو بلند اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کرتی رہے گی۔ یہ اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں۔ لہٰذا تم فورا ً مطہر الراشدی اور ہر اس شخص کو آزاد کرو جس کو تم نے ظلم سے گرفتار کیا ہے۔


﴿وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ الظَّالِمِينَ﴾
" اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کر تا "(آل عمران:57) ۔


ولایہ یمن میں حزب التحریرکا میڈیاآفس

Read more...

سلامتی کونسل کو خیر مقدم نہیں کہتے اور نہ ہی اس کی سزاؤں سے خوشی ہوئی

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے یمن کے حوالے سے منعقدہ خصوصی مشاورتی نشست کا اختتامی بیان جاری کردیا۔ یہ میٹنگ29 اگست 2014 کو کونسل کے صدر اوراقوام متحدہ میں برطانیہ کے مستقل نمائندے مارک لائل گرانٹ کی صدارت میں ہوئی ۔بیان میں تنبیہ کی گئی کہ سیاسی استحکام میں رکاوٹ بننے والوں، بالخصوص حوثیوں پر سزائیں عائد کی جائیں گی۔ بیان میں کہا گیا کہ: "سلامتی کونسل کو یمن میں امن وامان کی صورتحال پرگہرا افسوس ہے، جو عبد الملک الحوثی کی قیادت میں حوثیوں کی کاروائیوں کے باعث بگڑ چکی ہے اورحوثی لوگ عبد الملک کے ساتھ تعاون اس لئے کرتے ہیں تاکہ سیاسی حکومت کی منتقلی کو سبوتاژ کیا جائے اور یمن کے امن کو تہس نہس کردے"۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ : "سلامتی کونسل عبداللہ یحییٰ الحاکم (ابوعلی الحاکم ) کی امارت تلے حوثی فورسز کی کاروائیوں کی مذمت کرتی ہے، جس نے 8 جولائی کو یمن بریگیڈ ہیڈ کوارٹر اور عمران کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ سلامتی کونسل حوثیوں کو دعوت دیتی ہے کہ :1۔ عمران سے اپنی فورسز نکال کر اس کو یمنی حکومت کے کنٹرول میں دیدیں، 2۔ یمنی حکومت کے خلاف جوف میں تمام معاندانہ مسلح کاروائیاں بند کردیں، 3۔ صنعاء اور اس کے اطراف میں قائم کئے گئے چیک پوائنٹ اور کیمپس ختم کردیں"۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ: "ایک اور پہلو سے، سلامتی کونسل تمام ممبر ممالک کو دعوت دیتی ہے کہ وہ یمن کو غیر مستحکم کرنے اور اس کے اندر کشمکش بھڑکانے کے لئے مداخلت سے باز رہیں اور وہ سیاسی حکومت کی منتقلی میں تعاون کریں"۔
ہم پہلے ہی متعدد پریس ریلیز میں یہ واضح کر چکے ہیں کہ مغرب اور سلامتی کونسل کی آغوش میں اپنے آپ کو پھینک دینا خطرناک ہے ۔ اس کونسل کو اگر کسی چیز کی فکر ہے تو صرف یہ کہ وہ اس کے اندر موجود طاقتور ممالک کے مفادات کا تحفظ یقینی بنائے۔ یہ کونسل لوگوں کو خائف کرنے، ملکوں کے ٹکڑے کرنے اور فتنے کھڑے کرنے کا ایک استعماری آلہ کار ہے جبکہ اس نےمسلمانوں کے کسی ایک مسئلے کی حمایت نہیں کی۔ اگر چہ کچھ لوگوں کو سلامتی کونسل کی کاروائیوں پر بظاہر ہمدردی کا دھوکہ ہوجاتا ہے مگر ایسی کاروائیاں اندرونی طورپر عذاب کا سامان لئے ہوئے ہوتی ہیں، یہ سراب ہوتی ہیں جس سے انسان کو دھوکہ ہوجاتا ہے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہمارے لئے ان کے ذریعے طاقت حاصل کرنا حرام قرار دیا ہے بلکہ ہمیں ان کے بارے میں چوکنا رہنے کا حکم دیا ہے اور ہمیں بتا یا ہے کہ یہ لوگ آپ سے اس وقت تک راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ ان کے دین وملت کو نہ اپنا لیں ۔ تو ان کا دین دھوکے اور فریب کا لباس پہن کر آرہا ہے یعنی جمہوریت اور سول وجمہوری حکومت جیسے شرع مخالف افکار اور نظام۔
ہم ریاست اورباہمی گفت وشنید کرنے والی قوتوں، بلکہ جنگجوؤں کو بھی یمن کے اندر ان مداخلتوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ ان مداخلتوں پر دستخط ان ہی لوگوں نے کئے تھے بلکہ ان مداخلتوں کے لئے سرخ جھنڈا ان ہی لوگوں نے لہرایا تاکہ وہ یمن میں آکر اپنے اثر ونفوذ اور اس کے وسائل پر کشمکش اور لڑائی کا آغاز کریں ۔ ان کا مقصد صرف ان حقیر مقاصد کا حصول تھا جو خطے کے ان ممالک نے انہیں سمجھا دیے ہیں، جیسے سعودیہ اور ایران، جن کے مغرب کے ساتھ روابط ہیں۔ یہ ممالک استعماری منصوبے کا حصہ ہیں جن کے اندر سے مغرب یمن میں اپنے مفادات کے لئے کشمکش کے لئے راہ نکالتا ہے۔ یہ وہی اینگلو امریکی تنازعہ ہے جسے سیاست دان تو کیا عام لوگ بھی جانتے ہیں۔ بے شک سیاسی بے وقوفی یمن کی سیاسی طاقتوں کے لئے ایک مصیبت ہے کیونکہ یہ اب بھی اس گھمنڈ میں ہیں کہ وہ اچھا کردار ادا کر رہی ہیں۔ ان کو یہ احساس ہی نہیں کہ ہم سیاسی خود کشی کررہے ہیں۔ جب یہ بے وقوف ایسے کام کر ڈالتے ہیں کہ جن کے خطرناک نتائج کا انہیں کوئی ادراک نہیں ہوتا اور بعد میں پتہ چلتا ہے کہ ان کی کاروائیاں اس استعمار کے مفاد میں جارہی ہیں جس کو یہ لوگ طرح طرح کی گالیاں دیتے رہتے ہیں بلکہ کبھی کبھار یہ طاقتیں ایک طرف استعمار کے خلاف لڑنے کا دعویٰ کرتی ہیں جبکہ دوسری جانب اسی استعمار کے ثقافتی باقیات اور نظام حیات کو اختیار کرتی ہیں۔ ان میں سے کچھ وہ ہیں جو ملک کو فرقہ واریت اور مذہبی تعصب کی طرف لے جارہے ہیں ۔ ایسا کرکے وہ مغرب کی خدمت ہی کرتے ہیں بلکہ مغرب کو اپنا دل دے بیٹھے ہیں اور مغرب کی مہرومحبت اور عنایات کے حصول کے لئے اس کی پسندیدہ اصطلاحات کو استعمال کرکے اس کی چاپلوسی کرنے سے نہیں شرماتے ، جیسے دہشت گردی، تکفیری یا شیعہ اور روافض وغیرہ جیسی اصطلاحات ؟ اور اللہ کے بندوں کو وہ نام دینے سے شرماتے ہیں جو اللہ نے ان کا رکھا ہے یعنی مسلمان، ﴿هو سماكم المسلمين﴾ "اسی نے تمہارا نام مسلمان رکھا" (الحج:78)۔
سلامتی کونسل کے بیان میں مضحکہ خیز بات یہ کہی گئی کہ "سلامتی کونسل تمام ممبر ممالک کو دعوت دیتی ہے کہ وہ یمن کو غیر مستحکم کرنے اور اس کے اندر کشمکش بھڑکانے کے لئے مداخلت سے باز رہیں اور سیاسی حکومت کی منتقلی میں تعاون کریں"۔ کیا یہ مداخلتیں اس لئے نہیں ہورہیں کہ اس نے اپنے خوشامدیوں کو اس کے احکامات دیے ہیں تاکہ وہ یمن میں اپنے مفادات پر کشمکش شروع کریں ؟ پھر جب کشمکش کے طرفین (اینگلو امریکن) کسی مصالحت یا یمن کے وسائل میں شراکت پر متفق ہوجاتے ہیں تو یہ نوکر اپنے آقا کے اوامر کے خلاف قدم اٹھائیں گے۔ یہ بہت دور کی بات ہے ۔ تو ان تنظیموں سے وہی لوگ دھوکہ کھا جاتے جن کی سوچ غلاموں کی ہو کیونکہ ایسے لوگ اپنے مفادات خود حاصل نہیں کرسکتے ۔ وہ ایسا نہیں کرسکتے کیونکہ ان کا اختیار ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے جو ان کوسرمایہ فراہم کرتے ہیں۔
اے یمن والو! رسول اللہﷺ نے تمہارے جس ایمان اور حکمت کے بارے میں بتایا ہے اس کی رو سے تم پر لا زم ہے کہ اپنے مسائل کو اپنے پروردگار کی کتاب اور سنت رسولﷺ کی روشنی میں حل کرو اور استعماری کفار سے تقویت حاصل کرنا تمہارے اوپر حرام ہے، خواہ کسی بھی نوع کی ہو۔ تو کفار کو اپنے اوپر اختیار مت دو، اللہ سبحانہ فرماتے ہیں (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاء مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَتُرِيدُونَ أَن تَجْعَلُواْ لِلّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا مُّبِينًا) "اے ایمان والوں! مؤمنین کو چھوڑ کرکفار کو اپنا دوست مت بناؤ، کیا تم یہ چاہتے ہو کہ تم پر اللہ کی واضح حجت قائم ہوجائے؟" (النساء:144)۔ حزب التحریر تمہیں اس چیز کی طرف بلاتی ہے جس میں تمہارے لئے دنیا او ر آخرت کی خیر ہے ۔ یہ وہ حزب ہے جو اندھا دھند تعصب کرتی نہ ہی کسی کے ساتھ مخاصمت اس کو حکم شرعی کی مخالفت پر کھینچ لاسکتی ہے۔ یہ کبھی بھی اللہ کے غضب اور غصے پر خوش نہیں ہوتی۔ یہ حزب تمہیں ایک امت بنانے کی قابلیت رکھتی ہے اور یہ تمہارے درمیان اختلافات کو دوسری خلافت راشدہ کے سائے میں سدھار سکتی ہے جس کا اللہ نے وعدہ کیا ہوا ہے، اور تمہارے نبیﷺ نے اس کی بشارت دی ہے ۔ ہم اسی کی طرف تمہیں بلاتے ہیں تاکہ اپنے حالات کو ٹھیک کرسکو ۔ اللہ تمھارے ساتھ ہے اور وہی تمہارا دوست اور کارساز ہے ۔

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک