الخميس، 08 شوال 1445| 2024/04/18
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

تاتارستان میں سکیورٹی ادارے مسلمانوں کو ظلم اور جبر کا نشانہ بنارہے ہیں


2014، جنوری کے مہینے کے اختتام کے ساتھ ہی تاتارستان سے ایک بار پھرمسلمانوں کی گرفتاریوں کی خبریں موصول ہورہی ہیں۔ تفتیش، گرفتاریاں، اغوا، تشدد اور مقدموں کو بار بار دہرایا جا رہا ہے۔ ان سب المناک خبروں کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔ یادرہے کہ مسلمانوں پر ظلم اور تشدد کا سلسلہ صرف تاتارستان میں ہی نہیں بلکہ روس کے تمام علاقوں میں جاری وساری ہے۔
Neftekhimkاور Chistobl شہروں کے عقوبت خانوں میں اب بھی وہ دسیوں مسلمان ظلم و تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں جن کو نومبر 2013 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ انھیں بجلی کے جھٹکے دیے جارہے ہیں، مارا پیٹا جا رہا ہے، تشدد کے ذریعے ان میں سے بعض کی ریڑھ اور سینے کی ہڈیاں توڑ دی گئی ہیں، کچھ کی دونوں ٹانگیں توڑ دی گئی ہیں، ایک بھائی کے عضو تناسل کو آگ سے جلایا گیا۔
جنوری 2014 کے دوسرے عشرے میں تاتارستان کے تمام شہروں Kazan، Neftekhimik، Elapog، Nizhny، Chelny، Olmatvsk، Nurtat، Chistobl اور Oznakayv میں مسلمانوں کے گھروں میں چھاپے مارکر، ان کے گھروں کی تلاشی لے کر، ان کو گرفتار کرلیا گیا۔ دوسرے شہروں میں بھی مسلمانوں کی پکڑدھکڑ اور مقدموں کا سلسلہ جاری ہے۔ ویب سائٹ http://rt.rbc.ru)) نے جنوری 2013 کو خبر شائع کی کہ تاتارستان کے وزیر داخلہ "جوخورین" نے بم دھماکوں اور پکڑے جانے والے دھماکہ خیز مواد کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا :"یہ ہماری اور روسی انٹیلی جنس ایجنسیوں میں ہمارے دوستوں کی ذمہ داری ہے کہ ہم ان دھماکے کرنے والوں کو جو کہ حزب التحریر سے ہیں انصاف کے کٹہرے میں لائیں، ان میں سے ایک بھی سزا سے بچنا نہیں چاہیے"۔
حزب التحریر پر تشدد اور دہشت گردی کا الزام لگانا سفید جھوٹ ہے۔ حزب التحریر ایک سیاسی و فکری جماعت ہے جو اپنی جدوجہد میں کسی بھی قسم کی مادی طاقت کے استعمال کو مسترد کرتی ہے اور اس کو جائز نہیں سمجھتی، اور یہ الزام روسی حکمرانوں کی بد نیتی اور الزام تراشی کا کھلا ثبوت ہے ۔
30 دسمبر 2013 کو ریلوے اسٹیشن میں دھماکے کے اگلے دن "ولگا گراڈ" شہر میں ایک دھرنے کو طاقت کے ذریعے منتشر کیا گیا۔ اس وقت کلیسا کے پاس تقریبا 200 افراد جمع ہوئے جو اسی شہر کے رہنے والے تھے جنہوں نے کتبے اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا کہ: "ایجنسیوں نے ان دھماکوں کے ذریعے کئی ملین کمالیے"۔ ہر دھماکے کے بعد مسلمانوں کو ہی مورد الزام ٹھرایا جاتا ہے۔ انٹرنیٹ پر جاری ہونے والی ویڈیوز سے یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ آج ایجنسیاں پھر نوے کی دہائی کے آخر میں استعمال کیے جانے والے اسلوب کو دہرا رہی ہیں جب انہی ایجنسیوں کی جانب سے کرائے جانے والے وحشیانہ دھماکوں سے روس لرز گیاتھا۔
روس کی حکومت دنیا کے کسی بھی ملک میں ریاست خلافت کے ظہور کے خوف سے لرزہ براندام ہے کیونکہ اسے خوف ہے کہ خلافت روس کے مسلمانوں کو متحرک کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ روس نے ہر قسم کے انسانی جذبات کو پس پشت ڈالتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف مظالم کو تیز کردیا ہے۔ 24 جنوری 2014 کو پیوٹن، سکیورٹی ایجنسیوں کے سربراہان اور وزراء نے شام کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا جیسا کہ کر ملین میڈیا نے رپورٹ کیا ہے۔
آج کل جنیوا میں شام کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے بین الاقوامی کانفرنس ہورہی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ یہ کانفرنس اس مسئلے کے فریقوں بشار الاسد اوراس کے مخالفین کو یکجا کرنے کے لیے روس کے تعاون سے مغربی کوشش ہے۔ مغرب اس بحران سے نکلنے کے لیے، جو کہ اسلام اور کفر کی جنگ بن چکی ہے، اپنی پالیسی کو نافذ کرنا چاہتا ہے۔ مغرب اور روس خلافت اسلامیہ کے قیام کے سے خوفزدہ ہیں۔ وہ اسلام کے علمبرداروں کو مارنے کے لیے ہر قسم کی قوت اور طاقت استعمال کر رہے ہیں تاکہ شام کو سیکولر ہی رکھا جاسکے۔
اتارتاس چینل نے 22 جنوری 2014 کو روسی وزیر خارجہ لاروف کا بیان نشر کیا جس میں اس نے کہا: "اگر کانفرنس میں شریک ممالک نے پہلے مرحلے میں ایسے شام کو بنانے کے بارے میں بات نہیں کی جو مختلف فرقوں اور جمہورت کا محافظ ہو تو میری رائے میں یہ خطرے کی گھنٹی ہے"۔
روس کی جانب سے اسلام کے خلاف طبل جنگ بجانے کی وجہ یہ ہے کہ روس شام میں خلافت کے قیام سے خوفزدہ ہے کیونکہ مسلمانوں کے سب سے بہترین نظام حکمرانی (خلافت) کے ساتھ اقتدار میں پہنچنا حق کی مخالفت کرنے والے ان بدعنوان لوگوں کو تاریخی سبق سیکھائے گا۔
یہ وہ مجرم اور بدعنوان لوگ ہیں جو ہمیشہ اسلام کے خلاف برسرپیکار رہتے ہیں، چاہے اس کے لیے انھیں اپنے بنائے ہوئے قوانین کو ہی کیوں نہ توڑنا پڑے۔ اسلام جو کہ حق ہے، اس کے سامنے یہ کمزور ہیں کیونکہ اسلام ہر سمجھدار اور عقلمند شخص چاہے وہ روسی ہو یا عربی، کے دل کے قریب ہے۔ یہ کائنات ایک خالق کی مخلوق ہے، وہی جس نے محمد ﷺ کو رحمت العالمین بنا کر اسلام یعنی قرآن، سنت نبوی اور وہ ماخذ جن کی طرف یہ دونوں رہنمائی کرتے ہیں، کے پیغام کے ساتھ مبعوث فرمایا۔
جو بھی اس دین کی دعوت دیتا ہے روس کے حکمران اس کو گرفتار کر لیتے ہیں، اس کو انتہا پسند اور دہشت گرد قرار دیتے ہیں، اس کو قید کرلیتے ہیں اور اس کو اور اس کے بچوں، بچیوں، گھروالوں اور رشتہ داروں کو اذیت دیتے ہیں۔
ہم اللہ سے دعاگو ہیں کہ وہ ہماری مدد کرے، اپنے دین کی دعوت میں ہماری مدد کرے، ہمارے اعمال کو خالص اپنی رضا کے لیے بنائے اور ان کو بہترین طریقے سے قبول فرما ئے۔ اے اللہ! اے رحمٰن! امت مسلمہ، جو بہترین امت ہے، جس کو لوگوں کی امامت کر نے کے لیے پیدا کیا گیا ہے، کوجلد سے جلد اپنی زبردست نصرت سے نواز دے۔
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَـبِّتْ أَقْدَامَكُمْ﴾
"اے ایمان والو! اگر تم نے اللہ کی مدد کی تو اللہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم کرے گا"(محمد:7)

27 ربیع الاول 1435ھ                                                                                                                                                                                                                              حزب التحریر
28/01/2014م                                                                                                                                                                                                                                            روس

 

Read more...

بم دھماکوں اور انتشار کی بنیادی وجہ خطے میں امریکہ کی موجودگی ہے راحیل-نواز حکومت مذاکرات کی حمائت خطے میں امریکی موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے کررہی ہے

امریکہ کی اندھی تقلید میں فوجی آپریشن کے ساتھ ساتھ راحیل-نواز حکومت اب مذاکرات کے چارے کو خطے میں امریکہ کی موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ خطے میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کے امریکی منصوبے میں افغانستان میں نو امریکی اڈوں کا قیام ، اسلام آباد میں سفارت خانے کی عمارت کی آڑ میں ایک بہت بڑے قلعے کا قیام، اس کے "ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک" کا تسلسل ہے جو ملک بھر میں ہونے والے بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کی منصوبہ بندی کرتا ہے اور اس نیٹ ورک سے ہٹ کر افغانستان اور پاکستان میں نجی سکیورٹی کنٹریکٹرز کے پردے میں ایک لاکھ امریکیوں کی تعیناتی شامل ہے۔ اور اس سلسلے کے تحت اسلام آباد میں ہونے والی راحیل-نواز حکومت کی پہلی باضابطہ ملاقات کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ ہمارے وجود کے اس غیر ملکی کینسر کو قانونی حیثیت دینے کے لیے پہلا قدم ہے۔
اگر راحیل-نواز حکومت مسلمانوں کے بہتے خون کے سلسلے کو روکنے میں مخلص ہوتی تو وہ اسلام آباد میں موجود امریکی سفارت خانے اور اس کے ساتھ ساتھ کراچی، لاہور اور پشاور میں موجود قونصل خانوں کو بند کرنے کے لیے فوری آپریشن کرتی۔ وہ تمام امریکی انٹیلی جنس اور نجی امریکی عسکری تنظیموں سے وابستہ افراد کو گرفتار کرتی اور ان پر مقدمہ چلاتی۔ لیکن حکومت نے اس کی بجائے مسلمانوں کے خون کو بہنے اور اربوں ڈالر کی امت کی دولت کو تباہ کرنےکی اجازت دی تا کہ امریکہ کی جنگ کو جاری رکھا جائے۔ اور اب جب معاشی لحاظ سے مفلوج اور فوجی لحاظ سے ذلت کا شکار ہونے کے باوجود امریکہ ہر صورت خطے میں اپنی اس موجودگی کو مستقل بنانا چاہتا ہے جو وہ خود اپنے بل بوتے پر کسی صورت حاصل نہیں کرسکتا، تو راحیل-نواز حکومت اس امریکی مقصد کے حصول کے لیے رات دن ایک کیے ہوئے ہے۔
حزب التحریر ولایہ پاکستان عوام کو خبردار کرتی ہے جب تک امریکہ ہمارے درمیان موجود ہے، امن کا قیام تو دور کی بات ہم امن کا تصور بھی نہیں کرسکیں گے۔ ہماری قیادت میں موجود غدار اس صورتحال کی ذمہ داری کبھی کسی پر ڈالتےہیں تو کبھی کسی پر، تاکہ اپنے آقا امریکہ کی خواہش پر ہمیں دھوکہ دے سکیں لیکن یہ کبھی اس بنیادی وجہ کی نشان دہی نہیں کریں گے جو کہ خطے میں امریکہ کی موجودگی ہے۔ مزیدبرآں یہ غدار اس بات کو جاننے کے باوجود امریکہ کی خواہشات کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں کہ امریکہ اپنے آپ یہاں سے نہیں جائے گا کیونکہ وہ ہماری سر زمین اور اس میں موجود وسائل کو اپنی جاگیر سمجھتا ہے۔ اسے لازمی طور قوت اور صلاحیت کے بل بوتے پر نکال باہر کیاجانا چاہیے اور یہی وہ کام ہے جو خلافت کرے گی بہت جلد انشاء اللہ ۔ جب بھی امریکہ کو ہم پر بالادستی حاصل ہو گی، چاہے وہ ایک فوجی اڈہ، قونصل خانہ یا انٹیلی جنس آفس ہی کیوں نہ ہو، وہ اپنی شیطانی سے باز نہیں آئے گا۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں،
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ - إِنْ يَثْقَفُوكُمْ يَكُونُوا لَكُمْ أَعْدَاءً وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ وَوَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ)
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو! میرے اور خود اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ اگر یہ کافر تم پر قدرت پالیں تو تمھارے دشمن ہو جائیں اور ایذا کے لیے تم پر ہاتھ پاؤں چلائیں اور زبانیں بھی اور چاہتے ہیں کہ تم کسی طرح کافر ہو جاؤ" (الممتحنہ: 1-2)

Read more...

ولایہ شام: جنیوا-2 کی بندوقیں ہر اس شخص کو قتل کر دیتی ہیں جو خلافت کا مطالبہ کرے

جنیوا-2 کی ہلاکت خیز بندوقیں شام کے انقلابیوں پر مسلسل جان لیوا حملے کر رہی ہیں جبکہ دنیا ایک خاموش فسادی کا کردار ادا کر رہی ہے اور مسلم افواج تذلیل پر مصر ہیں۔


حلب صوبہ ہنانو

--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

منگل، 3 ربيع الثانی 1435ھ بمطابق 3 فروری 2014م

 

 

Read more...

پاکستان سے امریکی وجود کا خاتمہ کرو جو بم دھماکوں اور عدم تحفظ کی بنیادی وجہ ہے


پاکستان کے حکمرانوں اور ان کے امریکی آقاؤں کے درمیان جنوری 2014 کے آخری ہفتے میں واشنگٹن میں ہونے والے مذاکرات سے قبل پورا پاکستان بم دھماکوں اور قتل وغارت گری کے پے درپے واقعات سے لرز اٹھا جن کا نشانہ، عام شہری اور افواج، دونوں ہی تھے۔ راحیل -نواز حکومت نے وزیرستان میں فوجی آپریشن کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے اور اس کے لیے حمائت حاصل کرنے کے لیےاِن خونی اور وحشیانہ کاروائیوں کو جواز کے طور پراستعمال کیا۔ وزیرستان وہ علاقہ ہے جو افغانستان پر قابض امریکی افواج کے خلاف ہونے والے حملوں کا مرکز ہے،جس نے امریکیوں کی کمر توڑ ڈالی ہے اور ان کے دلوں کو خوف میں جکڑ رکھا ہے۔
جہاں تک پاکستان میں ہونے والے شیطانی بم دھماکوں کی مہم کا تعلق ہے تو وہ لوگ جو معاملات سے پوری طرح با خبر ہیں اس بات سے آگاہ ہیں کہ امریکی انٹیلی جنس کئی سال قبل ڈھیلے ڈھالے قبائلی نیٹ ورک میں داخل ہوچکی ہے۔ یہ افراتفری پھیلانے کی مہم امریکہ کی خارجہ پالیسی کا براہ راست نتیجہ ہے،خصوصاًکم شدت کی عسکری لڑائیوں کوفروغ دینےاورخفیہ"بلیک آپریشن"کرنےکی امریکی پالیسی۔یہ وہ کم شدت کی عسکری لڑائیاں ہیں جو ملک کے اندرونی استحکام کوتباہ وبربادکررہی ہیں،ہماری صلاحیتوں کومحدودکررہی ہیں،ہماری استعدادکونقصان پہنچا رہی ہیں،اورامریکہ کواس بات کا جوازفراہم کرتی ہیں کہ وہ ہم سےڈومورکامطالبہ کرے۔ یہی وہ خفیہ آپریشن اور False Flagحملے ہیں جنھیں امریکی انٹیلی جنس ایجنسیاں اپنےمکروہ چہرےکوچھپانےاورکسی اورکودشمن کےطورپرپیش کرنےکےلیے کرتی ہیں ۔یہ ہتھکنڈے امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسیاں لاطینی امریکہ سےلےکرجنوب مشرقی ایشیا تک دنیابھر میں استعمال کرتی ہیں تاکہ اس بات کویقینی بنایاجائےکہ جنگ کی آگ سلگتی رہےاور ملک عدم تحفظ کی آگ میں جلتا رہے۔ یکم دسمبر 2009 کو امریکی صدر اوبامہ نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا کہ "ماضی میں پاکستان میں ایسے لوگ رہے ہیں جو یہ کہتے تھے کہ انتہاپسندوں کے خلاف جدوجہد ان کی جنگ نہیں ...لیکن جب معصوم لوگ کراچی سے اسلام آباد تک قتل ہوئے تو یہ واضح ہوگیا کہ یہ پاکستان کے عوام ہیں جن کو انتہاپسندی سے سب سے زیادہ خطرہ ہے"۔
پاکستان میں اس قسم کی افراتفری صرف اور صرف امریکہ کے لیے فائدہ مند ہے۔ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ پاکستان کی فوج ان قبائلی جنگجوؤں کو نشانہ بنائے جو پاک افغان سرحد پار کر کے افغانستان پرقابض امریکہ کے خلاف لڑ رہے ہیں ۔امریکہ ہی اس قسم کی ابتری اور افراتفری پیدا کرتا ہے کیونکہ وہ افواج پاکستان میں ان مضبوط اسلامی جذبات اور احساسات سے بخوبی واقف ہے جس نے انھیں اپنے وقت کی سپر پاور سوویت یونین کو ختم کرنے کی طرف ابھارا جب انھوں نے افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے خلاف قبائلی مسلمانوں کی حمائت کی اور انھیں بھر پور معاونت فراہم کی ۔ لیکن اب چونکہ امریکہ خود افغانستان پر قابض ہے لہٰذا امریکہ افواج پاکستان میں موجود اس خیر کو افغانستان پر اپنے قبضے کے خلاف انتہائی تشویش ناک اور خطرناک تصور کرتا ہے۔ اور اس سے بھی بڑھ کر امریکہ اس بات سے شدید خوفزدہ ہے کہ یہ افواج اس مسلم علاقے میں خلافت کے دوبارہ قیام کے لیے اپنی ذمہ داری کو پورا کریں اورنصرۃ فراہم کریں اور یہ وہ معاملہ ہے جس نے امریکیوں کی نیندیں حرام کر رکھیں ہیں کیونکہ خلافت کا قیام اس خطے سے امریکی بالادستی کا خاتمہ کردے گا۔16 نومبر 2009 کو New Yorker میں شائع ہونے والے ایک مضمون: ''ہتھیاروں کی حفاظت۔ کیا غیر مستحکم پاکستان میں ایٹمی ہتھیار محفوظ رکھے جا سکتے ہیں؟'' میں بیان کیا گیاکہ ''بنیادی خطرہ بغاوت کا ہے کہ پاکستانی فوج میں موجود انتہاء پسند کہیں حکومت کا تختہ نہ الٹ دیں...اوباما انتظامیہ کے ایک سینئر عہدیدار نے حزب التحریر کا تذکرہ کیا ...جس کا ہدف خلافت کا قیام ہے۔ یہ لوگ پاکستان کی فوج میں جڑیں بنا چکے ہیں اور فوج میں ان کے خلیے موجود ہیں"۔
اور جہاں تک وزیرستان میں فوجی آپریشن کا تعلق ہے تو امریکہ کو اس کی جتنی اشد ضرورت اب ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔ معاشی لحاظ سے تباہ ہوتا ہوا امریکہ اور اس کی بزدل افواج کا گرتا ہوا حوصلہ ، امریکہ کو اس بات پر مجبور کررہا ہے کہ وہ محدود انخلاء کے بعد افغانستان میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کے لیے مذاکرات کا سہارا لے۔یہی وجہ ہے کہ اس نے پاکستان کی قیادت میں موجود غداروں کو متحرک کیا ہے کہ وہ مذاکرات اور آپریشن کے متعلق خوب شور مچائیں۔ اس طرح امریکہ افغانستان میں فتح کا خواہش مند ہے، ایک ایسی فتح جو وہ خود اپنے بل بوتے پر کسی صورت حاصل نہیں کرسکتا تھا۔لیکن امریکہ کو تحفظ فراہم کرنے کی صورت میں مسلمان مزید نقصان اٹھائیں گے جیسا کہ وہ اس سے قبل ماضی کے فوجی آپریشنز میں اٹھاچکے ہیں۔ قبائلی مسلمان اپنے گھروں سے بے دخل ہوجائیں گے، ملک عدم تحفظ کا شکار ہوجائے گا اور مسلمانوں کی سب سے بڑی فوج جس میں لاکھوں بہادر جوان موجود ہیں جو شہادت یا کامیابی کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ، وہ ایک کرائے کی فوج کی شکل اختیار کرلیں گے جس کا مقصد بزدل امریکی افواج کی حفاظت کرنا ہوگا تا کہ انھیں ایک ذلت آمیز شکست سے بچا سکیں ۔ دونوں جانب سے مسلمان ہی مسلمان کو قتل کرے گا جس سے ایک طرف تو کفار کے مفادات کو تحفظ حاصل ہوگا تو دوسری جانب ہم اللہ سبحانہ و تعالٰی کے غضب کے حق دار بھی بن جائیں گے، اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں (وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمً) "اور جو کوئی کسی مؤمن کو قصداً قتل کر ڈالے، اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ تعالٰی کا غضب ہے، اسے اللہ تعالٰی نے لعنت کی ہے اور اس کے لیے بڑا دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے"(النساء: 93)۔ اور رسول اللہﷺ نے فرمایا: ((إذا التقى المسلمان بسيفيهما فالقاتل والمقتول في النار، قلنا يا رسول الله هذا القاتل فما بال المقتول قال انه كان حريصا على قتل صاحبه)) "جب دو مسلمان لڑائی میں ایک دوسرے کا سامنا کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو قتل کردیتا ہے، تو قاتل اور مقتول دونوں ہی جہنم کی آگ میں جائیں گے، صحابہ نے پوچھا ، اے اللہ کے پیغمبر ایک تو قاتل ہے لیکن جس کو قتل کیا گیا اس کے متعلق بھی یہی فیصلہ ہے؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا کیونکہ اس کا بھی اپنے ساتھی کو قتل کرنے کا ارادہ تھا"۔
اے پاکستان کے مسلمانو! جب تک پاکستان کے وجود کو ہر قسم کی امریکی موجودگی سے پاک نہیں کردیا جاتا ہماری افواج اور قبائلی مسلمان اس فتنے کی جنگ کی آگ میں جلتے رہیں گے۔ ہماری افواج پر لازم ہے کہ وہ امریکی سفارت خانے کو بند کرنے اور امریکی سفارت کاروں بشمول اس کے سفیر ، فوجیوں اور انٹیلی جنس کے افراد کو ملک بدر کرنے کے لیے حرکت میں آئیں۔ اسی طرح ہمارے قبائلی لوگوں پر بھی یہ لازم ہےکہ وہ اپنے درمیان موجود فتنہ پروروں کو نکال باہر کریں جو بجائے اس کے کہ وہ افواج پاکستان سے خلافت کے قیام کے لیے مدد حاصل کرنے کی کوشش کریں، اُن پر حملوں کی دعوت دیتے ہیں۔ یہ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہماری افواج اور قبائلی جنگجو، دونوں اپنی بندوقوں کا رخ امریکہ کی جانب موڑ دیں تا کہ خطے سے امریکی راج کا خاتمہ کیا جاسکے جو ہماری شہری اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے درکار پیچیدہ منصوبہ بندی، جدید ترین ہتھیاروں اور مالی وسائل کی فراہمی کا اصل ذمہ دار ہے۔ جب تک ہماری سرزمین پر امریکہ موجود رہے گا ہم کبھی بھی اس تباہ کن جنگ کا خاتمہ ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکیں گے چاہے ہم اب تک اٹھائے گئے جانی و مالی نقصان سے زیادہ نقصان ہی کیوں نہ برداشت کرلیں۔ اور یہ یقین رکھیں کہ خلافت کی واپسی کے بعد، جو انشاء اللہ عنقریب ہے، ہماری افواج اور قبائلی جنگجوؤں کو بغیر کسی تاخیر کے خطے میں موجود امریکی افواج اور اس کی موجودگی کے خاتمے کے لیے اس طرح متحرک کیا جائے گا جو ان کے دلوں کو خوف سے دہلا دے گا، ان کے شیطانوں کو شیطانی چھوڑنے پر مجبور کردے گا اور اس امت کے خلاف ان کے عزائم اور منصوبوں کو پاش پاش کردےگا۔
لہٰذا آپ خلافت کے قیام کے لیے دن رات ایک کردیں جیسا کہ حزب التحریر کے شباب کررہے ہیں۔ حزب کے شباب کےساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوجائیں اور پاکستان کے مسلمانوں کو ایک طاقتور متحرک قوت میں تبدیل کردیں تاکہ حقیقی تبدیلی کی منزل کو پایا جاسکے۔ کوئی مسجد، اسکول، یونیورسٹی، بازار اور دفتر خلافت کی پکار کی گونج سے خالی نہ رہ جائے۔اس دعوت کی تشہیر اور وضاحت کے لیے آپ اپنی صلاحیتوں کو استعمال کریں، لوگوں سے بات چیت کریں، مساجد اور بازاروں میں بیانات دیں، اپنے گھروں اورگلی محلوں میں درسوں کا اہتمام کریں، ایس.ایم.ایس، ای میل، ریڈیو، ٹیلی وژن، فیس بک یعنی ان تمام وسائل اور اسالیب کو استعمال کریں جن سے اللہ سبحانہ و تعالٰی نے آپ کو نوازا ہےاوراس طرح خطے میں موجود ہر مسلمان خلافت کا مطالبہ کرنے لگے اوریہ پورا خطہ خلافت کی پکار سے گونج اٹھے۔ آپ افواج پاکستان میں موجوداپنے والد، بھائیوں اور بیٹوں سے یہ مطالبہ کریں کہ وہ خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کو نصرۃ فراہم کریں تا کہ اس خطے میں امریکہ کو یقینی موت کا شکار بنایا جا سکے۔یہ وہ خلافت ہو گی جو مسلمانوں پر مسلط ذلت و رسوائی کے دور کا خاتمہ کرے گی اوران کے لیے عزت، طاقت اور عروج کے نئے دور کا آغاز کرے گی۔
وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ
"عزت تو صرف اللہ تعالٰی کے لیے اور اس کے رسولﷺ کے لیے اور ایمان والوں کے لیے ہے ، لیکن یہ منافق نہیں جانتے" (المنافقون: 8)۔

Read more...

جھوٹے الزامات خلافت کے قیام کی جدوجہد کو روک نہیں سکتے حزب التحریر نے جیو نیوز چینل کو جھوٹی خبر چلانے پر قانونی نوٹس جاری کر دیا


حزب التحریر نے جیو نیوز چینل کو اس کے خلاف جھوٹی خبر نشر کرنے پر قانونی نوٹس بھیج دیا ہے۔ یہ قانونی نوٹس اس جھوٹی خبر کے حوالے سے جیو نیوز چینل کو بھیجا گیا ہے جو انھوں نے 18 دسمبر 2013 کی رات پروگرام "آج کامران خان کے ساتھ" میں نشر کی تھی۔ اس پروگرام میں یہ کہا گیا کہ حزب التحریر نے ہنگو میں ہونے والے خودکش دھماکے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے جس میں افواج پاکستان کے پانچ فوجی مارے گئے ہیں۔
اس خبر کے نشر ہونے کے بعد حزب التحریر ولایہ پاکستان نے 23 دسمبر 2013 کو جیو نیوز چینل کے نام ایک وضاحتی خط جاری کیا تھا جس میں اس خبر کی تردید کی گئی تھی اور یہ بتایا گیا تھا کہ حزب التحریر خلافت کے قیام کے لیے رسول اللہ ﷺ کے طریقے کی پیروی کرتے ہوئے سیاسی و فکری جدو جہد کرتی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے عسکری جدو جہد کو حرام سمجھتی ہے۔ لہٰذا جیو نیوز چینل سے کہا گیا تھا کہ وہ اس حوالے سے ویسے ہی حزب التحریر کے موقف کوپیش کریں جس طرح انھوں نے اس کے حوالے سے ایک جھوٹی خبر کو نشر کیا تھا۔یہ خط نہ صرف ہماری ویب سائٹ پر جاری ہوا بلکہ کراچی میں جیو کے مرکزی آفس میں بھی بھیجوایا گیا تھا۔
تقریباً ایک ماہ گزر جانے کے باوجود جیو نیوز چینل کی انتظامیہ نے صحافتی اصولوں اور غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حزب التحریر کی تردید کو نشر نہیں کیا۔ لہٰذا اب حزب التحریر نے جیو نیوز چینل کو ایک قانونی نوٹس ارسال کیا ہے ۔ اس نوٹس میں یہ کہا گیا ہے کہ حزب التحریر کسی مسلمان کی جان لینے کا سوچ بھی نہیں سکتی کیونکہ ایسا کرنا اسلام کی رو سے حرام ہے ۔ اس کے علاوہ جس فوج سے حزب نصرۃ طلب کرتی ہے اسے نقصان پہنچانے کا الزام انتہائی مذحکہ خیز اور بچکانہ ہے۔ نوٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس نوٹس کے ملنے کے دس دن کے اندر اگر جیو نیوز چینل نے اس خبر کی تردید اور حزب التحریر کی جانب سے 23 دسمبر 2013 کو جاری کیے گئے ضاحتی خط کو اپنے نشریاتی اداروں کے ذریعے عوام کے سامنے پیش نہ کیا توحزب التحریر اپنے وکیل کے توسط سے ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی شروع کرے گی۔

Read more...

خلافت کے قیام کی جدوجہد کرنا فرض ہے ، جرم نہیں راحیل-نواز حکومت نے خلافت کے داعی کو اغوا کرلیا


24 جنوری 2014 بروز جمعہ ، حکومتی ایجنسی کے غنڈوں نے اسلام آباد میں حزب التحریر کے ایک شاب کو اس وقت اغوا کرلیا جب وہ "جنرل راحیل شریف کے نام کھلا خط" تقسیم کر رہا تھا۔
حزب التحریر ولایہ پاکستان اپنے معزز شاب کے اغوا کی پرزور مذمت کرتی ہے۔ حزب التحریر پوچھتی ہے کہ آخر کیوں حکومت ان زبانوں کو خاموش کرا دینا چاہتی ہے جو ملک سے امریکی سفارت خانے، اڈوں اور ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں؟ کیا ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ خود حکومت کو اس امریکی نیٹ ورک کا خاتمہ کرنا چاہیے جو خفیہ "بلیک آپریشن" اور False Flag حملوں کے ذریعے ہماری افواج اور عوام کو نشانہ بناتے ہیں تاکہ امریکی خوشنودی کے لیے قبائلی عوام اور افواج کے درمیان فتنے کی جنگ کو بھڑکایا جائے؟ آخر راحیل-نواز حکومت کی کیا مجبوری تھی کہ ایک اسلام کے داعی کو ملزم کے کٹھرے میں کھڑا کرنے کی بجائے اسے اغوا کرلیا؟ کیا ایسا تو نہیں کہ انھیں اس بات کا خوف ہے کہ اگر اسے عدالتی کاروائی سے گزارا گاو تواسلام کا پیغام اور خلافت کی پکار مزید لوگوں تک پہنچ جائے گی ؟
اور ہم اپنی مذمت کے ساتھ حکومت کو اس بات کی یاد دہانی بھی کرانا چاہتے ہیں کہ انھوں نے اس معزز شاب کو اغوا کر کے نہ صرف دنیا میں گھاٹے کا سودا کیا ہے بلکہ اللہ کے غصے کو بھی اپنے لیے لازم کرلیا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ایک حدیث قدسی میں فرماتے ہیں ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ قَالَ مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ " اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ جس کسی نے میرے دوست کو نقصان پہنچایا تو میں اس کے خلاف جنگ کا اعلان کردوں گا" (البخاری)۔
حزب التحریر ولایہ پاکستان امت کو یقین دلاتی ہے ظلم و جبر کی اس سیاہ رات کا خاتمہ اب عنقریب ہے۔ وہ تمام لوگ جنھوں نے امریکہ اور جبر کا ساتھ دیا ہے خود کو تبدیلی کی ہواؤں سے محفوظ نہیں رکھ سکتے۔ ان کے بڑوں میں موجود کئی فرعون اور جابر یہ سمجھتے تھے کہ جیسے وہ اس زمین پر لافانی ہیں اور اللہ کے سوا یہ خدا ہیں۔ لیکن انھیں بھی اس دہشت ناک اور شرمناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جسے اللہ نے ان کے لیے مخصوص کردیا تھا ۔ اگر ان میں سے کوئی سمجھدار ہوگا تو وہ ان سے الگ ہو جائے گا اور خلافت کے قیام کی امت کی جدوجہد میں رکاوٹ نہیں ڈالے گا کہ شاید اس کے ساتھ رحم کیا جائے۔
إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا
"اللہ تعالٰی اپنا کام پورا کر کے ہی رہے گا۔ اللہ تعالٰی نے ہر چیر کا ایک اندازہ مقرر کررکھا ہے"(الطلاق:3)

Read more...

سوال کا جواب: سورہ محمد اور کنیزوں کے حوالے سے سوالات

 

سوال :السلام علیکم! شیخ النبہانی رحم اللہ علیہ فرماتے ہیں : سورۃ محمدکی چوتھی آیت معرکہ بدرسے پہلے نازل ہوئی۔اس کی دلیل کیاہے؟ جبکہ جمہور کاقول یہ ہے کہ مذکورہ آیت معرکہ بدرکے بعد نازل ہوئی۔ اگرآپ اس کی وضاحت فرمائیں تومجھے خوشی ہوگی ۔
دوسراسوال یہ کہ اگرشادی شدہ کنیز (لونڈی) سے زناکاجرم صادرہوجائے تو کیا اس کی حد بھی رجم ہوگی؟
جواب:وعلیکم السلام ،ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مجھےآپ کاسوال ترکی زبان میں موصول ہوا، اب عربی میں ترجمہ کیے جانے کے بعد اس کاجواب دے رہاہوں، جواب کاترکی میں بھی ترجمہ کیا جا چکا ہے، جواب کچھ یوں ہے۔
پہلا: جس آیت کے بارے میں آپ نے پوچھاہے ،وہ سورہ محمدﷺ میں ہے۔ (فَإِذَا لَقِیتُمُ الَّذِینَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّى إِذَا أَثْخَنْتُمُوھُم فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَھَا ذَلِكَ وَلَوْ یَشَاءُ اللَہُ لَانْتَصَرَ مِنھُم وَلَكِنْ لِیَبْلُوَ بَعْضَكُمْ بِبَعْضٍ وَالَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللَّہ فَلَنْ یُضِلَّ أَعْمَالَھُمْ) "تو جب کافروں سے تمھاری مڈبھیڑ ہو تو گردنوں پر وار مارو۔ جب ان کو اچھی طرح کچل ڈالو تو اب خوب مضبوط قید و بند سے گرفتار کرو۔ پھر (اختیار ہے) کہ خواہ احسان رکھ کر چھوڑ دو یا فدیہ لے کر، تا وقکتیہ لڑائی اپنے انجام کو نہ پہنچ جائے۔ یہی حکم ہے اور اگر اللہ چاہتا تو (خود) ہی ان سے بدلہ لے لیتا لیکن (اس کی منشاء یہ ہے) کہ تم میں سے ایک کا امتحان دوسرے کے ذریعے سے لے، جو اللہ کی راہ میں شہید کردیے جاتے ہیں اللہ ان کے اعمال ہر گز ضائع نہیں کرے گا" (محمد: 4)
سورۃ محمد معرکہ بدرسے قبل نازل ہوئی، اس کی دلیل یہ ہے:
1۔ بلاشبہ رسول اللہﷺ نے بدرکے دن قیدیوں کے بارے میں فیصلہ کیا، اس کامطلب یہ ہے کہ قیدیوں کے بار ے میں حکم کانزول پہلے ہوچکاتھا کیونکہ آپﷺ وحی کے بغیر کوئی حکم نہیں دیتے تھے۔
2۔ قرآن کریم میں قیدیوں کاحکم صرف سورۃمحمدﷺ میں موجود ہے، یعنی (فَإِمَّا مَنّاً بَعدُ وَإِمَّا فِدَاءً) اس کامطلب ہےکہ یہ آیت بدرکے اس معرکہ سے پہلے نازل ہوئی تھی جس میں قیدی پکڑے گئے تھے ۔
3۔ یہ جو آیت (فَإِذَا لَقِیتُمُ الَّذِینَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّى إِذَا أَثْخَنْتُمُوھُم فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً) ہے، اس کے شروع میں "فَاِذَا" لایاگیاہے، پھر ا س کے متصل بعد ماضی کافعل "لَقِیتُم" لایاگیاہے، اس کامعنی یہ بنتاہے کہ جب تمہاراآمناسامناہوجائے،گویاابھی ہوانہیں ہے، تواس کامطلب یہ ہے کہ حکم کانزول قتال ہوجانے سے پہلے ہوا۔ چنانچہ آیت یہ بتاتی ہے کہ قتال ہوجانے پرقیدیوں کاحکم کیاہے، جبکہ واقعہ بدرکے علاوہ کسی اورموقع پرایساکوئی قتال نہیں ہواہے جس میں قیدی ہاتھ آئے ہوں اورپھران کا حکم بتانے کی ضرورت پڑی ہو۔ (جس کی بنیاد پر یہ ثابت کیاجاسکے کہ یہ آیت بدر کے بعد نازل ہوئی)
4۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کایہ قول (حَتَّى إِذَا أَثْخَنْتُمُوھُم فَشُدُّوا الْوَثَاقَ) اس وقت کےمتعلق حکم کوبیان کرتاہے، جب معرکے میں قیدی ہاتھ آجائیں، اوریہ حکم اچھی طرح خونریزی کے بعد کیلئے ہے، (جیساکہ آیت سے معلوم ہوتاہے)۔ اس سے بھی معلوم ہواکہ یہ آیت بدرسے پہلے نازل ہوئی کیونکہ یہ خونریزی کاموضوع سب سے پہلے بدرمیں پیش آیا۔ لہٰذا اس بات کابیان کہ قیدی بنانا خونریزی کے بعد ہوگا، اس کے ذریعے ایک نئے حکم کوبیان کیاگیاہے جس کابیان تاحال نہیں ہواتھا۔
5۔ اس بناپرآیت کامنطوق اس بات پردلالت کرتاہےکہ یہ آیت قتال پیش آنے سے قبل نازل ہوئی، اورقتال وخونریزی پیش آنے سے پہلے قیدیوں کاحکم بیان کرتی نازل ہوئی (فَإِذَا لَقِیتُمُ) اور (حَتَّى إِذَا أَثْخَنْتُمُوھُم) کو مدنظر رکھتے ہوئے۔ ایسی روایات بھی ہیں کہ سورۃ محمدﷺ بدر کے بعد نازل ہوئی لیکن جب آیت اورحدیث کوجمع کرناممکن نہ ہوتو ایسی صورت توآیت کوحدیث پر ترجیح دی جائے گی، ورنہ جمع اولیٰ ہوگی۔ چونکہ یہاں جمع کرناناممکن ہے، کیونکہ روایات یہ کہتی ہیں کہ قیدیوں کاحکم بدرکے بعد نازل ہوااورآیت کامدلول یہ ہے کہ اس کانزول بدرسے پہلے ہواتھا، اس لئے ترجیح پرعمل ہوگا، چنانچہ آیت کومخالف احادیث پرترجیح دی گئی۔
اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ قیدیوں کے بارے میں حکم صرف اورصرف سورۃ محمدﷺ میں ہے، جبکہ بدرکے علاوہ قتال کاکوئی اورواقعہ ایساپیش نہیں آیا جہاں قیدیوں کاحکم بیان کرنے کی ضرورت ہو، اوریہ کہ رسول اللہﷺ نے بدر میں ہی قیدیوں کے بارے میں فیصلہ کیا، حالانکہ آپﷺ بغیر وحی کے حکم نہیں دیتے ۔
دوسرا : جہاں تک شادی شدہ لونڈی کے بارے میں آپ کاسوال ہے، اگروہ زناکی مرتکب ہوجائے تواسے پچاس کوڑے لگائے جائیں گے ۔اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کایہ قول ہے (فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَیْنَ بِفَاحِشَۃٍ فَعَلَیْھِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِیَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ وَأَنْ تَصْبِرُوا خَیْرٌ لَكُمْ وَاللَّہُ غَفُورٌ رَحِیمٌ) "پس جب یہ لونڈیاں نکاح میں آجائیں پھر اگر بے حیائی کا کام کریں تو انھیں آدھی سزا ہے اس سزا سے جو آزاد عورتوں کی ہے۔کنیزوں سے نکاح کا یہ حکم تم میں سے ان لوگوں کے لیے ہے جنھیں گناہ اور تکلیف کا اندیشہ ہو اور تمہارا ضبط کرنا بہت بہتر ہے اور اللہ تعالی بڑا بخشنے والا اور بڑی رحمت والا ہے" (النساء: 25)
اس آیت میں (نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ) کامطلب ہے کہ ان کی سزازناکرنے والی غیرشادی شدہ آزاد عورت کی نصف سزاکے بقدرہے۔ پس یہاں محصنۃ کامعنی غیر شادی شدہ آزاد عورت ہے، ایسی عورت جب زناکی مرتکب ہوجائے تواس کی سزاسوکوڑے ہیں اوراس کانصف پچاس ہے۔ یہاں محصنۃ سے شادی شدہ آزاد عورت مراد نہیں، جس سے زناکاعمل صادرہواہوکیونکہ اس صورت میں اس کی حد رجم ہے جسے آدھانہیں کیاجاسکتا۔ لہٰذا نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ کاآنااس بات کاقرینہ ہے کہ نصف سے مراد اس آزاد عورت کی حد ہے جو غیر شادی شدہ ہواوراس سے زناکاارتکاب ہوجائے، تواسے سو کانصف یعنی "پچاس کوڑے" لگائے جائیں گے۔
مطلب یہ ہے کہ ریاست خلافت ان پر پچاس کوڑوں کی سزاجاری کرے گی کیونکہ حدود کے نفاذ کا کام ریاست کی ذمہ داری ہے نہ کہ افراد کی۔ یہ امر نہایت اہم ہے ،جس کاادراک ضروری ہے ۔ لیکن شادی شدہ لونڈی کے بارے میں آپ کے اس سوال سے مجھے ایک اورخدشہ پیداہوا، کیونکہ اس وقت لونڈیاں موجود نہیں توخدشہ یہ ہے کہ یہ آپ کیوں پوچھ رہے ہو؟
کہیں ایساتونہیں کہ لونڈی سےآپ کی مرادخادمہ آزاد عورت ہو، لہٰذااس کوملک یمین ( ملکیت) نہ سمجھا جائے، یعنی یہ کہ وہ لونڈی نہیں جسے آزاد عورت کی نصف سزاکے بقدرسزادی جائے بلکہ خادمہ آزاد عورت ہوتی ہے، اس کے احکامات وہی ہیں جوکسی بھی آزادعورت کے ہوتے ہیں ۔سواس کوخوب سمجھناضروری ہے ،یعنی جوحکم آیت میں مذکورہے وہ ان لونڈیوں کاہے جوملکیت میں ہوں، جبکہ اس قسم کی لونڈیاں آجکل موجود نہیں، اورخادمائیں آزادہیں۔
آپ کابھائی ،
عطاء بن خلیل ابوالرَشتہ

Read more...

مستقبل میں معاشی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان لازماً امریکہ سے اپنے تعلقات کو ختم کردے


تحریر: عابد مصطفی
حالیہ دنوں میں پاکستان کے کئی معروف لوگوں نے پاکستان کی معیشت اور اس کے مستقبل کے حوالے سے قوم کو اچھی امید دلائی ہے۔ 10نومبر 2013 کو پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اسحاق ڈار نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت دنیا کی گیارہویں بڑی معیشت بن جائے۔ 2012 میں جاری ہونے والی ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق اس پاکستان کی معیشت 231بلین ڈالر کی کل قومی پیداوار کے ساتھ دنیا میں ترتالیسویں (43) نمبر پر ہے جبکہ کینیڈا کی معیشت 1800بلین ڈالر کی کل قومی پیداوار کے ساتھ دنیا میں گیارہویں نمبر پر ہے۔
اسحاق ڈار کے اس اعتماد سے بھر پور بیان کی تائید کچھ دنوں کے بعد وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، تعمیرات و اصلاحات احسن اقبال نے بھی کی۔ 12 نومبر 2013 کو امریکہ کی ہاروڈ یونیورسٹی میں ایک لیکچر دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ "پروگرام پاکستان 2025 پاکستان کو ایک مضبوط معیشت کے حامل ملک میں تبدیل کردے گا اور اس کا شمار اپر مڈل انکم والے ممالک میں ہونے لگے گا"۔ انھوں نے مزید کہا کہ "خطے کے ممالک کو جوڑنے والے منصوبوں کے ذریعے پاکستان خطے کے ممالک کو جوڑنے والے ممالک کا مرکز بناجائے گا، ہم ایشیا میں تین ارب نئی مارکٹیں پیدا کرسکیں گے جس میں جنوبی ایشیا، چین اور وسطی ایشیا شامل ہوں گے جو عالمی معیشت کے لیے زبردست مواقع پیدا کریں گی"۔ ایسا لگتا ہے کہ اسحاق ڈار اور احسن اقبال دونوں یہ بلند بانگ معاشی دعوے اس منصوبے کی بنیاد پر کر رہے ہیں جس کا عنوان ہے "پاکستان اکیسویں صدی میں: وژن 2030"۔ اس منصوبے کو پلاننگ کمیشن آف پاکستان نے تیار کیا ہے۔ اس منصوبے میں معاشی وژن کو اس طرح اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ "سات سے آٹھ فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھتی معیشت کے ساتھ پاکستان اس بات کی امید رکھتا ہے کہ وہ مڈل انکم والے ممالک کی فہرست میں شامل ہوجائے گا اور اس کی کل قومی پیداوار 2030تک 4000بلین ڈالر ہوجائے گی۔ یہ تیز ترین شرح پیداوار انسانی وسائل اور تعمیراتی اور ٹیکنالوجیکل سہولیات کو بہتر بنا کر حاصل کی جائے گی"۔
ایک الگ مگر اس سے متعلق منصوبے میں حکومت پاکستان نے 2025کے پاکستان کے لیے مختلف توانائی کے وسائل کو استعمال کرنے کے حوالے سے ایک ورکنگ گروپ کے اجلاس کا افتتاح کیا۔ 14نومبر 2013 کو اس گروپ نے سیکریٹری برائے منصوبہ بندی، تعمیرات و اصلاحات حسن نواز تارڑ کی قیادت میں اجلاس منعقد کیا جس میں کئی ممتاز سکالرز، ماہرین اور سائنسدانوں نے شرکت کی۔ اس ورکنگ گروپ کا فوری ہدف پاکستان کے سنگین توانائی کے بحران کو حل کرنا ہے۔ سینئر چیف برائے توانائی فرخند اقبال نے اپنے ابتدائی کلمات میں کہا کہ ملک اس وقت سنگین مسائل کا سامنا کررہا ہے، ہمارے کارخانے بند ہورہے ہیں، برآمدات کم ہورہی ہیں اور اوسط فی کس آمدنی کم ہورہی ہے۔ مختصراً انھوں نے کہا کہ معیشت کا توانائی والا حصہ ملک میں توانائی کی کمی کی بنا پر بری طرح سے متا ثر ہو رہا ہے۔ انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ گیارہواں پانچ سالہ منصوبہ(18-2013) اور وژن 2025ماضی کے منصوبوں کی طرح نہیں ہونے چاہیے بلکہ انھیں حقیقت پر مبنی ہونا چاہیے، جو انتہائی ضروری ہوں اور جنھیں مکمل بھی کیا جاسکے تاکہ اگلی دہائی کے لیے جو شرح پیداوار حاصل کرنا چاہتے ہیں اسے حاصل کیا جاسکے اور پاکستان کی معیشت کو ایک ایسی معیشت میں تبدیل کیا جاسکے جس کی بنیاد صنعتی علوم پر ہو۔
پاکستان کی دم توڑتی معیشت اور سنگین توانائی کے بحران کو حل کرنے کے حوالے سے موجودہ حکومت بھی پچھلی حکومتوں سے مختلف نہیں ہے۔ اب تک ان مسائل کو حل کرنے میں کوئی بھی حکومت کامیاب نہیں ہوئی ہے اور اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ موجودہ نواز شریف کی حکومت کوئی زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکے گی۔ اس وژن کی جزئیات کو پڑھے بغیر بھی یہ بات واضح ہے کہ اس میں ایک مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ حکومت کس وژن کو اختیار کررہی ہے ،آیا وہ وژن 2025 ہے جسے فرخند اقبال ، اسحاق ڈار اور احسن اقبال نے تیار کیا ہے یا وژن 2030 جسے منصوبہ بندی کمیشن نے تیار کیا ہے۔ شاید کوئی اس صورتحال کو حکومتی وزارتوں کے درمیان روابط کا فقدان کہے لیکن موجودہ صوتحال کی سنگینی کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کیونکہ اگر حکومتی وزارتوں کے درمیان روابط کمزور ہوں گے تو ان منصوبوں پر عمل درآمد کی شروعات بھی کمزور ہونگی اور یہ صورتحال ملک کے مستقبل کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔
وژن کے علاوہ بھی حکومت اب تک ایسی واضح اور بھر پور حکمت عملی بنانے میں ناکام رہی ہے جو وژن 2030 کو کامیاب بنانے کے لیے درکار ہے۔ مثال کے طور پر اس حوالے سے حکومت کی کیا حکمت عملی ہے جو وژن میں بیان کیے گئے اس ہدف کہ "پاکستان اس بات کی امید رکھتا ہے کہ وہ مڈل انکم ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے گا اور اس کی کل قومی پیداوار 2030 تک 4000 بلین ڈالرہوجائےگی"، کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے۔ منصوبہ بندی کمیشن کی جانب سے جاری کیے جانے والےوژن2030کی دستاویز اور سیاست دانوں کے عوامی بیانات نہ صرف افسوس ناک حد تک کمزور ہیں بلکہ یہ بات انتہائی اعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ وژن وہی پرانی شراب ہے جسے مغربی معاشی ماہرین اور اداروں نے تیارکیا ہے جیسا کہ آئی۔ایم۔ایف، اور پھر اسے پاکستان کی عوام کے سامنے پیش کردیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ، 4اکتوبر 2013 کو ایک اخبار "دی نیشن" نے یہ بات رپورٹ کی کہ حکومت نےموجودہ مالی سال 14-2013 میں اکتیس(31) حکومتی اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کرلیا ہے اور اس میں بینکنگ، پیٹرولیم اور توانائی کے شعبوں کی کمپنیاں شامل ہیں۔ اس فیصلے کے بدلے میں پاکستان نے آئی۔ایم۔ایف سے تقریباً ساڑھے چھ ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کرلیا۔
پاکستان کی معاشرتی ترقی کے لیے اس کی اہم ترین اور قیمتی اداروں کو بیچ دینے کی یہ حکمت عملی معیشت کی تباہی اور مغربی اداروں کی غلامی اختیار کرنے کا نسخہ ہے۔ نجکاری کے فوائد صرف غیر ملکی ہی حاصل کرتے ہیں اور اس حقیقت کو جاننے کے لیے مشرف اور زرداری کے ادوار میں کی جانے والی نجکاری کو دیکھنا ہی کافی ہے۔ ان غیر ملکیوں کو اس بات کی اجازت ہوتی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے قیمتوں کا تعین کریں ، انتہائی کم ٹیکس یا کوئی ٹیکس ہی نہ دیں اور منافعوں کو اپنے ملک بھیج کر پاکستان کی معیشت کو کمزور کرنے کی قیمت پر اپنے ممالک کی معیشتوں کو مضبوط کرتے رہیں ۔ یہ نقصان اس مالی بدعنوانی کے علاوہ ہے جو اس نجکاری کے عمل کے دوران لازمی پاکستان کے سیاست دانوں کواپنے گھیرے میں لے لیتی ہے۔ کچھ لوگوں نے صرف مشرف کے دور میں ہونے والی نجکاری کے دوران 1550ارب روپے کی مالی بدعنوانی کا اندازہ لگایا ہے ("پاکستان: مشرف کے دور میں نجکاری کے دوران 24ارب ڈالر کی بدعنوانی"، ایشیا پیسیفک ایکشن آن لائن)۔
لہٰذا یہ ظاہر ہوتا ہے کہ گیارہواں پانچ سالہ منصوبہ بھی اسی سمت میں رواں دواں ہےجس جانب پچھلے پچپن سال کے منصوبے گامزن تھے یعنی پاکستان کی معاشی خودمختاری کو کمزور اور ہمارے پچوں کو ایک تابناک مستقبل سے محروم کردیا جائے۔ اس کے علاوہ اس قسم کی حکمت عملی سے پاکستان 58ارب ڈالر کے بیرونی قرضے بھی ادا نہیں کرسکتا اور نہ ہی 2030 تک اپنی معیشت کو اس قدر ترقی دے سکتا ہے کہ وہ 230سے 260ملین پاکستان کی آبادی کی ضروریات کو پورا کرسکے۔
پاکستان کے لیے کسی بھی معاشی وژن اور حکمت عملی کے لیے ضروری ہے کہ وہ وژن اور حکمت عملی ملک کی معیشت کو درپیش موجودہ مسائل کی بنیادی وجوہات کا تعین کرے۔ کوئی بھی ایسا حل جو موجودہ مسائل کی بنیادوں کو نظر انداز کردے کبھی بھی ملک کو معاشی خودمختاری کی منزل کی جانب گامزن نہیں کرسکتا۔
پاکستان کی بدحال معیشت کے پس پردہ تین عوامل ہیں: امریکہ، اس کے استعماری ادارے آئی۔ایم۔ایف اور ورلڈ بنک اور خوفناک بدعنوانی۔ آئیے ان تین عوامل کا فرداً فرداً جائزہ لیں۔
جب سے امریکہ نے یوریشیا کے خطے میں عملی مداخلت شروع کی ہے خصوصاً افغانستان پر سویت یونین کے حملے کے بعد، پاکستان کی معیشت درجہ بہ درجہ زوال پزیر ہوتی گئی ہے۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے لیکن اس کا اقرار سرکاری دستاویزات یا معاشی رپورٹوں میں نہیں کیا جاتا کیونکہ پاکستان کی اشرافیہ خودکشی پر مبنی امریکہ کے ساتھ کام کرنے اور اس کی خدمت گزاری کی پالیسی کو جاری رکھنا چاہتی ہے۔ پاکستان حکام اس حقیقت کو چھپانے کی کتنی ہی کوشش کیوں نہ کریں لیکن یہ حقیقت چُھپ نہیں سکتی اور وہ کبھی کبھی اس حقیقت کو ظاہر کردیتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں، وزیر مملکت برائے شمالی علاقہ جات عبدالقدیر بلوچ نے کہا کہ تیس سالوں میں پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کی دیکھ بحال پر 200ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔ اٖفغان مہاجرین کا مسئلہ واضح طور پر پاکستان کو سرد جنگ کے زمانے میں سویت یونین کے خلاف استعمال کرنے کا نتیجہ ہے۔
اسلام کے احکامات کے مطابق پاکستان نے اپنے افغان بھائیوں کی بہترین خدمت کی لیکن امریکہ نے اس حوالے سے پچھلے تیس سالوں میں پاکستان کی بہت کم مدد کی۔ حالیہ دنوں میں خود ساختہ بین الاقوامی برادری کی جانب سے شروع کی گئی مہم کے نتیجے میں بھی بہت ہی کم رقم جمع کی گئی۔ بین الاقوامی امداد فراہم کرنے والوں نے افغان مہاجرین کے لیے 600ملین ڈالر کا وعدہ کیا لیکن محض 15 ملین ڈالر ہی مہیا ہوسکے۔ لہٰذا ایک بار پھر پاکستان خود ہی اپنے افغان بھائیوں کی ذمہ داری کو اٹھاتا رہے گا جبکہ پاکستان سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے اپنے شہریوں کی بنیادی ضروریات بھی پورا نہیں کرسکتا۔
اکیسویں صدی کی ابتداء میں امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اسلام کے خلاف ایک نئی جنگ کا آغاز کردیا۔ اس جنگ کا مرکزی محاذ پاکستان تھا اور اس کے اثرات ملک پر انتہائی خوفناک تھے خصوصاً ملک کی معیشت پر۔ 23 اکتوبر 2013 کو جیو ٹی وی نے بتایا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نے پاکستان کو 100ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے۔ اس نقصان کے بدلے پاکستان کو 12-2002کے درمیان 25 ارب ڈالر ملے جس میں 17ارب ڈالر فوجی امداد اور 8 ارب ڈالر معیشت کو سنوارنے کے نام پر دیے گئے۔ اس امدادی پیکیج کی اہمیت انتہائی کم ہوجاتی ہے جب اس کو 66سال کے عرصے پر پھیلا دیا جائے۔ 1948سے 2012 تک پاکستان نے امداد کے نام پر 68 ارب ڈالر وصول کیے۔ اس امداد میں 42 ارب ڈالر معیشت کے لیے جبکہ باقی 26 ارب ڈالر فوجی امداد کے نام پر دیے گئے۔ لیکن درحقیقت اس امداد کا کوئی فائدہ نہ ہوسکا کیونکہ اس عرصے کے دوران امریکہ پاکستان پر معاشی پابندیاں بھی عائد کرتا رہا۔ سب سے پہلے 1979 میں امریکہ نے پاکستان پر پابندیاں عائد کیں۔ پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ برائے بین الاقوامی معیشت نے 1979 سے 1998 تک ان پابندیوں کے اثرات کو جمع کیا جو 1 ارب ڈالر کے برابر تھا اور یہ نقصان اس نقصان سے کئی گنا چھوٹا ہے جو پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کو امریکی مفادات کے تابع کرنے کی بنا پر اٹھانا پڑا ہے۔
پاکستان کی معیشت کو تباہی و بربادی سے دوچار کرنے کی دوسری بڑی وجہ امریکی نگرانی میں بننے والی آئی۔ایم۔ایف اور ورلڈ بینک کی پالیسیاں ہیں۔ 1971 سے 2010کے درمیانی چالیس سالوں میں سے 29 سالوں میں پاکستان نے آئی۔ایم۔ایف سے بھاری قرضے حاصل کیے ہیں۔ اس وقت پاکستان کا بیرونی قرضہ تقریباً 58ارب ڈالر ہے یعنی کل قومی پیداوار کا 24فیصد اور برآمدات کا 200 فیصد۔ آئی۔ایم۔ایف اور ورلڈ بینک یہ کہتے ہیں کہ کم آمدنی والے ممالک کے لیے قرضے ادا کرنا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے اگر ان کے قرضے ان کی کل قومی پیداوار کا 30 سے 50 فیصد تک پہنچ جائیں یا 100 سے 200 فیصد برآمدات کے برابر ہوجائیں۔ لیکن اس کے باوجود آئی۔ایم۔ایف اپنے ہی جاری کردہ انتباہ (warnings) کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کو اب بھی اربوں ڈالر کے مزید قرضے دینے کے لیے راضی ہے۔
درحقیقت پاکستان کے عوام آئی۔ایم۔ایف اور ورلڈ بینک کے حکام کے دوروں کے بعد نازل ہونے والے معاشی بحرانوں کا سامنا کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ عام طور سے پاکستان کے لیے جو نسخہ آئی۔ایم۔ایف پیش کرتا ہے وہ یہ کہ نجکاری ، پیٹرول ، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ، روپے کی قدر میں کمی، سیلز ٹیکس کے نفاذ کے ذریعے محصولات میں اضافہ، درآمدات پر عائد ٹیکسوں میں کمی کی جائے ۔ اس کے علاوہ بھی جو بھی اقدامات تجویز کیے جاتے ہیں ان تمام سے پاکستان کی بیرونی امدادا فراہم کرنے والے اداروں اور ممالک پر انحصار اور قرضوں میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ اگر سادہ الفاظ میں بیان کیا جائے تو آئی۔ایم۔ایف کی پالیسیاں کبھی بھی پاکستان کے مالیاتی خسارے کو ختم کرنے اور ادائیگیوں کے توازن کو درست کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہوئی ہیں۔ آئی۔ایم۔ایف کی پالیسیاں صرف یہ کام کرتی ہیں کہ وہ قرضہ لینے والے ملک سے اس بات کا اقرار کروالیتی ہیں کہ وہ مزید قرضوں کا بوجھ اور اس پر ادا ہونے والے سود کو برداشت کرے گا۔ پچھلے پانچ سالوں میں اوسطاً پاکستان بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں پر سوا دو ارب ڈالر خرچ کرتا رہا ہے۔ یہ رقم پاکستان کی برآمدات کے 10فیصد اور محاصل کے 10فیصد کے برابر ہے اور تعلیم اور صحت پر خرچ ہونے والی رقم کا نصف ہے ("قرضے کی زنجیروں سے نجات: پاکستان کے لیے قرضوں میں نرمی"، اسلامک ریلیف اینڈ جوبلی ڈیٹ کیمپین، جولائی 2013)۔
اور آخر ی بات، امریکی سرپرستی میں پاکستان میں کرپشن نے دن دُگنی اور رات چوگنی ترقی کی ہے۔ اس حوالے سے سیاسی و فوجی حکومت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ہر اس حکومت میں کرپشن نے فروغ حاصل کیا ہے جسے براہ راست امریکی آشیر باد حاصل رہی ہے۔ مثال کے طور پر ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان ناقابل یقین 8500ارب روپے کی رقم سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ یہ رقم کرپشن، ٹیکس کی چوری اور بری حکمرانی کے نتیجے میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے چار سالہ دور اقتدار کے دوران کھو دی گئی۔
خلاصہ یہ ہے کہ 1979 سے پاکستان کی امریکہ کو بے لوث حمائت فراہم کرنے کے نتیجے میں اس کی معیشت کو 410 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ پاکستان میں موجود انتہا پسند آزاد خیال اور بنیاد پرست سیکولر حضرات کو بھی اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ پاکستان کی معاشی خود مختاری میں مسلسل اور تیز رفتار کمی کی واحد وجہ پاکستان کے امریکہ سے تعلقات ہیں۔
اگر پاکستان کی معیشت کو بڑھوتری اور خودانحصاری کی راہ پر ڈالنا ہے تو معاشی پالیسی سازوں کو امریکہ سے تعلقات کو توڑنا ہو گا اور ایسا وژن 2030 بنانا ہوگا جس میں امریکہ اور اس کے استعماری اداروں کاکوئی کردار نہ ہو۔ لیکن یہ صرف پہلا قدم ہوگا۔ ایک مکمل اور مستقل حل کے لیے ضروری ہے کہ جمہوریت اور آمریت سے جان چھڑائی جائے جو انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کو نافذ کرتی ہیں اور انھیں اللہ کے قوانین پر فوقیت دیتی ہیں۔ ان طرز حکمرانی کے ذریعے امریکہ پارلیمنٹ اور انتظامیہ میں موجود اپنے حمائتیوں کے ذریعے ایسے قوانین منظور کرواتا ہے جو سرمایہ داریت پر مبنی ہوتے ہیں اور جو صرف امریکہ کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ یہ ہے وہ اصل وجہ جس کی بنا پر پاکستان کے عوام اس بدحالی کا شکار ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں: وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا "اور جوکوئی اس ذکر (قرآن) سے منہ موڑے گا اس کی زندگی تنگ کردی جائے گی" (طحہ:124)۔
اور صرف خلافت کے ذریعے ہی اقتدار اعلی اور حاکمیت اللہ کی جانب دوبارہ لوٹا دی جائے گی اور امریکہ مفادات کی طابع سرمایہ دارانہ پالیسیوں کا دور ختم ہوجائے گا۔

Read more...

ولایہ ترکی: جنیوا-2 کی سازشوں کو بے نقاب کرنے کے لئے استنبول میں سیمینار

حزب التحریر / ولایہ ترکی کے زیر اہتمام جنیوا-2 کانفرنس کو بے نقاب کرنے کے لئےدور رس مہم کا ایک تسلسل۔ یہ سیاسی سیمینار استنبول کے ایک قصبے أرناؤوط میں منعقد کیا گیا جس کا عنوان تھا "شام کے خلاف جنیوا-2 کا پُر فریب منصوبہ"

 

تصویری سلائیڈ کے لئے یہاں کلک کریں

Read more...

تفسیر سورۃ البقرۃ 101 تا 103

مشہور فقیہ اور رہنما، امیر حزب التحریر، شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کی کتاب "التیسیرفی اصول التفسیر" سے اقتباس

(ترجمہ)

 

وَلَمَّا جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِيقٌ مِنْ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ كِتَابَ اللَّهِ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ كَأَنَّهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ (البقرة: 101)
وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولاَ إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلاَ تَكْفُرْ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ وَمَا هُمْ بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللَّهِ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلاَ يَنفَعُهُمْ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنْ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الآخِرَةِ مِنْ خَلاَقٍ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنفُسَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (البقرة: 102)
وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ خَيْرٌ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (البقرة: 103)

"جب کبھی ان کے پاس اللہ کا کوئی رسول ان کی کتاب کی تصدیق کرنے والا آیا، ان اہل کتاب کے ایک فرقے نے اللہ کی کتاب کو اس طرح پیٹھ پیچھے ڈال دیا گویا جانتے ہی نہ تھے " (البقرۃ:101)
"اور اس چیز کے پیچھے لگ گئے جسے شیاطین سلیمان کی حکومت میں پڑھتے تھے۔ سلیمان نے کفر نہ کیا تھا بلکہ یہ کفر شیطانوں کا تھا، وہ لوگوں کو جادو سِکھایا کرتے تھے اور بابل میں ہاروت اور ماروت دو فرشتوں پر جو اتارا گیا تھا وہ دونوں بھی کسی شخص کو اس وقت تک نہیں سِکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو ایک آزمائش ہیں، تو کفر نہ کر، پھر لوگ ان سے وہ سیکھتے جس سے خاوند و بیوی میں جدائی ڈال دیں اور دراصل وہ بغیر اللہ تعالٰی کی مرضی کے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے ، یہ لوگ وہ سیکھتے ہیں جو انھیں نقصان پہنچائے اور نفع نہ پہنچا سکے اور وہ جانتے ہیں کہ اس کے لینے والے کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور وہ بدترین چیز ہے جس کے بدلے وہ اپنے آپ کو فروخت کررہے ہیں ، کاش کہ یہ جانتے ہوتے" (البقرۃ:102)
"اگر یہ لوگ صاحب ایمان متقی بن جاتے تو اللہ کی طرف سے انہیں بہترین ثواب ملتا، اگر یہ جانتے ہوتے" (البقرۃ:103)

 

ان آیات میں اللہ سبحانہ وتعالٰی یہ بیان فرماتے ہیں:
1 ۔ یہود رسول اللہﷺ کی مخالفت کرتے تھے اور تورات کے ذریعے بحث کرتے تھے اور اس کے ذریعے سوال کیا کرتے تھے جیسا کہ آپﷺ سے روح، اہل کہف اور ذو القرنین کے بارے میں سوال کیے۔ رسول اللہﷺ کو اللہ کی طرف سے وحی کی گئی اور آپ ﷺ قرآن سے ان کو جواب دیتے، اور مزید براں ان کی بعض تحریفات کو بے نقاب کرتےجیسا کہ انہوں نے زانی کے سنگسار اور رسول اللہﷺ کے اوصاف جو تورات میں مذکور ہیں، کو تبدیل کیا۔ تورات میں بھی رسول اللہﷺ کی بعثت کی بشارت دی گئی تھی۔ جس وقت وہ دیکھتے تھے کہ تورات کے ذریعے حجت بازی بھی ان کی خواہشات کے برعکس ہے تو اس سے بھی منہ موڑتے اور اس کو پس پشت ڈال دیتے (گویا وہ جانتے ہی نہیں ) یعنی وہ تورات کو بھی اس طرح پھینک دیتے کہ گویا وہ اس پر ایمان ہی نہیں رکھتے اور اس میں موجود رسول اللہﷺ کے اوصاف کی سچائی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ یہ ان کی جانب سے روگردانی میں حد سے زیادتی کا ذکر ہے کہ تورات میں رسول اللہﷺ کی نبوت کے جو دلائل ہیں، وہ جان بوجھ کر ان سے منہ پھیر لیتے تھے۔
جب ان کو علم ہو گیا کہ وہ تورات کے ذریعے حجت بازی کر کے رسول اللہﷺ کی مخالفت میں ناکام ہوچکے ہیں تو انہوں نے تورات کے علاوہ دوسرے وسائل کی تلاش شروع کردی تاکہ ان کے ذریعے رسول اللہﷺ سے حجت بازی کی جاسکے۔
2۔ جب اللہ نے اپنے رسولﷺ پر یہ آیت نازل کی کہ سلیمان نبی تھے إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَى نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَوْحَيْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالأَسْبَاطِ وَعِيسَى وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَيْمَانَ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا " ہم ہی نے تمہاری طرف وحی بھیجی جس طرح کہ ہم نے نوح اور اس کے بعد آنے والے نبیوں کی طرف وحی بھیجی۔ ہم نے ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اوریعقوب اور ان کی اولاد پر اورعیسی اورایوب اوریونس اورہارون اور سلیمان کی طرف وحی بھیجی اور ہم نے داود کو زبور عطا فرمائی" (النساء: 163)، اس پر یہود نے کہا: سلیمان تونبی نہیں بلکہ جادوگر تھے،پھر انہوں نے وہ کتابیں جمع کیں جن کو جادوگروں نے شیاطین کی مدد سے سلیمان کے دور حکومت میں لکھا تھا۔ یہ کتابیں مدینہ منورہ میں پھیلی ہوئی تھیں۔ یہود نے کہا کہ یہ وہ کتابیں ہیں جن کے ذریعے سلیمان حکومت کیا کرتے تھے اور انہی کو رسول اللہﷺ کے ساتھ حجت بازی کا مواد بنا یا وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَان "اور اس چیز کے پیچھے لگ گئے جسے شیاطین سلیمان کی حکومت میں پڑھتے تھے"۔
مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ " جو شیاطین پڑھتے تھے" یعنی جو وہ پڑھتے یا وحی کرتےیا وسوسہ کر تے جادوگروں کو تاکہ وہ اس کو اپنی کتابوں میں لکھ لیں، يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا "ان میں سے بعض بعض کو دھوکے سے مزیّن کی گئی باتیں وحی کرتے ہیں (الانعام:112)۔ اسلام سے قبل شیاطین آسمان سے کچھ باتیں چھپ کر سنتے تھے اور اس میں کئی ایک قسم کی جھوٹی باتیں شامل کر کے اپنے اولیاء (دوستوں) کو وحی (القاء) کرتے تھے، آسمان والے ایک دوسرے سے باتیں پوچھتے تھے یہاں تک کہ کوئی خبر دنیا کے آسمان تک آتی تو جِن اس کو چھپ کر سن لیتے اور اس کو اپنے اولیاء تک پہنچاتے۔ اس میں جو کچھ حق اور سچ ہو تا اس میں اپنی طرف سے کچھ اضافہ کرتے۔ اسلام کے بعد جنات کو اس طرح چھپ کر سننے سے منع کیا گیا، وَأَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَنْ يَسْتَمِعْ الآنَ يَجِدْ لَهُ شِهَابًا رَصَدًا "اس سے پہلے ہم باتیں سننے کے لیے آسمان میں جگہ جگہ بیٹھ جایا کرتے تھے، اب جو بھی کان لگاتا ہے وہ ایک شعلے کو اپنی تاک میں پاتا ہے" (الجن:9)۔
عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ "یعنی سلیمان کے عہد میں"۔
3۔ جادو کی ان کتابوں کوجادوگروں نے دوطریقے سے لکھا تھا:
پہلا:شیاطین سے جو جادو ان کو وسوسہ کرتے تھے،
دوسرا: جو دوفرشتوں، ہاروت اور ماروت نے لوگوں کو سِکھایا تھا۔ ان دونوں کو اللہ نے بابل میں اتارا تھا۔ یہ لوگوں کو سحر سِکھاتے تھے اور ان کو تنبیہ بھی کرتے تھے کہ اس پر عمل نہ کرنا۔ وہ بتاتے تھے کہ ان کو لوگوں کی آزمائش اور امتحان کے لیے اتارا گیا ہے، وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولاَ إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلاَ تَكْفُرْ " وہ دونوں بھی کسی شخص کو اس وقت تک نہیں سیکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو ایک آزمائش ہیں، تو کفر نہ کر"۔ اللہ ہی نے اس زمین پر خیر وشر کو نازل کیا تا کہ اپنے بندوں کو خیر اور شر کے ذریعے آزمائے، وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً " ہم امتحان کے لیے تمہیں خیر و شر سے آزمائیں گے" (الانبياء: 35)۔
لوگوں کو جادو سِکھانا بھی ان کی آزمائش کے لیے تھا چنانچہ جو جادو (سحر) پر ایمان لایا اور اس پر عمل کیا تو اس نے کفر کیا۔ جو جادو (سحر) پر ایمان نہیں لایا اور عمل نہیں کیا تواس نے نجات حاصل کرلی، إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلاَ تَكْفُرْ "ہم تو ایک آزمائش ہیں، تو کفر نہ کر" (ابقرۃ: 102)۔
4۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی اپنے نبی سلیمان علیہ السلام کو یہود کے جھوٹ اور بہتان سے بری قرار دیتے ہیں۔ سلیمان علیہ السلام نے کوئی کفر نہیں کیا کیونکہ آپ جادوگر (ساحر) یا جادو پر ایمان لانے والے نہیں تھے اس وجہ سے کافر بھی نہیں تھے بلکہ اللہ کے نبی تھے، اللہ کی سلامتی ہو ان پر، وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ "سلیمان نے کفر نہیں کیا" یعنی آپ جادوگر یا جادو پر ایمان رکھنے والے نہیں تھے۔ ان دلائل میں اس بات کاتعین ہو گیا کہ یہود نے سلیمان علیہ السلام پر جادوگر ہونے کی تہمت لگائی تھی۔ ابن جریر نے شہر بن حوشب سے روایت کی ہے کہ: "یہودیوں نے کہا کہ دیکھو محمد حق اور باطل کو خلط ملط کر رہے ہیں اور سلیمان کا ذکر انبیاء کے ساتھ کررہے ہیں حالانکہ وہ تو ایک جادوگر تھے جو ہوا پر سوار ہوتے تھے" انہوں نے سلیمان علیہ السلام کو کافر نہیں کہا تھا لیکن اللہ نے ان کو جواب دیا کہ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ "سلیمان نے کفر نہیں کیا" یعنی جادو (سحر) نہیں کیا، لیکن اس آیت میں (کفر) کامجازی استعمال اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جو جادو پر ایمان رکھتا ہے اور جادو کرتا ہے جیسا کہ ہم نے کہا کہ عربی لغت کے لحاظ سے اس تعلق (سبب ) کی وجہ سے کافر ہو جاتا ہے۔
اسی طرح سلیمان نے کفر نہیں کیا بلکہ جنہوں نے کفر کیا وہ شیاطین ہیں، وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولاَ إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلاَ تَكْفُرْ" سلیمان نے کفر نہ کیا تھا بلکہ یہ کفر شیطانوں کا تھا، وہ لوگوں کو جادو سِکھایا کرتے تھےاور بابل میں ہاروت اور ماروت دو فرشتوں پر جو اتارا گیا تھا وہ دونوں بھی کسی شخص کو اس وقت تک نہیں سِکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو ایک آزمائش ہیں، تو کفر نہ کر"۔
5۔ سحر(جادو) کسی شے کو اس کی حقیقت کے برعکس ظاہر کرنے کو کہتے ہیں۔اللہ تعالٰی کے اس قول کا بھی یہی معنی ہے کہ، سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ "لوگوں کی آنکھوں پر جادو کیا" (الاعراف: 116)، يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَى "ان کے سحر سے ایسال خیال کرنے لگا کہ وہ دوڑ رہا ہے" (طہ: 66)، یعنی لاٹھی حقیقت میں لاٹھی ہی رہی لیکن دیکھنے والے کی نظروں میں وہ ایک سانپ بن کر دوڑ رہی تھی۔ لغت میں جوہری نے کہا ہے کہ: سحر اخذ (یا پکڑ) کو کہتے ہیں اور ہر وہ چیز جس کا اخذ لطیف اور دقیق ہو وہ سحر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سحرت الصبي إذا خدعته "میں نے بچے پر جادو کیا جب اس کو دھوکہ دیا" عرب کے بعض دیوانوں میں سحر العضۃ کے معنی میں وارد ہے اور العضۃ عرب کے ہاں بہتان کی شدت اور جھوٹ کی انتہا کرنے کو کہتے ہیں،شاعر کہتا ہے کہ :
أعوذ بربي من النافثات من عضة العاضة المُعِضة
میں جھاڑ پھونک والیوں سے اپنے رب کی پناہ مانگتا ہوں جو بہتان تراش اور حد درجے کے جھوٹے ہیں۔
عربوں نے اسی طرح اس کا استعمال کیا ہے یعنی سحر کو خفاء (چھپانے)کے معنی میں کیونکہ ساحر بھی اس کو چھپاکے کرتا ہے۔ رہی یہ بات کہ سحر کیا ہے تو سحر وہ علم ہے جس کے ذریعے اس علم کا ماہر لوگوں کی آنکھوں کو مسحور کرتا ہے جس سے وہ کسی چیز کو اس کی حقیقت کے برعکس دیکھتے ہیں، یعنی چیز کی حقیقت تبدیل ہو کر کوئی اور حقیقت نہیں بنتی بلکہ چیز وہی پہلے والی ہی ہو تی ہے ۔ اس لیے اگر کوئی انسان اس سانپ کو پکڑتا ہے جو دراصل لاٹھی ہے لیکن جادو سے وہ سانپ بن کر دوڑ رہی ہے تو وہ لاٹھی ہی ہو گی اگر چہ وہ لوگوں کو سانپ دِکھتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب جادوگروں نے اپنی لاٹھیوں کو پھینکا تو وہ ان کو لاٹھیا ہی نظر آرہی تھیں لیکن انہوں نے چونکہ لوگوں کی آنکھوں پر جادو کیا تھا اس لیے وہ ان کو سانپ سمجھ رہے تھے۔ اسی لیے جب موسی علیہ السلام نے اپنی لاٹھی پھینکی تو جادوگروں نے دیکھ لیا کہ وہ تو حقیقی سانپ ہے لاٹھی نہیں اور جب اس نے ان سب کو نگل لیا تو بلاآخر ان سب کی حقیقت آشکار ہوگئی ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو اس بات کا ادراک ہو گیا کہ یہ جادو نہیں کیونکہ جادو اشیاء کی حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتا اسی لیے وہ سمجھ گئے کہ یہ جادو نہیں بلکہ جیسا کہ موسی علیہ السلام کہتے ہیں، یہ رب العالمین کی طرف سے حق ہے، اس وجہ سےوہ ایمان بھی لے آئے اور ان کا ایمان کیا حیران کن تھا۔
6۔ اللہ کا یہ فرمان کہ وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ "انہوں نے اس کی پیروی کی جو شیاطین تلاوت کرتے تھے" اور اللہ کا یہ فرمان کہ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ "لیکن شیاطین نے کفر کیا کہ لوگوں کو سحر سکھایا" یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ سحر کوئی کفریہ کلام پڑھنے سے ہی ہو تا ہے، یعنی سحر ایسا علم ہے جس پر عمل ارادتاَ َ کفریہ الفاظ کے استعمال سے ہو تا ہے۔ اس کے علاوہ جس چیز کو سحر عرفی (روایتی) معنی میں جادو کہا جاتا ہے وہ اس آیت میں مذکور سحر میں داخل نہیں جیسے فنکاری (فنی وسائل) کے ذریعے بعض امور کو غیر حقیقی دِکھا نا جیسے ہاتھ کو چھپانا وغیرہ یا بات چیت میں ایسے الفاظ کے استعمال کے ذریعے جن میں کفرنہ ہو لوگوں وہم میں مبتلا کرنا جیسے کہ بعض پیروں کے چیلے کرتے رہتے ہیں یہ سحر کے مذکورہ معنی میں داخل نہیں۔
7۔ جہاں تک ساحر (جادوگر) کی سزا کا تعلق ہے ، جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ اس کی سزا وہی ہے جو مرتد کی سزا ہے کیونکہ سابقہ مذکورہ معنی کے لحاظ سے وہ بھی کافر ہےاور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم نے انھیں سزائے موت دی ۔ ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے اس جادوگرنی کو قتل کرنے کا حکم صادر کیا جس نے جادوکرنے کا اعتراف کیا۔
رہی بات اس روایت کی جس میں عثمان رضی اللہ عنہ کی جانب سے حفصہ رضی اللہ عنہا کے اس عمل کو مسترد کرنے کی بات ہے تو یہ اس وجہ سے تھا کہ ام المومنین نے خلیفۃ المسلمین سے اجازت لیے بغیر اس کو قتل کیا تھا، خلیفہ نے قتل میں اختلاف نہیں کیا بلکہ بلا اجازت قتل کرنے پر اختلاف کیا۔ عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں بھی ساحر کو قتل کی سزادی گئی تھی،اسی لیے یہ اجماع صحابہ ہے کیو نکہ اتنا اہم کام ان کے سامنے کیا گیا اورکسی نے انکار نہیں کیا۔ احمد نے سفیان سے الاحنف بن قیس کے چچا کے حوالے جزء بن معاویہ سے روایت کی ہے کہ "عمر کی وفات سے ایک سال پہلے ان کا کاتب یہ حکم لے کر ہمارے پاس آیا کہ ہر جادو گر کو قتل کرو، شاید سفیان نے کہا تھا کہ اور ہر جادوگرنی کو"۔
جہاں تک ان بعض خفیہ فنکارانہ اعمال کا تعلق ہے جن کا ہم نے ذکر کیا ہے اور جن سے وہ لوگوں کو اَن جانے میں دھوکہ دیتے ہیں اور پیروں اور ان کے شعبدہ بازیوں کا جہاں تک تعلق ہے ان سب لوگوں کے ساتھ ان کے فراڈ اور لوگوں کے نقصانات کے لحاظ سے تعزیری سزائیں دی جائیں گی ۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ اسلام میں تعزیر جرم کی نوعیت کے اعتبار سے قتل تک ہو سکتا ہے ۔
لیکن حد میں قتل اور تعزیر میں قتل کے درمیان فرق یہ ہے کہ پہلا مرتد ہے اس لیے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی اور اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں نہیں دفنا یا جائے گا۔ جبکہ دوسرا مسلمان اپنے جرم کی نوعیت کے اعتبار سے فاسق و فاجر ہے اس کی نماز پڑھی جائے گی اور اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفنا یا جائے گا۔
8۔ فَلاَ تَكْفُرْ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ وَمَا هُمْ بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللَّهِ "تو کفر نہ کر، پھر لوگ ان سے وہ سیکھتے جس سے خاوند و بیوی میں جدائی ڈال دیں اور دراصل وہ بغیر اللہ تعالٰی کی مرضی کے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے"۔
اللہ سبحانہ و تعالٰی یہ بیان فرماتے ہیں کہ جو لوگ جادو سیکھتے ہیں اور اس کے ذریعے طرح طرح کے کام کرتے ہیں اور ان لوگوں کے لیے بھی کرتے ہیں جو ان سے واسطہ رکھتے ہیں اور وہ ان کے اور ان کی بیویوں کے درمیان مسائل پیدا کرتے ہیں یہاں تک کہ نوبت طلاق اور جدائی تک پہنچتی ہے، پھر اللہ سبحانہ وتعالٰی نے عقیدے سے متعلق ایک انتہائی اہم امر کو بیان کیا تاکہ اس بات کا زالہ کیا جاسکے جس کا لوگوں کے ذہنوں میں داخل ہونے کا امکان ہے جو یہ ہے کہ ساحر کے پاس بھی اللہ تعالٰی جیسی کوئی قدرت ہے یا وہ اللہ کی مشیّت کے بغیر کچھ رونما کرسکتا ہے۔ اس لیے اللہ نے اس آیت میں یہ بیان کیا کہ اللہ کی مرضی کے بغیر اس کے قلمرو میں کچھ نہیں ہو سکتا ، یعنی اللہ کی مرضی کے خلاف، اللہ کی مشیّت یا ارادے کا یہی معنی ہے، یعنی اس کائنات میں اللہ کی مرضی ، اس کی مشیّت اور ارادے کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا وَمَا تَشَاءُونَ إِلاَّ أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ "وہ نہیں ہو سکتا جو تم چاہتے ہو مگر وہی ہوگا جو اللہ رب العالمین چاہتاہے" (التكوير: 29)۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ اس عمل سے راضی ہے کیونکہ اللہ کفر اور معاصیّت پر راضی نہیں ہو تا، إِنْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ وَلاَ يَرْضَى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ "اگر تم کفر کرو تو اللہ تم سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں کے کفر پر راضی نہیں ہو تا" (الزمر: 7)۔ یہ تو صرف ایک اصطلاح ہے جس کا ایک یہ معنی ہے جو نصوص کی چھان بین سے معلوم ہو تا ہے۔ اللہ کے اذن، مشیّت اور ارادے کی لغوی حقیقت کی تفسیر نہیں کی جاسکتی کیونکہ لغت میں اس کا معنی کسی کام کو کرنے کی اجازت ،مطالبہ یا رضامندی ہے۔ اس لیے اس کی تفسیر اہل لغت، اہل فقہ ، اہل اصول یا کسی بھی علم کی کسی بھی عرفی حقیقت کی طرح اصطلاحی دلالت سے ہی کی جائے گی۔
اور بِإِذْنِ اللَّهِ "اللہ کی اجازت سے" اس مقام پر اس کی دلالت بہت عظیم ہے کیونکہ لوگوں کے سامنے جادوگروں کے بعض کاموں اور لوگوں کی آنکھوں کو دھوکہ دینے اور بعض امور کو ان کے حقائق سے ہٹ کر دیکھنے سے یہ غلط فہمی پیدا ہو سکتی تھی کہ یہ لوگ (جادوگر) بھی کچھ پید ا کر سکتے ہیں یا ایسے کام کر سکتے ہیں جس سے اللہ بھی ان کو روک نہیں سکتا اس لیے اللہ نے اس کی تاکید کردی کہ یہ اللہ کے اذن سے ہی ہو تا ہے اور اس کے ارادے اور مشیّت کے خلاف کچھ بھی نہیں ہو سکتا، اللہ چاہے تو ان کے سحر کو ناکام بنادے کیونکہ کائنات میں اللہ کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں ہو سکتا ۔
یہاں کوئی کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ : پھر اللہ ان کے سحر کو ناکام کیوں نہیں کرتا؟!
اللہ سبحانہ نے خیر اور شر دونوں کو بیان کر دیا اور یہ بھی ہمیں بتا دیا کہ انسان کو خیر پر خیر ہی کی شکل میں بدلہ دیا جائے گا اور شر پر شرہی کی صورت میں بدلہ دیا جائے گا۔ اس کے بعد ہمیں سمجھادیا کہ اگر اللہ چاہے تو ہم سب انسانوں کو ایک ہی امت خیر یا امت شر بنا دے۔ وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلاَ يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ "اگر تیرا رب چاہتا تو لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا لیکن وہ تو اب بھی ایک دوسرے سے اختلاف کر رہے ہیں" (ہود: 118)۔لیکن اللہ سبحانہ نے اپنی حکمت سے ، جس کو وہی جانتا ہے، ہمیں بااختیار چھوڑ دیا کہ ہم جو چاہیں اختیار کر لیں خیر یا شر، دونوں صورتوں میں ہمیں بدلہ دیا جائے گا کچھ لوگ جنت جائیں گے اور کچھ جہنم میں داخل کیے جائیں گے، وَلَوْ شِئْنَا لَآتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدَاهَا وَلَكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّي لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنْ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ "اگر ہم چاہتے تو ہر شخص کو اس کی ہدایت دیتے لیکن میرا فرمان حق ہے کہ میں جہنم کو جنات اور انسانوں سے بھر دوں گا" (السجدہ: 13)۔ اس لیے اس سوال کا کوئی جواز ہی نہیں کہ اللہ سحر کے اس شر انگیز کام کو باطل کیوں نہیں کرتا؟یا اللہ ہمیں اس خیر میں ہی لگا کر کیوں نہیں رکھتا جس کا ہمیں حکم دیا ہے ؟ یا اللہ ہمیں شر کے کاموں سے کیوں نہیں روکتا کہ ہم خیر کے علاوہ کچھ کر ہی نہ سکتے؟۔۔۔اللہ نے تو ہمارے سامنے خیر اور شر کو بیان کر دیا اور ہمیں چھوڑ دیا کہ ہم ان میں سے ایک کو اپنائیں یہی اللہ سبحانہ وتعالٰی کی حکمت کا تقاضا ہے لاَ يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ "اللہ جو کرتا ہے اس کے بارے میں اس سے کوئی نہیں پوچھ سکتا جبکہ یہ جوابدہ ہیں" (الانبياء: 23)۔ لیکن بہر حال ہمیں یہ عقیدہ رکھنا چا ہیے کہ اللہ کی حکمرانی میں کوئی بھی چیز اس کی مرضی ، ارادے اور مشیّت کے خلاف نہیں ہو سکتی۔
9۔ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنْ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الآخِرَةِ مِنْ خَلاَقٍ " وہ جانتے ہیں کہ اس کے لینے والے کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں"
اس کا یہ معنی ہے کہ سحر شر ہی شر ہے یہ اس چیز کا وصف ہے جس کو یہ سیکھتے ہیں یعنی سحر يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ "لوگوں کو سحر سکھاتے ہیں" اس وصف کی دلالت واضح ہے کہ یہ سیکھنا ان کے لیے نقصان دہ ہے فائدہ مند نہیں۔ سحر سراپا شر اور نقصان ہے اس میں کوئی فائدہ نہیں۔
پھر اللہ نے یہ بیان کیا کہ جو مذکورہ طریقے سے سحر کا عمل کرتا ہے آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں کیونکہ وہ اللہ اور اس کی آیات کا کافر (چھپانے والا) ہے۔
اشْتَرَاهُ "اس کو خریدا" یہ استعمال مجازی ہے یعنی اس کو اپنا پیشہ بنایا کیونکہ کسی چیز کو خریدنا اس کے عین کو استعمال کرکے یا اس کا معاوضہ لے کر اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہوتا ہے، سحر کو پیشہ بنا کر ذریعہ معاش بنا نا گویا اس کو خریدنا ہے۔
وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنْ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الآخِرَةِ مِنْ خَلاَقٍ "وہ جان چکے ہیں کہ جو بھی اس کو مول لے گا اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہو گا" یہ خبر بمعہ ترک طلب ہے یعنی نہی جازم کے معنی میں ہے جو سحر کے تباہ کن ہو نے دلیل ہے۔
وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنفُسَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ "اورکیا ہی بری چیز ہے جو انہوں نے خود خریدی ہے اگر یہ سمجھ دار ہو تے " (البقرہ: 102) یعنی کیا ہی بری چیز ہے وہ جس کے لیے انہوں نے اپنے آپ کو بیچا کیونکہ انہوں نے اپنے آپ کو اللہ کے عذاب کے لیے پیش کردیا اور جہنم کی آگ کے بدلے اس کو کھو دیا، مَا لَهُ فِي الآخِرَةِ مِنْ خَلاَقٍ "اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں"۔ اپنے آپ کو سحر کے بدلے بیچ ڈالنے کا جو معاوضہ ان کے لیے تیار کر کے رکھا گیا ہے وہ اللہ کا غضب، اس کا عذاب، جہنم کی آگ ہے اور یہ واقعی بری اور نقصان دہ تجارت ہے۔
لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ "اگر وہ سمجھ رکھتے" یعنی اپنے علم سے فائدہ اٹھانے والے ہو تے کیونکہ جو کوئی علم رکھتا ہے لیکن اس کی دلالت کی پابندی نہیں کر تا (عمل نہیں کرتا) تو گویا وہ علم ہی نہیں رکھتا۔ جس شخص کو سحر کے تباہ کن انجام کا علم بھی ہو اور وہ اس میں ملوث بھی ہو جائے تو گویا وہ جانتا ہی نہیں۔ یہ موضوع پر پُرقوت دلالت کا زبردست نمونہ ہے سبحان اللہ سبحان اللہ!
رسول اللہﷺ ایسے علم سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے جو بے فائدہ ہوفرمایا: أعوذ بالله من علم لا ينفع، وقلب لا يخشع، وعين لا تدمع "میں ایسے علم سے جو بے فائدہ ہے، ایسے دل سے جس میں خشوع نہیں اور ایسی آنکھ سے جو آنسو نہیں بہاتی اللہ کی پناہ مانگتا ہوں"۔ جیسا کہ ہم نے کہا کہ قوت کا استعمال ہے اور کتاب اللہ میں یہ دیگر موضوعات میں بھی موجود ہے اور دوسری دلالت میں بھی مستعمل ہے جیسے کہ أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا فَإِنَّهَا لاَ تَعْمَى الأَبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ "کیا یہ لوگ زمین پر نہیں چلتے کہ اپنے دل و دماغ سے سمجھتے یا اپنے کانوں سے سنتے یہ تو آنکھوں سے نابینا نہیں بلکہ سینے میں موجود دل کے اندھے ہیں" (الحج: 46)،یا جیسے ومثل اللذین کفرو کمثل الذی ینعق بما لا یسمع الا دعا ونداء صم بکم عمی فھم لا یعقلون "اور ان لوگوں کی مثال جنہوں نے کفر کیا اس جانور کی طرح ہے جو سوائے بلانے اور پکارنے کے کچھ نہیں سنتا یہ گونگے بہرے اور اندھے ہیں یہ سمجھتے ہی نہیں" (البقرۃ: 171)۔
جو شخص اپنی سماعت سے فائدہ نہیں اٹھا تا تو گویا وہ سنتا ہی نہیں
جو شخص اپنی آنکھوں سے فائدہ نہیں اٹھا تا تو گویا وہ دیکھتا ہی نہیں
جو شخص اپنے بولنے سے فائدہ نہیں اٹھا تا تو گویا وہ بولتا ہی نہیں
جو شخص اپنی عقل سے فائدہ نہیں اٹھا تا تو گویا وہ ہے ہی بے عقل
جو شخص اپنے علم سے فائدہ نہیں اٹھا تا تو گویا وہ ہے ہی بے علم
اور اول و آخر اللہ ہی کا امر ہے۔
وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ خَيْرٌ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ "اگر یہ ایمان لاتے اور تقوی اختیار کرتے تو اللہ کا اجر بہت بہتر تھا اگر یہ جانتے" یعنی اگر یہ ایمان لاتے، اطاعت کرتے اور سحر کو ترک کرتے تو ان کے حق میں بہت بہتر ہوتا، لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ یعنی اگر یہ لوگوں کو پہنچانے والے سحر کا دنیاوی تباہ کن ضرر اور نقصان اور اس کی سزا میں آخرت کے دن جہنم کی آگ کے عذاب کے بارے میں اپنے علم سے فائدہ اٹھاتے ۔

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک