بسم الله الرحمن الرحيم
قیمتوں میں مسلسل اور شدید اضافے کی وجہ کاغذی کرنسی ہے جس کی قیمت کم ہوتی رہتی ہے کیونکہ اس کی بنیاد سونے اور چاندی پر نہیں ہوتی
ڈالر،پاؤنڈ،فرانک وغیرہ کی مانندپاکستانی روپے کی بنیاد بھی اصل دولت یعنی قیمتی دھات پر ہوتی تھی۔ ڈالر کی بنیاد سونے پر جبکہ روپے کی بنیاد چاندی پر ہوتی تھی۔ اس نظام نے کرنسی کی قدر و قیمت کو اندرون ملک اور بیرون ملک، بین الاقوامی تجارت میں استحکام فراہم کر رکھا تھا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ سونے کی جو قیمت 1890ء میں تھی وہی قیمت کم و بیش 1910ء میں بھی تھی۔ آج دنیا میں اس قدر سونا اور چاندی موجود ہے جو دنیا کی اصل معیشت یعنی کاروباری معاملات جیسے خوراک،کپڑے،رہائش،اشیائے تعیش،صنعتی مشینری،ٹیکنالوجی اور دیگر اشیا ء کی خریدوفروخت کے لیے کرنسی کے طور پرکافی ہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ اندازِ معیشت نے کرنسی کی پیداوار کی طلب میں اس قدر اضافہ کردیا جسے سونے اور چاندی کے ذخائر پورا نہیں کرسکتے تھے۔
ریاستوں نے قیمتی دھات کے پیمانے کو چھوڑ دیا لہٰذا کرنسی نوٹ کی بنیاد کسی قیمتی دھات کی بجائے اس نوٹ کوجاری کرنے والی ریاست کی طاقت پر منحصر ہوگئی، جس کے نتیجے میں ریاستوں کے پاس زیادہ سے زیادہ کرنسی نوٹ چھاپنے کا اختیار آگیا۔ اب کرنسی کی مضبوطی کو برقرار رکھنے کے لیے بنیاد سونا یا چاندی نہیں رہے جس کے نتیجے میں ہر نیا چھپنے والا نوٹ پہلے نوٹ کے مقابلے میں کم قدرو قیمت رکھتا ہے۔ چونکہ کرنسی نوٹ اشیاء اور خدمات کے تبادلے میں استعمال ہوتے ہیں اس لیے کرنسی کی قدرو قیمت کا مکمل خاتمہ تو نہیں ہوتا لیکن اس میں مسلسل کمی ہوتی رہتی ہے۔ چونکہ خریداری کے لیے کرنسی کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے اشیاء اور خدمات کی قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ لہٰذا روپیہ جو برطانوی قبضے سے قبل 11گرام چاندی کے برابر قیمت رکھتا تھا اب دو سو سالہ سرمایہ دارانہ نظام سے گزرنے کے بعد ایک گرام چاندی کے نو سو وے(900th/1)حصے کے برابر قیمت رکھتا ہے۔
ہماری کرنسی کی قدر میں کمی
آئی ایم ایف کی شرط کو پورا کرنے کے لیے پاکستان کے حکمرانوں نے ہماری کرنسی کی قدر میں کمی کی جس کے نتیجے میں ہماری برآمدات مغربی ممالک کے لیے سستی ہو جاتی ہیں جبکہ ہماری درآمدات اور پاکستان میں ہر شے مہنگی ہوجاتی ہے،جس میں سودی قرضے بھی شامل ہیں۔ لہٰذا جنوری 2001ء میں 59روپے میں ایک ڈالر خریدا جاتا تھا ، لیکن اپریل 2022میں روپیہ اس قدر کمزور ہوگیا کہ 185روپے میں ایک ڈالر خریدا جا رہا تھا۔
ہر گزرتے سال روپے کی قدر میں کمی کے نتیجے میں اس کی قوت خریدبھی کم ہوتی جارہی ہے جبکہ قیمتیں اس قدربڑھتی جارہی ہیں کہ اکثر لوگوں کے لیے گوشت خریدنا ناممکن،پھل خریدنا عیاشی اور سبزیوں کی خریداری ایک بوجھ بن گئی ہے ۔ آج روپے کی قیمت کچھ دہائیوں قبل پیسے کی قیمت سے بھی کم ہوگئی ہے ۔ حکمرانوں کے دعوؤں کے برعکس روپیہ کسی بھی وقت ردی کے کاغذ میں تبدیل ہوسکتا ہے جس کے نتیجے میں قیمتوں میں انتہائی زبردست اضافہ ہو جائے گا۔ لیکن اس کے باوجود حکومت مسلسل نوٹ چھاپ رہی ہے جس کے بہت ہی خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں اور یوں حکومت کرنسی کی قبر کھود رہی ہے، جو معیشت کے لیے خون کی حیثیت رکھتی ہے۔
ان عوامل کا تدارک کہ جن کی وجہ سے سونے اور چاندی کے محفوظ ریاستی ذخائر سے زائد کرنسی چھاپنے کی ضرورت پڑتی ہے
حالیہ افراطِ زرکی ایک بڑی وجہ بجٹ کے خسارہ کو پورا کرنے کے لیے حکومت کا مسلسل قرض پر انحصار ہے۔ حکومت کا قرض اس وقت تمام حدود و قیود عبور کر چکا ہے۔ سٹیٹ بینک کے مطابق ملک کا مجموعی قرض 15 ٹریلین روپے کی بلند ترین سطح پر ہے، یہ اعداد و شمار اپریل 2022 کے ہیں۔ عمومی طور پر حکومت قرض یا تواپنی معیشت سے یعنی بینکوں اور بڑے سرمایہ داروں سے سود پر حاصل کرتی ہے یا اپنے مرکزی بینک یعنی سٹیٹ بینک سے۔ حالیہ برسوں میں بجٹ کے خسارہ کو پورا کرنے کے لیے حکومت نے سٹیٹ بینک سے بے تحاشا قرض کے حصول پر انحصار کیا ہے۔ اس اقدام کوماہرینِ معاشیات نوٹ چھاپنے کے عمل سے تعبیر کرتے ہیں جس سے کرنسی کے حجم میں اضافہ ہوا جو کہ افراطِ زر پر منتج ہوا۔ بجٹ کے خسارہ کو مسلسل نوٹ چھاپ کر پورا کئے جانے کا لازمی نتیجہ بڑھتا ہوا افراطِ زر ہی ہوتا ہے۔ جب حکومت یہ قرض اپنے کمرشل بینکوں سے حاصل کرتی ہے تو ان بینکوں کے reserves میں کمی واقع ہوتی ہے جس کو پورا کرنے کے لئے وہ مرکزی بینک سے قرض حاصل کرتے ہیں اورجس سے بھی معیشت میں کرنسی کا حجم بڑھ جاتا ہے جو افراطِ زر کا باعث بنتا ہے۔ المختصر، اس سرمایہ دارانہ نظام کی معیشت میں مسائل کا ہر حل نئی تباہی کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔
روپے کی قدر میں کمی افراطِ زر پیدا کرتی ہے
سرمایہ دارانہ نظام میں برآمدات اور درآمدات میں توازن پیدا کرنے کے لیے روپے کی قدر کم کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں افراط زر پیدا ہوتا ہے۔ چونکہ ہمارا صنعتی شعبہ کمزور ہے اور ہماری درآمدات، برآمدات کے مقابلے میں ہمیشہ زائد ہوتی ہیں۔ جبکہ پاکستان کی سرمایہ دارانہ حکومت آئی.ایم.ایف(I.M.F)کے حکم پر روپے کی قدر کو کم کردیتی ہے۔ روپے کی قدر میں اِس کمی کا مقصد پاکستان کے تجارتی توازن کو بہتر کرنا بتایا جاتا ہے۔ ریاست تجارتی توازن حاصل کرنے کے لیے درآمدات کی حوصلہ شکنی کرتی ہے جبکہ اندرون ملک تیار ہونے والی اشیاء کو زیادہ سے زیادہ برآمدکرنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ لیکن روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے پاکستان کی اشیاء کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں زراعت،ٹیکسٹائل اور معیشت کے دوسرے شعبوں میں ایک افراتفری مچ جاتی ہے کیونکہ وہ پہلے ہی بلند شرح سود کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ لہٰذا مہنگے قرضے اور پیداواری لاگت میں اضافہ بہت سی کمپنیوں اور صنعتوں کو اس قابل ہی نہیں چھوڑتا کہ وہ بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلہ کرسکیں۔ جب پاکستانی مصنوعات مہنگی ہونے کی وجہ سے کوئی خریدار نہیں ڈھونڈپاتیں تو پاکستان کی اہم برآمدی اشیا ء کی برآمد میں کمی آجاتی ہے اور پاکستان کی ادائیگیوں کا توازن خراب ہوجاتا ہے۔ یہ معاملہ اس وقت مزید گھمبیر ہوجاتا ہے جب درآمدات کا سلسلہ ویسے ہی جاری و ساری رہتا ہے۔ دنیا کی چوتھی بڑی زرعی معیشت ہونے کے باوجود پاکستان اشیائے خوردو نوش درآمد کرنے والا ملک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اشیائے خوردونوش کی درآمد پر ، روپے کی قدر میں کمی وجہ سے، زیادہ خرچ کرتا ہے، نتیجتاً اندرون ملک کھانے پینے کی اشیأ مزید مہنگی ہوجاتی ہیں۔ نوٹ چھاپنے کی ناکام پالیسی کو چھپانے اور ادائیگیوں کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے حکومتِ پاکستان کا تارکین وطن کی بھیجی ہوئی رقوم اور اشیائے خوردونوش جیسے چاول،گندم کی برآمدات پر انحصار بڑھتا جارہا ہے جس کے نتیجے میں ان اشیاء کی اندرونِ ملک قلت ہو جاتی ہے اور ان کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اتنی محنت سے کمایا ہوا زرمبادلہ، ملکی معیشت میں نہیں ڈالا جاتا ہیں ۔
لہٰذا حکومتِ پاکستان ادائیگیوں میں آنے والے فرق کو پورا کرنے کے لئے بین الاقوامی اداروں سے مزید قرضہ لینے پر مجبور ہو جاتی ہے جس سے اس کے مسائل میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ نئے قرضے سود پر حاصل کیے جاتے ہیں اور دیگر ''ترقی پزیر'' ممالک کی طرح پاکستان بھی اصل قرضے کی رقم بھی کئی بار ادا کردینے کے باوجود قرضے سے نجات حاصل نہیں کرپاتا کیونکہ یہ قرضے ایسی شرائط کے ساتھ آتے ہیں جن سے معیشت مزید کمزور ہوتی ہے،شرح سود بڑھتی ہے،کرنسی کی قیمت کم ہوتی ہے اور زرعی اور صنعتی شعبے کی پیداوار زوال پزیر ہوجاتی ہے۔
سونے اور چاندی کے پیمانے کی واپسی
مسلمانوں کے لیے سونے اور چاندی کے پیمانے کی جانب دوبارہ لوٹنا عملی طور پر ممکن ہے۔ جن مسلم علاقوں میں خلافت کے دوبارہ قیام کے امکانات ہیں وہ سونے اور چاندی کے وسائل سے بھر پور ہیں جیسے پاکستان میں سینڈک اورریکوڈیک کا وسیع علاقہ۔ امت کے پاس ایسے وسائل ہیں جن کی دوسرے ممالک کو شدید ضرورت ہوتی ہے جیسے تیل،گیس،کوئلہ،معدنیات اور زرعی اجناس جن کے بدلے سونا اور چاندی حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ نیز آنے والی خلافت جدید صنعتی پیدوار میں تیزی سے اضافہ کرے گی جن کی برآمدسے بھی سونا اور چاندی حاصل ہو گا۔ مسلم علاقے بنیادی ضروریات کے حوالے سے خود کفیل ہیں لہٰذا حقیقی معیشت مستحکم ہو گی اور غیر حقیقی معیشت(سٹاک مارکیٹ،derivatives وغیرہ) کے خاتمے کے بعد معیشت سٹے بازی کے اثرات سے بھی محفوظ ہو جائے گی۔
اسلام نے یہ لازمی قرار دیا ہے کہ ریاست کی کرنسی کی بنیاد قیمتی دھات کی دولت کو ہونا چاہیے جس کے نتیجے میں افراط زر کی جڑ ہی کٹ جاتی ہے۔رسول اللہﷺ نے اجازت دی کہ سونے کے دینار ،جن کا وزن 4.25گرام اور چاندی کے درہم ،جن کا وزن 2.975گرام ہو، ریاست کی کرنسی کے طور پر استعمال ہوں۔ اس وجہ سے ہزار سال تک ریاستِ خلافت میں قیمتوں کو استحکام حاصل رہا۔
بین الاقوامی تجارت میں سونے اور چاندی کا کرنسی کے طور پر دوبارہ اجرأ
خلافت تانبے اور زرمبادلہ کے ذخائر کو سونے اور چاندی کی خریداری کے لیے استعمال کرے گی اور بین الاقوامی تجارت کے نتیجے میں ملک میں آنے اور جانے والے سونے کی مقدار پر نظر رکھے گی اگرچہ مسلم دنیا اکثر معاملات میں خود کفیل ہے۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی تجارت میں سونے اور چاندی کا کرنسی کے طور پر دوبارہ اجرأ عالمی تجارت میں امریکہ کی بالادستی کے خاتمے کا باعث بنے گا کیونکہ اس وقت امریکہ دنیا کو بین الاقوامی تجارت کے لیے ڈالر کے استعمال پر مجبور کردیتا ہے۔ جیسا کہ حزب التحریر نے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ166میں اعلان کیا ہے کہ''ریاست اپنی ایک خاص کرنسی،آزادانہ طور پر جاری کرے گی اور اس کو کسی غیر ملکی کرنسی سے منسلک کرنا جائز نہیں''۔اسی طرح دستور کی دفعہ167میں لکھا ہے کہ ''ریاست کی نقدی (کرنسی) سونa اور چاندی ہوگی، خواہ اسے کرنسی کی شکل میں ڈھالا گیا ہو یا نہ ڈھالا گیا ہو۔ ریاست کے لیے سونے چاندی کے علاوہ کوئی نقدی جائز نہیں۔ تاہم ریاست کے لئے سونا چاندی کے بدل کے طور پر کوئی اورچیز جاری کرنا جائز ہے۔ بشرطیکہ ریاست کے خزانے میں اتنی مالیت کا سونا چاندی موجود ہو''۔ ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعہ 168کے مطابق''اسلامی ریاست اور دوسری ریاستوں کی کرنسیوں کے مابین تبادلہ جائز ہے جیسا کہ اپنی کرنسی کا آپس میں تبادلہ جائز ہے''۔
ریاستِ خلافت کا سٹیٹ بینک
ریاستِ خلافت کا سٹیٹ بینک ایک مالیاتی ادارہ ہو گا جس کا کام حقیقی معیشت جیسے زراعت اور صنعتوں میں ترقی اور اضافے کے لیے مدد فراہم کرنا ہوگا۔ ریاست خلافت میں سٹیٹ بینک کا مقصد قرضوں کے ذریعے مقامی زرعی اور صنعتی شعبے کو مدد فراہم کرنا اور ایک متحرک اور طاقتور معیشت کو قائم کرنا ہو گا۔
جیسا کہ حزب التحریرنے ریاست خلافت کے مجوزہ دستور کی دفعہ169میں اعلان کیا ہے کہ''بینک کھولنے کی مکمل ممانعت ہو گی اور صرف سٹیٹ بینک موجود ہوگا جس میں کوئی سودی لین دین نہ ہو گا اور سٹیٹ بینک، بیت المال کے محکموں میں سے ایک محکمہ ہو گا''۔
سود پر مبنی قرضوں کے نتیجے میں ہونے والے ظلم
اگر خلافت پاکستان میں قائم ہوتی ہے تومعیشت کو تباہ کرنے اور پھر مزید قرضوں کے حصول کے لیے بھیک مانگنے کی بجائے یہ ریاستِ خلافت دنیا بھر میں مغربی استعماری سود پر مبنی قرضوں کے نتیجے میں ہونے والے ظلم کے خلاف عالمی رائے عامہ کو متحرک کرے گی۔ یہی وہ ظلم پر مبنی نظام ہے جو کئی ممالک کو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے سے روکتا ہے۔ یہ نظام قرضوں کے ساتھ ایسی شرائط عائد کردیتا ہے جس کے نتیجے میں معیشت کا دم گھٹنا شروع ہو جاتا ہے یہاں تک کہ قرض کی اصل رقم سے بھی کئی گنا زائد سود دینے کے باوجود معیشت کی قرضے سے جان نہیں چھوٹتی۔ جیسا کہ حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ165میں اعلان کیا ہے کہ''یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ یہ غیر ملکی سرمایہ ہی ہے جو اسلامی علاقوں میں کفار کے قدم جمانے اور ان کے اثرونفوذ کو مضبوط کرنے کا سبب رہا ہے اور کفار کو مسلمانوں کے علاقوںمیں قدم جمانے کی اجازت یا سہولت دینا حرام ہے''۔
بسم الله الرحمن الرحيم
قیمتوں میں مسلسل اور شدید اضافے کی وجہ کاغذی کرنسی ہے جس کی قیمت کم ہوتی رہتی ہے کیونکہ اس کی بنیاد سونے اور چاندی پر نہیں ہوتی
ڈالر،پاؤنڈ،فرانک وغیرہ کی مانندپاکستانی روپے کی بنیاد بھی اصل دولت یعنی قیمتی دھات پر ہوتی تھی۔ ڈالر کی بنیاد سونے پر جبکہ روپے کی بنیاد چاندی پر ہوتی تھی۔ اس نظام نے کرنسی کی قدر و قیمت کو اندرون ملک اور بیرون ملک، بین الاقوامی تجارت میں استحکام فراہم کر رکھا تھا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ سونے کی جو قیمت 1890ء میں تھی وہی قیمت کم و بیش 1910ء میں بھی تھی۔ آج دنیا میں اس قدر سونا اور چاندی موجود ہے جو دنیا کی اصل معیشت یعنی کاروباری معاملات جیسے خوراک،کپڑے،رہائش،اشیائے تعیش،صنعتی مشینری،ٹیکنالوجی اور دیگر اشیا ء کی خریدوفروخت کے لیے کرنسی کے طور پرکافی ہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ اندازِ معیشت نے کرنسی کی پیداوار کی طلب میں اس قدر اضافہ کردیا جسے سونے اور چاندی کے ذخائر پورا نہیں کرسکتے تھے۔
ریاستوں نے قیمتی دھات کے پیمانے کو چھوڑ دیا لہٰذا کرنسی نوٹ کی بنیاد کسی قیمتی دھات کی بجائے اس نوٹ کوجاری کرنے والی ریاست کی طاقت پر منحصر ہوگئی، جس کے نتیجے میں ریاستوں کے پاس زیادہ سے زیادہ کرنسی نوٹ چھاپنے کا اختیار آگیا۔ اب کرنسی کی مضبوطی کو برقرار رکھنے کے لیے بنیاد سونا یا چاندی نہیں رہے جس کے نتیجے میں ہر نیا چھپنے والا نوٹ پہلے نوٹ کے مقابلے میں کم قدرو قیمت رکھتا ہے۔ چونکہ کرنسی نوٹ اشیاء اور خدمات کے تبادلے میں استعمال ہوتے ہیں اس لیے کرنسی کی قدرو قیمت کا مکمل خاتمہ تو نہیں ہوتا لیکن اس میں مسلسل کمی ہوتی رہتی ہے۔ چونکہ خریداری کے لیے کرنسی کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے اشیاء اور خدمات کی قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ لہٰذا روپیہ جو برطانوی قبضے سے قبل 11گرام چاندی کے برابر قیمت رکھتا تھا اب دو سو سالہ سرمایہ دارانہ نظام سے گزرنے کے بعد ایک گرام چاندی کے نو سو وے(900th/1)حصے کے برابر قیمت رکھتا ہے۔
ہماری کرنسی کی قدر میں کمی
آئی ایم ایف کی شرط کو پورا کرنے کے لیے پاکستان کے حکمرانوں نے ہماری کرنسی کی قدر میں کمی کی جس کے نتیجے میں ہماری برآمدات مغربی ممالک کے لیے سستی ہو جاتی ہیں جبکہ ہماری درآمدات اور پاکستان میں ہر شے مہنگی ہوجاتی ہے،جس میں سودی قرضے بھی شامل ہیں۔ لہٰذا جنوری 2001ء میں 59روپے میں ایک ڈالر خریدا جاتا تھا ، لیکن اپریل 2022میں روپیہ اس قدر کمزور ہوگیا کہ 185روپے میں ایک ڈالر خریدا جا رہا تھا۔
ہر گزرتے سال روپے کی قدر میں کمی کے نتیجے میں اس کی قوت خریدبھی کم ہوتی جارہی ہے جبکہ قیمتیں اس قدربڑھتی جارہی ہیں کہ اکثر لوگوں کے لیے گوشت خریدنا ناممکن،پھل خریدنا عیاشی اور سبزیوں کی خریداری ایک بوجھ بن گئی ہے ۔ آج روپے کی قیمت کچھ دہائیوں قبل پیسے کی قیمت سے بھی کم ہوگئی ہے ۔ حکمرانوں کے دعوؤں کے برعکس روپیہ کسی بھی وقت ردی کے کاغذ میں تبدیل ہوسکتا ہے جس کے نتیجے میں قیمتوں میں انتہائی زبردست اضافہ ہو جائے گا۔ لیکن اس کے باوجود حکومت مسلسل نوٹ چھاپ رہی ہے جس کے بہت ہی خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں اور یوں حکومت کرنسی کی قبر کھود رہی ہے، جو معیشت کے لیے خون کی حیثیت رکھتی ہے۔
ان عوامل کا تدارک کہ جن کی وجہ سے سونے اور چاندی کے محفوظ ریاستی ذخائر سے زائد کرنسی چھاپنے کی ضرورت پڑتی ہے
حالیہ افراطِ زرکی ایک بڑی وجہ بجٹ کے خسارہ کو پورا کرنے کے لیے حکومت کا مسلسل قرض پر انحصار ہے۔ حکومت کا قرض اس وقت تمام حدود و قیود عبور کر چکا ہے۔ سٹیٹ بینک کے مطابق ملک کا مجموعی قرض 15 ٹریلین روپے کی بلند ترین سطح پر ہے، یہ اعداد و شمار اپریل 2022 کے ہیں۔ عمومی طور پر حکومت قرض یا تواپنی معیشت سے یعنی بینکوں اور بڑے سرمایہ داروں سے سود پر حاصل کرتی ہے یا اپنے مرکزی بینک یعنی سٹیٹ بینک سے۔ حالیہ برسوں میں بجٹ کے خسارہ کو پورا کرنے کے لیے حکومت نے سٹیٹ بینک سے بے تحاشا قرض کے حصول پر انحصار کیا ہے۔ اس اقدام کوماہرینِ معاشیات نوٹ چھاپنے کے عمل سے تعبیر کرتے ہیں جس سے کرنسی کے حجم میں اضافہ ہوا جو کہ افراطِ زر پر منتج ہوا۔ بجٹ کے خسارہ کو مسلسل نوٹ چھاپ کر پورا کئے جانے کا لازمی نتیجہ بڑھتا ہوا افراطِ زر ہی ہوتا ہے۔ جب حکومت یہ قرض اپنے کمرشل بینکوں سے حاصل کرتی ہے تو ان بینکوں کے reserves میں کمی واقع ہوتی ہے جس کو پورا کرنے کے لئے وہ مرکزی بینک سے قرض حاصل کرتے ہیں اورجس سے بھی معیشت میں کرنسی کا حجم بڑھ جاتا ہے جو افراطِ زر کا باعث بنتا ہے۔ المختصر، اس سرمایہ دارانہ نظام کی معیشت میں مسائل کا ہر حل نئی تباہی کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔
روپے کی قدر میں کمی افراطِ زر پیدا کرتی ہے
سرمایہ دارانہ نظام میں برآمدات اور درآمدات میں توازن پیدا کرنے کے لیے روپے کی قدر کم کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں افراط زر پیدا ہوتا ہے۔ چونکہ ہمارا صنعتی شعبہ کمزور ہے اور ہماری درآمدات، برآمدات کے مقابلے میں ہمیشہ زائد ہوتی ہیں۔ جبکہ پاکستان کی سرمایہ دارانہ حکومت آئی.ایم.ایف(I.M.F)کے حکم پر روپے کی قدر کو کم کردیتی ہے۔ روپے کی قدر میں اِس کمی کا مقصد پاکستان کے تجارتی توازن کو بہتر کرنا بتایا جاتا ہے۔ ریاست تجارتی توازن حاصل کرنے کے لیے درآمدات کی حوصلہ شکنی کرتی ہے جبکہ اندرون ملک تیار ہونے والی اشیاء کو زیادہ سے زیادہ برآمدکرنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ لیکن روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے پاکستان کی اشیاء کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں زراعت،ٹیکسٹائل اور معیشت کے دوسرے شعبوں میں ایک افراتفری مچ جاتی ہے کیونکہ وہ پہلے ہی بلند شرح سود کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ لہٰذا مہنگے قرضے اور پیداواری لاگت میں اضافہ بہت سی کمپنیوں اور صنعتوں کو اس قابل ہی نہیں چھوڑتا کہ وہ بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلہ کرسکیں۔ جب پاکستانی مصنوعات مہنگی ہونے کی وجہ سے کوئی خریدار نہیں ڈھونڈپاتیں تو پاکستان کی اہم برآمدی اشیا ء کی برآمد میں کمی آجاتی ہے اور پاکستان کی ادائیگیوں کا توازن خراب ہوجاتا ہے۔ یہ معاملہ اس وقت مزید گھمبیر ہوجاتا ہے جب درآمدات کا سلسلہ ویسے ہی جاری و ساری رہتا ہے۔ دنیا کی چوتھی بڑی زرعی معیشت ہونے کے باوجود پاکستان اشیائے خوردو نوش درآمد کرنے والا ملک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اشیائے خوردونوش کی درآمد پر ، روپے کی قدر میں کمی وجہ سے، زیادہ خرچ کرتا ہے، نتیجتاً اندرون ملک کھانے پینے کی اشیأ مزید مہنگی ہوجاتی ہیں۔ نوٹ چھاپنے کی ناکام پالیسی کو چھپانے اور ادائیگیوں کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے حکومتِ پاکستان کا تارکین وطن کی بھیجی ہوئی رقوم اور اشیائے خوردونوش جیسے چاول،گندم کی برآمدات پر انحصار بڑھتا جارہا ہے جس کے نتیجے میں ان اشیاء کی اندرونِ ملک قلت ہو جاتی ہے اور ان کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اتنی محنت سے کمایا ہوا زرمبادلہ، ملکی معیشت میں نہیں ڈالا جاتا ہیں ۔
لہٰذا حکومتِ پاکستان ادائیگیوں میں آنے والے فرق کو پورا کرنے کے لئے بین الاقوامی اداروں سے مزید قرضہ لینے پر مجبور ہو جاتی ہے جس سے اس کے مسائل میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ نئے قرضے سود پر حاصل کیے جاتے ہیں اور دیگر ''ترقی پزیر'' ممالک کی طرح پاکستان بھی اصل قرضے کی رقم بھی کئی بار ادا کردینے کے باوجود قرضے سے نجات حاصل نہیں کرپاتا کیونکہ یہ قرضے ایسی شرائط کے ساتھ آتے ہیں جن سے معیشت مزید کمزور ہوتی ہے،شرح سود بڑھتی ہے،کرنسی کی قیمت کم ہوتی ہے اور زرعی اور صنعتی شعبے کی پیداوار زوال پزیر ہوجاتی ہے۔
سونے اور چاندی کے پیمانے کی واپسی
مسلمانوں کے لیے سونے اور چاندی کے پیمانے کی جانب دوبارہ لوٹنا عملی طور پر ممکن ہے۔ جن مسلم علاقوں میں خلافت کے دوبارہ قیام کے امکانات ہیں وہ سونے اور چاندی کے وسائل سے بھر پور ہیں جیسے پاکستان میں سینڈک اورریکوڈیک کا وسیع علاقہ۔ امت کے پاس ایسے وسائل ہیں جن کی دوسرے ممالک کو شدید ضرورت ہوتی ہے جیسے تیل،گیس،کوئلہ،معدنیات اور زرعی اجناس جن کے بدلے سونا اور چاندی حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ نیز آنے والی خلافت جدید صنعتی پیدوار میں تیزی سے اضافہ کرے گی جن کی برآمدسے بھی سونا اور چاندی حاصل ہو گا۔ مسلم علاقے بنیادی ضروریات کے حوالے سے خود کفیل ہیں لہٰذا حقیقی معیشت مستحکم ہو گی اور غیر حقیقی معیشت(سٹاک مارکیٹ،derivatives وغیرہ) کے خاتمے کے بعد معیشت سٹے بازی کے اثرات سے بھی محفوظ ہو جائے گی۔
اسلام نے یہ لازمی قرار دیا ہے کہ ریاست کی کرنسی کی بنیاد قیمتی دھات کی دولت کو ہونا چاہیے جس کے نتیجے میں افراط زر کی جڑ ہی کٹ جاتی ہے۔رسول اللہﷺ نے اجازت دی کہ سونے کے دینار ،جن کا وزن 4.25گرام اور چاندی کے درہم ،جن کا وزن 2.975گرام ہو، ریاست کی کرنسی کے طور پر استعمال ہوں۔ اس وجہ سے ہزار سال تک ریاستِ خلافت میں قیمتوں کو استحکام حاصل رہا۔
بین الاقوامی تجارت میں سونے اور چاندی کا کرنسی کے طور پر دوبارہ اجرأ
خلافت تانبے اور زرمبادلہ کے ذخائر کو سونے اور چاندی کی خریداری کے لیے استعمال کرے گی اور بین الاقوامی تجارت کے نتیجے میں ملک میں آنے اور جانے والے سونے کی مقدار پر نظر رکھے گی اگرچہ مسلم دنیا اکثر معاملات میں خود کفیل ہے۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی تجارت میں سونے اور چاندی کا کرنسی کے طور پر دوبارہ اجرأ عالمی تجارت میں امریکہ کی بالادستی کے خاتمے کا باعث بنے گا کیونکہ اس وقت امریکہ دنیا کو بین الاقوامی تجارت کے لیے ڈالر کے استعمال پر مجبور کردیتا ہے۔ جیسا کہ حزب التحریر نے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ166میں اعلان کیا ہے کہ''ریاست اپنی ایک خاص کرنسی،آزادانہ طور پر جاری کرے گی اور اس کو کسی غیر ملکی کرنسی سے منسلک کرنا جائز نہیں''۔اسی طرح دستور کی دفعہ167میں لکھا ہے کہ ''ریاست کی نقدی (کرنسی) سونa اور چاندی ہوگی، خواہ اسے کرنسی کی شکل میں ڈھالا گیا ہو یا نہ ڈھالا گیا ہو۔ ریاست کے لیے سونے چاندی کے علاوہ کوئی نقدی جائز نہیں۔ تاہم ریاست کے لئے سونا چاندی کے بدل کے طور پر کوئی اورچیز جاری کرنا جائز ہے۔ بشرطیکہ ریاست کے خزانے میں اتنی مالیت کا سونا چاندی موجود ہو''۔ ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعہ 168کے مطابق''اسلامی ریاست اور دوسری ریاستوں کی کرنسیوں کے مابین تبادلہ جائز ہے جیسا کہ اپنی کرنسی کا آپس میں تبادلہ جائز ہے''۔
ریاستِ خلافت کا سٹیٹ بینک
ریاستِ خلافت کا سٹیٹ بینک ایک مالیاتی ادارہ ہو گا جس کا کام حقیقی معیشت جیسے زراعت اور صنعتوں میں ترقی اور اضافے کے لیے مدد فراہم کرنا ہوگا۔ ریاست خلافت میں سٹیٹ بینک کا مقصد قرضوں کے ذریعے مقامی زرعی اور صنعتی شعبے کو مدد فراہم کرنا اور ایک متحرک اور طاقتور معیشت کو قائم کرنا ہو گا۔
جیسا کہ حزب التحریرنے ریاست خلافت کے مجوزہ دستور کی دفعہ169میں اعلان کیا ہے کہ''بینک کھولنے کی مکمل ممانعت ہو گی اور صرف سٹیٹ بینک موجود ہوگا جس میں کوئی سودی لین دین نہ ہو گا اور سٹیٹ بینک، بیت المال کے محکموں میں سے ایک محکمہ ہو گا''۔
سود پر مبنی قرضوں کے نتیجے میں ہونے والے ظلم
اگر خلافت پاکستان میں قائم ہوتی ہے تومعیشت کو تباہ کرنے اور پھر مزید قرضوں کے حصول کے لیے بھیک مانگنے کی بجائے یہ ریاستِ خلافت دنیا بھر میں مغربی استعماری سود پر مبنی قرضوں کے نتیجے میں ہونے والے ظلم کے خلاف عالمی رائے عامہ کو متحرک کرے گی۔ یہی وہ ظلم پر مبنی نظام ہے جو کئی ممالک کو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے سے روکتا ہے۔ یہ نظام قرضوں کے ساتھ ایسی شرائط عائد کردیتا ہے جس کے نتیجے میں معیشت کا دم گھٹنا شروع ہو جاتا ہے یہاں تک کہ قرض کی اصل رقم سے بھی کئی گنا زائد سود دینے کے باوجود معیشت کی قرضے سے جان نہیں چھوٹتی۔ جیسا کہ حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ165میں اعلان کیا ہے کہ''یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ یہ غیر ملکی سرمایہ ہی ہے جو اسلامی علاقوں میں کفار کے قدم جمانے اور ان کے اثرونفوذ کو مضبوط کرنے کا سبب رہا ہے اور کفار کو مسلمانوں کے علاقوںمیں قدم جمانے کی اجازت یا سہولت دینا حرام ہے''۔
24رمضان 1443 ہجری حزب التحریر
25 اپریل 2022ء ولایہ پاکستان
ہجری تاریخ :24 من رمــضان المبارك 1443هـ
عیسوی تاریخ : پیر, 25 اپریل 2022م
حزب التحرير
ولایہ پاکستان