بسم الله الرحمن الرحيم
ہمیں اپنی خلافت کوکھوئے ہوئے سو ہجری سال ہوگئے ہیں،
ہم اُس وقت تک تبدیلی کا چہرہ نہیں دیکھ پائیں گے جب تک خلافت کو دوبارہ قائم نہ کرلیں
اے پاکستان کے مسلمانو!
کیا ایسا نہیں کہ جب سے پاکستان کے موجودہ حکمرانوں نے اس جمہوری نظام میں اقتدار سنبھالا ہے ہم شدید مایوسی کے عالم میں ہیں، حالانکہ یہ حکمران ہمارے اندر موجود تبدیلی کی شدید اور گہری خواہش کو پورا کرنے کے وعدےپر اقتدار میں آئے تھے؟ کیا یہ بات ہم پر واضح نہیں ہوگئی کہ پاکستان میں جمہوری نظام تلے نہ تو 75 سال میں کوئی تبدیلی آئی اور نہ ہی اگلے 75 سال میں کوئی تبدیلی آئے گی؟ اورکیا یہ بات بھی واضح نہیں ہوگئی کہ جمہوری نظام کے تحت نہ صرف پاکستان بلکہ مسلم دنیا میں کہیں بھی تبدیلی نہیں آئے گی؟ اے مسلمانو! کیا اب بھی آپ پر یہ حقیقت واضح اور عیاں نہیں ہوئی؟!
جمہوری نظام کی ناکامی کی تکلیف دہ حقیقت کو جان لینے والے ہم تنہا نہیں ہیں بلکہ مشرق و مغرب کے غیر مسلم بھی اس بات کو محسوس کر رہے ہیں۔ دنیا میں جمہوریت کے سب سے بڑے علمبردار ملک امریکا کے لوگ جمہوریت سے واضح طور پرغیر مطمئن ہیں، وہ بدترین تقسیم سے دوچار ہیں اور جمہوری نظام کی ناانصافی کے خلاف اپنے غم و غصے کے اظہار کے لیے سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت، ہندو ریاست، غریب کسانوں کے مظاہروں سے لرز اٹھی ہے جبکہ کسانوں کے علاوہ ہندوستان کے بے شمارلوگ غربت سے بدحال ہیں۔
بے شک جمہوریت نے دِکھا دیا ہے کہ یہ انسانوں کے امور کی دیکھ بھال کرنے سے قاصر اور ناکام ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو کہ جب جمہوریت کی حقیقت یہ ہے کہ اس میں حلال وحرام ،جائز و ناجائز کا تعین انسان کی ناقص و محدود عقل کرتی ہے ۔ مزید یہ کہ جمہوریت اقتدار میں موجود لوگوں کو فیصلہ سازی کا اختیار دیتی ہے پس یہ لوگ اوّل و آخر اپنے مفادات کے تحفظ کو یقینی بناتے ہیں اور اُن لوگوں کو محروم رکھتے ہیں جن پر وہ حکمران ہوتے ہیں۔ تو اے مسلمانو! ہم کس طرح اپنی مشکلات و مسائل کے حل کے لیے بار بارجمہوری نظام سے اُمید لگا سکتے ہیں؟ آخر کس طرح؟
اے پاکستان کےمسلمانو!
جمہوریت دنیا بھر میں ناکام ثابت ہوچکی ہےاور یہی بہترین وقت ہے کہ اسے دفن کردیا جائے۔ غیر مسلموں کو اس کا کوئی متبادل نہیں سُوجھتامگر اسلامی امت کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ اس امت کے پاس متبادل کے طور پر وہ عظیم دین موجود ہے جو نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ پوری انسانیت کو سکون و اطمینان مہیا کر سکتا ہے کیونکہ یہ صرف اسلام ہی ہے کہ جس کے تحت حکمران نہ تو لوگوں کا استحصال کرسکتا ہے اور نہ ہی ان پر ظلم کرسکتا ہے کیونکہ اسلام میں حکمران اور رعایا دونوں ہی اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے اوامر و نواہی (احکامات اور ممانعتوں) کے پابند ہوتے ہیں۔
جمہوریت اور آمریت کے برخلاف خلافت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحی وہ واحد پیمانہ ہوتی ہے جس کی بنیاد پر صحیح اور غلط کا فیصلہ کیا جاتا ہے اورانسانوں کی رائے ،خواہ وہ متفقہ ہی کیوں نہ ہو ،کسی بھی معاملے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم کو منسوخ یا معطل نہیں کرسکتی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
﴿وَأَنِ ٱحْكُم بَيْنَهُمْ بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ وَلاَ تَتَّبِعْ أَهْوَآءَهُمْ وَٱحْذَرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ إِلَيْكَ﴾
"اور(ہم پھر تاکید کرتے ہیں کہ) جو (حکم) اللہ نے نازل فرمایا ہے اسی کے مطابق آپ ﷺ ان میں فیصلہ کریں ، اور ان کی خواہشوں کی پیروی کبھی نہ کیجئے گا اور ان سے بچتے رہیں کہ یہ کہیں کسی حکم سے ،جو اللہ نےآپ پر نازل فرمایا ہے ،آپ کو بہکانہ دیں"(المائدہ، 5:49)۔
مسلمانوں کا خلیفہ نہ تو آمرہوتا ہے اور نہ ہی جمہوری حکمران۔ خلیفہ نہ تو اپنی ذاتی رائے کی بنیاد پر حکمرانی کرتا ہے اور نہ ہی اسمبلی کی متفقہ رائے کی بنیاد پر بلکہ وہ صرف اور صرف قرآن و سنت کی بنیاد پر حکمرانی کرتا ہے ۔ اپنی رعایا کے ساتھ کسی تنازعہ کی صورت میں اس کی ذات اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے قانون سے بالاتر نہیں ہوتی بلکہ اللہ کا قانون اس پر بھی اسی طرح نافذ و جاری ہوتا ہے ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
﴿فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ﴾
"اور اگر کسی بات پر تم میں اختلاف واقع ہو، تو اگر اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو ،تو اس معاملے میں اللہ اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو"(النساء، 4:59)۔
خلیفہ پر لازم ہے کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم کے مطابق لوگوں کے حقوق ادا کرے اور ان سے جو کچھ بھی وصول کرے وہ اللہ کے حکم کی بنیاد پر ہو۔
پس ہم دیکھتے ہیں کہ پہلےخلیفہ راشد، خلیفۂ رسول ﷺ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اعلان فرمایا ،
وَالضّعِيفُ فِيكُمْ قَوِيّ عِنْدِي حَتّى أُرِيحَ عَلَيْهِ حَقّهُ إنْ شَاءَ اللهُ, وَالقَوِيّ فِيكُمْ ضَعِيفٌ عِنْدِي حَتّى آخُذَ الحَقّ مِنْهُ إنْ شَاءَ اللهُ
"اور تم میں سے کمزور میرے سامنے طاقتور ہے جب تک کہ میں اس کو اس کا حق نہیں دِلا دیتا ، اگراللہ نے چاہا، اور تم میں سے طاقتور میرے سامنے کمزور ہے جب تک کہ میں اس سے حق لے نہیں لیتا ،اگراللہ نے چاہا"۔
اورلہٰذا دوسرے خلیفۂ راشد، امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقؓ نے برملا کہا ، إِنَّ امْرَأَةً خَاصَمَتْ عُمَرَ فَخَصَمَتْهُ "ایک عورت نے عمر سے بحث کی اور وہ اُس پر غالب آگئی"۔ جب ایک عورت نے حضرت عمر فاروقؓ کے اس قول ، لَا تُغَالُوا فِي مُهُورِ النِّسَاءِ "خواتین کے حق مہر کو زیادہ نہ بڑھاؤ"پر اعتراض کیا اور کہا،لَيْسَ ذَلِكَ لَكَ يَا عُمَرُ إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ "اے عمر! آپ کو ایسا کرنے کا حق نہیں ہے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے (اس کی اجازت دیتے ہوئے) فرمایا"،
وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا ،
"اور تم نے اس(عورت کو) ڈھیروں مال دیا ہو"(النساء؛ 4:20)۔
خلافت کے دور میں اسلام کو جو عظمت حاصل تھی، زمین و آسمان کے مکین اس کے گواہ ہیں۔ یہ اسلام کی بنیاد پر حکمرانی تھی کہ جو لوگوں کے جوق در جوق اسلام قبول کرنے کا باعث بنی ، مشرق میں انڈونیشیا سے وسطی ایشیا تک، اور مغرب میں بوسنیا سے لے کر مراکش تک یہی صورت حال تھی۔ یہ اللہ کی کتاب قرآنِ مجید اور رسول اللہﷺ کی سنت کی بنیاد پر حکمرانی تھی کہ مظلوم ظالموں سے بچنے کے لیے خلافت کا رُخ کرتے تھے، یورپ کے وہ یہودی اس کی ایک مثال ہیں کہ جنہوں نے وہاں کے عیسائیوں کے بدترین مظالم سے بچنے کے لیے خلافت کی جانب ہجرت کی ۔ خلافت دنیا کی کسی طاقت سے خوفزدہ نہ ہوئی ، وہ صرف اللہ پر بھروسہ کرتی تھی اور اس نے رسول اللہﷺ کی ناموس پر حملہ کرنے والوں کو محض جنگ کی دھمکی دے کر خاموش کرادیا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحی کی بنیاد پر حکمرانی کی وجہ سے ہی خلافت اس بات کی پابند تھی کہ وہ مظلوموں کی پکار کا جواب دینے، مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانے، اور نئے علاقوں کو اسلام کے نور سے منور کرنے کے لیے افواج کو حرکت میں لائے، اور خلافت صدیوں یہ فرض ادا کرتی رہی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت نے خلافت کو اس بات کا پابند کیا کہ وہ غریب اور مقروض افراد کی مدد کرے اور اپنے لوگوں کو اعلیٰ ترین تعلیم اور صحت کی سہولیات مفت فراہم کرے ، اورکوئی ریاست اس معاملے میں اس کی ہمسر نہ تھی ۔
اے پاکستان کےمسلمانو!
آج سے سو ہجری سال قبل ، رجب 1342 ہجری بمطابق مارچ 1924، ہم اپنی خلافت کھو بیٹھے جس کے نتیجے میں اسلام کی حکمرانی کے خاتمے کا عظیم سانحہ رونما ہوا اور اب تک یہ حکمرانی بحال نہیں ہوسکی۔ خلافت کے خاتمے کے بعد سے صورتِ حال یہ ہے کہ مسلم دنیا کے حکمران مظلوموں کی آہ و بکااوردُہائیوں پر ٹس سے مس نہیں ہوتے اور انہوں نے ہماری افواج کو مقبوضہ اسلامی علاقوں کو آزاد کرانے سے روک رکھا ہے۔ ہم اپنے علاقوں میں ظلم وجبراور غربت سے بھاگ کردوسرے علاقوں میں پناہ کی تلاش میں سمندر میں ڈوبنے تک کا خطرہ مول لیتے ہیں۔ رسول اللہﷺ کی ناموس پر بار بار حملے کیے جارہے ہیں اگرچہ اس امت کے پاس لاکھوں کی تعداد میں قابل اور جہاد کے لیے تیار افواج بھی موجود ہیں۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے مسلم علاقوں کوعطا کردہ بیش بہا وسائل کے خزانوں کے باوجود ہم بدترین غربت و افلاس کا سامنا کررہے ہیں۔ خلافت کی عدم موجودگی میں ہم بغیر منزل کے بھٹک رہے ہیں اور یقیناًہم اسلام کو ایک طرف ڈال کراور جمہوریت یا آمریت کو اپنا کررستہ نہیں پا سکتے۔
خلافت کے معاملے سے ہم کیسے غافل اورخاموش رہ سکتے ہیں جبکہ ہمارے معزز آباؤ اجداد نے اسے بچانے کے لیے زبردست جدوجہد کی تھی، اگرچہ اس وقت برطانوی راج ہماری گردنوں پرمسلط تھا؟ جب برطانوی استعمار نے عثمانی خلافت کے خاتمے کے لیے جنگ کی آگ بھڑکائی تو علامہ اقبالؒ نے نومبر 1912ء کو بادشاہی مسجد لاہور میں اپنی نظم "جواب شکوہ" پڑھی تا کہ خلافت کے لیے چندہ جمع کیا جاسکے۔ مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی جوہر نے خلافت کی حمایت میں ایک وسیع اورزبردست تحریک برپا کی ۔ پھر جب برطانوی ایجنٹ،ترک قوم پرست، مصطفیٰ کمال (اتاترک)نے آخری فیصلہ کن وار کیا اور رجب 1342 ہجری بمطابق مارچ 1924 کو خلافت کے خاتمے کا اعلان کیاتواُس وقت ہمارے عاقبت اندیش آباؤ اجداد نے ایک ٹیلی گرام جاری کیا جس میں خبردار کیا گیا تھا کہ خلافت کا خاتمہ "شرارتی عزائم کا دروازہ کھول دے گا"۔
یہ تھا ہمارے آباؤ اجدادکا ردعمل جس وقت خلافت کا خاتمہ ہونے جارہا تھا۔ تو آج جب خلافت کو کھوئے پورے ایک سو ہجری سال ہوگئے ہیں تو ہمارا ردعمل کیا ہونا چاہیے؟!آج جب پاکستان کسی استعماری طاقت کے براہِ راست قبضے میں نہیں ہے بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اسے ایک بہت بڑی نوجوان آبادی ،بے شمار قدرتی وسائل اور طاقتور افواج سے نوازا ہوا ہے،تو خلافت کے خاتمے کے سو ہجری سال مکمل ہونے پر ہمارا ردعمل کیا ہونا چاہیے؟ آج ہمارا ردِ عمل کیا ہونا چاہئے کہ جب رسول اللہﷺنے خلیفہ کی بیعت کوفرض قرار دینے کے لیے جو الفاظ ادا کیے وہ انتہائی شدید ہیں، آپ ﷺ نے خلافت کے بغیر موت کو جاہلیت یعنی اسلام سے ہٹ کر موت قرار دیا ، جو کہ بدترین موت ہے، ارشاد فرمایا:
مَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً
"جس کو اس حالت میں موت آئی کہ اس کے گلے میں (خلیفہ کی) بیعت کا طوق نہ ہوا تو وہ جاہلیت کی موت مرا"(مسلم)۔
اے پاکستان کے مسلمانو!
امام احمدبن حنبل نے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ "پھر ظلم وجبر کی حکمرانی ہوگی، اور اُس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر جب اللہ چاہے گا اسے اٹھا لے گا۔ اور پھر نبوت کے نقش قدم پر خلافت ہوگی"،
اور اس کے بعد آپ ﷺ خاموش ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ کے یہ مبارک الفاظ، جو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحی ہیں، ہمارے لیے نہ صرف ایک خوشخبری ہے کہ نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت نے دوبارہ قائم ہونا ہے بلکہ یہ حدیث ہم سے اس کے قیام کی جدوجہد کا تقاضا بھی کرتی ہے کیونکہ ہم پر یہ فرض ہے کہ ہماری حکمرانی صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نازل کردہ وحی کی بنیاد پرہو۔
اے مسلمانو! خلافت کو تباہ ہوئے سوہجری سال گزر گئے ہیں، تو اٹھو اور اس کے قیام کے لیے حزب التحریر کی جدوجہد کا حصہ بن جاؤ!
ہجری تاریخ :30 من جمادى الثانية 1442هـ
عیسوی تاریخ : جمعہ, 12 فروری 2021م
حزب التحرير
ولایہ پاکستان