الخميس، 19 جمادى الأولى 1446| 2024/11/21
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

المكتب الإعــلامي
ولایہ مصر

ہجری تاریخ    22 من صـفر الخير 1446هـ شمارہ نمبر: 06 / 1446
عیسوی تاریخ     منگل, 27 اگست 2024 م

پریس ریلیز

 فلسطین صرف اسلام اور مسلمانوں کا مسئلہ ہے!

یہ افواج کو فوراً اور لازم حرکت میں لانے کا مسئلہ ہے، جو اسے آزاد کرائیں!

)ترجمہ)

 

بروز سوموار، 26 اگست 2024ء کو اپنے آفیشل پورٹل اور اکاؤنٹ پر جاری کردہ ایک بیان میں جامعہ الازہر شریف نے ایک انتہا پسند صیہونی اہلکار کی طرف سے مقدس مسجد اقصیٰ کے اندر یہودیوں کی عبادت گاہ کے قیام کی حمایت کے حوالے سے جاری کیے گئے انتہا پسندانہ اور اشتعال انگیز بیانات کی شدید مذمت کی۔ جامعہ الازہر الشریف نے زور دے کر کہا کہ یہ اشتعال انگیز بیانات صرف ایک انتہا پسند ذہنیت کی طرف سے ہی جاری کیے جاتے ہیں، جو نہ تو مذاہب کا احترام کرتے ہیں، نہ ہی دوسروں کے مقدسات کا اور نہ ہی عالمی قوانین اور کنونشنز کا احترام کرتے ہیں۔ ایسی ذہنیت صرف جنگل کا قانون جانتی ہے، یعنی ظلم و جبر اور مجرمانہ سرگرمیاں۔ جامعہ الازہر نے پوری دنیا کو یاد دلایا کہ بابرکت مسجد الاقصیٰ، اپنی تمام حدود کے ساتھ، خالصتاً اسلامی زمین ہے، اور یہ مسلمانوں کا تاریخی حق بھی ہے اور یہ ان شاءاللہ مسلمانوں کی زمین رہے گی۔ مسجد اقصیٰ اپنی اصل میں ہی خالص اسلامی زمین ہے، اور یہ دو قبلوں میں سے قبلۂ اول اور مقدس مساجد میں سے تیسری مسجد ہے۔

 

یہود کے صیہونی ناپاک مجرمانہ منصوبے جو کہ مسجد الاقصیٰ اور القدس شہر کے تاریخی مقامات کو یہودیت میں ڈھالنا چاہتے ہیں، ان کے باوجود یہ مقدس زمین ایسے ہی رہے گی یعنی اسلامی ہی رہیں گے۔ جامعہ الازہر نے مسلم ممالک کی حکومتوں سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ اس صیہونی شخصیت اور دیگر انتہا پسند شخصیات کے ان غیر ذمہ دارانہ اور بار بار بیانات کے خلاف سنجیدہ اور سخت موقف اختیار کریں۔ یہ صیہونی مسجد الاقصیٰ پر دھاوا بولنے اور بے گناہ فلسطینیوں کے خلاف تشدد اور دہشت گردی کو ہوا دینے کے عادی ہیں۔ جامعہ الازہر نے مسلم ممالک کی حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس انتہا پسند قابض وجود کے اہلکاروں کے مجرمانہ بیانات اور دہشت گردانہ طور طریقوں کو لگام دیں۔

 

*اے جامعہ الازہر کے علمائے کرام!*

آپ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ارض مقدس فلسطین کا مسئلہ اسلام اور صرف مسلمانوں کا ہی مسئلہ ہے۔ فلسطین مسلمانوں کی افواج کا مسئلہ ہے جن پر لازم ہے کہ وہ اسے آزاد کرانے کے لئے فوری حرکت میں آئیں۔ عالمی برادری اور اس کے عالمی معاہدے اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ قطعی کوئی انصاف نہیں کرتے۔ بلکہ اس کے بجائے وہ سب ملکر یہود کو، ان کے وجود کو اور اسلام کی سرزمینوں پر یہود کے مسلسل جاری غاصبانہ قبضے کی ہی حمایت کرتے ہیں۔ ان کی مذمتیں بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہیں۔ ان پر بھروسہ کرنا ہرگز جائز نہیں۔ بلکہ ان سے انصاف اور بھلائی کی امید پر بھروسہ کرنا اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اس فرمان سے مخالفت ہے،

 

﴿وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ﴾

"اور ان کی طرف نہ جھکو جنہوں نے ظلم کیا، پس تمہیں آگ چھو لے گی، اور تمہارے لئے اللہ کے سوا کوئی مددگار نہیں، اور پھر تمہاری کوئی مدد نہ کی جائے گی" (ھود: 11:113)

 

آپ اس وجود کی حقیقت بھی جانتے ہیں اور اس وجود کا دشمن ہونا بھی جو کہ اسلام کی سرزمین کو ہڑپ کرتا جا رہا ہے۔ یہودی وجود کے ساتھ معاملات رکھنا ہرگز جائز نہیں۔ یہود کے ساتھ معاملات رکھنا، اللہ سبحانہ و تعالیٰ، اس کے رسول ﷺ اور اللہ کے دین سے غداری ہے۔ اس سب کے باوجود، آپ مصری حکومت کی طرف سے یہودی وجود کے ساتھ معاملات کی کوئی مذمت نہیں کرتے، اور نہ ہی ان معاہدوں کی مذمت کرتے ہیں جو اس حکومت نے طے کر لئے ہیں اور مزید جو کہ معاہدوں اور تجارتی تعلقات کی صورت میں طے کئے جا رہے ہیں۔ نہ ہی آپ اس کی مذمت یا یہ اعلان نہیں کرتے کہ یہ شریعت کے خلاف ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ناراضگی اور غضب کو دعوت دیتا ہے۔ یقیناً آپ کو یہ معلوم ہے کہ ہمارے اور یہودیوں کے مابین حالت جنگ کے سوا کچھ نہیں ہونا چاہیے، یہاں تک کہ ان کے وجود کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے اور پوری سرزمین اسلام کو آزاد کرا لیا جائے۔ اور یہ وہ معاملہ ہے جو ہمارے ملک کے ان حکمرانوں نے، جن سے آپ خطاب کر رہے ہیں جبکہ ان کی حقیقی وفاداریاں کہاں ہیں، یہ معاملہ نہ تو کیا ہے اور نہ ہی وہ یہ کریں گے۔ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ حکمران ہی اس غاصب یہودی وجود کی بقا کی اصل وجہ ہیں، اور ان کے بغیر اور ان کے تعاون کے بغیر اس وجود کی موجودگی اور بقا کے کوئی عناصر نہ تھے۔ اور ان حکمرانوں میں خصوصاً تو یہ مصری حکومت ہے، جو یہودی وجود کی بنیادی حامی ہے، اور اس کی جنوبی سرحدوں کی محافظ ہے۔

 

*اے جامعہ الازہر کے علمائے کرام!*

آپ جانتے ہیں کہ کفار کی فوجی موجودگی کو مسلمانوں کی زمینوں سے نکالنا شرعی فریضہ ہے۔ جب اسلام کی سرزمین پر حملہ ہو جائے، یا جونہی یہ معلوم ہو جائے کہ دشمن مسلم زمینوں پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے، تو دشمن کو پسپا کرنے کے لیے جہاد فرض ہو جاتا ہے، بشرطیکہ اس زمین کے لوگ اس کے لیے کافی ہوں۔ اگر دشمن قبضہ کرنے کے قابل ہو جائے، تو جہاد کا فرض اس زمین سے متصل علاقوں میں منتقل ہو جاتا ہے۔ اگر وہ اس قابل نہ ہوں، تو پھر یہ فرض ان کے پڑوسیوں پر عائد ہو جاتا ہے، اور اسی طرح یہ فرض تمام مسلمانوں پر واجب ہو جاتا ہے۔ اگر دشمن کسی زمین پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو جائے، تو اس مقبوضہ زمین کے لوگوں کے لیے جہاد کا اجر ہے، کیونکہ وہ قیدی بن جاتے ہیں۔ تاہم، یہ فرض ان مسلمانوں پر باقی رہتا ہے جو مقبوضہ علاقے کے ارد گرد کے ممالک میں ہیں اور اس کے اہل ہیں۔ چونکہ موجودہ حکمران مقبوضہ زمینوں کو آزاد کرانے کے لیے جہاد کی اجازت نہیں دیتے، جبکہ شرعی قاعدہ یہ ہے کہ [وما لا یتم الواجب إلا به فھو واجب] "وہ چیز جو فرض کی تکمیل کے لیے ضروری ہو وہ بھی فرض ہے"، لہٰذا ان حکمرانوں کو ہٹانا فرض ہے تاکہ جہاد بحال ہو سکے، اور اسلام کی زمین اور اس کے مقدسات کو آزاد کرایا جا سکے۔ ان سب سے بڑھ کر، تمام فرائض کا تاج یہ ہے کہ اسلام کو اس کی ریاست میں نافذ کیا جائے، یعنی نبوت کے نقش قدم پر خلافت راشدہ۔

 

آپ جانتے ہیں، اے علمائے ازہر، کہ ایمان کے بعد کوئی فریضہ اس سے زیادہ اہم نہیں ہے کہ دشمن کو روکا جائے جو اسلام کی زمین پر قابض ہو چکا ہے۔ آپ ہمارے لوگوں کے خلاف ناجائز وجود کے جرائم دیکھتے ہیں جو مقدس سرزمین میں ہو رہے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ وہ حکومت جس نے ان کے ساتھ ہونے والے ظلم کو روکنے، ان کی حمایت کرنے، اور ان کی زمین کو آزاد کرانے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا، وہ محض مذمتوں سے حرکت میں نہیں آئے گی۔ اس حکومت کا اصل مقصد مصر کے لوگوں کے غصے کو کنٹرول کرنا ہے اور انہیں فلسطین کے لوگوں کی حمایت میں حرکت کرنے سے روکنا ہے، اور مقدس مقامات کی بے حرمتی اور توہین پر غصہ ظاہر کرنے سے باز رکھنا ہے۔ شاید آپ جو کر رہے ہیں وہ اسی کردار کا حصہ ہے جو غصے کو کنٹرول کرنے کے لیے ہے۔ آپ کی بات گویا یہ ہے کہ یہودی وجود کے شدت پسندوں کو روکا جائے تاکہ وہ بس ایسے بیانات نہ دیں جو مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکائیں اور ایسا انقلاب پیدا نہ ہو جسے حکومتیں روک نہ سکیں، اور شاید یہ ان کے خاتمے کا ذریعہ بن جائے۔

 

ہم نے بارہا کہا ہے کہ یہودی وجود ایک ایسا وجود ہے جو اسلام کی سرزمین پر قابض ہے، امت کی مقدسات کی بے حرمتی کرتا ہے، اس کے مقدس مقامات کو ناپاک کرتا ہے، اور ہمارے لوگوں کا خون بہاتا ہے جو مقدس سرزمین میں رہتے ہیں۔ یہودی وجود کی حقیقت ایک جارحانہ دشمن کی سی ہے جو اسلام کی سرزمین پر قابض ہے، جسے روکنا لازم ہے، اور اس مقصد کے لیے فوجوں کو متحرک کیا جانا چاہیے۔ یہودیوں کی جانب سے جاری کیے گئے اشتعال انگیز بیانات سے پہلے ہی اس سے بھی زیادہ اشتعال انگیز اقدامات عمل پذیر ہو چکے ہیں۔ اس قابض وجود کا محض اسلام کی زمین پر موجود ہونا ہی خود ایک اشتعال انگیز اقدام ہے جو فوجوں کو اس کے خاتمے کے لیے متحرک کرنے کا متقاضی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے ممالک کے حکمران مغرب کے ایجنٹ ہیں، جو اس وجود کے حامی ہیں، جس نے اسے ہماری امت کے قلب میں ایک خنجر اور مغرب کے لیے امت کے سینے میں ایک پیش قدم فوجی اڈہ بننے کے لیے قائم کیا ہے۔ لہٰذا، ہمارے حکمران ہی اس قابض وجود کے محافظ ہیں۔ وہی اصل میں وہ آہنی حصار ہیں جو یہودی وجود کو تحفظ فراہم کرتے ہیں، اور امت اور اس کی افواج کے درمیان حائل ہیں، اور اس بات سے روکتے ہیں جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان پر لازم قرار دیا ہے، یعنی فلسطین کے لوگوں کی حمایت اور اس غاصب وجود کا خاتمہ۔

 

*اے جامعہ الازہر کے علمائے کرام!*

حکمرانوں کی اطاعت قبول کرنا، ان کی ملی بھگت، اور ان کا افواج کو فلسطین کے مکمل آزاد کرانے کے لیے متحرک کرنے سے انکار کرنا، آپ پر لازم کرتا ہے کہ آپ افواج کو متحرک کرنے کا مطالبہ کریں۔ آپ کو ان کو متحرک کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے، اولاً ان حکمرانوں کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے جو ان کے اور اسلام کی سرزمین کو آزاد کرانے کے فرض کے درمیان رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، اور دوسرا، اسلامی ریاست کے قیام کے لیے جو شریعت کے احکامات نافذ کرے، جن میں سب سے اولین حکم دشمن کو پسپا کرنا ہے، جو کہ ظلم و ستم پر اتر آیا ہے اور مبارک سرزمین فلسطین میں ہمارے لوگوں کا خون بہا رہا ہے۔

 

یہ آپ کا وہ فرض ہے جس کے بارے میں آپ سے قیامت کے دن اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے پوچھا جائے گا۔ آپ جانتے ہیں کہ اس وقت آپ پر اس سے زیادہ کوئی اور فرض واجب نہیں ہے۔ آپ کے لیے خاموش رہنا جائز نہیں ہے۔ بلکہ آپ پر لازم ہے کہ آپ لوگوں کو اس کے لیے ابھاریں اور مصر کے سپاہیوں کو ترغیب دیں کہ وہ وہی کریں جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان پر فرض کیا ہے، یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم مکمل کرے اور اپنے سپاہیوں کو فتح عطا فرمائے۔ آپ کے لیے پیچھے ہٹنا یا اس معاملے میں غفلت برتنا جائز نہیں ہے، ورنہ ہم پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے دی گئی وعید پوری ہو جائے گی، اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہم کو ہم سے بہتر لوگوں سے تبدیل کر دیں گے۔ اللہ عزوجل نے فرمایا:

 

﴿وَإِن تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُم ﴾

" اور اگر تم منہ پھیرو گے تو وہ تمہاری جگہ اور لوگوں کو لے آئے گا اور وہ تمہاری طرح کے نہیں ہوں گے" (سورة محمد؛ 47:38)۔

 

پس اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم پر عمل پیرا ہوں جو وہ پسند کرتا ہے، ایک جراتمندانہ انکار سب سے بڑے منکر کے خلاف، جو کہ شریعت کے احکامات کی غیر موجودگی اور اس کی ریاست کی عدم موجودگی ہے۔ یہی عدم موجودگی ہے جس نے اسلام کی سرزمین پر قبضے، اس کے مقدسات کی بے حرمتی، امت اسلامیہ کے وسائل کے استحصال، اور اس کی اور اس کے مقدسات کی توہین کو جنم دیا ہے، جس کی جرآت کوئی نہ کر پاتا اگر امت کا ایک امام اور ایک ریاست ہوتی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سب سے بڑی نیکی کا حکم دیا ہے، جو کہ مصر کی فوج میں مخلص افراد کو ابھارنے کا ہے کہ وہ فلسطین کی آزادی کے لیے حرکت میں آئیں، جس کا آغاز قاہرہ کو اس ایجنٹ نظام سے آزاد کرانے سے کریں جو ان کے اور ان کے شرعی فرض کے درمیان کھڑا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اسلامی ریاست کے قیام کا حکم دیا ہے جو اس کے شریعت کے احکام کو مکمل طور پر نافذ کرے، اور نہ صرف فلسطین کی بلکہ تمام مسلمانوں کی مقبوضہ زمینوں کی آزادی کی طرف افواج کو متحرک کرے۔ پس اس امت کے لیے ایک مینارۂ نور بنیں جو اسے دوبارہ اپنے اقتدار کو اسلام اور اس کی ریاست، نبوت کے نقش قدم پر خلافت راشدہ کے سائے تلے واپس حاصل کرنے کا درست راستہ دکھائے۔

 

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا :

﴿وَإِذْ أَخَذَ اللهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْا بِهِ ثَمَناً قَلِيلاً فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ ﴾

"اور جب اللہ نے ان لوگوں سے جن کو کتاب عنایت کی گئی تھی اقرار کر لیا کہ (جو کچھ اس میں لکھا ہے) اسے صاف صاف بیان کرتے رہنا۔ اور اس (کی کسی بات) کو نہ چھپانا تو انہں نے اس کو پس پشت پھینک دیا اور اس کے بدلے تھوڑی سی قیمت حاصل کی۔ یہ جو کچھ حاصل کرتے ہیں برا ہے"(سورة آل عمران؛ 3:187)

 

ولایہ مصر میں حزب التحرير کا میڈیا آفس

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
ولایہ مصر
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
تلفون: 01015119857- 0227738076
www.hizb.net
E-Mail: info@hizb.net

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک