المكتب الإعــلامي
ولایہ شام
ہجری تاریخ | 19 من جمادى الثانية 1437هـ | شمارہ نمبر: |
عیسوی تاریخ | پیر, 28 مارچ 2016 م |
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اہل شام اسلامی منصوبے اورسیکولر منصوبے کے درمیان تصادم میں قدم رکھ چکے ہیں
( مغرب کی رسّیوں کو نہیں اللہ کی رسّی کو تھام لو)
کافر مغرب نے 1924 میں ریاست خلافت کو گرانے اور اسلامی سرزمین کو بے وقعت ریاستوں میں تقسیم کرنے کے بعد مسلمانوں کی گردنوں پر اپنے ایجنٹوں کو حکمران کے طور پر مسلط کر دیا۔ لہٰذا وہ مسلمانوں پر سیکولرنظام (جو کافر مغرب کا نظام ہے)کے ذریعے حکومت کرتے ہیں،ہر اس شخص سے لڑتے ہیں جو نبوت کے طریقے پر خلافت راشدہ کی طرف دعوت دیتا ہےاور یہ ان سرحدوں کا دفاع کرتے ہیں جن کو اسلام کے دشمنوں نے اسلام سے عداوت اور وطنیت سے وفاداری کی بنیاد پر قائم کی ہیں۔ یہ مختلف اسالیب سے امت کو گمراہ کرتے ہیں؛ کبھی وطنیت کی بنیاد پر ترانے تراشتے ہیں، کبھی اپنے آقا کے دئیے ہوئے جھنڈے کی تقدیس کر تے ہیں اور ہر صبح اس کو سلامی دیتے ہیں۔ چنانچہ فرانسیسی مینڈیٹ کا جھنڈا جس کو ھنری بونسون نے 1930 میں شام کے جھنڈے کے طور پر مقرر کیا تھا جس کا ذکر اس دستور میں ہے اور جس کو سرکاری جریدے نے فروری 1932 میں شائع کیا، جس نے اپنے پہلے باب کے شق چہارم میں شام کے جھنڈے کے رنگ کا تعین کیا۔ یہ جھنڈا ان جھنڈوں میں سے تھا جن کو اسلامی سرزمین کی بندر بانٹ کو مستحکم کرنے اور اس کی دوبارہ وحدت کی راہ میں روکاوٹ بننے کے لیے وضع کیا گیا تھا۔
مجرم بشار کی حکومت کے خلاف تحریک کی ابتدا ءمیں اہل شام نے حکومتی جھنڈے کو ہی بلند کیا اور ظلم و استبداد سے آزادی کا مطالبہ کیا۔ پھر جلد ہی اس کی جگہ فرانسیسی مینڈیٹ کے جھنڈے کو غیر شعوری طور پر لہرایا گیا جو کہ ماتحتی کی علامت تھی ۔دراصل انقلابی فرانس کی نمائندگی کرنے والے جھنڈے کو لہرا کر اپنے اور حکومت کے درمیان امتیاز کو ظاہر کرنا چاہتے تھے لیکن ان کو خیال نہیں رہا کہ یہ تو فرانس کی نمائندگی کا جھنڈا ہے۔ پھر ان کے سامنے ان کا ہدف واضح ہوگیا جواسلام کی اساس پر ہے اور قرآن اور سنت سے ان کو راہنما اصول مل گئے، اس لیے حکومت کو گرانے کے ساتھ اسلامی تشخص کا بھی مطالبہ شروع کر دیا۔ اور اس طرح انہوں نے نبوت کے طریقے پر خلافت راشدہ کے قیام کا مطالبہ کیا، اپنے نبی محمد ﷺ کے کلمے والےپر چم کو بلند کیا جو کہ ان کے مطالبے کی ایک علامت ہے۔ معاملہ یہاں تک پہنچا کہ فرانسسی مینڈیٹ والا جھنڈا تقریباً غائب ہی ہوگیا اور صرف میڈیا میں تصاویر کی صورت میں نظر آتا اور اس کا مقصد بھی ادھر اُ دھر سےبیرونی مدد حاصل کرنے ہوتا تھا۔
امریکہ اور روس کی جانب سے جنگ بندی مسلط کرنے کے بعد اور تنازعہ کے بعض فریقوں کی جانب سے ایسی عوامی جمہوری ریاست کے سائے تلے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے اعلان کے بعد جو اسلام کے ذریعے حکمرانی نہیں کرے گی، جو ویانا کنونشن کی پیداوار ہو گی ،امریکی سیاسی حل کے حمایتیوں نے فرانسیسی مینڈیٹ کے جھنڈے کو دوبارہ منظر عام پر لانے اور اس کی تشہیر کا کام شروع کیا، جس میں اس میڈیا نے ان کی مدد کی جو پیشہ ور اور غیر جانبدار ہونے کا دعوی کرتا ہے۔ تمام تر قتل ، تشدد اور قربانیوں کے بعد تحریک کو پھر ابتداء کی طرف لے جانے کی کوشش کی گئ۔ شام کی مبارک سرزمین پر بہائے گئے اس قدر خون کے بعد تحریک کو پھر اس مقام پر لے جانے کی کوشش کی جانے لگی جب یہ تحریک پرامن تھی تاکہ یہ امریکہ کی جانب سے مسلط کی گئی فائر بندی اوراس کےاعلان سے ہم آہنگ ہوجائے کہ شام میں حل صرف سیاسی ہے۔ مگر ان لوگوں نے یہ بات نظر انداز کر دی کہ اہل شام عوامی جمہوری ریاست کے منصوبے کو اور فرانسیسی مینڈیٹ کے جھنڈے کو پس پشت ڈال کر آگے کی طرف بہت سفر کر چکے ہیں۔ اور یہ اس وقت ہوا جب انہیں ان کے اہداف اسلام کی بنیاد پر واضح ہوگئے اور جس کی عکاسی ان کی جانب سے نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کے بھر پور مطالبے سے اور رسول اللہ ﷺ کے پرچم کو اس کی علامت کے طور پر بلند کرنے سے ہوتی ہے۔
بعض لبرل اور مفاد پرستوں یا جاہلوں نے اس کلمے والےجھنڈے کو صرف علامت قرار دے کر اس کی توہین کرنے کی کوشش کی اور یہ ظاہر کیا کہ یہ بھی کپڑے کا ایک ٹکڑا ہے۔ انہوں نے فرانس کی نمائندگی کرنے والے جھنڈے کی تشہیر کی کوشش کی اور اس بات کو نظر انداز کیا کہ جھنڈا کپڑے کا ٹکڑا نہیں بلکہ علامت اور شعار ہو تا ہے۔ اس کی بہترین دلیل یہ ہے کہ اہل شام نے دوبارہ قومی جھنڈا بلند کرنے یا کوئی اور جھنڈا لہرانے سے انکار کر دیا کیونکہ ان سب جھنڈوں کو ان کے وضع کرنے والوں نے ایک شعار کے طور پر وضع کیا ہے۔
اس لیے جھنڈے کا حکم وہی ہے جس کی وہ علامت ہے۔ فرانسیسی مینڈیٹ کا جھنڈا وطنیت ،تفرقے اور کافرمغرب کی غلامی کی علامت ہے، جبکہ رسول اللہ ﷺ کا جھنڈا، جس کے خدو خال عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اس حدیث میں بیان کیے ہیں جس کو ترمذی نے صحیح اسناد سے روایت کی ہے کہ : کانت رایۃ النبی ﷺ سوداء ولواءہ ابیض " رسول اللہ ﷺ کا رایہ کالا اور لواء سفید تھا"، مسلمانوں کی وحدت کی علامت ہے اور یہ ان کے عقیدے اور اس نظام زندگی کی علامت ہے جس کو ان کے رب اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان پر فرض کیا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے ان کو دو بارہ نبوت کے طریقے پر خلافت راشدہ کے قیام کی بشارت دی ہے۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نبی ﷺ کے رایہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے تھے " نبی ﷺ کا رایہ تھا"، اور وہ نبی ﷺ کے زمانے میں موجود د ان رایات کی بات نہیں کر رہے ہیں جن کو نبی ﷺ کے رایہ کے ماتحت کردیا گیا تھا اور جو اسلامی فوج کے مختلف دستوں میں لہرایا جاتا تھا ۔
رہی بات ان لوگوں کی جو کہتے ہیں کہ نبی ﷺ کے جھنڈے کو بلند کرنا فتنے کا باعث ہے تو ان سے ہم کہتے ہیں کہ :یقیناً فتنہ اللہ کے دین سے روکنا ہے ناکہ اللہ کی شریعت کی پابندی ، اور یہ اس لئے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيق﴾ " جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو آزمائش میں ڈالتے ہیں اور پھر توبہ بھی نہیں کرتے ان کے لیے ہی جہنم کا عذاب ہے اور ان کے لیے جلنے کا عذاب ہے"(البروج:10)۔ اور اللہ جل جلالہ نے فرمایا : ﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ "رسول اللہﷺ کے حکم کی مخالفت کرنے والوں کو خبردار ہو نا چاہیے کہ وہ کسی فتنے میں مبتلا ہوں یا درد ناک عذاب ان کو گھیر لے"(النور:63)۔اور اللہ جل شانہ نے مزید فرمایا : ﴿يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ وَصَدٌّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِنْدَ اللَّهِ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ﴾ "یہ تم سے حرام مہینے میں قتال کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ دیجئے کہ اس میں قتال بڑا گناہ ہے مگر اللہ کی راہ سے روکنا، کفر کرنا، مسجد حرام سے روکنا اور وہاں کے لوگوں کو نکالنا اس سے بڑا گناہ ہے اور فتنہ تو قتل سے بھی بڑا گناہ ہے"(البقرۃ:217)۔
لہٰذا شریعت نے اللہ کی راہ سے روکنے کو فتنہ قرار دیا۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض لوگ رسول اللہ ﷺ کے جھنڈے کو فتنہ کہتے ہیں، جبکہ فرانس کےنمائند ہ جھنڈے کو قومی وحدت کی علامت کہتے ہیں! جو لوگ مغرب سے ڈر کر رسول اللہ ﷺ کے جھنڈے کو بلند کر نے سے روکتے ہیں ان سے ہم وہی کہیں گے جو اللہ فرماتے ہیں : ﴿أَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ﴾" کیا تم ان سے ڈرتے ہو حالانکہ اللہ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ تم اس سے ڈرو اگر تم مومن ہو"(توبہ:13)۔
اے شام کی مبارک سرزمین کے مسلمانو!شام کی سرزمین میں حقیقی ٹکراو صرف جھنڈوں کا تصادم نہیں، بلکہ یہ حق اور باطل کے درمیان تصادم ہے، یہ اسلامی اور مغربی تہذیبوں کے درمیان تصادم ہے، یہ اسلام کے نظریہ حیات( آئیڈیولوجی) جو کہ لا الہ الا اللہ کے عقیدے پر قائم ہے اور اس سے نکلنے والے نظام حیات اور کافر مغرب کے دین کی زندگی اور معاشرے سے جدائی کے عقیدے اور اس سے نکلنے والے خود ساختہ جمہوری نظام کے درمیان تصادم ہے۔ اللہ کے دشمن کسی طرح تمہیں تمہارے دین کے بارے میں فتنے میں نہ ڈالیں، کامیابی صرف اللہ کی شریعت میں ہےاور مسلمانوں کی نجات صرف نبوت کے طریقے پر خلافت راشدہ کے قیام میں ہے۔ لہٰذااس کے لیے جدو جہد کرنے والوں کے ساتھ مل کر جدو جہد کرواور یاد رکھوکہ مدد صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے ہے کسی اور کی طرف سے نہیں، اللہ فرماتے ہیں: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ﴾ "اے ایمان والو اگر تم نے اللہ کی مدد کی تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم کرے گا"(محمد:7)۔
یاد رکھو مدد صبر و استقامت کے ساتھ ہے،اور مشکل کے بعد آسانی اور تنگی کے بعد کشادگی ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿واعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيْعَاً وَلَا تَفَرَّقُوْا﴾
" سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور تفرقے کا شکار مت ہو"(آل عمران:103)۔
19جمادی الثانیۃ 1437 ہجری
حزب التحریر
28 مارچ 2016
ولایہ شام
المكتب الإعلامي لحزب التحرير ولایہ شام |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: |