المكتب الإعــلامي
مرکزی حزب التحریر
ہجری تاریخ | 22 من رمــضان المبارك 1446هـ | شمارہ نمبر: 1446 AH / 098 |
عیسوی تاریخ | ہفتہ, 22 مارچ 2025 م |
پریس ریلیز
امریکہ نے خلافتِ راشدہ علی منہاج النبوة کے طلوع کے خطرے کی گھنٹی بجا دی
(ترجمہ شدہ)
ہر بار جب امت نوآبادیاتی جبر کے طوق سے آزادی کی طرف ایک قدم آگے بڑھاتی ہے، جو اس کے سینے پر بھاری بوجھ بن کر پڑا ہے، اور مغربی تسلط سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے، تو مغربی طاقتیں خطرے کی گھنٹی بجا دیتی ہیں، اس خوف سے کہ امت کے مخلص مومنین کی جدوجہد خلافت راشدہ کے قیام پر منتج نہ ہو جائے، جس کی بشارت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی رکھی ہے۔ چنانچہ جب شام کے ظالم بشار الاسد کے فرار کے بعد انقلابی دمشق میں داخل ہو ئے تو امریکہ اور اس کے صلیبی اتحادی فوراًحرکت میں آگئے۔ انہوں نے اپنے حکومتوں کی نمائندگی کرنے والے سینئر اور جونیئر نمائندوں پر مبنی وفود کو یکے بعد دیگرے بھیجا تاکہ اس واقعے کو قابو میں رکھا جا سکے، جسے امریکہ اور اس کے صلیبی اتحاد نے نہایت اہم سمجھا یہ جانتے ہوئے کہ اگر معاملات ان کے قابو سے باہر ہو گئے تو کفار کے لیے اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔
اسلامی دنیا کے مشرقی جانب، بنگلہ دیش میں، امریکہ اور اس کا ایجنٹ بھارت وہاں کی صورتحال کو بڑی تشویش کے ساتھ قریبی نظر سے دیکھ رہے ہیں، خاص طور پر ظالم حسینہ کے فرار کے بعد، اس خوف سے کہ وہاں کے حالات اسلام اور اس کے پیروکاروں کے حق میں نہ چلے جائیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اسلام ہی وہ واحد راستہ ہے جس کی طرف دنیا بھر کے مسلمانوں، بشمول بنگلہ دیش کے مسلمانوں، کے دل مائل ہوں گے، اگر انہیں اپنے فیصلے خود کرنے دیے جائیں اور مغرب کے ایجنٹ مسلم حکمرانوں کی مداخلت نہ ہو۔ اسی لیے، امریکہ نے اپنے بندے، محمد یونس، کو جلاوطنی سے واپس بھیجا تاکہ وہ اس طلبہ بغاوت کو قابو میں رکھ سکے، جس نے بنگلہ دیشی فوج کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ ظالم حسینہ کو اقتدار سے ہٹا کر اسے بھارت میں پناہ دلوائے۔
بھارتی ٹیلی ویژن چینل NDTV کو دیے گئے ایک انٹرویو میں، امریکہ کی قومی انٹیلی جنس کی ڈائریکٹر تلسی گیبرڈ نے دعویٰ کیا کہ بنگلہ دیش میں مذہبی اقلیتوں پر ظلم و ستم اور قتلِ عام، اور ملک میں "اسلامی دہشت گردوں کے خطرےکی جڑیں ایک ہی نظریے اور مقصد میں پیوست ہیں—یعنی ایک اسلامی خلافت کے ذریعے حکمرانی کرنا"۔یہ بیانات اس وقت سامنے آئے جب حزب التحریر / ولایہ بنگلہ دیش نے جمعہ، 7 مارچ 2025 کو "خلافت مارچ" کا انعقاد کیا، اور خلافت کے انہدام کی یاد دلا کر لوگوں کو نبوت کے طریقے پر چلتے ہوئے خلافتِ راشدہ کے قیام کے لیے جدوجہد کی دعوت دی۔ یہ مارچ ملک کے اہلِ قوت اور اہلِ حفاظت کے لیے ایک کھلا پیغام بھی تھا، جس میں ان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ خلافت کے انہدام کی برسی کے موقع پر خلافت کے قیام کی جدوجہد میں حزب کو نصرة (مادی مدد) فراہم کریں ۔ اگرچہ عبوری حکومت نے اس مارچ کو ظالمانہ جبر کے ذریعے دبانے کی کوشش کی، لیکن اس کا کوئی فائدہ امریکہ کےبندے، بنگلہ دیش کے عبوری صدر، محمد یونس کو نہ ہوا۔ محمد یونس، جو نوبل امن انعام یافتہ اور سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے چالیس سالہ وفادار دوست ہیں، انہوں نے اپنی عبوری حکومت کے لیے امریکی حکومت کی مکمل حمایت حاصل کی جب انہوں نے نیویارک میں سابق امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کی۔
نوآبادیاتی طاقتوں کے ایجنٹ اپنے آقاؤں کی توقعات پر پورا اترنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے تلسی گیبرڈ کے بیانات کے ردعمل میں توقع سے بھی زیادہ سخت مؤقف اختیار کیا اور کہا کہ یہ بیانات "گمراہ کن ہیں اور بنگلہ دیش کی ساکھ کو نقصان پہنچانے والے ہیں، جو کہ ایک ایسا ملک ہے جہاں اسلام کی روایتی تعلیمات ہمیشہ پرامن رہی ہیں، اور جس نے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔" بنگلہ دیش کی عبوری حکومت اور اس کی ڈیپ اسٹیٹ (deep state)مکمل طور پر اسلام کے خلاف جنگ اور ملک میں خلافت کی واپسی کو روکنے کے لیے پُرعزم ہیں۔ یہ کوئی نیا عزم نہیں، بلکہ یہ بنگلہ دیش کے سیاسی نظام میں گہرائی سے پیوست ہے، جو ظالم حسینہ کے فرار کے بعد بھی تبدیل نہیں ہوا۔ بلکہ، ڈیپ اسٹیٹ نے مغرب کے ساتھ اپنی پرانے دور کی وفاداری کو برقرار رکھا ہے، مغربی سفارت خانوں اور نوآبادیاتی طاقتوں سے رابطے میں رہی ہے، اور ان سے ہدایات لیتی رہی ہے، بالکل اسی طرح جیسے حسینہ کے دورِ حکومت میں ہوتا رہا۔اسی لیے، عبوری حکومت کا ردعمل درحقیقت گیبرڈ کے بیانات کی تردید تھا، جن بیانات میں وہ انہیں کوتاہی کا مرتکب ٹھہرا رہی تھی، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ حکومت اسلام کے خلاف جنگ لڑنے اور خلافت کی دعوت کو دبانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی۔
مسلمان حکمران، بشمول بنگلہ دیش کے حکمران اور اس کی ڈیپ اسٹیٹ، جس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں، وہ یہ ہے کہ امریکہ محض مسلم ممالک میں اسلام کے ذکر سے ہی خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ اگرچہ امریکہ اکثر مسلم حکمرانوں سے صرف خفیہ طور پر اپنے خدشات کا اظہار کرتا ہے اور شاذ و نادر ہی انہیں کھل کر بیان کرتا ہے، لیکن وہ بنگلہ دیش اور دیگر مسلم ممالک میں اسلامی زندگی کے احیاء کی دعوت کو سنجیدگی سے لیتا ہے، اسے کوئی مذاق نہیں سمجھتا۔ امریکہ کی قومی انٹیلی جنس کی ڈائریکٹر اور اس کا ملک بخوبی جانتے ہیں کہ اسلام ہی وہ عظیم اور مہذب تہذیب ہے جو ان کی لالچی اور کرپٹ مغربی تہذیب کا متبادل بن سکتی ہے۔ اگر خلافت کے داعیوں کو اسلامی امت کے ساتھ تنہا چھوڑ دیا جائے، تو امت اس دعوت کو گلے لگائے گی، اسلامی نظامِ حکومت کو منتخب کرے گی، اور اپنے خلیفہ کی بیعت کرے گی، تاکہ وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول ﷺ کی سنت کے مطابق حکومت کرے۔
لہٰذا، امریکہ اور اس کے صلیبی اتحاد کی پالیسی ایک پیشگی حملے کی پالیسی رہی ہے، جو اس بنیاد پر استوار ہے کہ ان کے ایجنٹ اور پیروکار اپنی پوری طاقت استعمال کرتے ہوئے مسلم ممالک میں خلافت کی دعوت کو اسلامی امت سے دور رکھیں، اور اُسے پابندیوں، ظلم، قید و بند، اور جبر کے ذریعے دبائیں، بالکل اسی طرح جیسے قریش نے تمام انسانوں کے سردار، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا تھا۔قریش نے آپ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بائیکاٹ کیا، انہیں اذیتیں دیں، پابندیاں لگائیں، اور قبائل میں الصادق اور الامین کے بارے میں جھوٹ پھیلایا، تاکہ لوگوں کو دعوتِ اسلام سے روک سکیں۔ مگر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے دین کو غالب کیا، اور وہ تمام ادیان پر چھا گیا۔ اسی طرح، ان شاء اللہ، خلافت کی دعوت کے حاملین کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوگا، چاہے امریکہ اور اس کی انٹیلی جنس چیف کو یہ کتنا ہی ناگوار کیوں نہ گزرے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:
﴿يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ ۞ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ﴾
"وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں، مگر اللہ اپنے نور کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیں، چاہے کافر کتنا ہی ناپسند کریں۔ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا، تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے، چاہے مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔" (التوبہ: 32-33)
یہ بات غور طلب ہے کہ بنگلہ دیش میں ہمارے لوگوں اور ان کی فوج میں موجود مخلص افسران کو کافر مغرب کی طاقتوں نے اپنے نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ یہ قوتیں ان کے لیے بھلائی نہیں چاہتیں، جبکہ یہ بھلائی اسلام کی واپسی اور جو کچھ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے نازل کیا ہے اُن تمام احکام کے مطابق حکمرانی کے قیام میں ہے۔اسی لیے، وہ انہیں خلافت کے قیام کے داعیوں کے قریب جانے سے روکنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ چنانچہ بنگلہ دیش کے عوام کو اس سازش کے تمام پہلوؤں کو سمجھنا ہوگا اور اسے ناکام بنانے کے لیے حزب التحریر کے ساتھ مل کر سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا۔ اسی طرح، بنگلہ دیش کی فوج میں موجود مخلص افسران کو چاہیے کہ وہ فوراً حزب کو نصرة فراہم کریں، اس سے پہلے کہ امریکہ اپنے ایجنٹوں کو دوبارہ بنگلہ دیش میں مضبوط کر لے، اور شاید ظالم حسینہ کو ایک بار پھر اقتدار میں لے آئے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:
﴿مَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلَا الْمُشْرِكِينَ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْكُمْ مِنْ خَيْرٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَاللهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ﴾
"اہلِ کتاب میں سے جو کافر ہیں اور مشرکین، وہ نہیں چاہتے کہ تم پر تمہارے رب کی طرف سے کوئی بھلائی نازل ہو۔ لیکن اللہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت کے لیے منتخب کر لیتا ہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔"(البقرہ: 105)
حزب التحریر کا مرکزی میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير مرکزی حزب التحریر |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ Al-Mazraa P.O. Box. 14-5010 Beirut- Lebanon تلفون: 009611307594 موبائل: 0096171724043 http://www.hizb-ut-tahrir.info |
فاكس: 009611307594 E-Mail: E-Mail: media (at) hizb-ut-tahrir.info |