المكتب الإعــلامي
مرکزی حزب التحریر
ہجری تاریخ | 17 من ذي القعدة 1441هـ | شمارہ نمبر: 029 / 1441 |
عیسوی تاریخ | بدھ, 08 جولائی 2020 م |
پریس ریلیز
ظلم کے پھیلاؤ میں مددگارسرمایہ دارانہ نظام کے سائے تلے ایغور مسلم آبادی کی نسل کشی میں ہولناک اضافہ ہو رہا ہے
29 جون، 2020 بروز پیر نیوز ایجنسی اے پی(AP) کی جانب سےجاری ہونے والی ایک نئی رپورٹ کے مطابق چینی حکومت کی جانب سے مشرقی ترکستان کے ایغور مسلمانوں کی افزائش نسل پر جبری کنٹرول کے لیے نافذ کی جانے والی جارحانہ پالیسی کا دائرہ کار اس سے بہت زیادہ سخت، وسیع پیمانے پر اور منظم ہے جتنا کہ اس سے قبل معلوم تھا۔ اے پی کی تحقیق کی بنیاد حکومت کی سرکاری دستاویزات اور 30 سے زائد انٹرنمنٹ کیمپوں کے قیدی چینی مسلمانوں اور انٹرنمنٹ کیمپوں کے ایک سابق انسٹرکٹرکے انٹرویوزہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پچھلے چار سال کے دوران چینی حکومت نے لاکھوں ایغوری مسلم خواتین کے شرم و حیا کا پاس نہ رکھتے ہوئے زبردستی حاملہ ہونے کے ٹیسٹ لیے، ان میں زبردستی انٹراٹیرین ڈیوائسز (intrauterine devices) داخل کیے تا کہ وہ حاملہ نہ ہوسکیں، ان کی نس بندی (sterilization) کی، اور اسقاط حمل (Abortions) تک کیے۔ یہ تمام اقدامات خطے میں مسلم مخالف اصلاح نسل (eugenic) کی جارحانہ مہم کے تحت کیے جارہے ہیں۔ اسی دوران حکومت غیر مسلم ہان نسل کے چینی لوگوں کی حوصلہ افزائی کررہی ہے کہ وہ زیادہ بچے پیدا کریں۔ وہ ایغوری جو پیدائش کو کنٹرول کرنے کی شدید ظالمانہ حکومتی پالیسی پر عمل کرنے سے انکار کرتے ہیں جس کے تحت مسلمان جوڑے دو سے زیادہ بچے پیدا نہیں کرسکتے، ان پر بھاری جرمانے عائد کیے جاتے ہیں جن کی مالیت ہزاروں امریکی ڈالر ہوتی ہے یا انہیں ملک میں قائم انٹرنمنٹ کیمپوں میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں پر پہلے سے 10 لاکھ مسلمان قید ہیں اور جنہیں حکومت کی اس پالیسی کے تحت قید رکھا گیا ہے کہ ایغور مسلمان ملحد کمیونسٹ افکار اختیار کرلیں۔ پہلے بھی ایسی رپورٹس آئی ہیں کہ ان کیمپوں میں خواتین کو نامعلوم ادویات کے انجکشن لگائے جاتے ہیں تا کہ کیمیائی طور پر ان کی نس بندی ہوجائے یا ان میں زبردستیانٹراٹیرین ڈیوائسز (intrauterine devices) فٹ کئے جاتے ہیں۔ پولیس ایغور مسلمانوں کے گھروں پر چھاپے مارتی ہے تا کہ یہ جان سکیں کہ انہوں نے بچوں کی تعداد چھپائی تو نہیں ہے، جبکہ مقامی حکومتوں نے اُن لوگوں کو انعام دینے کا نظام بنا رکھا ہے جو "غیر قانونی پیدائش" کی اطلاع فراہم کرتے ہیں۔ اے پی کی تحقیق کے مطابق ایغور علاقوں میں شرح پیدائش 2018-2015 کے درمیانی عرصے میں 60 فیصد تک گرچکی ہے اور شرح پیدائش میں کمی کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ صرف پچھلے سال اس خطے میں شرح پیدائش میں 24 فیصد کمی آئی جبکہ قومی سطح پر یہ کمی 4.2فیصد تھی۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہےکہ 2019تک سنکیانگ کے حکام کا یہ منصوبہ تھا کہ چار دیہی ایغور اکثریتی علاقوں میں کم ازکم 80 فیصد خواتین، جو کہ بچے پیدا کرنے کی عمر کی ہوں، میں جبری سرجری کے ذریعے انٹراٹیرین ڈیوائسز (intrauterine devices) فٹ کی جائیں یا ان کی نس بندی کردی جائے۔ 2018 میں پورے چین میں انٹراٹیرین ڈیوائسز (intrauterine devices) ڈالنے کے لیے کی جانی والی سرجریز میں سے 80 فیصد سنکیانگ میں کی گئیں جہاں ایغورمسلمان بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ ان تمام اقدامات نے ایغور مسلمانوں میں بچوں کی پیدائش سے متعلق خوف و دہشت کی فضاء قائم کررکھی ہے جبکہ بچے پیدا کر کے اپنی نسل کی افزائش ہر انسان کا بنیادی حق ہے!
چینی حکومت کی اس گھناونی پالیسی کا مقصد مشرقی ترکستان میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان موجود آبادی کے توازن کو تبدیل کرنا ہے تا کہ جینیٹکل سوشل انجینئرنگ کے ذریعے ایغور مسلمانوں کی آبادی کو کم کردیا جائے اور اُن سے اُن کی اسلامی شناخت اور تہذیب کو چھین لیا جائے۔ چینی حکومت نے پہلے ہی ہان چینیوں کو اس خطے میں آباد ہونے اور ہان چینی اور ایغور مسلمانوں کے درمیان شادیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے خصوصی معاشی مراعات دینے کا اعلان کیا تھا۔ موجودہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ، مغربی اور مسلم دنیا میں معاشی نتائج بھگتنے کے خوف کے باعث کوئی حکومت ایسی نہیں جو چین کے خلاف قابل ذکر موقف اختیار کرنے کی جرات کرسکے کیونکہ اس نظام میں مالی فوائد اور قومی مفادات ہمیشہ انسانیت کے مفاد پر فوقیت اختیار کرتےہیں۔ یقینا آج کوئی ایسی حکومت نہیں ہے جو حقیقت میں عدل کی خاطر اور ظلم کے خلاف کھڑی ہو بلکہ یہ حکومتیں تو اپنی بے عملی کے ذریعے ظلم کو پھلنے پھولنے کا پورا پورا موقع فراہم کرتی ہیں۔ اسی طرح اس اقوام متحدہ کےبےکار اور ناکارہ ادارے سے بھی کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ ایغور مسلمانوں کے خلاف ہونے والے اس ثقافتی اور آبادیاتی نسل کشی کی پالیسی کو ختم کروانے میں کوئی کردار ادا کرسکتی ہے کیونکہ کئی بار یہ ثابت ہوچکا ہے کہ وہ آمریتوں کے خلاف کوئی قابل ذکر ایکشن لینے میں دلچسپی نہیں رکھتی سوائے اس کے کہ اگر مغربی اقوام کے اس حوالے سے کوئی سیاسی اور معاشی مفادات وابستہ ہوں۔
اے مسلمانو!
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نظام یعنی نبوت کے نقش قدم پر خلافت کے قیام کے بغیر مشرقی ترکستان میں ہمارے بہنوں اور بھائیوں پر ہونے والے ان مسلسل مظالم کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ ایسا کوئی دوسرا نظام نہیں ہے جو پورے اخلاص کے ساتھ مسلمانوں کے مفادات کی نمائندگی کرے اور جو کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر مسلمانوں کے دفاع اور تحفظ کے لیے حرکت میں آئے۔ خلافت کی تاریخ اور میراث یہ نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے صرف زبانی جمع خرچ کرے بلکہ ایسی بے شمار مثالیں ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خلافت دنیا میں انصاف کی علمبردار اور مظلوموں کی محافظ تھی۔ لہٰذا ہم آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس عظیم نظام کے قیام کے لیےبغیر کسی تاخیر کے جدوجہد کریں جو خوف کے ماحول کا خاتمہ کردے گا جس میں آج مسلمان دنیا کے چاروں کونوں میں رہتے ہیں اور ہماری امت کے لیے تحفظ اور خوشیوں کی ایک نئی صبح کا آغاز کرے گا۔
ڈاکٹر نظرین نواز
ڈائریکٹر شعبہ خواتین
مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر
المكتب الإعلامي لحزب التحرير مرکزی حزب التحریر |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ Al-Mazraa P.O. Box. 14-5010 Beirut- Lebanon تلفون: 009611307594 موبائل: 0096171724043 http://www.hizb-ut-tahrir.info |
فاكس: 009611307594 E-Mail: E-Mail: media (at) hizb-ut-tahrir.info |