الإثنين، 21 جمادى الثانية 1446| 2024/12/23
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

المكتب الإعــلامي
مرکزی حزب التحریر

ہجری تاریخ    29 من صـفر الخير 1438هـ شمارہ نمبر: 1438 AH/018
عیسوی تاریخ     منگل, 29 نومبر 2016 م

پریس ریلیز

ہسپتالوں کی تباہی کے بعد خواتین کے سروں پر اور کیا تباہی گرے گی؟!

 

15 نومبر سے محصور شہر حلب پر روسی طیاروں اور بشار کی افواج کی جانب سے  شروع کی جانے والی فضائیہ اور توپ خانے کی بمباری  میں اب تک 350 افراد ہلاک اور 1800 افراد زخمی ہوچکے ہیں ۔ یہ اعدادو شمار شام کے طبی ذرائع نے مرتب کیے ہیں۔

 

املاک کی  تباہی  اور عمارتوں کو ڈھانے کا عمل اس قدر  وسیع پیمانے پر ہوا کہ تمام رہائشی علاقے  اور انسانی ضروریات کی اشیاء صفحہ ہستی سے مٹا دیں گئیں لیکن اس شیطانیت سے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے صلیبی اتحاد نے صوبے کے  دیگر علاقوں میں موجود ہسپتالوں کو نشانہ بنا نا شروع کردیا گیا ہے۔  اس بات کی نشاندہی کرنا ضروری ہے کہ حلب کی حدود میں موجود ہسپتال  ختم ہوچکے ہیں کیو نکہ انہیں ایک منظم طریقے سے بمباری کا نشانہ بنایا گیا  تا کہ وہ ان ہزاروں معصوموں کو طبی امداد فراہم نہ کرسکیں جو روز کی بمباری کا نشانہ بنتے ہیں۔  ان وحشیوں کی درندگی میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ اب انہوں نے دوسرے علاقوں میں موجود ہسپتالوں کو بھی نشانہ بنانا شروع  کردیا ہے۔ سیریا واچ اور دوسری تنظیمیں جو امدادی کاموں میں معاونت فراہم کرتی ہیں ، نےیہ کہا ہے کہ ادلب میں جنگی طیاروں نے زچگی(میٹرنیٹی) ہسپتال کو نشانہ بنایا ہے جس کی وجہ سے وہاں ان کا کام رک گیا ہے۔

 

شامی شہری دفاع کی تنظیم وائٹ ہیلمٹس نے بتایا کہ   وہ حلب میں ڈاکٹرز اور دوسرا عملہ بمباری  خصوصاً ہسپتالوں پر بمباری  کے بعد بچ جانے والے سازو سامان کے ساتھ  اپنی استعداد کے مطابق  علاقے میں فوری طور پر متبادل قائم کیے گئے ہسپتالوں میں طبی امداد فراہم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔   یہ بھی بتایا گیا کہ مشرقی حلب کے محصور رہائشیوں کے پاس صرف دس دن کا امدادی سامان بچا ہے جس کے بعد وہ بھوک اور موت کا شکار ہونا شروع ہو جائیں گے۔ خواتین تباہ شدہ بازاروں میں ماری ماری پھرتی ہیں تا کہ اپنے بچوں کے لیے خوراک حاصل کرسکیں جس کا حصول انتہائی دشوار ہو چکا ہے کیونکہ رسد نہ ہونے کی وجہ سے غذائی اشیاء انتہائی قلیل مقدار میں  اور انتہائی مہنگی دستیاب ہیں۔

 

شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے سٹیفن ڈی میستورا  نے خبردار کیا کہ مشرقی حلب میں ویسا ہی قتل عام ہوسکتا ہے جیسا کہ 1991 میں کوریشیا کے علاقے "فوکوفار"Vukovar) (میں سربیا کی ملیشیاوں نے کیا تھا۔ خبردار کرنے کے یہ اعلانات کوئی نئے نہیں ہیں  اور نہ ہی پہلی بار خبردار کیا جارہا ہے ۔ مسلسل ہوتی بمباری کے ساتھ ساتھ خبردار کرنے کے اعلانات بھی سامنے آتے رہتے ہیں اور خبردار کرنے  کے اعلانات اور مذمتی بیانات   اس بمباری کو روکنے میں ناکام ہیں۔ درحقیقت کئی مہینوں سے ہونے والی بمباری اور ہسپتالوں کو نشانہ بنانے کے بعد اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری بان کی مون  نے ہسپتالوں پر حملوں اور خوفناک ہتھیاروں کے استعمال کو "جنگی جرم" قرار دیا  اور کہا کہ معاملہ "مذبح خانے سے زیادہ بدتر" ہے۔

اسی دوران نیویارک ٹائمز نے بتایا تھا کہ تقریباً ایک لاکھ بچے حلب کے جنگ زدہ علاقوں میں محصور ہیں جس کا مطلب ہے کہ تقریباً ڈھائی لاکھ لوگ شہر کے جنگ زدہ علاقوں میں محصور ہیں۔ اور یہی وہ وقت تھا جب اس قسم کے مناظر معمول بن گئے جن میں حلب کے بچوں کو تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے سے کٹے پھٹے لباس اور دھول زدہ چہروں کے ساتھ نکالا جا رہا ہوتا ہے۔

 

دنیا کے سامنے کئی سالوں سے مسلسل اور با ر بار شام کے مسلمانوں کے تباہی و بربادی دہرائی جارہی ہے لیکن اس کے حکمران  مذمتی بیانوں  اور اس دھمکی سے آگے نہیں بڑھتے  کہ وہ شامی سانحے کو سلامتی کونسل  میں لے جائیں گے تا کہ وہ اس معاملے کو بار بار تاخیر کا شکار کرسکیں۔  اور ایسے دیکھا یا جاتا ہے جیسے اقوام متحدہ کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے  جہاں وہ اس معاملے پر اپنی صلاحیتیں  بنا کسی تھکاوٹ کے لگائے چلے جارہے ہیں!! اگر وہ اپنے خبردار کرنے کے اعلانات کے لہجے کو بھی تبدیل کرلیں تب بھی وہ صرف ایک دوسرے سے ملاقاتوں کے لیے درخواست ہی کررہے ہوتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے حال ہی میں فرانس نے اعتدال پسند شامی اپوزیشن کی حمایت اور مالی معاونت کرنے والے ممالک کا اجلاس بلانے کو کہا۔ یا پھر وہ ایسے بیانات دیتے ہیں جیسے اب سے کچے دیر پہلے تک وہ  اس معاملے کو جانتے ہی نہیں تھے جیسے کہ جرمن چانسلر انجیلا مارکل نے کہا تھا کہ شامی حکومت جان بوجھ کر ہسپتالوں اور طبی اداروں کو نشانہ بنارہی ہے۔

 

ان  میں وہ آہنی ہاتھ  اور قوت کہا ہے؟!! اعدادوشمار ایسے بڑھ رہے ہیں جیسے بڑے پیداواری  اداروں کے شیرز جہاں سرمایہ کار اپنے منافع کا اعلان کرنے میں جلدی کرتے ہیں کہ دوسرے سے پیچھے نہ رہ جائیں  اور یہ منافع شام میں ہمارے بچوں،عورتوں اور ہمارے لوگوں کا خون ہے۔ مسلسل شدید بمباری میڈیا میں روز کی خبر ہے جبکہ دو لاکھ  پچھتر ہزار سے زائد شہری مصائب کا سامنا  کررہے ہیں جو چاروں جانب سے مسلسل دہشت  اور جنگ کے ماحول میں رہ رہے ہیں جہاں وہ جنگی جہازوں کی دھاڑتی آوازیں سنتے ہیں اور آسمان ایک گھنٹے کے لیے بھی ان کے وجود سے پاک نہیں رہتا۔  وہ جنگی طیارے اونچی اور نیچی پروازیں کرتے ہوئے آتے ہیں جو اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ بیرل بمبوں کی بمباری دوبارہ شروع  اور تباہی و بربادی، بکھرے انسانی اعضاء اور معصوم بچوں کے پاک خون کے بو پھیلنے والی ہے۔

 

اہم مغربی ممالک کی جانب سے جاری ہونے والے یہ تمام بیانات اور مذمتیں ایک شخص کو یہ سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں کہ شاید مجرم دور خلا میں کسی جگہ رہتے ہیں یا انہوں نے سلیمانی ٹوپی پہن رکھی ہے کہ وہ نظر ہی نہیں آتے۔ یہ خالی بیانات اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ یہ ریاستیں معصوم بچوں اور عورتوں کی تباہ حالی، بربادی اور ہلاکتوں پر   صرف مگرمچھ کے آنسو بہا رہی ہیں، جو استعماری جنگ کی وجہ سے اپنی زندگیاں ہار چکے ہیں  اور یہ جنگ اس وقت تک چلتی رہے گی جب تک مخلص انقلابی موجود ہیں جو اپنی سرزمین پر مغرب کی مداخلت کو مسترد اور اپنے منصوبے کو بیچنےاور اس سے دستبردار ہونے سے انکار کرتے رہیں گے تا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا نام بلند کیا جائے۔

 

شام کی خواتین اس بات کا انتظار نہیں کررہی ہیں کہ دنیا انہیں عالمی دنوں پر یاد کرے گی اور وہ یہ گنتی کریں گے  کہ کتنی خواتین تشدد یا بمباری سے  ہلاک ہوئیں یا یہ کہ کتنی خواتین بے گھر  یا گرفتار ہوئیں ۔   کیا ان کی صورتحال تبدیل ہوئی جبکہ دنیا یہ جانتی تھی کہ  انقلاب شروع ہونے کے بعد سے اب تک تقریباً تیس ہزار خواتین اس جدوجہد اور جنگ میں ہلاک ہوچکی ہیں؟!  اس کے برخلاف حقیقت یہ ہے کہ تمام باتیں صرف اس حد تک محدود ہیں کہ آیا یہ اعدادوشمار سچے اور کس حد تک درست ہیں اور اعدادوشمار کی سچائی پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں!!

 

تو اب اے مسلمانوں، علماء اور افواج! کامیابی صرف اللہ ہی جانب سے آتی ہے  اور وہ ان لوگوں کے لیے آتی ہے جو اپنے قول و فعل کے ذریعے اللہ کے کام کی حمایت کرتے ہیں۔ اور ایسا اس لیے ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:

 

﴿إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ

"اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد (کامیابی کے ساتھ) کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا"(محمد:7)

 

طاقت و مضبوطی ان حکمرانوں کے پیچھے کھڑے رہنے سے نہیں آئے گی جو صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا غضب حاصل کرتے ہیں کیونکہ وہ طاغوت کی بنیاد پر حکمرانی کرتے ہیں۔ طاقت و مضبوطی رسول اللہﷺ کی ہدایت پر چلنے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش  سے آتی ہے جب اللہ کی شرع کے مطابق حکمرانی کی جائے اور اس کے احکام نافذ کیے جائیں جنہیں اللہ نے ہمارے لیے چن اور انہیں مکمل کردیا۔ اور ایسا نبوت کے طریقے پر خلافت راشدہ  کے قیام  اور  اس کے ذریعے اسلامی طرز زندگی  کے احیاء سے ہوگا تا کہ دنیا کے ہر کونے تک انصاف پہنچ جائے۔  

            

شعبہ خواتین

 مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
مرکزی حزب التحریر
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
Al-Mazraa P.O. Box. 14-5010 Beirut- Lebanon
تلفون:  009611307594 موبائل: 0096171724043
http://www.hizb-ut-tahrir.info
فاكس:  009611307594
E-Mail: E-Mail: media (at) hizb-ut-tahrir.info

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک