المكتب الإعــلامي
ہجری تاریخ | شمارہ نمبر: | |
عیسوی تاریخ | اتوار, 03 نومبر 2013 م |
کرائے پردی ہوئی پراپرٹی(جائد اد) پرکوئی زکوٰۃ نہں ۔۔۔۔۔۔۔۔ زکوٰۃ اس مال پرہے جس پرسال گزرجائے اوراس کانصاب بھی پوراہو
پریس ریلیز
اخبار(آخرلحظہ) شمارہ( 2572) کے مطابق ،خرطوم کے زکوٰۃ چیمبر اورعلاقائی عوامی کمیٹیوں کے سربراہان کے درمیان مشترکہ اجلاس میں یہ تجویز دی گئی کہ کرائے پر دیے گئے رہائشی گھروں پر بھی زکوۃ لاگو کی جائےاور زکوٰۃ لینے کیلئے مکان کے مالکان سے بذات خود رابطہ کیا جائے تاکہ چیمبر کی منصوبہ بندی کے تحت محصولات میں اضافہ کیا جائے ۔
آئمہ اورعلماء اسلام کااس پراتفاق ہے کہ عبادات کے معاملات کا تعین صرف اور صرف وحی کرتی ہے اس میں اجتہاد نہیں کیاجاسکتا۔ کوئی بھی فریق ،خواہ کتنا ہی شرعی قانون کی سمجھ بوجھ رکھتا ہو، عبادات کے احکام میں کمی بیشی کامجاز نہیں اور زکوٰۃ عبادت ہے اورارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ اس کے حوالے سے ہم شرعی حدود کی پابندی کریں۔ لوگوں سے کوئی بھی مال نہیں لیا جاسکتا جس کی اجازت اسلا م نے نہ دی ہو ، اس لئے کرایہ پر دئی ہوئی جائدادوں اورتنخواہوں وغیرہ ، جس پراسلام نے زکوٰۃ فرض نہیں کی ، زکوٰۃ نہیں لی جائے گی۔
اسلام نے ان اموال کوواضح طور پر بیان کیاہے ، جن پر زکوٰۃ فرض ہے اوراس سلسلے میں کسی قسم کاابہام نہیں چھوڑاگیا۔ زکوٰۃ مندرجہ ذیل اموال پرفرض کی گئی ہے:
1۔ مویشی جیسے اونٹ ،گائے اوربھیڑبکری: اس کی دلیل وہ حدیث ہے جس کوابوذررضی اللہ عنہ نے نبیﷺ سے روایت کی ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا: «... مَا مِنْ صَاحِبِ إِبِلٍ ولا بَقَرٍ ولا غَنَمٍ لَا يُؤَدِّي زَكَاتَهَا إِلَّا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْظَمَ مَا كَانَتْ وَأَسْمَنَهُ تَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا وَتَطَؤُهُ بِأَظْلَافِهَا كُلَّمَا نَفِدَتْ أُخْرَاهَا عَادَتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ»"۔۔۔ کوئی ایساشخص نہیں جو اونٹ، گائے اوربھیڑبکریوں کامالک ہواوران کی زکوٰۃ ادانہ کرے ، مگرقیامت کے دن یہ جانورانتہائی موٹے اورفربہ ہوکرآئیں گے ، اس کواپنے سینگوں سے ماریں گے اور اپنے کُھروں اورسُموں سے روندتے جائیں گے، آخری جانورکے گزرجانے کے فوراً بعد پہلاجانورآپہنچے گا، (یہ معاملہ جاری رہے گا) یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کیاجائے ۔" اس حدیث کو مسلم اوربخاری نے روایت کیاہے ۔
2۔ کھیتی اورپھل: اس کی دلیل اللہ سبحانہ وتعالیٰ کایہ قول ہے: وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ"کٹائی کے دن ا س کاحق( زکوٰۃ) دیدیاکرو" (الانعام:141)۔ یہ آیت لسانی نقطہ نظرسے عام ہے اوررسول اللہ ﷺ نے چاراصناف کے ساتھ اس کی تخصیص کی ہے جوابوموسیٰ اورمعاذبن جبل کی حدیث میں آئے ہیں، ان کوجب رسول اللہﷺ نے لوگوں کودین کاعلم سکھانے کیلئے یمن بھیجاتوان سے فرمایا «لا تأخذا الصدقة إلا من هذه الأربعة الشعير والحنطة والزبيب والتمر»، زکوٰۃ صرف ان چارمیں سے لیاکرو۔ جو، گندم، کشمش اورکھجور۔ بیہقیؒ نے کہاہے کہ اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں اوراس کی سند متصل ہے۔
3۔ سونااورچاندی: چاہے نقدی کی شکل میں ہویاغیرنقدی، ابوہریرۃ ضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا «مَا مِنْ صَاحِبِ ذَهَبٍ ولا فِضَّةٍ لَا يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا إِلَّا إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ صُفِّحَتْ لَهُ صَفَائِحُ مِنْ نَارٍ فَأُحْمِيَ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَيُكْوَى بِهَا جَنْبُهُ وَجَبِينُهُ وَظَهْرُهُ كُلَّمَا بَرَدَتْ أُعِيدَتْ لَهُ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ فَيَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِمَّا إِلَى النَّارِ...» رواه الخمسة إلا الترمذي۔"کوئی سونے یاچاندی کامالک ایسانہیں جو اس کی زکوٰۃ ادانہ کرے، مگر جب قیامت کادن ہوگاتواس کیلئے آگ کی پلیٹیں تیارکی جائیں گی پھر ان کوجہنم کی آگ میں گرم کردیاجائے گا، پھر اس کے پہلو، پیشانی اورپیٹھ کوان سے داغاجائے گا، جوں ہی یہ پلیٹیں ٹھنڈی پڑجائیں گی توان کودوبارہ گرم کیاجائے گا، یہ اس دن ہوگاجوپچاس ہزارسال کے برابرہے (اوریہ معاملہ اس کے ساتھ ہوتارہے گا) یہاں تک کہ بندوں کے درمیان فیصلہ کیاجائے اس کے بعد ہی اسے اپناراستہ نظرآئے گایاتوجنت کی طرف یاجہنم کی طرف۔"
4۔ سامان تجارت: اس میں وہ تمام اشیاء داخل ہیں جن کونقدی کے علاوہ بقصدمنفعت تجارت اورخریدوفروخت کیلئے استعمال کیاجائے ، جیسے کھانے پینے کی اشیاء، ملبوسات، فرنیچراوردیگرمصنوعی سازوسامان، حیوانات ، معدنیات، جائیداداور تعمیرات میں سے وہ اشیاء جس کی خرید وفروخت کی جائے ۔ تجارتی سامان پر زکوٰۃ فرض ہے ، اس میں صحابہ کااختلاف نہیں ، «عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُنَا أَنْ نُخْرِجَ الصَّدَقَةَ مِنْ الَّذِي نُعِدُّ لِلْبَيْعِ»"سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ نے کہا : امابعد ،پس رسول اللہ ﷺ ہمیں حکم دیتے تھے کہ ہم اس سامان میں سے زکوٰۃ نکال دیاکریں جسے ہم نے فروخت کیلئے رکھاہو۔"
تویہ وہ متعین اموال ہیں جن پراسلام نے زکوٰۃ واجب کردی ہے ۔ان پر غور و فکر سے یہ پتہ چلتاہے کہ وہ رہائش گاہ جو کرائے پر دی گئی ہو،ان پرزکوٰۃ نہیں، بلکہ زکوٰۃ ایسے مال پرہے جس کانصاب پوراہواوراس پرسال بھی گزرجائے۔
اس لئے زکوٰۃ چیمبر کرائے پر دیے گئے گھروں پر زکوٰۃ وصول نہیں کرسکتی ۔کرائے پر دیے گئےرہائشی جائیدادوں سے زکوٰۃ لیناحرام ہے۔اس طرح یہ مال لینا حرام ہے بالکل ویسے ہی جیسے زکوۃ چیمبر کے دیگر محصولات اکٹھا کرنے کے لیے غیر شرعی طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے اور پھر انھیں خرچ بھی اس طرح سے نہیں کیا جاتا جیسا کہ شرع نے تعلیم دی ہے۔
ریاست خلافت جو اللہ کے اذن سے جلدہی دوبارہ لوٹنے والی ہے ، لوگوں سے صرف ان اموال کووصول کرے گی جن کواسلام نے فرض کردیاہے ، جس کی قرآن وسنت میں سے کوئی دلیل بھی موجود ہو۔ کیونکہ زکوٰۃ جوکہ اسلام کاایک رکن اورعبادت ہے، اس میں نصوص ہی کی پابندی کی جائے گی ،اللہ عزوجل کاارشادہے ولا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَذَا حلالٌ وَهَذَا حَرَامٌ لِتَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لا يُفْلِحُونَ "اورجن چیزوں کے متعلق محض تمہاراجھوٹادعویٰ ہے،اُ ن کےمتعلق یوں نہ کہاکروکہ فلاں چیز حلال اورفلاں حرام ہے، جس کاحاصل یہ ہوگاکہ اللہ پرجھوٹی تہمت لگاؤگے، بلاشبہ جولوگ اللہ پرجھوٹ لگاتے ہیں وہ فلاح نہ پائیں گے۔" (النحل: 116)
ابرہیم عثمان (ابوخلیل)
ولایہ سوڈان میں حزب التحریر کے ترجمان
المكتب الإعلامي لحزب التحرير |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: |