بسم الله الرحمن الرحيم
اے مسلمانواور اے مسلم افواج! ہم آپ سے آگے بڑھنے کا مطالبہ کرتے ہیں
آپ کے دشمن ٹرمپ نے اپنے زہریلے دانت ظاہر کردیے ہیں، لہٰذا اپنی تلواروں سے اس کے دانت توڑ کر رکھ دو
28 جنوری 2020 کوامریکی صدر ٹرمپ اور نیتن یاہو کے درمیان واشنگٹن میں ملاقات ہوئی۔ ٹرمپ نے مسلمانوں اور القُدس فلسطین کے خلاف اپنی تمام تر دشمنی کا کھلا اظہار کیا تا کہ نیتن یاہو، اس کے حامی اور پیروی کرنے والے خوش ہوجائیں۔۔۔ٹرمپ نے کہا کہ اس نے ایک منصوبہ بنایا ہے جو یہودیوں اور فلسطینیوں کے ساتھ انصاف پر مبنی ہے! اس کا انداز ایسا تھا کہ جیسے وہ کہہ رہا ہو: 'تمام فلسطین یہودیوں کے لیے ہے جبکہ فلسطین میں فلسطین کے لوگوں کے لیے کچھ بھی نہیں ہوگا ۔ پورا کا پورا القدس، آبادکردہ بستیاں، نابلوس اور اس کے مضافات، وادی اردن اور اس کے مضافات، یہ سب یہودیوں کے لیے ہے، جبکہ باقی علاقے پر بھی فلسطینیوں اور یہودیوں کے درمیان سودے بازی ہوسکتی ہے '، گویا اس کے بعد بھی طے کرنے کے لیے کچھ باقی رہ گیا ہے! اور ٹرمپ نے کہا کہ فلسطینیوں کے لیے ستر سال میں یہ پہلا موقع ہے کہ وہ فلسطین میں ایک ریاست حاصل کرسکیں! اس نے مزید کہا کہ اس نے اپنی مدتِ صد ارت کے شروع ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد مسلم دنیا کے پچپن حکمرانوں سے سعودی عرب میں ملاقات کی تھی جو اس منصوبے کو قبول کرنے پر تیار تھے۔ اُس نے اعلان کیا کہ اگرفلسطینی اس کے منصوبے کو قبول کرتے ہیں تو وہ ان سے پچاس ارب ڈالر کی مالی مدد کا وعدہ کرتا ہے ! اور پھر اس نے اپنی زبان سے یہ الفاظ کہےکہ خلافت ختم ہو چکی، اللہ اس کی زبان کو ہمیشہ کے لئے خاموش کردے۔
ٹرمپ نے اس ڈِیل کا اعلان کر کے اور اپنے غلیظ الفاظ سے یہ ثابت کردیا ہے کہ فلسطینیوں پر غاصبانہ قبضے کے حوالے سے وہ یہود سے بھی بڑھ کر یہودی ہے۔ وہ اس منصوبے کا اعلان کرنے کی ہمت نہیں کرسکتا تھا اگر مسلم علاقوں کے حکمرانوں نے اپنے دین، اپنی امت اور اپنے علاقوں سے غداری نہ کی ہوتی۔ ٹرمپ نے ایسے اعلان کیا جیسے فلسطین اس کی ذاتی جاگیر ہے جس کو وہ جیسے چاہے تقسیم کردے ، جبکہ مسلم دنیا کے حکمرانوں نے ایساردعمل ظاہرکیا جیسے وہ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں، اور اس سے بدتر یہ کہ چند حکمرانوں نے ٹرمپ کی تباہ کن تقریب میں شرکت بھی اختیار کی۔ یقیناً ٹرمپ صرف اس پر ہی مطمئن نہ تھا کہ مسلم دنیا کے حکمران اس کے منصوبے کی مخالفت نہیں کریں گے بلکہ وہ تو یہ دیکھ رہا تھا کہ یہ حکمران اس کے منصوبے سے خوش ہوں گے۔ لیکن یہاں وہ کچھ زیادہ ہی خوش فہمی کا شکار ہوگیا ۔۔۔ٹرمپ معاملات کا اندازہ ان تابعدار حکمرانوں کے طرز عمل کو دیکھ کر لگاتا ہے جیسا کہ دنیا ان کے تخت وتاج سے قائم ہے اور ہمیشہ ایسے ہی رہے گی۔ ٹرمپ نے ان تابعدار حکمرانوں کی عظمت بیان کی اور ان کی تعریف کی جیسے فلسطین اور القدس اس کی ملکیت ہے چاہے تو کسی کے بھی حوالے کردے یا ڈالروں کے عوض بیچ دے۔ مسلمانوں کے لیے بہتر ہے کہ یہ حکمران ایسے ہی رہیں کیو نکہ وقت اب تبدیل ہورہا ہے۔ اور شاید ٹرمپ بھییہ دیکھ لے گا کہ جیسے صلیبیوں نے کئی دہائیوں تک القدس کی بے حرمتی کی یہاں تک کہ صلاح الدین ایوبی نے آکر اسے صلیبیوں سے پاک کیا، اسی طرح اللہ کے اذن سے مسلمان دوبارا ایسے "صلاح "کے بغیر نہیں رہیں گے جورسول اللہﷺ کی بشارت کو پورا کرے گا اور فلسطین کی سرزمین پر قائم یہودی وجود کا خاتمہ کرے گا ،یہودیوں کی پشت پناہی کرنے والے بھاگ کر اپنی پناہ گاہوں کا رُخ کریں گے ، اگران کے لیے کوئی پناہ گاہ باقی بچی ۔
جہاں تک خلافت کا معاملہ ہے، جس کے متعلق ٹرمپ نے کہا کہ وہ ختم ہو چکی، تو وہ خود کو دھوکہ دے رہا ہے کیونکہ بلاشبہ وہ جانتا ہے کہ یہ وہ خلافت نہیں ہے جس کی رسول اللہﷺ نے بشارت دی تھی۔۔۔ اس کے علاوہ ان شاء اللہ، خلافت ایسےبہادر مردوں کی جدوجہد سے قائم ہو گی جیسا کہ رسول اللہﷺ کی قسطنطنیہ کی فتح کی بشارت محمد الفاتح اور اس کی فوج نے پوری کی تھی۔ اور جس طرح قسطنطنیہ کی فتح کی بشارت پوری ہوئی تھی اسی طرح اسلام کے سپاہی یہود سے لڑنے کی رسول اللہﷺ کی بشارت کو پورا کریں گے۔ ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا،
«لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُقَاتِلَ الْمُسْلِمُونَ الْيَهُودَ، فَيَقْتُلُهُمُ الْمُسْلِمُونَ»
" قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ مسلمان یہود سے نہ لڑلیں ۔ پھر مسلمان ان کو قتل کریں گے۔۔۔ "،
جس کے بعد ان کے ناجائز وجود کا خاتمہ ہوگا جس نے فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے، فلسطین کی بابرکت سرزمین کو ان کی نجاست سے پاک کیا جائے گا اور اس کو ایک بار پھر اسلام کا مسکن بنایا جائے گا ، اور یہ سب کچھ اس بنا پر ہوگا کیونکہ اسلامی امت ایک زندہ امت ہے جو ظلم کا شکار ہونے پر خاموشی سے بیٹھ نہیں جاتی بلکہ اس کا بھر پور مقابلہ کرتی ہے۔ اگر ٹرمپ اور اس کی پیروی کرنے والے نیتن یاہو اور اس کے حمایتیوں نے یہ تصور کرلیا ہے کہ موجودہ صورتحال کبھی تبدیل نہیں ہو گی ، مسلم دنیا کے موجودہ حکمرانوں کے تخت اچھالے نہیں جائیں گے، اور خلافت واپس نہیں آئے گی، تو یہ محض ان کی خام خیالی ہے جو انہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اذن سے برباد کردے گی،
وَذَلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِي ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ أَرْدَاكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ مِنَ الْخَاسِرِينَ
"اور اسی خیال نے، جو تم اپنے پروردگار کے بارے میں رکھتے تھے، تمہیں ہلاک کردیا اور تم خسارہ پانے والوں میں سے ہوگئے"(فصلت 41:23)۔
اور ہو سکتا ہے کہ ٹرمپ اپنی مدتِ صدارت کے خاتمے سے قبل اسلام اور مسلمانوں کی خلافت کو دیکھ لے ، اور تب حقیقی جنگ میں داخل ہونے سے قبل محض مسلمانوں کی افواج کا خوف ہی اس کو مار ڈالے گا،
وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَأَهُ بَعْدَ حِينٍ
"اور تمہیں اس کا حال ایک وقت کے بعد معلوم ہوجائے گا"(ص، 38:88) ۔
اے مسلمانو! اے مسلم افواج!
ٹرمپ نے اپنے زہریلے دانت ظاہر کر دیے ہیں اور وہ یہودیوں اور ان کی قابض ریاستی وجود کی حمایت اور فلسطین کی زمین پر اس کے قبضے کو مستحکم کرنے کا شیطانی منصوبہ بنا رہا ہے۔۔۔اس شر کا لازمی ایسا جواب دیا جانا چاہیے کہ یہودی وجود کی عفریت کا خاتمہ ہوجائے اور ٹرمپ کے دانت کھٹے ہوجائیں ، اور اس طرح پورے کا پورا فلسطین ایک بار پھر اسلامی علاقوں کا حصہ بن جائے۔ ۔۔لہٰذا ٹرمپ کے منصوبے کےخلاف ردعمل موجودہ حکمرانوں کے ذریعے نہیں ہونا چاہیے۔ اسی طرح ٹرمپ کے منصوبے کے متعلق یہ بات قابلِ اطمینان نہیں کہ صرف مغربی کنارا اور غزہ کی پٹی اس کے خلاف مزاحمت کریں ، چاہے یہ مزاحمت کتنی ہی شدید ہو۔ یہ کہنا کہ فلسطین صرف فلسطینوں کا مسئلہ ہے ہرگز درست نہیں ، بلکہ ایسا کہنے کے نتیجے ہی میں فلسطین کے لوگ اسے بچانے میں ناکام رہے۔ مسئلہِ فلسطین تمام عربوں کا مسئلہ ہے اورشرعی طور پر تمام مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔۔۔ اسی طرح اس شیطانی منصوبے کے خلاف ردعمل صرف نعرے بازی کی شکل میں نہیں ہونا چاہئے، خواہ یہ نعرے کتنے ہی زوردارہوں بلکہ دشمن کو جہاد کے راستے میں مسلم افواج کے بڑھتے قدموں کی ایسی دھمک سنائی دینی چاہیے جس سے زمین لرز رہی ہو۔۔۔پس ایسے تمام ردعمل (یعنی زبانی بیان بازی اور نعرے بازی) یہودی وجود کا خاتمہ نہیں کرسکیں گے کیونکہ ان سے یہودی وجود کی جڑ نہیں کٹے گی، بلکہ ریاستوں کی جانب سے ایسا ردعمل آنا چاہیے کہ وہ فلسطین کی سرزمین پر قائم یہودی وجود کے خاتمے کے لیے افواج کو حرکت میں لائیں کیونکہ یہود نے مسلم ممالک کے حکمرانوں کی غداری کے بل بوتے پر فلسطین پر قبضہ کیا تھا اور پھر اپنے لیے ریاست قائم کی تھی۔ لہٰذا اس ناجائز وجود کا خاتمہ اسی وقت ہو گا جب ایک ریاست اسے شکست دینے کے لیے فوج کو حرکت میں لائے اور اس کے وجود کو اکھاڑ پھینکے۔۔۔ توجوابی ردعمل درج ذیل میں بیان کیے گئے دو میں سے کوئی ایک عمل ہوسکتا ہے یا دونوں ہو سکتے ہیں:
پہلا: خلافت کے قیام کے ذریعے اسلامی طرز زندگی کی بحالی کے لیے سنجیدہ اور بھر پور جدوجہد کی جائے جو یہود سے لڑنے اور ان کے غاصبانہ قبضے کو ختم کرنے کے لیے مسلمانوں کی فوج کو حرکت میں لائے گی اور پورے کے پورے فلسطین کودوبارا اسلامی علاقوں کا حصہ بنائے گی۔
دوسرا: جہاں تک دوسرے عمل کا تعلق ہے تو یہ موجودہ دور سے متعلق ہے جب خلافت موجود نہیں ہے۔ کفار کے ساتھ لڑائی رک نہیں جاتی چاہے خلافت موجود ہو یا نہ ہو، خصوصاً ان کفار کے ساتھ جنہوں نے ہمارے علاقوں پر قبضہ کیا ہو۔ علاوہ ازیں کفار کے خلاف لڑنا فرض رہتا ہے چاہے مسلمانوں کا حکمران ایک خلیفہ ہو یا پھر ایسا حکمران جواسلام کی بنیاد پر حکمرانی نہ کرتا ہو۔ لہٰذا مسلم افواج کا فرض ہے کہ وہ یہود سے لڑنے کے لیے حرکت میں آئیں ، ان کے ڈھانچے کا خاتمہ کریں اور فلسطین کی اسلامی سرزمین کی حیثیت کو بحال کریں۔ اگر مسلم دنیا کا کوئی حکمران فوجوں کو حرکت میں لانے سے متفق ہو تو اُس کا ایسا کرنا ایک صحیح عمل ہوگا۔ اور اگر وہ فوجو ں کو حرکت میں آنے سے روکے، تو پھر افواج میں سے کسی صلاح الدین کو اٹھنا چاہیے جو ایسے حکمران کو اپنے قدموں تلے روند ڈالے،بابرکت سرزمین کو یہود کی نجاست سے پاک کرنے کے لیے فوج کو حرکت میں لائے جس طرح ماضی کے صلاح الدین نے فلسطین کی سرزمین کو صلیبیوں کی نجاست سے پاک کیا تھا۔
ٹرمپ کوجواب دینا لازم ہے ۔ جو کوئی بھی ٹرمپ کے منصوبے پر غصے کے عالم میں ہے، یا یہودی وجود کی مخالفت کرتا ہے اور اس وجود کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے اور فلسطین کو باقی اسلامی علاقوں کا حصہ بنانا چاہتا ہے ، تو اُسے چاہئے کہ وہ اس راستے پر مضبوطی سےکاربند ہو جائے ۔ پوری سنجیدگی، سچائی ، اخلاص اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے جو سب سے طاقتور اور عظیم ہے،
لِمِثْلِ هَذَا فَلْيَعْمَلِ الْعَامِلُونَ
"ایسی ہی کامیابی کے لئے عمل کرنے والوں کو عمل کرنے چاہئیں"(الصافات، 37:61) ۔
حزب التحریر نے آپ پر واضح کردیا ہے کہ کس طرح اللہ کےاذن سے آپ کو ٹرمپ کے نامراد منصوبے کا جواب دینا چاہیے۔ لہٰذا حزب مسلمانوں اور مسلم افواج سے مطالبہ کرتی ہے:
جہاں تک عام مسلمانوں کا تعلق ہے، تو ہم آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جو کچھ ہم نے اوپر آپ سے بیان کیا ہے اسے سنجیدگی سے قبول کریں، پوری سنجیدگی، اخلاص اور سچائی کے ساتھ ہمارے ہمراہ جدوجہد کریں تا کہ خلافت کے متعلق اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جو وعدہ کیا ہے اسے حاصل کرسکیں،
وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ
"جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ انہیں زمین میں خلافت عطا ء کرے گا"(النور، 24:55) ،
اورتاکہ آپ رسول اللہﷺ کی بشارت کو پورا کرسکیں کہ ظلم کی حکمرانی کے بعد ایک بار پھر خلافتِ راشدہ قائم ہوگی جیسا کہ احمد نے اپنی مسند میں حذیفہؓ سے حدیث روایت کی کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا،
ثُمَّ تَكُونُ مُلْكاً جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ
"اور پھر جبر کی حکمرانی ہو گی اور اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ اور پھر جب اللہ چاہے گا اسے ختم کردے گا۔ پھر نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت ہو گی"۔
جہاں تک مسلم افواج کا تعلق ہے، تو ہم آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ اوپر بیان کردہ بات کو اپنی عسکری قوت کا ہدف بنا لیں ۔ ہم آپ سے نُصرۃ کامطالبہ کرتے ہیں تا کہ مسلم علاقوں پر کھڑی کی ہوئی حکومتوں کو ہٹا کر نبوت کے نقشِ قدم پر خلافتِ راشدہ قائم کی جائے ، مسلمانوں کی طاقت اور شان و شوکت کو بحال کیا جائے اور ان کے علاقوں کی حفاظت کی جائے۔ ۔۔تو آپ انصار کے طرزِ عمل کی پیروی کریں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مددونصرت کی، اور ایسی مدد کی کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی آیات میں ان کی تعریف کی اور فرشتے ان کے سردار، سعد بن معاذؓ، کے جنازے میں شریک ہوئے جن سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ راضی ہوئے اور ان کی موت اللہ کی رضامندی کے عالم میں ہوئی۔۔۔ ترمذی نے انس بن مالک ؓ سے حدیث روایت کی کہ رسول اللہﷺ نے سعد بن معاذؓ کے جنازے کے متعلق فرمایا،
إِنَّالْمَلَائِكَةَ كَانَتْ تَحْمِلُهُ
"بے شک فرشتوں نے ان کے جنازے کو اٹھا رکھاہے "۔
مبارک باد کے مستحق ہیں انصار اور وہ سب جو انصار کی پیروی کریں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان سے راضی ہواور انہیں راضی کرد ے۔
هَذَا بَلَاغٌ لِلنَّاسِ وَلِيُنْذَرُوا بِهِ وَلِيَعْلَمُوا أَنَّمَا هُوَ إِلَهٌ وَاحِدٌ وَلِيَذَّكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ
"یہ قرآن لوگوں کے نام (اللہ کا پیغام) ہے تاکہ انہیں اس سے ڈرایا جائے اور تاکہ وہ جان لیں کہ وہی اکیلا معبود ہے اور تاکہ اہل عقل نصیحت پکڑیں"(ابراہیم، 14:52)
ہجری تاریخ :4 من جمادى الثانية 1441هـ
عیسوی تاریخ : بدھ, 29 جنوری 2020م
حزب التحرير