المكتب الإعــلامي
ولایہ ترکی
ہجری تاریخ | 1 من ربيع الاول 1440هـ | شمارہ نمبر: TR 1440 / 04 |
عیسوی تاریخ | جمعرات, 29 نومبر 2018 م |
- پریس ریلیز
- سول قانون اور پالیسیاں ہی خاندان کی تقسیم کے لیے خطرہ ہیں
"عورتوں پر جبر کے خلاف بین الاقوامی دن" کے حوالے سے منعقد کیے جانے والے پروگرام میں ترک صدر اردوان نے ایک نئے منصوبے کا اعلان کیا جو اگلے سال سے عمل میں لایا جائے گا اور کہا کہ، "عورتوں پر تشدد کرنے والوں کو سزا دینی چاہیے"۔ محکمہ انصاف کے وزیر، عبد الحمید گل نے بھی اس پروگرام میں شرکت کی اور بتایا کہ ترکی نے عورتوں پر ہر قسم کی ناانصافی کے خاتمے کے حوالے سے اقوام متحدہ کی مہم میں حصہ لیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ "اس سلسلے میں بہت سے ضروری قوانین بنائے گئے ہیں۔ خاندان کے تحفظ اور عورتوں کے خلاف مظالم کو روکنے کے لیے 2012 میں 'خاندانی تحفظ کے قانون نمبر 4320' کے بجائے قانون نمبر 6284 منظور کیا گیا۔ اس قانون کے مطابق تشدد کی شکار عورتوں کے لئے کچھ اقدامات کیے جائیں گے جیسا کہ عورتوں کے بیانات کو بغیر کسی کاغذی ثبوت یا گواہ کے قبول کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ اس حوالے سے ہمارے ملک کے قوانین میں دوسرے ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ردوبدل بھی کیا گیا ہے۔ اس پروگرام میں وزیر برائے خاندان، مزدور اور معاشرتی امور، زھرہ زمرد سلجق نے ٹیلی فونک رابطے کے ذریعے شرکت کی اور کہا، " عورتوں پر مظالم کے خلاف ہم عدم برداشت کے اصول پر چلتے ہوئے اپنی جنگ جاری رکھیں گے۔"
ترکی عورتوں کے حوالے سے بین الاقوامی مہم میں ایک مؤثر کردار ادا کرتا ہے، اس نے عورتوں پر ہر قسم کی ناانصافی کے خلاف اقوام متحدہ کے معاہدے:خواتین کے خلاف تمام اقسام کے امتیازات کے خاتمےکاکنونشن CEDAW کو قبول کیا اور اقوام متحدہ کے بیجنگ ڈکلیریشن میں طے پانے والے فیصلوں میں کردار ادا کیا۔ ترکی پہلا ملک ہے جس نے 2011 میں عورتوں پر ظلم کے روک تھام کے لئےکونسل آف یورپ کینوینشن پر دستخط کیے۔ اس کے علاوہ خواتین کے خلاف تشدد کے انسداد کی پالیسی ریاست میں 1995 سے نافذ چلی آرہی ہے ۔لیکن ان سب اقدامات کے باوجود عورتوں پر تشدد کے واقعات کم نہیں ہوئے بلکہ ترکی میں عورتوں پر تشدد کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ وزارتِ انصاف کی معلومات کے مطابق 2003 سے لے کر 2014 تک عورتوں پر ظلم کے واقعات میں 1400 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ترکی کے اعدادوشمار کے ادارے (TURKSTAT) کے مطابق ہر دس میں سے چار خواتین خاندان میں تشدد کا نشانہ بنتی ہیں جبکہ بیس ہزار سے زائد خواتین ہر سال پناہ گاہوں کا مطالبہ کرتی ہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ یہ تمام منصوبے خاندان کو ٹوٹنے سے بچانے اور خواتین کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان مسائل کا حل مغربی افکار میں تلاش کیا جارہا ہے۔ درحقیقت چھوٹے سے چھوٹے مسئلے پر مردوں کو گھروں سے نکال دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ یہ مسئلے کو بڑھاتا ہے۔ ہزاروں خاندانوں کو، جو فریقین کے مابین شادی کے معاہدے کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں اور جن میں اب بچے بھی ہیں، اس بنیاد پر توڑ دیا جاتا ہے کہ بیوی کی عمر اٹھارہ سال نہیں ہوتی۔ ان شادیوں کی وجہ سے شوہر عصمت دری کرنے والا کہلایا جاتا ہے اور ان کو قید کرکے خاندان سے دور کردیا جاتا ہے۔ جہاں تک حکومت کی بات ہے تو اس نے کوئی واضح تسلی بخش قدم نہیں اٹھایا ہے۔
ناصرف یہ کہ سول قانون اور پالیسیاں اسلام سے متصادم ہیں بلکہ یہ تمام حل خاندان کے تحفظ اور خواتین پر تشدد کے بچاؤ کے حوالے سے ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ عورتوں کو بھی مردوں کے ساتھ معاشی بھاگ دوڑ میں شامل کرکے ان پر مزید ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالا جارہا ہے جوکہ ان کی فطری طرزِ زندگی کے خلاف ہے۔ پھر ان کو سرمایہ دارانہ اصولوں کے مطابق میڈیا پر لاکر ان کا معاشرتی استحصال کیا جارہا ہے تاکہ ان کے صحیح کردار کی قدر، جیسا کہ بچوں کی پرورش کرنا وغیرہ کو، ختم کردیا جائے۔ لہٰذا عورت ذات کو اب گلیوں اور بازاروں میں کھڑا کرکے یہ کہنے پر زور دیا جارہا ہے کہ وہ اب آزاد ہے اور اسے کسی کی ضرورت نہیں۔
مغربی کفر نظام اور اس سے نکلنے والے افکار عورت کو معاشرے میں مقام اور مرتبہ نہیں دیتے ہیں بلکہ اس نظام اور اس سے نکلنے والے افکار نے ان کرپٹ ممالک میں خاندان،خواتین اور بچوں کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ اسلام ہی وہ واحد نظام اور ضابطہ حیات ہے جو خاندانی زندگی کو صحیح طور پر منظم کرتا ہے، میاں بیوی کے درمیان پیدا ہونے والے مسائل کو حکمت اور انصاف کے ساتھ حل کرتا ہے اور خاندان اور خواتین کو ایک ایسے قلعے میں تبدیل کردیتا ہے جس کی لازمی حفاظت کی جانی چاہیے ۔
ولایہ ترکی میں حزب التحریر کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير ولایہ ترکی |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: www.turkiyevilayeti.com |
E-Mail: bilgi@turkiyevilayeti.org |