الثلاثاء، 20 محرّم 1447| 2025/07/15
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

المكتب الإعــلامي
ولایہ افغانستان

ہجری تاریخ    10 من محرم 1447هـ شمارہ نمبر: Afg. 1447 / 01
عیسوی تاریخ     ہفتہ, 05 جولائی 2025 م

 

پریس ریلیز

 

روس کا افغان حکومت کو تسلیم کرنا:

 

خطے میں اسلامی نظام کے ظہور کو روکنے کیلئے مزید ایک قدم

 

بروز جمعرات، روس نے باضابطہ طور پر اعلان کیا کہ اس نے نئے افغان سفیر کی سرکاری حیثیت قبول کر لی ہے، یوں اس طرح سے روس طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والی پہلی ریاست بن گئی ہے۔ حزب التحریر ولایہ افغانستان کا میڈیا آفس کا موقف یہ ہے کہ افغانستان کو تسلیم کر لینے کا یہ اقدام ایک وسیع تر منصوبے کا حصہ ہے جس کے ذریعے موجودہ حکومت کو بتدریج اس سیکولر عالمی قومی ریاستوں کے نظام میں ضم کر دیا جائے گا۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قومی ریاستوں پر مبنی یہ نظام اس حکومت کو بھی اسلام کے اہم مقصد یعنی اللہ کے دین کو قائم کرنے اور اسے پھیلانے سے دور کر دے گا۔ مزید برآں، تسلیم کر لینے کا ایسا اقدام افغانستان کو علاقائی اور عالمی طاقتوں کے درمیان ایک نئے محاذِ جنگ میں بھی تبدیل کر سکتا ہے۔

 

افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد سے روس نے نئی حکومت کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ یہ سیاسی تبدیلی روس کے قومی سلامتی کے خدشات اور وسطی ایشیا میں اس کے اسٹریٹجک مفادات سے جڑی ہوئی ہے۔ ماسکو کو سیاسی اسلام کے ابھرنے، خلافت کے دوبارہ قیام، اور امتِ مسلمہ کے اتحاد سے شدید خوف ہے۔ روس موجودہ افغان حکومت سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ وسطی ایشیا میں مجاہدین کو کچل دے گی۔ اسی لئے 4 جولائی 2024ء کو صدر ولادیمیر پیوٹن نے کھل کر اعلانیہ انداز میں کہا: "طالبان بلاشبہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے اتحادی ہیں"۔ ایسا بیان واضح طور پر اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ روس، افغان حکومت کو محض ایک آلۂ کار اور اپنے مفادات کے لئے ایک کارندے کے طور پر دیکھتا ہے۔

 

آج کے دور میں کسی ریاست کا "تسلیم کر لیا جانا" ایک جدید سیاسی حربہ بن چکا ہے، جسے طاقتور ریاستیں اپنے قومی مفادات کے حصول کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ افغان ریاست کا تسلیم کیا جانا محض ایک سیاسی رعایت ہے اور روس نے یہ سیاسی رعایت صرف اپنے اسٹریٹجک مفادات کی بنیاد پر دی ہے، اور وہ توقع رکھتا ہے کہ افغان حکومت اس رعایت کو برقرار رکھنے کے لئے صرف مادی مفادات کو ترجیح دے گی، اور دیگر تمام معیارات، بشمول اسلامی اقدار اور اصولوں کو ترک کر دے گی۔ جیسا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نئی شامی حکومت سے بھی ایسی ہی توقعات ظاہر کی ہیں۔ غیر اسلامی ریاستوں کے مابین یہ مشترکہ تشویش یعنی سیاسی اسلام کا راستہ روکنا اور خطے میں اسلامی نظام کے قیام کو روکنا، ان کی ایک مشترکہ حکمت عملی کو ظاہر کرتا ہے۔

 

نیز یہ کہ، دشمن ریاستوں جیسے کہ روس سے ایسی سیاسی حمایت حاصل کرنے کی خواہش اسلامی عقیدے کی بنیاد پر قطعاً نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ایسی ذہنیت سے جنم لیتی ہے جو مصلحت پسندی اور مفاد پر مبنی نکتۂ نظر سے تشکیل پاتی ہے۔ اسی طرح امان اللہ خان نے بھی سوویت یونین سے سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لئے ولادیمیر لینن کو ایک سرکاری اعلامیہ بھجوایا تھا، اور سوویت یونین ہی وہ پہلا ملک بنا جس نے اس کی حکومت کو تسلیم کیا تھا۔ لیکن تاریخی طور پر بھی اور آج بھی، ولادیمیر پیوٹن کی حکمرانی تلے یہی روس، اسلام اور مسلمانوں کا ایک شدید ترین دشمن رہا ہے، اور اسلامی امت کے اتحاد کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ روس کے وہ جرائم جو اس نے مسلمانوں کے خلاف روس، وسطی ایشیا، قفقاز، شام، افغانستان اور دیگر خطوں میں کئے ہیں، وہ ناقابلِ تردید ہیں۔

 

بلاشبہ، کافر ریاستوں کے ساتھ سفارتی، سیاسی اور اقتصادی تعلقات قائم کرنے کی اسلام اجازت دیتا ہے، اور ان کی تاریخی مثالیں بھی موجود ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے دور سے لے کر خلفائے راشدینؓ اور ان کے بعد بھی، مسلمانوں کے خارجہ تعلقات ہمیشہ اسلامی عقیدہ اور الولاء والبراء کے اصول کے تحت استوار ہوتے تھے۔ خلافت کی خارجہ پالیسی کا اصل مقصد دعوت اور جہاد کے ذریعے اسلام کو پھیلانا اور اسلامی نظامِ حکومت کا دائرہ وسیع کرنا تھا۔ اس کی ایک روشن مثال نبی کریم ﷺ کی طرف سے اس دور کے مختلف بادشاہوں کے دربار میں اپنے قاصد بھیجنا تھا۔

 

اسلام میں سفارت کاری معین اصولوں پر مبنی ہوتی ہے، جیسے کہ اظہارِ دین، الولاء والبراء اور علاقوں میں دارالاسلام یا دارالکفر کے اعتبار سے تقسیم کرنا۔ جبکہ قومی ریاستوں کے سیکولر نظام میں ان تصورات کی کوئی جگہ نہیں؛ بلکہ درحقیقت اکثر انہیں ایک خطرہ کے طور پر تصور کیا جاتا ہے۔ موجودہ حکومت صرف اسی صورت میں اسلامی خارجہ پالیسی اور سفارت کاری اپنا سکتی ہے جب اس کا ہدف ایک ایسا سیاسی نظام قائم کرنا ہو جو اسلام کی بنیاد پر استوار ہو، نہ کہ کوئی ایسا نظام جو سیکولر نظام میں ضم ہو چکا ہو۔ اور ایسا ہونا صرف دوسری خلافتِ راشدہ کے قیام سے ہی ممکن ہے۔ بصورتِ دیگر، موجودہ ریاست آہستہ آہستہ گمراہی کی طرف مائل ہو جائے گی، جو کہ سیاسی حقیقت پسندی اور سیکولر عالمی نظام میں الجھنے کا نتیجہ ہوگا۔

 

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہی وہ سیاسی گمراہی ہے جس پر دوسرے مسلم ممالک کے حکمران پہلے بھی چلتے رہے ہیں اور آج بھی اسی راہ پر چل رہے ہیں، جس کا خمیازہ یہ نکلا ہے کہ ان کے ہاتھ عالمی نظام کے قوانین کی زنجیروں سے جکڑ دیئے گئے ہیں۔

 

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 

﴿الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاء مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ العِزَّةَ لِلّهِ جَمِيعاً

"جو لوگ مؤمنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں، کیا وہ ان کے پاس عزت تلاش کرتے ہیں؟ بے شک عزت تو ساری کی ساری اللہ تعالیٰ کے لئے ہی ہے" [سورۃ النساء؛ 4:139]

 

 

ولایہ افغانستان  میں حزب التحریر کا  میڈیا آفس

 

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
ولایہ افغانستان
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
تلفون: 
www.ht-afghanistan.org
E-Mail: info@ht-afghanistan.org

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک