الأحد، 15 محرّم 1446| 2024/07/21
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سابقہ سیاسی قیدیوں کو دوبارہ کیوں گرفتار کیا جا رہا ہے؟!

(ترجمہ)

 

آج تاشقند میں 23 شہریوں پر مقدمہ چل رہا ہے اور ان میں سے ہر ایک نوجوان کو جابر کریموف کے دور میں قید کیا گیا تھا اور وہ کریموف کی موت تک قید میں رہے۔ ان نوجوانوں کو 1999-2000 میں اسلامی سیاسی جماعت حزب التحریر میں شمولیت کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔ انہیں قید کے دوران کئی بار نئی سزائیں سنائی گئیں، جہاں انہوں نے بیس سال سے زائد تک نہایت کٹھن حالات کا سامنا کیا۔ 1999ء میں بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کے نتیجے میں، اس عرصے کے دوران ازبکستان کے مختلف علاقوں سے کئی ہزار مرد اور خواتین حاملینِ دعوت کو گرفتار کیا گیا۔ ان تاریک سالوں کے دوران، تشدد کے نتیجے میں واقع ہونے والی اموات، جیلوں میں "شدید ترین جسمانی و ذہنی تشدد"، اور انتہائی ظالمانہ اور غیر انسانی حالات کی وجہ سے، ہمارے سینکڑوں بھائیوں کی لاشیں ان کے خاندانوں کو واپس بھیجی گئیں۔ مرحومین کے زخموں سے بھرپور بدن، کال کوٹھریوں میں دیے گئے وحشیانہ تشدد کی خاموش داستان بیان کرتے ہیں۔ ہمارے بھائیوں کے بدن جن پر کھولتا ہوا پانی ڈالا گیا تھا، ان کے ناخن اکھیڑے گئے، ان کے سینے چیر دیے گئے اور تشدد کی وجہ سے ان کی سیاہ پڑ جانے والی لاشوں کو ان کے گھر چھوڑ دیا گیا تھا، جسے دیکھ کر ان کے والدین اور جوانوں کے خاندان والوں کے کلیجے صدمے سے پھٹ گئے…

 

جابر ظالم کریموف کی بہیمانہ موت کے بعد اقتدار میں آنے والے مرزیوف نے جب حزب التحریر کے نوجوانوں کو رہا کرنا شروع کیا جو اپنی سزا کی مدت ختم ہونے کی وجہ سے جیلوں میں بند تھے تو ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ان مظلوم لوگوں کے گھروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہو۔ تاہم، یہ خوشی زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی کیونکہ مرزیوف نے روس جیسے استعماری طاقتوں کی ہدایات اور اپنے اردگرد کے کچھ ایجنٹ گروہوں کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے جبر کی وہ مشین دوبارہ شروع کر دی جو اس کے استاد کریموف کے ذریعے چلائی جا رہی تھی۔ حراستی مراکز میں مزید تفتیش، پھانسی، ظلم و ستم اور دوبارہ گرفتاریاں بڑے پیمانے پر شروع ہو گئیں۔ دوران تفتیش ان پر شدید دباؤ ڈالا گیا اور مذکورہ بالا ہمارے کچھ بھائیوں کو ان کی بیویوں کو پکڑ کر لانے اور ان کا ریپ کر دینے اور ان کے بچوں کو گرفتار کر لینے کی دھمکیاں دے کر پہلے سے تیارشدہ اقرارناموں پر دستخط کرنے کے لئے مجبور کیا گیا۔

 

تاشقند میں اس وقت جن 23 نوجوانوں پر مقدمہ چل رہا ہے وہ سبھی بیس سال سے زائد عرصے سے جیل میں ہیں اور طویل عرصے سے اپنے اہل خانہ کے پاس واپس نہیں آئے ہیں۔ یہ ہمارے دور کے وہ بہادر لوگ ہیں جو ہمارے دین کی مکمل پیروی کرنا چاہتے تھے، وہ ظلم کے سامنے خاموش ہو کر نہیں کھڑے رہے، اور پھر ان پر ان کے نظریات اور عقائد کی وجہ سے الزامات لگا دئیے گئے، اور وہ کال کوٹھڑیوں میں بند تقریباً ایک چوتھائی صدی سے غیر انسانی اذیت جھیل رہے ہیں۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ ان نوجوانوں کا کسی قسم کی دہشت گردی سے کوئی واسطہ تعلق نہیں ہے۔ اب ان کے خلاف لگائے گئے الزامات 1999ء میں لگائے گئے الزامات سے مختلف نہیں ہیں۔ ان میں سے کسی ایک بھی نوجوان کا نیشنل پینل کوڈ کی تعزیرات 159 اور 244 میں درج جرائم سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، انہوں نے نہ تو آئینی اداروں کی سرگرمیوں میں کوئی رکاوٹ ڈالی اور نہ ہی انہوں نے آئینی نظام کو طاقت کے ذریعے سے ختم کرنے کی کوشش کی۔ وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ ازبکستان کے لوگوں سمیت دنیا کے تمام لوگ، صرف اسی صورت میں خوشحالی اور ترقی حاصل کر سکتے ہیں جب وہ اس نظام کے مطابق زندگی گزاریں جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے نازل کیا ہے۔ محض ایسی سوچ اور عقیدہ رکھنے کا مطلب تختہ الٹنے کی کوشش کرنا یا آئینی حکم میں مداخلت کرنا نہیں ہے! جہاں تک 16 فروری 1999ء کو تاشقند میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائی کا تعلق ہے تو یہ ایک بالکل مختلف معاملہ ہے اور ایسی حرکتوں کا سیاسی جماعت حزب التحریر سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ حزب التحریر ایک عالمی سیاسی جماعت ہے اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے اس کا طریقہ کار صرف فکری اور سیاسی جدوجہد کرنا ہے۔

 

اور اب اگر ہم ازبک حکومت کی طرف سے ان نوجوانوں کے خلاف لگائے گئے الزامات کی طرف واپس جائیں تو ان میں سے کوئی بھی الزام تفتیش میں ثابت نہیں ہو سکا۔ اور ’’آئینی نظام کو اکھاڑ پھینکنے‘‘ کا الزام صرف ایک بہتان تھا، جو کہ سابقہ ​​حکومت کے دور میں بھی لگایا گیا تھا۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے یہی کافی ہو گا کہ حزب التحریر کے نظریاتی پروگراموں اور فکری و سیاسی کتابوں پر ہی نظر ڈال لی جائے اور اس کے ساتھ ساتھ دورانِ تفتیش ان شباب کے بیانات پر نظر ڈالنا ہی کافی ہو گا۔ لیکن بدقسمتی سے حکومت نے ایک چوتھائی صدی سے ایسی غیر جانبدارانہ تحقیقات نہیں کیں اور یہی لگتا ہے کہ نہ ہی وہ آئندہ ایسا کریں گے۔ لہٰذا اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ماضی کے جاہل حکمرانوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے موجودہ ادارے ان لوگوں سے نبرد آزما ہیں جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ اسلامی نظام کے تحت رہنا ضروری ہے۔ آج بے حیائی کا چوپٹ کھلا دروازہ مسلم ممالک میں وبا کی طرح پھیل رہا ہے، اور یہ حقیقت ہر ذی شعور انسان پر واضح ظاہر ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے دین کے دئیے گئے نیک اور اعمال صالحہ کے خلاف لڑنے کی مختلف صورتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہم پر مسلط حکمران حکومت انہی بے حیائیوں کی طرفدار ہے۔

 

اپنے نظریات پر ثابت قدم رہنے والے نوجوانوں کی سزا ختم ہو جانے کے بعد جیلوں سے ان کو رہائی ملنے، اور پھر سالوں بعد انہی افکار اور نظریات کی وجہ سے انہیں دوبارہ جیلوں میں ڈال دینے سے آخر صدر کا کیا مطلب ہے؟! یہ نوجوان ہمارے لوگوں اور علاقوں کے لیے خیر کے داعی ہیں اور ہرگز کسی صورت بھی تخریب کار نہیں ہیں۔ یہ بات واضح رہے کہ ازبک حکومت کے اقدامات کو آج پوری دنیا کے مسلمان دیکھ بھی رہے ہیں اور انہیں زیر بحث لا رہے ہیں …

 

ہم حزب التحریر بحیثیت ایک سیاسی جماعت کے، ازبکستان کی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس طرح کے مظالم دہرانے سے باز رہیں۔ ہم ایک بار پھر ان مظالم کا ارتکاب کرنے سے خبردار کرتے ہیں جو کہ 1999ء میں کریموف حکومت کے دور میں کئے گئے تھے۔ یہ مظالم تاریخ کے صفحات میں حکومت کے خلاف ایک بدنما داغ کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔ ازبکستان کے اہلِ حق کے خلاف ان ظلم کے فیصلوں کو جاری کرنا بند کر دیں! ان قیدیوں کو رہا کریں ! ہمارے ملک کے نیک لوگوں پر حملے کرنا اور تشدد کرنا بند کر دیں! ان نیک اور متقی افراد کو واپس جیل میں نہ ڈالیں جن پر آپ پہلے ہی ان کی زندگیوں کے تئیس سال سے زائد عرصہ تک قید و بند اور تشدد کا عذاب مسلط کر چکے ہیں!

 

 

#ЎЗБЕКИСТОНДАН_ФАРЁД

#PleaFromUzbekistan

صرخة_من_أوزبيكستان#

 

 

ہجری تاریخ :29 من ذي الحجة 1445هـ
عیسوی تاریخ : جمعہ, 05 جولائی 2024م

حزب التحرير
ازبکستان

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک