السبت، 23 شعبان 1446| 2025/02/22
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

﴿هَذَا بَلَاغٌ لِلنَّاسِ وَلِيُنْذَرُوا بِهِ﴾

 

"یہ قرآن لوگوں کے نام (اللہ کا پیغام) ہے تاکہ ان کو اس سے خبردار کیا جائے"

[سورۃ ابراہیم:52]۔

 

(ترجمه)

 

شروع اللہ کے نام سے، جس کے لیے تمام تعریفیں ہیں، اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام ہوں۔

 

ہم اللہ کی حمد و ثنا بجا لاتے ہیں، جس نے اہلِ شام کو ظالمانہ حکمرانی کے خاتمے کی نعمت عطا کی، جو "اللہ اکبر" کی گونجتی تکبیرات کے ساتھ وقوع پذیر ہوا۔ یہ امر ان سب حقائق کے باوجود ہے کہ جب کچھ متعلقہ ریاستوں نے ایک محدود جنگ کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی تاکہ انقلابیوں کے جوش کو کم کیا جا سکے، ان کے دباؤ کو ہلکا کیا جا سکے، اور حکومت کو سیاسی حل کی میز پر بیٹھنے پر مجبور کیا جا سکے۔

 

تاہم، ڈگمگاتی ہوئی حکومت کا اس قدر تیزی سے زوال ان تمام ریاستوں کے لئے حیران کن ثابت ہوا، جس نے انہیں ظلم پر مبنی حکومت کو بچانے کے لئے کوئی موقع تک نہ دیا۔ جس امر کو ایک محدود اور اپنے قابو میں رہنے والا بحران سمجھا جا رہا تھا، وہ ایک زبردست دھماکے میں تبدیل ہو گیا جس کے سامنے حکومت کی افواج محض گیارہ دنوں میں ہی ڈھیر ہو گئیں۔ تمام تعریفیں اور شکر صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لئے ہے، اور فتح صرف اسی کے ہاتھ میں ہے۔ اگرچہ ان ریاستوں کے پاس اپنے منصوبے، چالیں، اور حکمتِ عملیاں تھیں، لیکن اللہ ربّ العزت کے پاس بھی اپنے ہی منصوبے اور تدبیریں تھیں۔

 

ارشادِ باری تعالیٰ ہے،

 

﴿وَمَكَرُوا مَكْراً وَمَكَرْنَا مَكْراً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ﴾

"اور انہوں نے اپنا سا مکر کیا اور ہم نے اپنی خفیہ تدبیر فرمائی اور وہ غافل رہے" [سورۃ النمل: 50]۔

 

ظالمانہ حکومت کے زوال کے بعد، اہلِ شام ایک نہایت اہم موڑ اور عظیم آزمائش سے گزر رہے ہیں۔ انہیں یا تو اس انقلاب کے مقاصد کو مکمل کرنا ہوگا، استعماری طاقتوں کے اثر و رسوخ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہو گا اور اللہ کے دین کو قائم کرنا ہوگا، یا پھر اس حکومت کے حامی ممالک اور ان کے سرغنہ امریکہ کے مطالبات کے سامنے جھکنا ہوگا۔ امریکہ نے اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے، اپنی مکاری کو بے نقاب کر دیا ہے، اور اپنے ارادے واضح کر دیئے ہیں جو کہ ایک ایسی سیکولر ریاست قائم کرنا ہے جو اس کے مفادات کے تابع ہو۔

 

اگر اہلِ شام اس نازک صورتحال میں کامیابی سے نہ نکلے اور وہ اس فریضے کو پورا نہ کر سکے جس کا اللہ نے ان سے مطالبہ کیا ہے، یعنی اللہ کے حکم کو نافذ کرنا اور خلافتِ راشدہ کو قائم کرنا، تو وہ اپنی تیرہ سالہ جدوجہد کو ضائع کر بیٹھیں گے۔ ان کی قربانیاں اور بہایا گیا خون رائیگاں جائے گا، اور وہ خدانخواستہ، ان لوگوں کی طرح ہو سکتے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

﴿وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ أَنْكَاثاً﴾

"اور اس عورت کی طرح نہ ہونا جس نے محنت سے سُوت کاتا، پھر اس کو توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا" [سورۃ النحل: 92]۔

 

قیادت کے لیے ضروری ہے کہ آگے بڑھنے والے افراد کے پاس ایک واضح نظریہ اور متعین منصوبہ ہو، جو اس ریاست کے ڈھانچے، اداروں اور نظام کو مکمل طور پر سمجھتے ہوں جسے وہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ نظریہ عوام تک پوری وضاحت کے ساتھ پہنچایا جانا چاہیے، نہ کہ اسے بیرونی حالات کے حوالے کر دیا جائے یا دشمنوں کی چالوں کا شکار ہونے دیا جائے، جس کے نتیجے میں قیادت محض دفاعی حکمتِ عملی اختیار کرنے پر مجبور ہو جائے اور دشمن کے ایجنڈے کے مطابق فیصلے کرنے لگے۔

 

اسی پس منظر میں، ہم حزب التحریر ولایہ شام میں اس مرحلے کے لئے ضروری منصوبے کا اپنا نظریہ پیش کرتے ہیں۔ ہم اسے اہلِ شام کے تمام لوگوں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں اور کچھ بنیادی اقدامات بیان کرتے ہیں جو ہماری رائے میں شام میں اٹھائے جانے چاہئیں، تاکہ یہ وسیع تر سطح پر مسلم امت کے منصوبے کا حصہ بن سکے:

 

1- سیکولر آئین کا مکمل خاتمہ: سیکولر ریاستی آئین کو مکمل طور پر منسوخ کر دیا جائے، نہ کہ اسے صرف ترمیم یا نظرثانی کے ذریعے برقرار رکھا جائے۔ اس آئین کی جگہ ایک نیا آئین نافذ کیا جائے جس کے تمام قوانین اسلامی عقیدے سے ماخوذ ہوں اور قرآن، سنت، اجماعِ صحابہ اور قیاس پر مبنی ہوں۔ زندگی کے تمام پہلوؤں میں شریعت کے احکام کے نفاذ کا اعلان کیا جائے۔

 

حزب التحریر نے ایک مسودہ آئین تیار کر رکھا ہے جو شریعت کے دلائل پر مبنی ہے اور اللہ کے اذن سے نافذ ہونے کے لیے تیار ہے۔ یہ اسلامی طرز زندگی کی بحالی کے لیے ترتیب دیا گیا ہے اور نبی اکرم ﷺ کے ان الفاظ کی تکمیل کے لئے ہے:

 

«ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ»

"پھر خلافت نبوت کے نقش قدم پر قائم ہوگی"۔

 

اور نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان:

 

«أَلَا إِنَّ عُقْرَ دَارِ الْمُؤْمِنِينَ الشَّامُ»

"خبردار! مؤمنوں کا مضبوط قلعہ شام ہے"۔

 

2- یہ اعلان کیا جائے کہ شام میں ریاست کا نظام خلافت ہوگا، جو اسلامی حکمرانی کے چار بنیادی اصولوں پر مبنی ہو گا:

 

- حاکمیت شریعت کو حاصل ہوگی، نہ کہ عوام کو۔

 

- اقتدار امت کا حق ہوگا۔

 

- ایک خلیفہ کا تقرر تمام مسلمانوں پر فرض ہوگا۔

 

- صرف خلیفہ کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ شریعت کے احکام کو نافذ کرے، آئین مرتب کرے اور تمام قوانین جاری کرے۔

 

3- فوری طور پر ایک مضبوط فوج کا قیام: ملک کے دفاع کے لئے فوراً ایک طاقتور فوج کی تشکیل کا آغاز کیا جائے، جس کی بنیادی قوت مخلص مجاہدین پر مشتمل ہو۔ ملک میں موجود روسی اور امریکی فوجی اڈے بند کیے جائیں اور تمام غیر ملکی افواج کو بے دخل کر دیا جائے۔ دیگر مسلم ممالک کے ساتھ سرحدوں کو کھلا رکھا جائے اور یہودی وجود کے خلاف جہاد کا اعلان کیا جائے، تاکہ تمام مسلمان اس جہاد میں شرکت کر سکیں۔

 

یہ اقدام نبی اکرم ﷺ کی اس بشارت کو پورا کرنے کے لیے ہوگا:

 

«تُقَاتِلُكُمْ يَهُودُ فَتُسَلَّطُونَ عَلَيْهِمْ»

"تم یہودیوں سے قتال کرو گے اور تم ان پر غالب آؤ گے"۔

 

4- ایسا داخلی سکیورٹی نظام تشکیل دیا جائے جو اسلامی ثقافتِ کی حفاظت پر مبنی ہو۔ اس کا مقصد عوام کی جاسوسی کرنا، ظلم کرنا یا ان کی عزت و وقار کو مجروح کرنا نہیں ہوگا بلکہ ملک اور معاشرے کو جاسوسوں، غیر ملکی ایجنٹوں، تخریب کاروں، باغیوں اور مشکوک عناصر سے محفوظ رکھنا ہوگا۔ ریاست کے تمام شہری، چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، امن و تحفظ سے بہرہ مند ہوں گے۔

 

5- کرد مسلمانوں اور عمومی طور پر غیر عرب اقوام سے خطاب کرتے ہوئے وحدت کا پیغام دیا جائے کہ ہم ایک امت ہیں، جسے اسلام نے جوڑا ہے، اور جو نسلی و قومی تفریق سے بالاتر ہے۔ ان عناصر کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے جو علیحدگی پسند جماعتوں کے لئے جواز فراہم کرتے ہیں اور انہیں مغربی ریاستوں سے تعلق ختم کرنے کی دعوت دی جائے۔

 

6- اسلام یہ اصول طے کرتا ہے کہ اسلامی ریاست سے وفاداری شہریت کے لئے ضروری ہے۔ جو بھی اسلامی ریاست میں مستقل سکونت اختیار کرے، چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، اسے شہریت دی جائے گی۔ ریاست شہریوں میں کسی قسم کی تفریق نہیں کرے گی، نہ حکمرانی میں اور نہ ان کے امور کی نگہداشت میں۔ لہٰذا، مغرب کی وضع کردہ "اقلیتوں کے تحفظ" کی اصطلاح اسلام میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ "اقلیتی حقوق" کے مغربی جال میں پھنسنے سے اجتناب کیا جائے، کیونکہ مغرب اس بیانیے کو علیحدگی پسند رجحانات کو ہوا دینے، اکثریت اور اقلیت کے مابین تصادم پیدا کرنے، اور مسلمانوں کے معاملات میں مداخلت کے جواز کے طور پر استعمال کرتا ہے۔

 

7- اسلامی ریاست درج ذیل اصولوں کے مطابق تمام شہریوں پر شریعت نافذ کرے گی، چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم:

 

- تمام اسلامی احکام بغیر کسی استثناء کے مسلمانوں پر لاگو ہوں گے۔

 

- غیر مسلموں کو اپنے عقائد پر عمل کرنے اور عبادات ادا کرنے کی آزادی حاصل ہو گی، بشرطیکہ یہ عوامی نظم و ضبط کے دائرے میں رہ کر ہو۔

 

- مرتدین پر ارتداد کے شرعی احکام نافذ کیے جائیں گے، بشرطیکہ وہ خود مرتد ہوئے ہوں۔ تاہم، اگر وہ ایسے مرتدین کی اولاد ہوں جو غیر مسلم پیدا ہوئے ہوں، تو انہیں ان کے مذہب کے مطابق اہلِ کتاب یا مشرکین کے زمرے میں شمار کیا جائے گا۔

 

- غیر مسلموں کے کھانے پینے اور لباس سے متعلق معاملات کو ان کے مذاہب کے مطابق شریعت کی دی گئی رعایتوں کے تحت رکھا جائے گا۔

 

- غیر مسلموں کے مابین نکاح و طلاق کے معاملات ان کے اپنے مذاہب کے مطابق طے ہوں گے، جبکہ مسلمان اور غیر مسلم کے درمیان ہونے والے معاملات میں اسلامی احکام نافذ کیے جائیں گے۔

 

- دیگر تمام شرعی احکام، بشمول مالیاتی معاملات، تعزیری قوانین، عدالتی شہادت، طرزِ حکومت اور اقتصادی ضوابط، تمام شہریوں پر مساوی طور پر لاگو ہوں گے، چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، معاہد شہری ہوں، عارضی باشندے ہوں یا اسلامی ریاست کے زیرِ سایہ زندگی گزار رہے ہوں۔

 

8- ہر اس فرد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا جس نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا ہو، بشمول سابقہ منہدم شدہ نظام کے ستون، اعلیٰ فوجی قیادت، سکیورٹی اداروں کے افسران، اور اس دور کے نمایاں مجرمین۔ یہ مقدمات عدل و انصاف پر مبنی ہوں گے تاکہ مومنین کے دلوں کو تسکین ملے اور امت کو حقیقی انصاف کا مشاہدہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ ان مجرم عناصر کی سازشوں کو روکنے کے لئے مضبوط اقدامات کیے جائیں گے تاکہ وہ کسی بھی شکل میں ریاستی اداروں، خصوصاً فوج، سکیورٹی، اور دیگر کلیدی حکومتی عہدوں میں دخل اندازی نہ کر سکیں۔

 

9- استعماری طاقتوں خصوصاً امریکہ اور برطانیہ کے خفیہ اداروں یا ان کے تابع علاقائی حکومتوں سے کسی بھی فرد یا گروہ کے رابطے کو سنگین غداری قرار دیا جائے گا۔ ایسے تمام روابط قانونی طور پر جرم تصور کیے جائیں گے اور ان کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے، مداخلت روکنے اور ملک سے ان کی موجودگی مکمل طور پر ختم کرنے کے لئے فی الفور اقدامات کیے جائیں گے۔ استعماری ممالک کو کسی بھی صورت مستقل سفارت خانے قائم کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، کیونکہ یہ سفارت خانے درحقیقت جاسوسی کے مراکز اور ایجنٹوں کی بھرتی کے گڑھ ہوتے ہیں۔ ایسے ممالک سے براہ راست کسی بھی قسم کا رابطہ بغاوت اور اعلیٰ ترین سطح کی غداری سمجھا جائے گا۔

 

10- ریاست فوراً اقوامِ متحدہ سے علیحدگی اختیار کرے گی اور امت پر واضح کیا جائے گا کہ یہ ادارہ محض استعماری طاقتوں کا ایک آلہ ہے، جسے وہ محکوم اقوام کے امور میں مداخلت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ساتھ ہی اس حقیقت کو بھی اجاگر کیا جائے گا کہ نام نہاد "عالمی قانون" درحقیقت عالمی استعماری نظام کو مستحکم کرنے کے لئے تشکیل دیا گیا ہے اور اس کی کوئی شرعی یا اصولی حیثیت نہیں۔ تاہم، حقیقی بین الاقوامی روایات اور اصولوں میں فرق کیا جائے گا اور صرف وہ روایات جو شریعت اور امت کے مفاد کے مطابق ہوں، ان کو اختیار کیا جائے گا۔

 

11- ریاست عوامی وسائل خصوصاً تیل اور دیگر قیمتی ذخائر کی براہِ راست نگرانی کرے گی اور کسی بھی غیر ملکی کمپنی یا سرمایہ کار کو استحصال کے نام پر ان وسائل پر قابض ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ سرمایہ کاری کے لئے اسلامی سرمایہ کاروں کو متوجہ کیا جائے گا تاکہ اقتصادی ترقی میں اسلامی سرمائے کا کردار نمایاں ہو اور ان وسائل کی آمدنی سے معیشت کو مضبوط کیا جا سکے، جس کا فائدہ براہ راست عوام کو پہنچے۔ ریاست کسی بھی صورت بیرونی امداد پر انحصار نہیں کرے گی، کیونکہ استعماری طاقتیں امداد کو امت پر تسلط کا ذریعہ بناتی ہیں۔

 

12- ریاست غذائی خود کفالت کے حصول کے لئے فوری اقدامات کرے گی تاکہ کسی بھی ممکنہ معاشی پابندی یا ناکہ بندی کی صورت میں ریاست کی خودمختاری پر کوئی آنچ نہ آئے۔ زراعت کو ریاستی سرپرستی میں منظم کیا جائے گا تاکہ غذائی ضروریات مقامی سطح پر پوری کی جا سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مقامی صنعتوں کی ترقی کے لئے عملی اقدامات اٹھائے جائیں گے، خاص طور پر عسکری، الیکٹرانک، اور ڈیجیٹل صنعتوں کو فروغ دیا جائے گا۔ ملک سے ہجرت کرنے والی مسلم صلاحیتوں کو واپس لانے کے لئے مراعاتی منصوبے تشکیل دیے جائیں گے تاکہ امت کے قابل دماغ ریاست کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں۔

 

13- ریاست نظامِ تعلیم میں فوری اصلاحات کرے گی تاکہ اسے اسلامی ثقافت پر استوار کیا جا سکے۔ تعلیمی نصاب کو اس انداز میں ترتیب دیا جائے گا کہ وہ ایسے علماء، مفکرین، ڈاکٹرز، انجینئرز، ماہرینِ فن، اور ٹیکنیشنز پیدا کرے جو امت کے احیاء اور ترقی کے عمل میں مؤثر کردار ادا کر سکیں۔ اس کے لئے تمام تعلیمی ادارے، اسکولز، جامعات، اور تحقیقی مراکز کو شریعت کے مطابق منظم کیا جائے گا، تاکہ تعلیم کا مقصد صرف روزگار نہیں بلکہ امت کی تعمیر و ترقی ہو۔

 

14- ریاست کی میڈیا پالیسی اور اداروں کو اسلامی حکمرانی کے اہداف کے تابع کیا جائے گا۔ میڈیا کو اس بات کا پابند بنایا جائے گا کہ وہ ریاست کی اسلامی پالیسیوں، عوام کی خدمت، اور شریعت کے مطابق امورِ سلطنت کی انجام دہی کو اجاگر کرے۔ تمام میڈیا چینلز، اخبارات، اور نشریاتی ادارے امت کے شعور کو بلند کرنے، اسلامی طرزِ فکر کو فروغ دینے، اور استعماری افکار کے خاتمے کے لیے کام کریں گے۔

 

15- عدلیہ اور عدالتوں کو اسلامی اصولوں کی بنیاد پر منظم کریں، انہیں عادی عدالتوں، حسبہ عدالتوں، اور مظالم عدالتوں میں تقسیم کریں، اور تمام فیصلے شریعت سے ماخوذ ہوں۔

 

یہ کچھ اہم اقدامات ہیں جو ہماری نظر میں مغرب اور اس کے اتحادیوں کے تعلقات کو کاٹنے، امت کو ان کے قابو سے آزاد کرنے، اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی شریعت کے نفاذ اور اس کے حکم کی تنفیذ کے لئے ضروری ہیں، اور ان اقدامات کا مقصد خلافت راشدہ کے نقش قدم پر خلافت کا قیام ہے۔ یہ اقدامات کسی بھی مسلم ملک میں موجود نظام کی صحت، سالمیت، اور اس کی حمایت یا مخالفت کے لئے فیصلہ کن معیار کے طور پر کام کرتے ہیں۔

 

آخر میں ہم دوبارہ یہ بات دہراتے ہیں کہ حزب التحریر نے دولة الخلافة (ریاست خلافت) کے لئے ایک مسودہ آئین پیش کیا ہے، جو زندگی کے تمام پہلوؤں کو شامل کرتا ہے اور اس کے آرٹیکلز اسلامی عقیدہ اور شریعت کے دلائل سے ماخوذ ہیں۔ ہم سچے انقلابیوں، خاص طور پر ان لوگوں سے جو طاقت اور اثر و رسوخ رکھتے ہیں، اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس آئین کا جائزہ لیں اور اسے اپنائیں اور حزب التحریر کو اس کی تنفیذ میں نصرہ فراہم کریں تاکہ اسلامی طرزِ زندگی کا دوبارہ احیاء کیا جا سکے، خلافت راشدہ کا قیام عمل میں لایا جا سکے، تمام مسلم ممالک کو استعمار سے نجات دلائی جا سکے، مسجد اقصیٰ اور دیگر مقبوضہ علاقوں کو آزاد کیا جا سکے اور دنیا تک اسلام کا پیغام پہنچایا جا سکے تاکہ اسے کفر، ظلم اور جبر سے بچایا جا سکے۔ بے شک، اللہ ہی مددگار ہے اور ہر چیز پر قادر ہے۔

 

ارشادِ باری تعالیٰ ہے،

 

﴿إِنَّ فِي هَذَا لَبَلَاغاً لِقَوْمٍ عَابِدِينَ﴾

"بیشک اس قرآن میں عبادت کرنے والوں کیلئے کافی سامان ہے" [سورة الأنبیاء:106]۔

 

ہجری تاریخ :9 من رجب 1446هـ
عیسوی تاریخ : جمعرات, 09 جنوری 2025م

حزب التحرير
ولایہ شام

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک